حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍جولائی 2002ء میں حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم سید میر محمود احمد ناصر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں قادیان سے باہر رہتے تھے۔ اُن کی والدہ قادیان میں سکونت پذیر تھیں۔ یہ بزرگ ہر ماہ اپنی تنخواہ کا ایک حصہ اپنی والدہ محترمہ کی خدمت میں حضرت میر صاحبؓ کے ذریعہ بھجواتے۔ ایک ماہ اُس بزرگ نے لکھا کہ اُن کے بچے بڑے ہوگئے ہیں اور اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لئے وہ آئندہ ایک تہائی رقم کم بھجوایا کریں گے۔ حضرت میر صاحبؓ نے یہ اطلاع اُن کی والدہ کو نہیں دی اور اگرچہ آپؓ کی آمد اُن بزرگ کی آمد سے شاید دسواں حصہ بھی نہیں تھی لیکن ہر ماہ اس رقم کی کمی اپنی قلیل آمد سے پوری کرکے اُن کی والدہ محترمہ کو خاموشی سے دے آتے اور یہ سلسلہ اُن کی والدہ محترمہ کی وفات تک باقاعدگی سے جاری رہا۔
ایک بار مہمان خانہ قادیان میں ایک بیمار مہمان کے لئے ڈاکٹری ہدایت تھی کہ ایک دوا ہر دو گھنٹہ بعد دی جائے۔ حضرت میر صاحبؓ کی دن کی مصروفیات کا یہ عالم تھا کہ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ نے ان کے دن بھر کے کاموں کی رپورٹ سن کر کہا: ’’اگر دن اڑتالیس گھنٹوں کا ہوجائے تو یہ کام ایک دن میں پورے ہوسکتے ہیں‘‘۔حضرت میر صاحبؓ نے بیمار مہمان کی خدمت کے لئے تین احباب مقرر فرمادیئے لیکن جب دوا دینے کا وقت آتا تو خود تشریف لے جاتے اور مریض کو دوا دیتے۔ ہر دو گھنٹہ بعد اپنے کوارٹر سے مہمان خانہ کا لمبا صحن چل کر جاتے ۔ مہمان بار بار کہتے کہ آپؓ کو تکلیف کی ضرورت نہیں، یہ تین دوست کاہے کو ہیں۔ فرماتے: ٹھیک ہے، مگر یہ کام میرا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں