خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍نومبر 2006ء

اس زمانے میں جبکہ ہر ایک نے بہت سے ربّ بنائے ہوئے ہیں ہر احمدی کوچاہئے کہ ہمیشہ
رَبُّنَا اللہ
کو اپنے ذہن میں دہراتا رہے۔
خود مسلمانوں نے زمانے کے امام کا ا نکار کرکے اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت کو محدود کر دیا ہے۔
ایک مومن بندے کو چاہئے کہ وہ اس ذات کی طرف متوجہ ہو جس کے انعاموں اور احسانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اس کے ایسے عبادت گزار بنیں اور اس کی ایسی عبادت کریں
جو روح کے جوش سے ہور ہی ہواور جس میں ایک کشش ہو۔
اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربُّ العَالَمِیْن کے مختلف معانی کا پرمعارف تذکرہ
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مؤرخہ 24؍نومبر 2006ء (24؍نبوت 1385ہجری شمسی) بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبے میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربّ کے لغوی معنی بیان کرتے ہوئے کچھ وضاحت کی تھی اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھا تھا، اسی مضمون کو آج بھی جاری رکھوں گا۔ اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ربّ العالمین کی صفت کی جو وضاحت فرمائی تھی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس میں تمام صفات جمع ہیں، وہ بھی جن کا ہمیں علم ہے اور وہ بھی جن کا ہمیں علم نہیں اور یہ تمام صفات انتہائی نقطۂ کمال تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر نقص سے پاک ہے اور حسن و احسان کے اعلیٰ نقطے پر پہنچا ہوا ہے جو اس کی صفات سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ حُسن اور احسان خوبصورتی کے اُس اعلیٰ نقطہ تک پہنچا ہوا ہے کہ جس کا انسان احاطہ نہیں کر سکتا۔ربّ العالمین کے بندے پر جو انعامات اور فضل ہیں یہ خالصۃً اللہ تعالیٰ کی دین ہیں نہ کہ بندے کا کمال، یہ ایک ایسا احسان ہے جس کا مقابلہ تو کیا احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ احسان کی یہ صفت ربّ العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے اور اس صفتِ ربوبیت سے اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق جو اس کائنات میں موجود ہے، جسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے، جو سائنس دانوں کے علم میں آئی ہے یا نہیں آئی، یہ سب فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اگر انسان اپنے پر ہی نظر ڈالے تو روزمرہ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات نظر آتے ہیں۔ کئی واقعات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان ایسے تجربات سے گزرتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور احسان کی وجہ سے اس واقعہ کے بدنتائج سے محفوظ رہتا ہے۔ کئی لوگوں کے ساتھ حادثات ہوتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ ایسا حادثہ ہوا ہے اور کار کا اس طرح حال ہوا تھا کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اس حالت میں اندر بیٹھی ہوئی سواریاں بچ کس طرح گئیں ؟ خراش تک نہیں آئی اور صحیح سالم باہر آ گئیں۔ تو ہر ایک کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی غانامیں کئی ایسے واقعات ہوئے جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی صفت ربّ پر یقین بڑھتا ہے، بعض دفعہ وہاں کے حالات ایسے خراب ہوتے تھے کہ بہت ساری ضرورت کی چیزیں مہیا نہیں ہو سکتی تھیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہمارا اور بچوں کا سامان کرتا رہا، پرورش فرماتا رہا، بہت سارے مواقع پر خطرناک حالات سے محفوظ رکھا۔ اس کے علاوہ بھی زندگی میں کئی مواقع آتے ہیں اور یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر ہر ایک اپنے پر نظر ڈالے تو اللہ تعالیٰ کی صفت ربّ ہی ہے جو بہت ساری باتوں سے اسے محفوظ رکھتی ہے، بچاتی ہے، اس کی پرورش کرتی ہے اور جس کے احسانوں کے نیچے انسان دبا ہوا ہے۔
ربّ العالمین صرف مشکل سے ہی نہیں نکال رہا بلکہ احسان یہ ہے کہ اس کے ساتھ انعامات کی بارش بھی ہو رہی ہے۔ صرف تکلیف دُور کرنے کا احسان نہیں ہے بلکہ انعامات سے نوازنے کا احسان بھی ہے۔ اگر دل مردہ نہ ہو جائیں اور احساس مر نہ جائیں تو انسان اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور ر بوبیت کا کبھی شمار نہیں کر سکتا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں توجہ دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ یہ اعلیٰ نقطہ پر پہنچا ہوا احسان کا جوسلوک ہے، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ایک مومن بندے کی اس طرف توجہ ہونی چاہئے کہ وہ اس ذات کی طرف کھنچے اور متوجہ ہو جس کے انعاموں اور احسانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کی وجہ سے اس کے ایسے عبادتگزار بنیں اور اس کی ایسی عبادت کریں جو روح کے جوش سے ہو رہی ہو ایسی عبادت ہو جس میں ایک کشش ہو، صرف خانہ پُری والی عبادت نہ ہو۔ پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے شکرانے کا اظہار جو ایک مومن بندے کی طرف سے ہونا چاہئے۔
اس مضمون کے مختلف پہلو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کہاں کہاں اور کس طرح کام کرتی ہے۔ بیشمار جگہ پر اس کا ذکر ہے۔ احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے بندے کو نوازتا ہے۔پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی مختلف زاویوں سے ہمیں کھول کر بتایا ہے کہ اس صفت کے تحت اللہ تعالیٰ کتنے احسانات اور انعامات سے نواز رہا ہے۔
پرانے مفسرین میں علاّمہ رازی کی بھی اچھی تفسیر ہے۔ انہوں نے اس بات کی جو تفسیر کی ہے اس میں
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے اس وجہ سے کہ وہی ہے جو ہر چیز کو جب تک وہ برقرار اور باقی ہے، بقا عطا کر رہا ہے۔ یعنی وہی قائم رکھتا ہے، وہی سہارا دیتا ہے، صحیح راستے پر ڈالتا ہے،کسی بھی چیز کی بقا کے لئے جو کچھ ضروری ہے وہ مہیا فرما رہا ہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ مُرَبّی یعنی پرورش اور تربیت کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اس غرض سے پرورش اور تربیت کرتے ہیں تا وہ مُرَبّی خود اس سے فائدہ اٹھائے۔ یعنی تربیت کرنے والا خود اُس سے فائدہ اٹھائے جس کی وہ تربیت کر رہا ہے۔ دوسرے وہ جو اس غرض سے پرورش کرتے ہیں تا وہ شخص جس کی پرورش کی جا رہی ہے وہ فائدہ حاصل کر سکے(ذاتی فائدہ نہ ہوبلکہ دوسرے کے فائدہ کے لئے) تو کہتے ہیں کہ مخلوقات میں سے سب کی تربیت و پرورش پہلی قسم کی ذیل میں آتی ہے کہ انسان اگر کسی کی پرورش کر رہا ہے تو اس لئے کر رہا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ کیونکہ وہ دوسرے کی پرورش اور تربیت اس مقصد سے کرتے ہیں تا اس سے خود بھی فائدہ اٹھائیں خواہ یہ فائدہ از قسم جزا ہو یا تعریف و مدح میں ہو۔ یعنی چاہے اس سے ایسا فائدہ پہنچ رہا ہو جو ظاہری و مادی فائدہ ہو یا اس لئے کسی کو رکھا ہو۔ بعضوں نے اپنے ساتھ لوگ رکھے ہوتے ہیں، تعریف کرنے کے لئے حوالی موالی اکٹھے کئے ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کا مُرَبّی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے گویا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! مَیں نے تمہیں اس لئے پیدا کیا تاکہ تم مجھ سے فائدہ حاصل کرو نہ کہ اس غر ض سے کہ مَیں تم سے فائدہ اٹھاؤں۔ پس اللہ تعالیٰ دیگر تمام پرورش کرنے والوں اور احسان کرنے والوں کے برخلاف پرورش و تربیت کرتا اور احسان فرماتا ہے۔
پھر وہ آگے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے غیرکی ربوبیت کئی جہتوں سے مختلف ہوتی ہے۔ ایک فرق تو یہ بیان کر دیا جو مَیں نے پہلے پڑھا ہے۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ کوئی بھی غیراللہ جب کسی کی تربیت کرتا ہے تو جتنی اس کی تربیت کرنا چاہے اس کے خزانے میں اتنی کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نقصان اور کمی کے عیب سے بہت بلند و بالا ہے۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔

وَاِنْ مِّن شَیْء اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗ اِلَّا بِقَدَرٍمَّعْلُوْمٍ (الحجر:22)

پھر تیسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو دیگر محسن ہیں جب کوئی محتاج ان کے سامنے اپنی ضرورت کے لئے اصرار کرے تو ناراض ہو جاتے ہیں اور اس غریب، ضد کرنے والے کو اپنی عطا سے محروم کر دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا سلوک اس سے برعکس ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ

اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحِبُّ الْمُلَحِّیْنَ فِی الدُّعَاء

یعنی اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو دعا میں الحاح اور تکرار کرتے ہیں۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ ماسوی اللہ محسنین ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان سے مانگا نہ جائے وہ نہیں دیتے جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تو کسی سوال کرنے والے کے سوال سے قبل ہی عطا کر دیتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لیں جب آپ ماں کے پیٹ میں جنین تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی پرورش کی اور اس وقت بھی کی کہ جب آپ عقل سے عاری تھے اور سوال کر ہی نہیں سکتے تھے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی آپ کی حفاظت کی اور احسان فرمایا جبکہ آپ عقل و ہدایت سے محروم تھے۔
پانچویں بات یہ کہ ماسوی اللہ محسن کا احسان اس محسن کے فقر، غیرحاضری یا موت کی وجہ سے منقطع ہو جاتا ہے۔ یعنی جو احسان کرنے والا ہے اگراس کے حالات خراب ہو جائیں یا موجود نہ ہو یا مر جائے تو احسان ختم ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا سلسلہ تو کسی صورت میں منقطع نہیں ہوتا۔
پھر یہ کہ اللہ کے سوا محسن کا احسان دیگر قوموں کو چھوڑتے ہوئے صرف کسی ایک قوم تک محدود ہوتا ہے، اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہوتاکہ علی العموم تمام عالم کو اپنے احسان سے نوازے جبکہ اللہ تعالیٰ کے احسان اور تربیت کا فیض ہر ایک وجود تک پہنچ رہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا

رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء (الاعراف 157)

کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔
یہ تمام امور ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی

رَبُّ الْعَالَمِیْن

اور تمام مخلوقات کو اپنے احسان کا فیض پہنچانے والا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق

اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن

فرمایا ہے۔پس جہاں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جسمانی فائدہ پہنچا رہا ہوتا ہے وہاں روحانی فائدہ بھی پہنچاتا ہے۔ اور صرف یہی نہیں کہ جسمانی فوائد ہی دے رہا ہے بلکہ مختلف قوموں میں، مختلف جگہوں پر، مختلف حالات میں اللہ تعالیٰ مصلح اور نبی بھیجتا رہتا ہے تاکہ انسانوں کی تربیت بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہے۔
پھر وہ لکھتے ہیں کہ صفت ربّ، ربوبیت اور تربیت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ آخری سورتوں میں صفت ربّ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے آئندہ آنے والے زمانے میں بھی انسان کی تربیت کا وسیلہ بنایا ہے۔ جیسا کہ وہ ماقبل بھی انسان کی تربیت کرتا چلا آ رہا ہے۔ یا گویا بندوں کی زبان سے کہا گیا ہے کہ اے میرے اللہ تربیت و احسان تیرا کام ہے، پس تو مجھے فراموش نہ کرنا اور میری امید کو نامرادنہ کرنا۔
سورۃ الفلق اور النّاس کے بارے میں بتا رہے ہیں کہ اس میں صفت ربّ کا ذکر یہ بتانے کے لئے کیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ وہ ذات ہے جس کی ربوبیت اور احسان، اے بندے! تجھ سے کبھی بھی منقطع نہ ہو گی۔ پس یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ آئندہ بھی نبوت کا راستہ کھلا ہے مصلح کا راستہ کھلا ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تربیت کے لئے مبعوث فرماتا ہے، جس کو دوسرے مسلمان نہیں مانتے۔ تو ربّ کی صفت پہ اگر یقین ہو اور ایمان ہو تو پھر اس بات پر بھی یقین ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی نبی بھیج سکتا ہے جبکہ ہمارے دوسرے دوست کہتے ہیں کہ نہیں بھیجتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ تمام دنیا کا خدا ہے۔ اور جس طرح اس نے تمام قسم کی مخلوق کے واسطے ظاہر ی جسمانی ضروریات اور تربیت کے مواد اور سامان بلا کسی امتیاز کے مشترک طور پر پیدا کئے ہیں اور ہمارے اصول کے رُو سے وہ ربّ العالمین ہے اور اس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح وہ ہر ایک زمانے میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتاً مصلح بھیجتارہا ہے۔ جیسے علامہ رازی نے بھی لکھا تھا کہ سوال کرنے والے کے سوال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ جب دیکھ لیتا ہے کہ دنیا بگڑ رہی ہے، حالات خراب ہو رہے ہیں تو اس وقت مصلح بھیج دیتا ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جن قوموں یا مذہبوں کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی کو خاص کیا ہوا ہے جیسا کہ(اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس میں آریوں کا اور یہودیوں یا عیسائیوں کا ذکر کیا ہے) ان کا خیال یہ ہے کہ صرف انہیں میں ہی مصلح آ سکتے ہیں، انہیں میں نیک لوگ پیدا ہو سکتے ہیں، انہیں میں نبی آ سکتے ہیں، اسرائیلیوں سے باہر کوئی نبی نہیں آ سکتا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ اس بات سے اللہ تعالیٰ کو تمام جہانوں کا ربّ نہیں سمجھتے لیکن اسلام کے خدا کا تصور ربّ العالمین کا ہے، اس لئے قرآن کریم کی ابتداء ہی اس لفظ سے ہے۔
آپ فرماتے ہیں :’’ پس ان عقائد کے رد ّکے لئے خداتعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن اور جابجا اس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدانے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال ان کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہے ایسا ہی اس نے ہرایک ملک اور ہر ایک قوم کو روحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔

وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَا نَذِیْرٌ (فاطر:25)

کہ کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا‘‘۔
فرمایاکہ’’ سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہر ایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا رب ہے اور تمام زمانوں کا ربّ ہے اور تمام مکانوں کا ربّ ہے‘‘۔ ہر جگہ کا، ہر ملک کا ربّ ہے۔’’ اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیضوں کا وہی سرچشمہ ہے اور ہر ایک جسمانی اور روحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتے ہیں اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے۔
خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کا موقع نہ ملے اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا مگر ہم پر نہ کیا۔ یا فلاں قوم کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی۔ یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہا۔ پس اس نے عام فیض دکھلا کر ان تمام اعتراضات کو دفع کر دیااور ا پنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھیرایا۔‘‘ (پیغام صلح۔روحانی خزائن جلد 23صفحہ 442,441)
پس اس زمانے میں ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے نتیجہ میں ہمیں یہ فیض ملا۔ اس سے ہم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں اپنی اس صفت کے بارے میں ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں بھی ذکر کیا تھا کہ بیسیوں جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت ربّ کا ذکر فرمایا ہے اور مومنوں کو مختلف طریقوں سے یہ احساس دلایا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ تمہاری بقا اور تمہاری سلامتی چاہے وہ جسمانی ہو یا روحانی ہو، اللہ تعالیٰ کہتا ہے یہ سب میری ذات سے وابستہ ہے، مَیں جو تمہارا ربّ ہوں اس لئے ہمیشہ میری طرف جھکو اور مجھ سے مانگتے رہو۔
فرمایاکہ

قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ (المومن :61)

اور تمہارے ربّ نے کہا مجھے پکارو مَیں تمہیں جواب دوں گا۔ یقینا وہ لوگ جو میری عبادت کرنے سے اپنے تئیں بالا سمجھتے ہیں ضرور جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ یاد رکھو تمہاری ضروریات کو پورا کرنے والا مَیں ہوں۔ اب تک جو کچھ تمہیں ملا اور تم نے زندگی گزاری وہ میرے احسانوں کی وجہ سے تھا، میرے انعاموں کی وجہ سے تھا۔اس لئے ہمیشہ یاد رکھو کہ کسی اور کے حضور نہیں جھکنا بلکہ ذہن میں ہمیشہ یہ رہنا چاہئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانات ہیں جو ہمارا ربّ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمیشہ مجھے پکارو مَیں دعائیں سننے والا ہوں، اپنی ضروریات میرے حضور پیش کرو مَیں ان کو پوری کروں گا۔ پس اگر میری عبادت نہیں کرو گے تو صفت ربوبیت کی وجہ سے جو دنیاوی ضرورتیں اللہ تعالیٰ پوری کر رہا ہے وہ کرتا رہے گا لیکن پھر قیامت والے دن ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔اس لئے فرمایا ہمیشہ عبادت کی طرف توجہ دو۔
پھر فرماتا ہے

اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ (المومن:62)

کہ اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے رات کو بنایا تاکہ تم اس میں تسکین پاؤ اور دن کو دکھانے والا بنایا یقینا اللہ لوگوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر انسان شکر نہیں کرتے۔
پچھلی آیت سے آگے یہ آیت ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں شکر گزاری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنی صفت ربوبیت کے تحت ہماری تسکین کے لئے کتنے سامان ہمارے لئے مہیا فرمائے ہیں۔ پس یہ سب کچھ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا شکر گزار بندہ بنا جائے۔ فرمایا دن اور رات بنا کر تمہارے کام اور آرام کے لئے آسانیاں پیدا کر دی ہیں، وقت کی تعیین کر دی۔ اگر کام اور آرام کے لئے تمہاری فطرت میں بعض باتیں رکھی تھیں تووہ حالات بھی پیدافرما دئیے ہیں جن سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکو، ان پر غور کرو اور شکر گزار بندوں میں سے بنو۔
پھر فرمایا

ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شَیْء لَا ٓ اِلٰہ َ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُوْفَکُوْنَ(المومن:63)

یہ ہے اللہ تمہارا ربّ،ہر چیز کا خالق، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم کہاں بہکائے جاتے ہو۔
پھر دوبارہ وہی فرمایا کہ اتنے احسانات ہیں جن کو تم گن نہیں سکتے۔ پس یاد رکھو کہ شکر گزار بندے بنتے ہوئے، اس کے آگے جھکتے ہوئے اسی کی عبادت کرنی ہے۔ اس سے مانگنے کے لئے کسی اور ربّ کی تلاش نہ کرو۔ شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنے ربّ کے حکموں کی نافرمانی نہ کرو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ وہی ایک معبود ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ورنہ تم اگر کسی اور کو معبود سمجھ رہے ہو توپھر بھٹکتے پھرو گے۔
پھر فرمایا

کَذٰلِکَ یُؤْفَکُ الَّذِیْنَ کَانُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ(المومن:64)

اسی طرح وہ لوگ بہکائے جاتے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْا َرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآء بِنَآء وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ فَتَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (المومن:65)

یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار کی جگہ بنایا اور آسمان کو تمہاری بقا کا موجب بنایا اور اس نے تمہیں صورت بخشی اور تمہاری صورتوں کو بہت اچھا بنایا اورتمہیں پاکیزہ چیزوں میں سے رزق عطا کیا یہ ہے اللہ تمہارا ربّ۔ پس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
پس کسی کے بہکاوے میں آنے کی بجائے اس خدا سے تعلق جوڑو جس نے تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہاری بقا کے سامان پید افرمائے۔ زمین و آسمان کی بے شمار مخلو ق تمہاری خدمت کے لئے لگائی۔ تمہیں خوبصورت شکل عطا کی، تمہیں رزق بخشا۔ یہ سب چیزیں، یہ سب باتیں تمہیں اس طرف توجہ دلاتی رہیں کہ تمہارا ایک ربّ ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے، اس کے آگے جھکے رہو گے تو انعامات میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
شکر گزار بندے بنو گے تو اور اضافہ ہو گا،اَور ملے گا، تمہاری جسمانی او ر روحانی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں گی۔
پھر فرمایا

ھُوَالْحَیُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّاھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (المومن 66:)

وہی زندہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے اُسے پکارو۔ کامل تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
تو یہ ساری آیتیں لگاتا ر اسی طرف توجہ دلا رہی ہیں، ایک ہی سورۃ کی آیتیں ہیں اور ترتیب وار ہیں۔ پھر دوبارہ اسی پر زور دے رہا ہے، فرماتا ہے کہ ان جسمانی اور روحانی نعمتوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھو اور ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے خالص ہو کر اللہ کی عبادت کرو کیونکہ و ہی زندہ خدا ہے، باقی ہر چیز کو فناہے۔ پس دنیا کی فانی چیزوں کے پیچھے نہ دوڑو بلکہ اس زندہ خدا سے تعلق جوڑو جو کل کائنات کا ربّ ہے کیونکہ اسی میں تمہاری روحانی اور جسمانی بقا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ بار بار ہمیں جن مختلف انعاموں اور احسانوں کا ذکر فرما کر اس طرف توجہ دلا رہا ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اسے ہی ربّ العالمین سمجھیں تو یہ سب ہماری بہتری کے لئے ہے اسے پتہ ہے کہ انسان جلد شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے اس لئے بچتا رہے۔ پس یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ ہمارا ربّ جو بہت پیار کرنے والا ربّ ہے، ہمیں ہمارے بہتر انجام کے راستے دکھا رہا ہے کہ یہ راستے ہیں جن پر چل کر ہم اپنا انجام بہتر کر سکتے ہیں ورنہ شیطان تو راستے پہ کھڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جو ہمارا ربّ ہے اس کو تو ہماری کسی بات کی ضرورت نہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے نیک کاموں پر خوش تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس لئے نہیں کہ اس کو ضرورت ہے کہ بندے اس کی تعریف کریں یا اس کی عبادت کریں۔ اس کی خوشی اس لئے ہے کہ اس کے بندے نیک رستے پر چلنے والے ہیں، جہنم کے عذاب سے بچنے والے ہیں۔ اپنے نیک بندوں اور جو سیدھے راستے پر لوٹ آنے والے ہوں،کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو اس ماں سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس کو اپنے گم شدہ بچے کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے۔
نیک کام کرنے پر ہمارا رب کس طرح نوازتا ہے، اس کا ایک حدیث میں ذکر آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو پاک کمائی میں سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرے اور پاکیزہ چیز ہی اللہ کی طرف جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے پھر اسے بڑھاتا جاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھیرے (گھوڑے کے بچے) کی پرورش کرتا ہے۔
(بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالٰی تعرج الملئکۃ والروح الیہ وقولہ الیہ یصعد الکلم الطیب۔)
گھوڑے کا بچہ تو ایک عمر تک آکے رک جاتا ہے۔ فرمایا یہ جو تم صدقے کرتے ہو وہ یہاں تک بڑھاتا ہے کہ وہ پہاڑ جیسا بڑا ہو جاتا ہے۔
تو یہ ہیں ہمارے ربّ کے احسان کرنے کے معیار۔ کیا ایسے ربّ کو چھوڑ کر بندہ کسی اور طرف جانا پسند کرے گا یا کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن لاشعوری طور پر ہم سے کئی ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوتی ہیں، اس کی تعلیم کے خلاف ہوتی ہیں، اس کے احکامات کے خلاف ہوتی ہیں۔ تو اس لئے ہمیشہ اس کی مغفرت طلب کرتے رہنا چاہئے اور مغفرت طلب کرنے کے راستے بھی ہمارے اسی ربّ نے ہمیں دکھائے ہیں اور سکھائے ہیں تاکہ یہ انعاموں اور احسانوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ میرے سے استغفار کرتے رہو، میرے سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو تاکہ مَیں تم پرانعامات اور احسانات کی بارش کرتا رہوں۔
پس اس زمانے میں ہر احمدی کو چاہئے کہ ہمیشہ

رَبُّنَا اللہ

کو اپنے ذہن میں دوہراتا رہے،جبکہ ہر ایک نے بہت سے ربّ بنائے ہوئے ہیں جو ظاہری نہیں چھپے ہوئے ہیں، شرک انتہا کو پہنچا ہوا ہے، زمانے کے امام کا انکار کرکے خود مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کو محدود کر دیا ہے اور کر رہے ہیں کہ زمانے کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نبی نہیں بھیج سکتا جبکہ اس کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ضرورت کا اظہار کر رہے ہیں، دوسری طرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کے بھی انکاری ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے مَیں اس صفت کے تحت بغیر مانگے بھی دیتا ہوں اور حالات کو بہتر کر رہا ہوتا ہوں، تو یہاں مانگا بھی جا رہا ہے تب بھی نہیں دے رہا اس لئے کہ خود انہوں نے اس صفت کو محدو د کر دیاہے۔ جوآیا ہوا ہے اس کو ماننے کو تیار نہیں، یہ تصور ہی نہیں کہ کوئی نبی یا مصلح آ سکتا ہے اور یہ لوگ پھر اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں، بے امنی اور بے سکونی کی کیفیت خاص طور پر مسلمان ملکوں میں ہر جگہ طاری ہے، تو ان حالات میں ایک احمدی ہی ہے جسے اپنے اللہ کی ربوبیت کا صحیح فہم و ادراک ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر ہم نے بھی اپنے فرض ادا نہ کئے، اپنی عبادتوں کو زندہ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے نہ بنے اور اس انعام اور احسان کی قدر نہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس تعلیم کے مطابق اپنے آپ کو نہ ڈھالا جو آپ نے ہمیں دی ہے اور جو آپ ہم پر لاگو کرنا چاہتے تھے، ہم میں دیکھنا چاہتے تھے، جس کی آپ ہم سے توقع رکھتے ہیں ،تو ہمارے دعوے پھر صرف دعوے ہی ہوں گے کہ ہم نے اپنے ربّ کو پہچان لیا ہے اور ہم اس کی عبادت کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ صرف دعووں پہ تو جو زائد انعامات ہیں وہ نہیں دیا کرتا، اللہ تعالیٰ نے کہا ہے خالص ہو کر میرے آگے جھکو۔
اللہ کرے کہ ہم حقیقی معنوں میں اپنے ربّ کی پہچان کرنے والے ہوں تاکہ دوسروں کو بھی اس حسن سے آگاہ کرسکیں اور دنیا میں ایک ربّ کی عبادت کرنے والے زیادہ سے زیادہ پیدا ہوں تاکہ امن اور سکون قائم ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں