حضرت سعدؓ بن معاذ

حضرت سعد بن معاذؓ کی کنیت ابوعمرو تھی اور سیدالاوس لقب تھا۔ آپؓ قبیلہ اوس کے ایک حصہ بنو عبدالاشہل کے رئیس تھے۔ آپؓ کے والد نے ایام جاہلیت میں وفات پائی جبکہ والدہ ایمان لائیں اور حضرت سعدؓ کی وفات کے بعد بھی کافی عرصہ تک زندہ رہیں۔ حضرت سعدؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اکتوبر 1999ء کی زینت ہے۔
بیعت عقبہ اولیٰ کے موقعہ پر جب بارہ افراد اسلام قبول کرکے واپس مدینہ جانے لگے تو اُن کی درخواست پر آنحضرتﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بطور معلم مدینہ بھجوادیا۔ انہوں نے مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہؓ کے مکان پر قیام کیا جو مدینہ کے پہلے مسلمان تھے۔ اُن کی تبلیغ سے جب مدینہ میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا تو سعد بن معاذ کو یہ برا معلوم ہوا لیکن اسعد بن زرارہؓ سے قریبی رشتہ داری کی وجہ سے آپ کو حجاب تھا۔ چنانچہ آپ نے ایک دوسرے رشتہ دار اُسَید سے کہا کہ وہ جاکر مصعبؓ کو روکیں اور اسعدؓ کو بھی سمجھائیں۔ چنانچہ اُسَید گئے اور مصعبؓ کو غصہ میں دھمکی دی۔ اسعدؓ نے مصعبؓ سے کہا کہ یہ اپنے قبیلہ کے رئیس ہیں، ان سے نرمی اور محبت سے بات کرنا۔ چنانچہ مصعبؓ نے اُسَید کو ادب اور محبت کے ساتھ بیٹھنے کو کہا اور پھر انہیں قرآن کریم سنایا اور اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا تو اُسَید نے اسلام قبول کرلیا۔ اُسَیدؓ نے کہا کہ میرے پیچھے ایک ایسا شخص ہے کہ جو اگر ایمان لے آیا تو ہمارا سارا قبیلہ مسلمان ہو جائے گا۔ اُسَیدؓ گئے اور کسی بہانہ سے سعدؓ کو ادھر بھجوادیا۔ سعدؓ نے آکر دھمکی والا لہجہ اختیار کیا اور مصعبؓ نے پہلے والا طریق اپنایا۔ چنانچہ سعدؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا اور پھر سعدؓ اور اُسَیدؓ دونوں اپنے قبیلہ کی طرف گئے اور انہیں دعوتِ اسلام دی۔ اسی روز سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت مصعبؓ کو اپنے مکان میں منتقل کرلیا۔
آنحضورﷺ نے مدینہ آکرمہاجرین اور انصار میں رشتہ اخوت قائم کیا تو حضرت سعد بن معاذؓ کو حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کا بھائی بنادیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ عشرہ مبشرہ میں سے تھے اور آپؓ کو آنحضورﷺ نے امین الامّت کا خطاب بھی دیا تھا۔
حضرت سعدؓ ایک بار عمرے کیلئے مکہ گئے تو اپنے پرانے دوست امیّہ بن خلف کے ہاں ٹھہرے۔ پھر تپتی ہوئی ایک دوپہر کے وقت امیّہ کے ہمراہ کعبہ کے طواف کو اس لئے نکلے تاکہ کسی سے سامنا نہ ہو لیکن اتفاقاً ابوجہل وہاں موجود تھا۔ اُس نے آپؓ سے کہا کہ کیا مزے سے طواف کر رہا ہے حالانکہ دین بدلنے والوں کو اس نے اپنے ملک میں جگہ دی اور اُن کی مدد بھی کرتا ہے، اگر یہ ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتا تو آج بچ کر اپنے گھر نہ جاسکتا۔ آپؓ نے جواب دیا کہ اگر تُو مجھے طواف سے روکے گا تو مَیں تیرا رستہ روک دوں گا۔ امیہ نے سعدؓ سے کہا کہ مکہ کے سردار ابوالحکم کے سامنے آہستہ بولو۔ سعدؓ نے کہا: امیہ! ابوجہل کی اتنی طرفداری نہ کر۔ خدا کی قسم! مَیں نے آنحضرتﷺ سے تیری موت کی پیشگوئی سنی ہے۔
غزوہ بدر میں امیہ اور ابوجہل دونوں قتل ہوئے۔ غزوہ شروع ہونے سے قبل جب آنحضورؐ نے صحابہؓ سے مشورہ مانگا تو حضرت سعدؓ نے انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کر آپؐ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اپنا ہاتھ آپؐ کے ہاتھ میں دیدیا ہے تو پھر اب آپؐ جہاں چاہیں چلیں، ہم آپؐ کے ساتھ ہیں اور اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، اگر آپؐ ہمیں سمندر میں کود جانے کیلئے کہیں تو ہم کود جائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپؐ انشاء اللہ ہم کو لڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپؐ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی‘‘۔
میدان بدر میں حضرت سعدؓ کی تجویز پر صحابہ نے میدان کے ایک حصہ میں آنحضورﷺ کے لئے ایک سائبان تیار کردیا اور آپؓ نے آنحضورؐ کی سواری سائبان کے پاس باندھ کر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! آپؐ اس سائبان میں تشریف رکھیں اور ہم اللہ کا نام لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر خدا نے ہمیں فتح دی تو یہی ہماری آرزو ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ الٹ ہوا تو آپؐ اپنی سواری پر سوار ہوکر جس طرح بھی ہو مدینہ پہنچ جائیں، وہاں ہمارے ایسے بھائی موجود ہیں جو محبت و اخلاص میں ہم سے کم نہیں … وہ آپؐ کی حفاظت میں جان تک لڑا دینے سے دریغ نہیں کریں گے‘‘۔
جب فوج کی ترتیب ہوئی تو آنحضورﷺ نے قبیلہ اوس کا جھنڈا آپؓ کے حوالہ کیا۔ جنگ کے دوران جب آنحضرتﷺ دعا کیلئے اپنے سائبان میں جاتے تو آپؓ سائبان کے باہر آنحضورؐ کے پہرہ کے لئے کھڑے رہتے۔
3ہجری میں جب یہودی کعب بن اشرف کے خلاف عہدشکنی، بغاوت، فحش گوئی اور سازش کے الزامات ثابت ہوگئے تو آنحضورﷺ نے قبیلہ اوس کو کعب بن اشرف کو سزا دینے کی ڈیوٹی سونپی اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کو نگران مقرر کرکے فرمایا کہ جو طریق اختیار کریں سعدؓ کے مشورہ سے کریں۔
3ہجری میں جنگ احد کے موقع پر جب آنحضرتﷺ صحابہؓ کے ہمراہ نکلے تو حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادۃ رؤسائے اوس و خزرج ، آپؐ کی سواری کے سامنے آہستہ آہستہ دوڑتے جاتے تھے۔ اس غزوہ میں حضرت سعدؓ کے بھائی عمرو بن معاذؓ شہید ہوگئے۔
5ہجری میں جب حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا گیا تو اس دوران آنحضرتﷺ نے ایک مجلس میں فرمایا: ’’…مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دکھ دیا گیا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس کا سدّباب کرسکے‘‘۔ یہ سن کر حضرت سعدؓ نے عرض کی: ’’یا رسول اللہ!اگر وہ شخص ہمارے قبیلہ میں سے ہے تو مجھے بتائیے مَیں ابھی اس کی گردن اڑانے کا حکم دیتا ہوں‘‘۔
غزوہ خندق کے دوران جب یہودی قبیلہ بنوقریظہ کی خطرناک غداری کا علم ہوا تو حضرت سعدؓ بھی اُن صحابہ ؓ میں شامل تھے جنہیں آنحضورؐ نے تحقیق کے لئے بنوقریظہ کی طرف بھیجا تھا۔ اسی غزوہ کے دوران جب محاصرہ کی وجہ سے انصار کے تنگ حالات کا احساس آنحضورؐ کو ہوا تو آپؐ نے حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادہ رؤسائے انصار سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو قبیلہ غطفان کو مدینہ کے محاصل میں سے کچھ دے کر اس جنگ کو ٹال دیا جاوے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے فرمایا ’’یا رسول اللہ اگر اس معاملہ میں آپ کو وحی ہوئی ہے تو ٹھیک ہے، اگر نہیں تو پھر ہمارا مشورہ یہ ہے کہ جب ہم نے شرک کی حالت میں بھی کبھی کسی دشمن کو کچھ نہیں دیا تو اب مسلمان ہوکر کیوں دیں۔ واللہ ہم انہیں تلوار کی دھار کے سوا کچھ نہیں دیں گے اور جہاد جاری رکھیں گے۔‘‘ اس پر آنحضورؐ نے اطمینان کا اظہار فرمایا۔ جنگ خندق کے دوران حبان نے آپؓ کے ہاتھ پر ایک تیر مارا جس سے رگ میں گہرا زخم آیا اور آنحضورؐ نے آپؓ کو مسجد کے صحن میں ایک خیمہ میں ٹھہرادیا۔
غزوہ خندق کے بعد بنوقریظہ کے خلاف بھی مسلمانوں نے فتح حاصل کی اور انہوں نے حضرت سعدؓ کو اپنا حَکم بنایا۔ آنحضورﷺ نے اُن کی تجویز منظور فرمائی اور آپؓ کو زخمی حالت میں وہاں لایا گیا۔ آپؓ نے یہود کی تعلیم کے مطابق فیصلہ دیا کہ جنگجو مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا جائے اور اُن کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیئے جائیں۔ یہ فیصلہ سن کر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تمہارا فیصلہ ایک خدائی تقدیر ہے۔
غزوہ خندق میں زخمی ہونے کے بعد آپؓ کی نقاہت بڑھتی گئی۔ ایک رات آپؓ نے نہایت گریہ و زاری سے دعا کہ اے مولا! تُو جانتا ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش بھری ہوئی ہے کہ مَیں اس قوم کے مقابل تیرے دین کی حفاظت کے لئے جہاد کروں جس نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور اُسے اُس کے وطن سے نکال دیا۔ خدایا میرے خیال میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن اگر تیرے علم میں کوئی جنگ ابھی باقی ہے تو مجھے اتنی مہلت دے کہ مَیں تیرے رستہ میں جہاد کروں ، لیکن اگر جنگ ختم ہوچکی ہے تو مجھے اب زندگی کی تمنا نہیں ہے، مجھے شہادت کی موت مرنے دے‘‘۔ اُسی رات آپؓ کا زخم کھل گیا اور اس قدر خون بہا کہ خیمہ سے باہر نکل آیا۔ لوگ گھبرا کر خیمہ کے اندر گئے تو سعدؓ کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی ، آخر اسی حالت میں وفات ہوگئی۔
حضرت سعدؓ کی وفات کا آنحضورﷺ کو بہت صدمہ ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ سعدؓ کی والدہ نے بتقاضائے محبت آپؓ کا نوحہ کیا اور سعدؓ کی خوبیاں بیان کیں تو آنحضورﷺ نے فرمایا کہ نوحہ کرنے والیاں بہت جھوٹ بولا کرتی ہیں لیکن سعدؓ کی ماں نے جو خوبیاں سعدؓ میں بیان کی ہیں وہ سب درست ہیں۔
آنحضرتﷺ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی، قبرستان تک ساتھ تشریف لے گئے اور قبر تیار ہونے پر دعا کروائی۔ آنحضورﷺ کے آنسو جاری تھے جن سے آپؐ کی ریش مبارک تر ہورہی تھی۔ میّت بالکل ہلکی ہوگئی تھی۔ آپؐ نے فرمایا: سعد کے جنازہ میں ستر ہزار فرشتے شریک ہیں اور جنازہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ سعدؓ کی موت پر خدائے رحمن کا عرش ہل گیا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں کہ انصار میں تین اشخاص اپنی افضلیت میں جواب نہیں رکھتے تھے یعنی سعد بن معاذؓ، اسید بن الحضیرؓ اور عباد بن بشرؓ۔
حضرت سعدؓ کی وفات کے بعد ایک بار جب آنحضورﷺ کو کسی جگہ سے کچھ ریشمی پارچات ہدیہ میں آئے تو بعض صحابہؓ نے اُن کی نرمی اور ملائمت کا بڑے تعجب سے ذکر کیا۔ اس پر آنحضورؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! جنت میں سعدؓ کی چادریں ان سے بہت زیادہ نرم اور اچھی ہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ اور آپؐ کے دو ساتھیوں (یعنی ابوبکرؓ اور عمرؓ) کے بعد مسلمانوں کو سب سے زیادہ کمی سعد بن معاذؓ کی محسوس ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں