حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍جون 2003ء میں مکرم حمیداللہ ظفر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ سے بہت عرصہ پہلے تعارف ہوا جو بعد میں مضبوط ہوتا رہا۔ آپؒ غرباء کی مدد کیلئے ہر وقت آمادہ و کوشاں رہتے تھے۔ میرے ایک دوست کے والد کی وفات ہوگئی تو گھر میں مالی تنگی بڑھنے لگی۔ اُن کی ہمشیرہ نے سکول ٹیچرس کا کورس کیا ہوا تھا لیکن ملازمت نہیں ملتی تھی۔ مَیں نے یہ حالات آپؒ کی خدمت میں تحریر کئے تو آپؒ اُن دنوں کسر صلیب کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن جا رہے تھے۔ لیکن مجھے خط لکھ کر بھجوادیا جس میں محترم راجہ غالب احمد صاحب (لاہور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار) کے نام بھی میری مدد کرنے کے لئے خط تھا۔ اگلے ہی روز میرے نام ایک منی آرڈر آیا جس میں آپؒ نے کچھ رقم بھجواتے ہوئے لکھا کہ جب تک اس کی بہن کی ملازمت کا انتظام نہیں ہوجاتا، یہ مدد قبول فرماویں۔
اسی طرح بہت سے غرباء کی مدد کا مَیں خود گواہ ہوں۔ میرے گاؤں کے ایک دوست کافی عمر کے تھے، مالی تنگی کی وجہ سے ربوہ آئے لیکن کوئی روزگار نہ مل سکا۔ مَیں نے آپؒ کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ اُس شخص کا بیٹا ہے جو مرغی کے انڈوں پر بھی چندہ دیا کرتا تھا، آج اس کے گھر کئی کئی روز چولہا نہیں جلتا…۔ آپؒ نے کوشش کرکے اُسے مسجد اقصیٰ کے خادم مسجد کے طور پر کام دلوادیا۔
مجھے ذاتی طور پر ایک بار بڑے مالدار شخص سے قرض لینا پڑا لیکن کوشش تھی کہ کسی نیک مومن سے قرض لے کر اُس شخص کو واپس کردوں تاکہ اُس کی باتیں نہ سننی پڑیں۔ جب اجتماع کے موقعہ پر ربوہ آیا تو آپؒ سے ملاقات ہوئی۔خیال آیا کہ کیوں نہ اس پیارے اور محسن کا مقروض بن جاؤں۔ چنانچہ عرض کی کہ مجھے آپ سے ذاتی کام ہے۔ فرمایا: دفتر آجاؤ۔ مَیں نے جاکر عرض کیا کہ مذکورہ بالا وجہ سے اتنی رقم بطور قرض چاہئے۔ آپؒ نے فرمایا کہ مَیں نے کچھ عرصہ قبل بچی کی شادی کی ہے، اتنی رقم میرے پاس نہیں ہے لیکن مَیں انتظام کردیتا ہوں۔ آپ درخواست لکھ دیں اور مدت بھی لکھ دیں کہ کب سہولت سے واپس کرسکیں گے۔ پھر آپؒ نے بطور صدر انصاراللہ رقم کا بندوبست کیا۔ مَیں نے لکھا کہ اگست تک رقم واپس کردوں گا۔ لیکن جب اگست آیا تو میرے پاس رقم نہیں تھی۔ مَیں نے آئندہ سال اپریل تک مہلت دیئے جانے کی درخواست کی جو منظور فرمالی۔ اپریل میں میرے پاس رقم تو تھی لیکن ربوہ لے جانے میں تاخیر ہوتی گئی اور آخر 20؍مئی کو آپؒ کے دفتر میں حاضر ہوا۔ کافی دیر بیٹھا رہا لیکن آپؒ نے ایک بار بھی یاد نہیں دلایا کہ رقم کب دوگے۔ جب مَیں نے کافی دیر بعد خود عرض کیا تو فرمایا کہ شاہ صاحب کو جمع کروادیں۔ مَیں نے رقم جمع کروائی تو رسید پر لکھا تھا کہ حضرت میاں صاحبؒ کے حساب میں وصول پائی۔ میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ جب میں نے مہلت مانگی تھی تو آپؒ کے پاس رقم موجود تھی چنانچہ آپؒ نے انصاراللہ کو ساری رقم ادا کرکے میرا قرض اپنے حساب میں منتقل کروالیا کہ جب میرے پیسے آئیں گے تو آپؒ کو مل جائیں گے۔
ایک روز نماز مغرب پر ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ مَیں نے ایک ولیمہ میں جانا ہے مگر ابھی نصف گھنٹہ ہے، آئیں سیر کرتے ہیں۔ پھر آپؒ نے اپنی سائیکل پکڑی تو مَیں نے کوشش کی کہ سائیکل مَیں پکڑلوں لیکن آپؒ نہ مانے، پھر التجا کی لیکن یہی جواب تھا، پھر زور سے جسارت کی لیکن فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، اپنا سائیکل مَیں خود ہی پکڑوں گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں