حضرت حکیم مولوی اللہ بخش خانصاحبؓ

ضلع جالندھر کے ایک صحابی حضرت میاں جھنڈا صاحبؓ ایک دو بار زیرہ ضلع فیروزپور میں مولوی علی محمد صاحب کے پاس مسیح موعود کے ظہور کا مژدہ سنانے آئے لیکن دونوں دفعہ مولوی صاحب کے حکم پر مسجد سے دھکے دے کر نکال دیئے گئے۔ ایک روز وہ اپنے ہمراہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ لائے تو مولوی صاحب نے چند صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی خود کو احمدی شمار کرلیا اور بیعت سے بھی پہلے اپنی مسجد چھوڑ کر ایک غیرآباد مسجد میں آبسے اور ساتھ ہی آپ کے بے شمار شاگرد اور ارادت مند بھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے لئے وہاں آنے لگے۔ انہی شاگردوں میں ایک حضرت حکیم مولوی اللہ بخش خانصاحبؓ بھی تھے جن کا ذکرخیر کرتے ہوئے اُن کے بیٹے محترم ثاقب زیروی صاحب اپنے ایک مضمون (جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍نومبر 2000ء میں شامل اشاعت ہے) میں لکھتے ہیں کہ اباجان نے جب مولوی صاحب سے یہ بات کئی بار کہی کہ ’’آپ کس جماعت کے پیچھے لگ گئے ہیں جسے قدم قدم پر گالیاں ملتی ہیں اور ہر روز منہ سیاہ کئے جاتے ہیں، جبکہ آپ کا اس علاقہ میں بڑا وقار اور علمی دبدبہ ہے…‘‘ تو ایک روز مولوی صاحب نے اباجان کو ڈانٹ دیا اور فرمایا کہ مسجد والے میرے رازق نہیں ہیں، اگر انہوں نے کوئی الزام لگاکر مجھے یہاں سے نکال دیا تو تم دیکھ لو گے میرا خدا مجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
اس کے بعد اباجان نے مولوی صاحب کے ارشاد پر استخارہ کیا اور ایک مبارک خواب دیکھ کر انشراح صدر سے حضرت مولوی صاحب سے تعاون کرنے لگے۔ 1905ء میں دو دیگر احباب کے ساتھ قادیان تشریف لائے اور دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ بیعت کے بعد حضرت مولوی صاحب کا ایک رقعہ بھی خدمت اقدس میں پیش کیا جس کا مطالعہ کرکے حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’مولوی صاحب سے کہیں کہ اب وہ غزنوی باغ کی بجائے احمدی باغ کی بلبل ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں زیرہ میں بہت جلد ایک مضبوط اور مخلص جماعت دے گا‘‘۔ چنانچہ حضورؑ کا یہ ارشاد بڑی شان سے پورا ہوا۔ اور وہاں ایک مخلص اور بااثر جماعت قائم ہوئی اور قصبے کی میونسپلٹی کے تین میں سے دو ممبر اکثر احمدی ہوا کرتے تھے۔
حضرت مولوی صاحب کو لمبی عمر نصیب نہ ہوئی لیکن وہ اپنے شاگرد رشید کے قلب و ذہن میں احمدیت کے ساتھ ایک عشق اور والہیت بھر گئے اور دعوت الی اللہ کی تڑپ اُن کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے زیرہ فیروزپور اور قصور کے درجنوں دیہات میں آپ کے ہاتھوں سے احمدیت کی تخم ریزی کرائی۔ آپ کا انداز، مزاج اور لباس نہایت سادہ تھا۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے مختلف امراض کے لئے ادویہ کا ایک صندوقچہ بھر کر دعوت الی اللہ کے دورہ کے لئے نکل کھڑے ہوتے اور دیہہ بہ دیہہ پھر کر بیماروں کی خدمت کرتے، لوگوں کو قرآن کریم اور اس کا ترجمہ و تفسیر پڑھاتے اور انہیں احمدیت کا پیغام پہنچاتے۔ ہر سال جلسہ پر ایک مختصر جماعت آپ کے ساتھ قادیان جاتی جن میں سے اکثر قبول احمدیت کی سعادت پاکر واپس آتے۔ اپنے گھر میں (بشمول والدہ صاحبہ) سب کو قرآن کریم کا ترجمہ آپؓ نے خود پڑھایا۔ ہم بچوں کو مختلف نظمیں اور قصیدہ یاد کروایا۔
اباجان کے بارہ میں یہ سن کر حیرت ہوتی کہ ایسا عالم دین ، دنیا کے معاملات میں ایسا بے نیاز تھا کہ عام زندگی میں اچھی اور بُری سبزی کی پہچان بھی نہ کرسکتا تھا، دکاندار جتنے پیسے لوٹاتا، لے کر چلے آتے۔ ایک روز آپ کو آپکی روزمرہ زندگی کا حوالہ دے کر میرے چھوٹے بھائی نے پوچھا کہ آپؓ نے امامِ وقت کو کیسے پہچان لیا۔ آپؓ نے فرمایا: بیٹا! وہ چہرہ ہی ایسی کھلی اور پاکیزہ کتاب کی طرح تھا کہ اس پر نگاہ ڈالتے ہی تمام شکوک و شبہات دُور ہوجاتے‘‘۔
آپؓ کی وفات21؍مارچ 1963ء کو لاہور میں ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں