حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍فروری 2000ء (مصلح موعود نمبر) میں محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے حوالہ سے اپنے مشاہدات اور تجربات آپ نے بیان کئے ہیں۔
مضمون نگار لکھتے ہیں کہ مجھے اپنے بچپن سے پختہ عمر تک حضورؓ کو نہایت قریب سے دیکھنے کے مواقع ملے۔ آپؓ حضرت اماں جانؓ کے صحن سے گزرکر نماز پڑھانے مسجد جاتے اور واپسی پر خصوصاً نماز مغرب کے بعد کچھ وقت حضرت اماں جانؓ کے پاس گزارتے اور وہاں موجود عزیزوں سے بھی گفتگو فرماتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ قرآن مجید حکمت و دانش کا سمندر ہے، تم بچوں کو اس کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے تا تم اس سے حکمت کے موتی نکال سکو، اگر تم ابھی بالغ نظری کی عمر تک نہیں بھی پہنچے تو کم از کم سیپیاں ہی نکالنے کی اہلیت پیدا کرلو۔
حضورؓ کئی مرتبہ (خصوصاً سردیوں میں) مسجد جانے سے قبل بیت الدعا میں سنّتیں ادا فرماتے۔
آپؓ کے کردار کا ایک نمایاں پہلو دعا پر کامل یقین تھا۔ جب بھی جماعت پر کوئی ابتلاء آتا تو آپؓ بیت الدعا میں گھنٹوں دعا میں صرف فرماتے۔ مَیں نے ہجرت کے موقع پر کئی مرتبہ دیکھا کہ آپؓ جب بیت الدعا سے باہر تشریف لاتے تو آپؓ کی آنکھیں سرخ اور متورم ہوتیں۔ مَیں اُن دنوں پاکستان گورنمنٹ کی طرف سے بطور ایڈیشنل کمشنر امرتسر متعین تھا اور بھارتی حکومت کی طرف سے اسی عہدہ پر ایک سکھ دوست بھی متعین تھا۔ ڈپٹی کمشنر انگریز تھا اور اسے ہدایت تھی کہ جب بھی امرتسر کا الحاق کسی ریاست سے ہوجائے وہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو چارج دیدے۔ ایک روز اُس نے ذکر کیا کہ گورداسپور کا ضلع انڈیا کو دیئے جانے کا امکان ہے۔ مَیں نے سخت حیرانگی کا اظہار کیا کیونکہ فیصلہ یہ تھا کہ ایسے مسلم اکثریت والے علاقے جو پاکستان سے ملحق بھی ہوں وہ پاکستان کو دیئے جائیں گے۔ اُس نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ مَیں قادیان چلا جاؤں کیونکہ CID کی رپورٹ کے مطابق میری رہائش گاہ پر بم پھینکنے کا پروگرام ہے۔ اُس نے کہا کہ امرتسر کے پاکستان سے الحاق کی صورت میں وہ مجھے قادیان سے بلالے گا۔ اس پر مَیں قادیان آگیا اور حضورؓ کو یہ بات بتائی تو آپؓ نے فرمایا کہ تھوڑا عرصہ قبل آپؓ کو الہام ہوا ہے کہ تم جہاں بھی ہوگے اللہ تم کو اکٹھا کردے گا۔
ایک واقعہ جس کا آج تک میرے دل و دماغ پر گہرا اثر ہے اور مجھے اس طرح لگتا ہے کہ جس طرح کل کا واقعہ ہو کہ مَیں گرمیوں کی ایک رات قادیان میں اپنے گھر کے مردانہ حصہ میں سویا ہوا تھا کہ میری آنکھ دردناک دل ہلا دینے والی کرب میں ڈوبی ہوئی آواز سے کھل گئی اور مجھے خوف محسوس ہوا۔ جب مَیں نیند سے پوری طرح بیدار ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ تہجد کی نماز اُس مکان میں ادا فرمارہے تھے جس کی دیوار ہمارے مکان سے ملحق تھی اور یہ آپؓ کی دردناک دعاؤں کی آواز تھی۔ مَیں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو آپؓ بار بار اھدنا الصراط المستقیم کو اتنے گداز سے پڑھ رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہانڈی ابل رہی ہو اور مجھے یوں لگا کہ آپؓ نے اس دعا کو اتنی مرتبہ پڑھا جیسے کبھی ختم نہ ہوگی۔
حضورؓ کو جماعت سے بے پایاں محبت تھی۔ جب بھی قادیان سے کوئی قافلہ پاکستان کے لئے روانہ ہوتا تو آپؓ حمائل شریف لے کر برآمدہ میں اس وقت تک ٹہلتے ہوئے تلاوت فرماتے اور دعا کرتے رہتے جب تک اُس قافلہ کی سرحد پار کرنے کی اطلاع نہ آجاتی۔ جب بھی جماعت کسی ابتلا کے دور سے گزر رہی ہوتی تو آپؓ بستر پر سونا ترک کرکے فرش پر سوتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس آزمائش کے بادل چھٹنے کا اشارہ ملتا۔
میری شادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی جب مَیں ملتان میں بطور اسسٹنٹ کمشنر متعین تھا اور اپنی بیوی کے ماموں کرنل سید حبیب اللہ شاہ صاحب سپرنٹنڈنٹ سنٹرل جیل کے ہاں عارضی طور پر مقیم تھا تو حضورؓ نے سندھ جاتے ہوئے ایک روز وہاں قیام فرمایا۔ آپؓ مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے اور ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فرمایا کہ دیکھو تم ICS ہو اور تمہیں اعلیٰ طبقہ سے ملاقات کے بہت مواقع ملیں گے لیکن یہ بات تمہیں ہرگز غرباء اور کمزور لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے سے کبھی باز نہ رکھے۔ آپؓ نے فرنیچر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا فرنیچر جو غریبوں سے ملاقات میں روک بنے، رکھنے کے قابل نہیں۔ جس طرح ہر غریب پر رسول اللہﷺ کے دروازے بلاامتیاز کھلے رہتے تھے، یہی وہ سنت ہے جسے اپنانا چاہئے۔ اُس وقت آپؓ کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور آنکھیں پُرنم تھیں۔
آپؓ میں دین اور جماعت کی خدمت کا بہت جذبہ تھا۔ مَیں آج بھی آپؓ کو فرش پر بیٹھے چاکلیٹ رنگ کا دھسہ اوڑھے، کوئی درجن بھر موم بتیوں کے جلو میں پڑھتے یا لکھتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ آپؓ کا گلا بہت حساس تھا اور مٹی کے تیل کے دھوئیں سے فوراً متاثر ہوجاتا تھا اور اُن دنوں قادیان میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی اس لئے موم بتیوں کا استعمال ہی فرماتے۔ قادیان میں بجلی غالباً 1930ء کے اوائل میں آئی تھی۔ مَیں نے کئی مرتبہ جب جماعت کسی سخت دَور سے گزر رہی ہوتی تو آپؓ کو ساری ساری رات بغیر ایک منٹ آرام کئے دیکھا ہے اور آپؓ کام کرتے کرتے اُٹھ کر صبح کی نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔
آپؓ کو حضرت اماں جان سے بہت گہرا لگاؤ تھا۔ اکثر سفروں پر انہیں ساتھ لے جاتے۔ وہ آپؓ کو محبت سے میاں کہہ کر مخاطب ہوتیں۔ اگر حضورؓ کو سفر سے آنے میں کبھی دیر ہوجاتی تو حضرت اماں جانؓ بڑی گھبراہٹ کا اظہار فرماتیں۔ میری بیوی بیان کرتی ہیں کہ ایک بار حضرت اماں جانؓ بڑی بیتابی سے حضورؓ کا انتظار کر رہی تھیں۔ جب آپؓ تشریف لائے تو اماں جانؓ نے فرمایا: ’’مَیں نے تجھے منع نہیں کیا ہوا تھا کہ مغرب کے بعد دیر نہیں کرنی‘‘۔ فرمایا: ’’جی! امّاں جان‘‘۔ پھر پوچھا: ’’پھر کرے گا؟‘‘۔ فرمایا: ’’نہیں اماں جان‘‘۔ حضرت اماں جانؓ نے حضورؓ کے جسم کو ایک نرم چھڑی سے تنبیہ کے رنگ میں چھوتے ہوئے فرمایا ’’آئندہ کبھی دیر سے مت آنا، تمہیں معلوم ہے کہ میری جان پر بنی رہتی ہے‘‘۔ یہ ایک ماں کا فطری جذبہ تھا ورنہ حضرت اماں جان خود حضورؓ کی بڑی عزت فرماتیں۔
حضرت اماں جان کی وفات کے وقت حضورؓ کی خواہش تھی کہ انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ مَیں اُن دنوں لاہور میں متعین تھا۔ حضورؓ کے ارشاد پر جب مَیں نے انڈین ہائی کمشنر سے رابطہ کیا تو دہلی سے گورنمنٹ نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ بیس سے زائد عزیزوں یا دیگر اصحاب کو ویزا نہیں دیا جائے گا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ پیشکش اس وجہ سے مسترد کردی کہ حضرت اماں جان کی حیثیت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار احمدی میت کے ساتھ جانے ضروری ہیں۔
حضورؓ ایک بلند پایہ مقرر تھے۔ مجھے دنیا کے مشہور لیڈروں کو سننے کا موقعہ ملا ہے مگر مَیں نے کسی کو حضورؓ کا پاسنگ بھی نہیں پایا۔ ہجرت کے فوراً بعد آپؓ نے مختلف شہروں میں پاکستان کے مختلف مسائل اور اُن کے حل پر لیکچر دیئے۔ اسلامیہ کالج کے ایک پروفیسر نے بے ساختہ کہا کہ حضور کو تو پاکستان کا پرائم منسٹر ہونا چاہئے۔ اس سے قبل ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ پر لیکچر دیا تو اسلامیہ کالج کے ہسٹری کے پروفیسر نے یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا: ’’فاضل باپ کا فاضل بیٹا‘‘۔ نیز کہا کہ مَیں اپنے آپ کو اسلامی تاریخ کا علم رکھنے والا تصور کرتا تھا لیکن آپؓ کا لیکچر سننے کے بعد احساس ہوا کہ مَیں تو بالکل طفل مکتب ہوں۔
جب میری شادی حضورؓ کی صاحبزادی سے ہوئی تو حضورؓ نے میری بیوی کو نصیحت فرمائی کہ مظفر تو گورنمنٹ کا ملازم ہے مگر تم نہیں ہو۔ غریب اور مساکین سے ملو مگر کبھی کسی کی دنیاوی حیثیت کی وجہ سے انہیں ملنے مت جانا۔
کچھ عرصہ بعد جب فنانشل کمشنر اپنی بیگم کے ہمراہ سرگودھا تشریف لائے جہاں مَیں بھی متعین تھا تو تمام افسران کی بیگمات نے اُن کی رہائش گاہ پر حاضری دی اور باوجود اُن کے اصرار پر میری بیوی نے جانے سے انکار کردیا۔ بعد میں فنانشل کمشنر صاحب کی بیگم نے خاص طور پر صرف میری بیگم کو علیحدہ چائے پر بلایا اور خاص طور پر پردہ کا اہتمام کیا۔ دیگر افسران بڑے حیران تھے اور بار بار یہ سوال کیا کہ آیا میری بیوی کی فنانشل کمشنر کی بیگم سے پہلے سے کوئی شناسائی ہے۔ جس پر اُنہیں بتایا گیا کہ وہ تو پہلی مرتبہ انہیں ملی ہیں۔
حضورؓ انتہائی مصروفیات کے باوجود کچھ وقت بچوں اور عزیزوں کے لئے ضرور نکالتے۔ سردیوں کے ایام میں عشاء کی نماز کے بعد خاندان کے بچوں کو اکٹھا کرکے انہیں کہانیاں سناتے جو کسی کتاب سے نہ ہوتیں اور ان میں نصائح پنہاں ہوتے۔
حضورؓ شکار کا شوق رکھتے تھے اور گھر کے افراد اور دوستوں کے ساتھ کھانا پکانے کے مقابلہ میں شرکت فرماتے۔ ایک موقعہ پر دوستوں کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ نہر کے ایک پُل سے دوسرے پُل تک تیرنے کے مقابلہ میں بھی شرکت فرمائی۔ ان مواقع پر حضورؓ ایک لمبی نیکر پہنا کرتے جو گھٹنوں تک آتی تھی۔
حضورؓ بڑے بہادر اور آہنی عزم کے مالک تھے۔ جب آپؓ پر حملہ ہوا تو DIG پولیس نے مجھے اطلاع دی۔ مَیں لاہور سے ڈاکٹر ریاض قدیر کو لے کر ربوہ پہنچا۔ ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے ابتدائی مرہم پٹی کردی تھی لیکن زخم والا حصہ پھولا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے تشخیص کی کہ کوئی رگ کٹ گئی ہے جس کی وجہ سے خون جمع ہورہا ہے اس لئے فوری آپریشن کا فیصلہ کیا گیا جس کے لئے بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ مگر حضورؓ نے انکار کردیا کہ وہ بے ہوشی کی دوا نہیں لیں گے اور ہوش کی حالت میں ہی آپریشن کیا جائے۔ آپریشن کے دوران حضورؓ نے کمال ہمت اور جرأت کا مظاہرہ فرمایا۔ اس زخم کی وجہ سے آپؓ کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑا۔ آپؓ کی لمبی بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی دکھائی دیتی ہے کہ اس کی وجہ سے جماعت کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی ورنہ جماعت کو جو آپؓ سے بے پناہ عقیدت اور لگاؤ تھا، شاید وہ اس صدمہ سے بے حال ہوجاتی۔
آپؓ ایک عظیم اور یکتا لیڈر تھے۔ آپؓ کی ذات اُن تمام خوبیوں اور حسن کا منہ بولتا ثبوت تھی جن کا ذکر پیشگوئی مصلح موعود میں موجود ہے۔ اس پیشگوئی کی شوکت سے انسان کے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے اور ایک یہی پیشگوئی کسی متلاشی حق کو روشنی اور ہدایت کی طرف لے جانے کے لئے کافی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں