حضرت اویس قرنیؒ

حضرت اویس قرنیؒ کا شمار اہل تصوف کے عظیم مشائخ میں ہوتا ہے۔ آپؒ اگرچہ آنحضورﷺ کی صحبت سے فیض نہ پاسکے لیکن آپؒ کو حضورؐ سے بے پناہ محبت تھی۔ جب ایک غزوہ میں آنحضورﷺ کا ایک دانت شہید ہوا تو آپؒ نے باری باری اپنے سارے دانت آنحضورﷺ کی محبت میں اکھاڑ دیئے کہ پتہ نہیں میرے آقا کا کونسا دانت شہید ہوا ہے۔ آپؒ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے۔ آنحضورﷺ کے دیدار کا شرف حاصل نہ کرسکنے کی دو وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو غلبہ حال تھی جبکہ دوسری وجہ یہ تھی کہ آپؒ کی والدہ ضعیف اور آنکھوںکی روشنی سے محروم تھیں۔ اُن کی خدمت کیلئے آپ کو اپنی والدہ کے پاس حاضر رہنا پڑتا تھا۔
آنحضورﷺ نے ایک دن صحابہؓ سے فرمایا کہ قرن میں اویس نام کا ایک عظیم شخص ہے جو قیامت کے دن مضرؔ و ربیعہؔ کے ریوڑوں کی تعداد کے برابر میری امّت کی شفاعت کرے گا۔ پھر حضورؐ نے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ میرے بعد تم اُسے ملوگے، وہ میانہ قد اور لمبے بالوں والا شخص ہوگا۔ اس کے پہلو پر بمقدار ایک درہم سفید نشان ہوگا اور اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پر بھی برص کی طرح سفید داغ ہوگا۔ جب تم اُسے ملو تو میرا یہ جبّہ اور سلام اُسے پہنچاکر کہنا کہ وہ میری امّت کے حق میں دعا کرے۔
آنحضورﷺ کی وفات کے بعد جب حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اکٹھے مکہ معظمہ تشریف لائے تو حضرت عمرؓ نے ایک خطبہ کے دوران اہل نجد سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ کیا تم میں کوئی قرنؔ سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ چند آدمی آگے آئے تو آپؓ نے اُن سے حضرت اویس قرنیؒ کے بارہ میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اویس نام کا ایک دیوانہ ہے جو نہ آبادی میں آتا ہے اور نہ کسی سے میل جول رکھتا ہے، اس کی خوراک بھی عام لوگوں سے مختلف ہے، اُسے خوشی و غم کا بھی کچھ پتہ نہیں۔ حضرت عمرؓ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صحراء میں ہمارے اونٹوں کے پاس ملے گا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ وہاں سے چلے اور حضرت اویس قرنی کے پاس پہنچ گئے جو نماز پڑھ رہے تھے۔ دونوں نے انتظار کیا تاکہ آپؒ نماز سے فارغ ہوں۔ آپؒ نے نماز سے فراغت کے بعد دونوں حضرات کو سلام کیا اور اپنی ہتھیلی اور پہلو کے نشانات انہیں دکھائے۔ دونوں نے آپؒ سے دعا کی خواہش کی اور آنحضورﷺ کا جبہ مبارک اور سلام پہنچایا۔ دونوں کچھ دیر وہاں موجود رہے اور پھر حضرت اویس قرنیؒ نے فرمایا کہ آپ حضرت نے تکلیف کی ہے، اب آپ واپس تشریف لے جائیں۔ قیامت قریب ہے، وہاں ہمیں وہ ملاقات نصیب ہوگی جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ مَیں اس وقت قیامت کے سفر کا سامان تیار کر رہا ہوں۔ چنانچہ دونوں واپس آگئے۔
اس کے بعد حضرت اویس قرنی کوفہ چلے گئے۔ وہاں ایک بار آپؒ کو حضرت ہرمؓ بن حیان نے دیکھا جو خود بھی ایک بلند پایہ بزرگ تھے۔ وہ جب حضرت اویس قرنیؒ کی خدمت میں پہنچے تو آپؒ دریائے فرات کے کنارے وضو کر رہے تھے۔ حضرت ہرم نے سلام کیا تو آپؒ نے فرمایا: وعلیکم السلام، اے ہرم بن حیان۔ حضرت ہرمؓ نے حیرت سے پوچھا کہ آپؒ نے مجھے کیونکر پہچانا؟۔ آپؒ نے فرمایا کہ میری روح نے تیری روح کو پہچان لیا ہے۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد آپؒ نے حضرت ہرم کو واپس کردیا۔
بعد میں جب حضرت علیؓ کی اپنے مخالفین سے جنگ شروع ہوئی تو حضرت اویسؒ اچانک ظاہر ہوگئے اور جنگ صفین میں حضرت علی ؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔ آپؒ کا مزار دمشق میں ہے۔
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2003ء میں یہ مضمون مکرم افتخار احمد سیام صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں