حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ

حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کو الہام میں خدیجہ کا نام دیا گیا اور حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ یہ نام اس لئے دیا گیا کہ وہ ایک مبارک نسل کی ماں ہے۔ چنانچہ حضرت ام المومنینؓ کے بطن سے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ 2؍مارچ 1897ء کو پیدا ہوئیں۔ حضور علیہ السلام نے آپؓ کو اپنی صداقت کا 37واں نشان قرار دیا۔اور آپؓ کی پیدائش کے ساتویں روز عقیقہ کے دن پنڈت لیکھرام کی موت کی خبر بھی ملی اس طرح دو نشان پورے ہوگئے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بچپن سے ہی ذہین وفطین اور اپنے بزرگ والدین کی نیکی کے رنگ میں رنگین تھیں۔ ساڑھے چار سال کی عمر میں آپؓ نے قرآن مجید کا پہلا دور مکمل کرلیا۔ پھر ترجمہ قرآن کے علاوہ فارسی اور عربی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ آپؓ کا بچپن بہت پاکیزہ تھا اور ابتداء سے ہی اللہ اور اس کے رسول کی محبت دل میں رَچ بس گئی تھی۔ چھوٹی عمر سے ہی رویائے صادقہ دیکھتی تھیں۔ اپنے عظیم الشان باپ کی عاشقِ زار تھیں اور حضورؑ بھی آپؓ پر خصوصی رنگ میں شفقت فرماتے تھے۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں بہت چھوٹی سی تھی لیکن حضورؑ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کوئی خواب آئی اور دعا کے لئے بھی فرمایا کرتے تھے۔ حضورؑ کی وفات کے متعلق ایک خواب دیکھی وہ سنائی تو آپؑ خاموش ہوگئے۔ اتنا فرمایاکہ اپنی ماں کو نہ بتانا۔
17؍فروری 1908ء کو آپؓ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کے ساتھ ہوا اور 14؍مارچ 1909ء کو تقریب رخصتانہ نہایت سادگی سے عمل میں آئی۔
آپؓ لجنہ اماء اللہ کی ابتدائی چودہ ممبرات میں بھی شامل تھیں۔ دہلی میں لجنہ کا قیام آپؓ کے ذریعے ہی عمل میں آیا۔ 8 سال تک لجنہ لاہور کی صدر بھی رہیں۔ جلسہ سالانہ مستورات پر بھی متعددبار خطاب کی توفیق پائی۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کو منصبِ خلافت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ نہ صرف حضرت مصلح موعودؓ سے بے تکلفی کا رشتہ ہونے کے باوجود بے حد احترام کرتیں بلکہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا بھی باوجود داماد اور بھتیجے ہونے کے بے حد ادب سے نام لیتیں اور سب رشتوں پر روحانی رشتوں کو فوقیت دیتیں۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی پاکیزہ سیرۃ و سوانح کے حوالے مکرمہ امۃالرفیق ظفر صاحبہ کا ایک مضمون لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے سہ ماہی ’’النساء‘‘ اکتوبر تا دسمبر1997ء میں شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں