حضرت طلحہ ؓ بن عبیداللہ

سہ ماہی ’’زینب‘‘ ناروے، اپریل ، مئی ، جون 2004ء میں مکرمہ نبیلہ رفیق صاحبہ کے قلم سے حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ کے تفصیلی حالات شامل اشاعت ہیں جن کا شمار آنحضورﷺ کے عشرہ مبشرہ اصحاب میں ہوتا ہے۔
آپؓ کا تعلق قریش کے قبیلہ تیمی سے تھا۔ صحیح بخاری میں آپ کا نام حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ الیمّی مذکور ہے۔ ’’مسند احمد‘‘ جلد اوّل میں آپ کی کنیت ابومحمد لکھی ہوئی ہے۔ محمد آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپؓ کا شجرہ ساتویں پشت میں حضور اکرمؐ سے مل جاتا ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام صُعبہ تھا۔ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت طلحہؓ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ کی ترغیب ہی حضرت طلحہؓ کو ابتدائی دَور میں دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی موجب بنی۔
آپ کا پیشہ تجارت تھا اسی غرض سے بصرہ گئے تو وہاں ایک راہب سے رسولِ خدا کے مبعوث ہونے کی خبر سنی۔ مکّہ واپس آئے تو حضرت ابوبکرؓ نے اسلام کا پیغام آپ کو دیا۔ ان ہی کی وساطت سے آپ دربارِ رسالت میں حاضر ہو کر مشرّف بہ اسلام ہوئے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ آٹھویں شخص شمار کئے جاتے ہیں۔ اسلام لانے کے بعد آپ کے حقیقی بھائی ثمران بن عبیداللہ نے آپ پر ہر طرح کے مظالم توڑے۔ اپنوں اور بیگانوں کا ہدفِ تضحیک بنے مگر ان کٹھن حالات کے باوجود بھی تبلیغِ اسلام میں سرگرم رہے۔ آپ کا طریق تھا کہ مکہ میں نئے آنے والوں کو تلاش کرتے اور چھپ چھپ کر بدؤوں کے خیموں میں جاتے اور اسلام کا پیغام ان تک پہنچاتے۔
جب آنحضورﷺ مدینہ ہجرت کر گئے تو حضرت طلحہؓ بھی مدینہ روانہ ہونے کی تیاری میں لگ گئے۔ چنانچہ چند دن بعد ایک قافلہ آپؓ کی امارت میں مکہ سے روانہ ہوا۔ اس قافلہ میں حضرت ابوبکرؓ کا گھرانہ بھی شامل تھا۔
آپؓ آنحضور ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اور نہایت شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جنگِ احد میں جب جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور صرف چند جانثار آنحضورؐ کے آس پاس جمع تھے ان میں سے ایک حضرت طلحہؓ تھے۔ آپ کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں نیزہ تھا اور دلیری سے حملہ آوروں پر حملے کر رہے تھے۔ بیعت رضوان کے موقع پر بھی آپؓ آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھے۔ معرکۂ حنین میں بھی بگڑی ہوئی صورتِ حال کو سنبھالنے والوں میں ایک حضرت طلحہؓ تھے۔
اعلیٰ درجہ کی مالی قربانی بھی حضرت طلحہؓ کی فطرت میں شامل تھی۔آپؓ بہت مال دار اور صاحبِ جائیداد تھے اور بہت بڑے تاجر تھے۔آپ نے اپنا سارا مال رسولِ خدا کے قدموں میں ڈال دیا تھا۔ آپؓ نے عہد کیا ہوا تھا کہ غزوات کے مصارف کے لئے اپنا مال راہِ خدا میں پیش کیا کریں گے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی یومیہ آمدنی کا اوسط ایک ہزار تھا جس کا بہت سا حصہ انفاق فی سبیل اللہ میں خرچ ہو جاتا اور آپؓ اقربا کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک سال آپؓ نے قرابت داروں میں چار لاکھ روپے تقسیم کئے۔ قیس بن ابی حازم کا قول ہے کہ میں نے طلحہؓ سے زیادہ کسی شخص کو بے طلب کی بخشش میں پیش پیش نہیں دیکھا۔ آپؓ کی زوجہ محترمہ سعدیؓ بنتِ عوف نے ایک بار اپنے خاوند کو غمگین پایا تو وجہ پوچھی۔ کہنے لگے میرے پاس بہت سا مال جمع ہوگیا ہے اس فکر میں ہوں کہ اس کا کیا کروں۔ بیوی نے کہا تقسیم کر دیجیے۔ اسی وقت حضرت طلحہؓ نے ساری رقم غرباء میں بانٹ دی۔
حضرت طلحہؓ جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو حضرت کعبؓ بن مالک کے بھائی بنے۔ آخری دم تک دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ حقیقی بھائیوں والا سلوک رکھا۔ غزوہ تبوک میں جب حضرت کعب محض سستی کی وجہ سے غزوہ میں شریک نہ ہو سکے اور اس وجہ سے آنحضورﷺ نے خدا کے حکم سے آپؓ کا مقاطعہ فرمایا تو حضرت طلحہؓ نے بھی تعلق بالکل ختم کرلیا۔ جب خدا تعالیٰ نے معاف فرمایا تو حضرت کعب خوشی کے مارے مسجد نبوی میں آئے تاکہ اپنے پیارے آقاؐ کا دیدار کر سکیں۔ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں جیسے ہی میں مسجد نبوی میں داخل ہوا، طلحہؓ میری طرف دوڑ پڑے، مرحبا کہا، مصافحہ کیا اور خطا بخشی پر مبارک باددی۔ خدا کی قسم ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی میرے پاس اٹھ کر نہیں آیا اور میں طلحہ کا یہ رویہ کبھی نہیں بھولوں گا۔
حضرت علیؓ کے عہد خلافت میں حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کابدلہ لینے کے لئے حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ نے مل کر کوشش شروع کی۔ اگرچہ ان تینوں کے ذہن میں لڑائی کرنا مقصود نہیں تھا مگر کوفہ کے شرپسندوں نے حضرت علیؓ اور حضرت عائشہؓ کی فوجوں کو غلط بیانی کرکے آپس میں لڑوادیا۔ اس پر حضرت علیؓ نے حضرت طلحہؓ کو آنحضورﷺ کی حدیث یاد کروائی تو حضرت طلحہؓ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میدان سے واپس چلے گئے۔ اس پر مروان جس کی اصل غرض مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا تھا، اُس نے آپؓ کو واپس ہوتے دیکھ کر ایک تیر مارا جو کہ آپ کی پنڈلی پر لگا۔ لوگوں نے تیر نکالنا چاہا مگر آپ نے نکالنے نہ دیا اور کہا کہ یہ تیر نہیں پیغامِ اجل ہے۔ آخر یہی تیر آپؓ کے لئے جان لیوا ثابت ہوا اور آپؓ نے 10؍جمادی الاول 36ہجری میں ساٹھ سال کی عمر میں شہادت پائی اور وطن سے دُور ایک نشیبی جگہ پر آپؓ کو دفنا دیا گیا۔ لیکن ایک شخص کو تین دن آپؓ نے خواب میں کہا کہ مجھے یہاں سے کہیں اَور منتقل کردو۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے خواب سنا تو حضرت ابوبکرؓ کا مکان دس ہزار درہم میں خرید کر ان کی لاش کو اس میں منتقل کردیا۔ اتنے دنوں بعد بھی آپ کا جسم مبارک بالکل محفوظ اور صحیح سالم تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں