حضرت سیدہ امّ طاہر رضی اللہ عنہا

حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ (حضرت سیدہ امّ طاہر) کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13 و 14؍اپریل 1990ء میں مکرمہ صائمہ مریم صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب موضع کلرسیداں کلاں ضلع راولپنڈی سے تعلق رکھتے تھے اور والدہ حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہؓ تھیں جن کی وفات 1923ء میں پچپن برس کی عمر میں ہوئی۔ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ بمقام رعیہ ضلع سیالکوٹ 1905ء میں پیدا ہوئیں۔ ابھی دو اڑہائی برس کی تھیں کہ آپؓ کا نکاح 30؍اگست 1907ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ فرزند حضرت مسیح موعودؑ سے کردیا گیا جن کی عمر اس وقت آٹھ سال اور چند ماہ تھی۔ صاحبزادہ صاحبؓ بہت نیک اور حلیم الطبع تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ سے خاص محبت اور انس تھا۔ آپؓ جب بیمار ہوئے تو کسی نے خواب دیکھا کہ آپؓ کی شادی ہو رہی ہے۔ یہ خواب سن کر حضورؑ نے فرمایا کہ ایسی خواب کی تعبیر تو موت ہے مگر اسے ظاہری رنگ میں پورا کر دینے سے بعض دفعہ تعبیر ٹل جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کا رشتہ طے پاگیا لیکن چند دن بعد آپؓ کی وفات ہوگئی۔ حضرت مریم بیگمؓ کے بیوہ رہ جانے کے بعد حضرت اقدسؑ نے ایک دفعہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی آئے تو اچھا ہے۔ اگرچہ حضورؑ کی زندگی میں تو ایسا نہ ہوسکا لیکن حضورؑ کی خواہش اور ارشاد کے تحت 7؍فروری 1921ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ساتھ حضرت سیدہ صاحبہ کے نکاح کا اعلان مسجد مبارک قادیان میں ہوا۔
حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کی اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز شامل ہیں۔ آپؓ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میںو قف بھی کیا اور تڑپ کر دعائیں بھی کیں کہ یہ بیٹا عابد و زاہد و خادم دین بنے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں سرشار ہو۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی ایک بار یہ اظہار کیا کہ ’’طاہری، مریم مرحومہ کی دلی آرزوؤں کا بہترین ثمر ہے۔ ان کو اس بات کی تڑپ تھی کہ ان کا یہ اکلوتا بیٹا صحیح معنوں میں دین کا خادم ہو‘‘۔
مالی قربانیاں:- حضرت امّ طاہر کی مالی قربانیاں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ نومبر 1923ء میں آپؓ نے ایک ہزار روپے حق مہر، ایک ہزار روپے نقد اور ایک سو اسّی روپے کے زیور کے چھٹے اور ترکہ کے دسویں حصہ کی وصیت کی جسے مئی 1927ء میں بڑھاکر ایک تہائی کردیا۔ آپؓ تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدین میں شامل تھیں۔ مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لئے آپؓ نے چودہ روپے نقد کے علاوہ طلائی زیور سمیت ڈیڑھ سو روپیہ دیا۔ 1931ء میں مسجد فضل لندن کی تعمیر و مرمت کیلئے جب احمدی مستورات نے دس ہزار روپیہ مزید پیش کیا تو اس میں بھی آپؓ کا چندہ شامل تھا۔ جلسہ سالانہ کے لئے اسّی دیگوں کیلئے چندہ کی تحریک پر آپؓ نے بھی لبیک کہا۔ 1939ء میں جوبلی فنڈ کے لئے حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی خواتین نے دس ہزار روپیہ دیا جس میں آپؓ نے دو سو روپے پیش کئے۔ جنگ عظیم دوم کے آثار پیدا ہونے پر جب حضرت مصلح موعودؓ نے پانچ سو من غلہ کی فراہمی کی تحریک فرمائی تو آپؓ نے پانچ من غلہ پیش کیا۔
جماعتی خدمات:- حضرت سیدہ ہر قسم کی جماعتی خدمات میں پیش پیش رہیں۔ آپؓ جون 1930ء میں نصرت گرلز ہائی سکول کی نگران کمیٹی کی رکن مقرر ہوئیں۔1930ء اور 1931ء کے جلسہ سالانہ پر آپؓ نے بطور منتظمہ خدمات سرانجام دیں۔ 1930ء کے جلسہ سالانہ پر ’’عورتوں کی اصلاح خود اُن کے ہاتھ میں‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ 1933ء میں بحیثیت سیکرٹری لجنہ اور منتظمہ سالانہ رپورٹ پیش کی۔ 1936ء میں حضورؓ کی ہدایت پر محلہ وار کمیٹیاں قائم کرنے کا اہتمام آپؓ نے کیا۔ 1937ء میں سیرۃالنبیؐ کے جلسے آپؓ کے مکان میں منعقد کئے جاتے رہے اور اشاعت مصباح کے لئے قائم کمیٹی کا اجلاس آپؓ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ 1939ء میں خلافت جوبلی کے موقعہ پر آپؓ کی زیر نگرانی صحابیات نے سوت کاتا۔ 1943ء میں بحیثیت صدر لجنہ آپؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہمراہ دہلی کا دورہ بھی کیا۔
محبتِ الٰہی و عشقِ رسول:- حضرت سیدہؓ کو خدا اور رسولِ خدا سے انتہائی محبت تھی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے ایک بار آپؓ کو یہ حدیث سنائی کہ ’’آنحضرتﷺ سے آپؐ کے ایک صحابیؓ نے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپؐ نے پوچھا کہ تم نے اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے؟ انہوں نے عرض کی۔ یا رسول اللہ! اگر تیاری سے نماز اور روزہ مراد ہے تو مَیں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہاں مَیں یہ جانتا ہوں کہ مَیں اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا اگر یہ درست ہے تو مَیں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا‘‘۔ یہ حدیث سُن کر حضرت سیدہؓ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ مَیں بھی اپنے دل کو ایسا ہی پاتی ہوں۔
خدمت خلق:- حضرت سیدہؓ بے کسوں، یتیموں اور مساکین سے گہری ہمدردی رکھتی تھیں۔ وفات سے ایک سال پہلے ڈلہوزی میں رمضان کے مہینے میں باوجود بیماری کے حضورؓ کے تمام عملے کے لئے سحری کے وقت اپنے ہاتھ سے پراٹھے پکایا کرتی تھیں۔ بھینس رکھنے کا شوق تھا اور بڑی کثرت سے لوگ چھاچھ لینے آیا کرتے تھے۔ غرباء اور معذوروں کی چھاچھ میں مکھن بھی ڈال دیا کرتی تھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’جب کوئی نازک موقعہ آتا مَیں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا …ضرورت کے وقت راتوں کو اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا اور تھکان کی شکایت نہیں کی‘‘۔
علمی ذوق و شوق:- حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں۔ جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقعہ ہوتا تھاتو واپسی میں اس یقین سے گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پُل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط ہوتا تھا۔ مَیں دروازے پر اُنہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ پیدا ہو رہی ہوتی تھی۔
علالت و وفات:- حضرت سیدہؓ کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری ہوگئی جو ہر بچہ کی پیدائش پر اور سخت کام کرنے پر بڑھ جاتی تھی۔ ہرچند چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگر صرف عارضی افاقہ ہوا۔ چونکہ طبیعت حساس تھی اس لئے کئی دفعہ بیہوشی کے دورے بھی پڑتے جس سے اندرونی اعضاء کو مزید صدمہ پہنچتا۔ 1942ء میں آپ کو دل کی تکلیف ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ حضرت سیدہؓ کے آخری وقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں مَیں ان سے کچھ محبت کی باتیں کرلوں۔ مگر مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اِس جہان کی روح نہیں، اُس جہان کی ہے۔ اب ہمارا تعلق اس سے ختم ہے۔ اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے۔ اس واسطہ میں خلل ڈالنا اس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے۔ مَیں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلاؤں تاکہ وہ ذکرالٰہی میں مشغول ہو جائیں مگر صاف طور پر کہنے سے ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر الٰہی کا موقعہ آنے سے پہلے ہی نہ بیٹھ جائے۔ آخر سوچ کر مَیں نے ان سے اس طرح کہا کہ مریم! مرنا تو ہر ایک نے ہے ۔ دیکھواگر مَیں پہلے مر جاؤں تو مَیں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو تمہاری ملاقات کی اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہوگئیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دیدیا کرے اور مریم! اس صورت میں تم میرا آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ سے سلام کہنا۔ اس کے بعد مَیں نے کہا مریم! تم بیماری کی وجہ سے قرآن نہیں پڑھ سکتیں، آؤ مَیں تم کو قرآن کریم پڑھ کر سناؤں‘‘۔ پھر حضورؓ نے سورہ رحمان اوراس کا ترجمہ پڑھا تو حضرت سیدہؓ نے آہستہ آواز میں کہا ’’اَور پڑھیں‘‘۔ تب حضورؓ نے سورۃ یٰسین پڑھنی شروع کی۔ حضورؓ فرماتے ہیں ’’انہوں نے مجھ سے کہا میرے پیارے! تو مَیں نے اُن سے کہا اب وہ وقت ہے کہ تم کو میرا پیار بھی بھول جانا چاہئے، اب صرف اسی کو یاد کرو جو میرا بھی ہے اور تمہارا بھی پیارا ہے۔ اور مَیں نے مختلف دعاؤں کو پڑھنا شروع کیا اور ان سے کہا کہ وہ اسے دہراتی جائیں۔ کچھ عرصہ کے بعد مَیں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خود بخود اذکار پر چل پڑی ہے۔ چہرہ پر ملائمت پیدا ہوگئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے کہ خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر ناز سے اس کے رحم کی درخواست کر رہی ہیں۔ نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار بار یَاحَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحۡمَتِکَ اَسۡتَغِیۡث کہنا شروع کیا …‘‘۔
حضرت سیدہؓ نے 5؍مارچ 1944ء کو صرف 38 برس کی عمر میں وفات پائی۔حضرت سیدہؓ کی وفات پر آپؓ کی اولاد نے کمال صبر و رضا کا نمونہ پیش کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (ایدہ اللہ) اُن دنوں میٹرک کا امتحان دے رہے تھے اور اگلی صبح ریاضی کا پرچہ تھا۔ جب آپ کو اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کی خبر ملی تو آپ خاموشی اور سکون کا مجسمہ بن گئے اور ایک حد تک آنسو بہاکر فرمایا کہ چند روز ہوئے خواب میں امّی نے کہا کہ مَیں اس چراغ کی طرح ہوں جو بجھنے سے پہلے ڈگمگا رہا ہو۔
حضرت سیدہؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی صاحبزادی امۃالجمیل صاحبہ صرف سات سال کی تھیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’اسے مَیں نے دیکھا کہ ہائے امی، ہائے امی کہہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے۔ مَیں اس بچی کے پاس گیا اور اسے کہا جمی جمی! امی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں۔ وہاں ان کو زیادہ آرام ملے گا۔ اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں۔ دیکھو رسول اللہﷺ فوت ہوگئے، تمہارے دادا ابا فوت ہوگئے، کیا تمہاری امی اُن سے بڑھ کر تھی۔ میرے خدا کا سایہ اس بچی سے ایک منٹ کے لئے جدا نہ ہو۔ میرے اس فقرہ کے بعد اس نے امی کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں