حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر 2002ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم عبدالسمیع نون صاحب رقمطراز ہیں کہ 1978ء میں جب سابق صدر یحییٰ خان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ہمراہ علاج کے لئے امریکہ گئے تو اُن کی فیملی کا قیام حضرت میاں صاحب کے ہاں رہا۔ بعد میں یحییٰ خان صاحب بھی آپ کے ہاں ہی قیام پذیر رہے۔ جب یہ فیملی واپس پاکستان آنے لگی تو یحییٰ خان صاحب کی بیوی رو رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ یا اللہ! مظفر اگر کافر ہے تو ساری دنیا کو اس جیسا کافر بنادے۔ کہنے لگیں کہ ہمارے ساتھ میاں صاحب کو کوئی غرض نہیں ہوسکتی مگر جس وفا شعاری اور بلند اخلاق کے تحت انہوں نے خدمت کی ہے کوئی ایسا انسان نہیں جو ایسی خدمت کرسکے۔
یحییٰ خان صاحب نے خواہش کرکے حضرت میاں صاحب کے گھر پر اپنی تصاویر بھی کھنچوائیں۔ ایک تصویر میں عقب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی سی تصویر نظر آرہی تھی۔ حضرت میاں صاحب نے باقی تصاویر اُنہیں بھجوادیں لیکن وہ ایک تصویر نہ بھجوائی۔ اس پر یحییٰ خان صاحب نے اصرار سے کہا کہ وہ تصویر بھی بھیجیں جس کے عقب میں بڑے مرزا صاحب کا فوٹو ہے۔
حضرت میاں صاحب کا خاندانی وقار، وجاہت اور اخلاق ایسے کریمانہ تھے کہ آپ کے ماتحت بھی آپ کے مداح تھے اور افسران بالا بھی۔ ممدوٹ وزارت کے دوران جب آپ سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر تھے تو صوبائی اسمبلی کے تین ممبران وزیراعلیٰ سے ملنے آئے۔ وزیراعلیٰ نے انہیں کہلا بھیجا کہ اگر میاں مظفر احمد صاحب کے خلاف کوئی بات ہے تو مَیں آپ سے ملنے کو تیار نہیں ہوں۔
ایک بار گورنر پنجاب امیر محمد خان نواب آف کالاباغ نے آپ کو پنجاب کا چیف سیکرٹری مقرر کرنا چاہا اور صدرمملکت سے اس بارہ میں بات بھی کرلی لیکن آپ نے اُنہیں معذرت کردی اور وجہ یہ بیان کی کہ ’’سابق چیف سیکرٹری نے مجھے ایڈیشنل چیف سیکرٹری مقرر کرنے کی سفارش کی تھی اور یہ محسن کشی ہے کہ اُسے ہٹاکر مَیں خود چیف سیکرٹری بن جاؤں اور دوسرا یہ کہ کئی افسر مجھ سے بھی سینئر ہیں اور یہ اُن کا حق ہے‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں