حضرت مسیح موعودؑ کا اکرام ضیف

ماہنامہ ’’خالد‘‘ اکتوبر 2003ء میں مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے مہمان نوازی کے بعض واقعات بیان کئے ہیں۔
حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب کبھی مہمان زیادہ ہوتے تو حضورؑ گول کمرہ کے فرش پر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتے۔ کئی دفعہ مَیں نے حضورؑ کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔ آپؑ بوٹیاں اٹھاکر میرے سامنے رکھتے جاتے اور خود بہت کم کھاتے اور ریزہ ریزہ مونہہ میں ڈالتے رہتے۔
حضرت مرزا دین محمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؑ کے پاس جب حافظ معین الدین صاحبؓ آتے تو آپؑ کے کہنے پر مَیں روٹی لے کر آتا۔ حضورؑ اپنا سالن بھی اُن کے سالن میں ملادیتے اور اپنا کھانا اُن کو دے دیتے۔ اگر پھر بھی حافظ صاحبؓ کی مزید کھانے کی خواہش ہوتی تو حضورؑ میرا کھانا بھی اُن کو دے دیتے اور بعد میں مجھے پیسے دیتے کہ کابلی چنے بھنوالاؤ۔ جب مَیں لاتا تو آپؑ ایک دو دانے ہی مونہہ میں ڈالتے۔
حضرت پیر حاجی احمد صاحب ؓ کا بیان ہے کہ 1889ء میں بارہا قادیان گیا۔ باوجود مہمانوں کی کثرت کے حضورؑ خود اپنے گھر سے کھانا اٹھاکر لاتے اور سب کے ساتھ مل کر کھاتے۔
حضرت مولوی حکیم انوار حسین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 1892ء میں مَیں پہلی بار قادیان آیا تو حضورؑ مہمانوں کے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندر تشریف لے جاتے اور کبھی اچار اور کبھی چٹنی لاکر مہمانوں کے سامنے رکھتے لیکن خود بہت کم کھاتے۔
حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے چودہ پندرہ سال کی عمر میں قادیان جانا شروع کیا۔ حضورؑ کھانا اندر سے لاکر دیتے۔ قہوہ ہر وقت تیار رہتا اور پاس ہی مصری بھی رکھی ہوتی۔ ہم جتنا چاہتے پیتے تھے۔
ایک بار چند لوگوں کے لئے لنگرخانہ میں بٹیر پکائے گئے تو کسی اَور مہمان نے بھی دو بٹیر حاصل کرنے کی خواہش کی لیکن اُنہیں نہ دیئے گئے۔ یہ ماجرا جب حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کیا تو حضورؑ نے فرمایا کہ انہیں فوراً بٹیر بھجواؤ اور کل سب کیلئے بٹیر پکائے جائیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں