خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 19؍ اگست 2005ء

اگر اصلاح معاشرہ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں تو اپنے گھر سے اصلاح شروع کرو۔
آنحضرت ﷺ اپنے ماننے والوں کو اعلیٰ اخلاق پرقائم کرنے کے لئے ہمیشہ نرمی،محبت،شفقت سے پُر نصیحت سے کام لیا کرتے تھے۔
صحابہ کی زندگیوں میں جو ا نقلاب پیداہوا وہ آپ کی تعلیم و تربیت اور اس قوت قدسی کا نتیجہ تھا جو آپ ؐ کو اللہ تعالیٰ سے عطا ہوئی تھی۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 19؍ اگست 2005ء (19؍ ظہور 1384ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ۔ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ (سورۃ ال عمران آیت نمبر165)

ایک زمانہ تھا جب عرب دنیا کے لوگوں کو باہر کی دنیا،دوسری دنیا ایک معمولی حیثیت دیتی تھی اس لحاظ سے کہ بعض علاقے کے لوگوں کو بالکل جاہل اور اجڈ سمجھا جاتا تھا۔ اِکاّ دُکاّ ان کے شہروں میں پکے مکان یا پتھر کے مکان ہوتے تھے اور اکثریت جھونپڑا نما مکانوں میں رہا کرتی تھی۔ اور دیہاتی ماحول تو بالکل ہی عارضی جھونپڑیوں کا ماحول تھا۔ اور جس طرح دنیا ان کو جاہل اجڈ سمجھتی تھی عملاً تہذیب سے یہ بالکل عاری لوگ تھے۔ حالت ان لوگوں کی یہ تھی کہ ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں ہوتی تھیں تو سالوں چلا کرتی تھیں۔
اسی طرح کی ایک لڑائی کا قصہ ہے ایک جنگ کا، کہ ایک دفعہ ایک پرندہ ایک درخت پر گھونسلے میں اپنے انڈوں پر بیٹھا ہوا تھا تو عربوں کے سرداروں میں سے ایک جب وہاں سے گزرا اس نے اس کی طرف پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اس کو دیکھ کر کہا کہ تو میری پناہ میں ہے۔ اگلے دن گیا تو دیکھا کہ وہ انڈے ٹوٹے پڑے ہیں، زمین پہ گرے ہوئے ہیں، گھونسلہ بھی بکھرا ہوا ہے اور وہ چڑیا یا جو بھی پرندہ تھا بڑی درد ناک حالت میں درخت پر بیٹھا تھا۔ اس شخص نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک اونٹنی نظر آئی جو وہاں چر رہی تھی، اسے یقین ہوگیا کہ یہ گھونسلہ گرانے والی یہی اونٹنی ہے۔ وہ اونٹنی ایک دوسرے قبیلے کے کسی سردار کے کسی مہمان کی تھی۔ وہ اس کے پاس گیا کہ آج تومَیں نے اس اونٹنی کو چھوڑ دیا ہے لیکن اگر آئندہ یہ اس طرف آئی تو مَیں اس کومار دوں گا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد وہ اونٹنی اس پہلے شخص جس نے یہ وارننگ دی تھی اور چڑیا کو پناہ دی تھی اس کے ریوڑ کے ساتھ مل کر پانی پینے لگی۔ جانور مل جایا کرتے ہیں۔ اس نے اُس اونٹنی کو تیرمار دیا۔ وہ زخمی ہو کے دوڑی اور جہاں اس کا مالک ٹھہرا ہوا تھا وہاں دروازے پہ جا کے گری اور مر گئی۔ تو جس شخص کا یہ مہمان تھا جس کی اونٹنی مری وہاں شور پڑ گیا کہ دیکھو جی ہماری عزت برباد ہو گئی، ہمارے مہمان کی اونٹنی کو مار دیا۔ اس نے اس اونٹنی مارنے والے کو جا کے قتل کر دیا۔ اور اس طرح جنگ شروع ہوئی اور 40سال تک یہ جنگ جاری رہی۔ اس کی ایک لمبی تفصیل ہے، مَیں نے مختصر طور پر بتایا ہے۔
تو یہ تھی اس وقت عرب کے اجڈ پنے اور جہالت کی حالت۔ اور ان عربوں کو اپنی ان باتوں پر بڑا فخر تھا۔ عورت کی عزت نہیں تھی، لڑکی پیدا ہوتی تو اسے مار دیا جاتا۔ تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔شراب خوری، جوا اور زنا کو بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ بڑے فخر سے اس کو بیان کیا جاتا تھا۔ غرض کہ ان لوگوں کے اخلاق انتہائی گرے ہوئے تھے۔ زندگی کا کوئی پہلو بھی لے لو ذلیل ترین حرکتیں ہوا کرتی تھیں۔
پھر وہ زمانہ آیا جس کا اللہ تعالیٰ، اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے، ذکر فرماتا ہے کہ یقینا اللہ نے مومنوں پر احسان کیا جب اس نے ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ وہ ان پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ پس اس نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے سیکھ کر ان لوگوں کو پاک کیا۔ ان کو حکمت کی باتیں سکھائیں۔ ان کو بتایا کہ معاشرے میں کس طرح رہنا ہے، تہذیب کیا ہے، تمدن کیا ہے۔ ان کو خاندان کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی یعنی گھر کی سطح پر بھی جو رشتوں کی ذمہ داریاں ہیں ان کے بارے میں بتایا۔ آپس میں کس طرح ایک دوسرے کو اخلاق دکھانے ہیں اس کے بارے میں بتایا۔اور پھر ایک شہری کی حیثیت سے کس طرح رہنا ہے وہ اخلاق سکھائے، ان کے بارے میں تعلیم دی۔ پھر تم نے اپنے ہمسائے کے ساتھ کس طرح رہنا ہے۔ اس کے کیا اخلاق تمہیں دکھانے چاہئیں۔ تم نے بحیثیت ماتحت کس طرح رہنا ہے، کن اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے۔ تم نے بحیثیت افسر اپنی زندگی کس طرح گزارنی ہے۔ غرض کہ معاشرے کے مختلف درجات میں ایک فرد پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور جس جس حیثیت سے ایک شخص نے جس طرح اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے وہ انہیں سکھایا یعنی اجڈ اور جاہل لوگوں کو بااخلاق انسان بنایا اور پھر انہیں باخدا انسان بنایا۔ وہ لوگ جو خدائے واحد کے تصور سے ناواقف تھے انہیں اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ساتھ ایک خدا کے حضور جھکنے والا اور ا س کا تقویٰ اختیار کرنے والا بنایا اور پھر اعلیٰ اخلاق کے بھی ایسے نمونے ان سے قائم کروائے جو مثال بن گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ انقلاب اس رسول اور معلّمِ اخلاقﷺ کی تعلیم سکھانے اور اس کے خداتعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے جو آپ ﷺ کو قوت قدسی عطا ہوئی اس کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں ہے جس میں آپؐ نے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم نہ کئے ہوں۔ اور نہ صرف خود قائم کئے بلکہ اپنے ماننے والوں میں بھی قائم فرمائے۔ ان سب کو بیان کرنا تو ممکن نہیں، چند مختلف نمونوں کو مَیں مختلف جگہوں سے پیش کرتا ہوں جس سے آپؐ کے معلم اخلاق ہونے کی کچھ جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہم پر اس احسان کی وجہ سے اس کے آگے سر جھکتا ہے کہ ہم آنحضرت ﷺکے ان اخلاق کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ آپؐ نے اپنی امت سے یہی توقع رکھی ہے کہ امت کا ہر فرد اُن اعلیٰ اخلاق کو اپنائے۔
اپنے ماننے والوں کو بااخلاق اور باخدا بنانے کے لئے آپ ﷺ نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کیا کہ

وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ (الذاریٰت:56)

اور توُ نصیحت کرتا چلا جا پس یقینا نصیحت مومنوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ آپؐ کی نصیحت کا انداز بھی عجیب تھا۔آپؐ کو اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم تھا کہ نرمی اور پیار سے اپنے ماننے والوں سے سلوک کرنا ہے۔ اس لئے آپؐ نے اپنوں یعنی اپنے قریبی عزیزوں ،بچوں سے بھی سمجھانے کے لئے نرمی اور محبت اور شفقت کے سلوک فرمائے اور امت کے دوسرے افراد سے بھی،اپنے صحابہؓ سے بھی۔ اور ہمیشہ اس حکم کو مدنظر رکھا کہ تیرا کام نصیحت کرنا ہے آرام سے نصیحت کرتا چلا جا۔ اور ایک اعلیٰ معلم کا یہی نمونہ ہونا چاہئے۔ آپؐ نے ہمارے سامنے یہ نمونہ قائم کیا کہ اگر اصلاح معاشرہ کے لئے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں تو اپنے گھر سے اصلاح شروع کرو۔ اس کا اثر بھی ہو گا اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ۔ان راستوں پر چلو اور ان کو چلاؤ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے جانے والے راستے ہیں، جو اعلیٰ اخلاق حاصل کرنے والے راستے ہیں۔ اور آپ ﷺ نے جن پر شرعی احکامات کا خاتمہ ہوا، آخری شرعی نبی تھے آپؐ نے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے تھے۔ چنانچہ چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی آپؐ اپنے گھر والوں کو توجہ دلاتے اور ان کی تربیت فرماتے تھے، لیکن انتہائی صبر سے، حوصلے سے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ چھ ماہ تک فجر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے حضرت فاطمہؓ کے دروازے کے پاس سے یہ فرما کر گزرتے رہے کہ: اے اہل بیت! نما ز کا وقت ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ

اِنَّمَا یُرِیْدُاللہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا (الاحزاب:34)۔

کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے۔
(ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ الاحزاب)
یہ ہے نصیحت کا عمدہ طریقہ۔ کوئی غصہ نہیں لیکن مسلسل نصیحت ہے۔ اپنے گھروالوں کو، اپنے بچوں کو ان کے مقام اور
ذمہ داریوں کی طرف احساس بھی دلایا جا رہا ہے کہ تمہارا اصل کام خداتعالیٰ کی طرف جھکنا اس کی عبادت کرنا ہے اور اس میں معیار قائم کرنا ہے۔
ایک اور حدیث میں اسی طرح نصیحت کرنے کا ذکر آتا ہے اور اس سے آپؐ کے نصیحت کے رنگ اور وصف کا پتہ لگتا ہے۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم ﷺ رات کو ہمارے گھر تشریف لائے۔اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لئے بیدار کیا۔پھر آپؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے۔ اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں مَیں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہا خدا کی قسم! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں۔ ہماری جانیں اللہ کے قبضے میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اٹھا دے۔ رسول کریم ؐ واپس لوٹے۔ آپؐ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے میرا ہی فقرہ دوہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے پھر یہ آیت تلاوت کی کہ

وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْء جَدَلًا (سورۃ الکہف:55)

کہ انسان اکثر باتوں میں بحث کرنے والا ہے۔ (مسند احمدجلد 1صفحہ91)
تو آپؐ ڈانٹ بھی سکتے تھے، سرزنش بھی کر سکتے تھے لیکن بڑے آرام سے نصیحت فرمائی۔ یہ بھی بچوں کو سمجھا دیا کہ یہ تو مَیں سمجھاتا رہوں گا بتاتا رہوں گا، بلاتا رہوں گا، میرا کام نصیحت کرنا ہے اور یہ جو تم نے بات کی ہے یہ غلط ہے۔ بہت بحث کرنے والا انسان ہے۔ بحث کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
آپؐ چاہتے تھے کہ آپؐ کی اولاد سادگی سے زندگی بسر کرنے والی ہواور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو عبادت کرنے والی ہوا ور اس میں معیار حاصل کرنے والی ہو۔ دنیا کی چیزوں سے انہیں کوئی رغبت نہ ہو۔ لیکن یہ بات پیدا کرنے کے لئے آپؐ نے کبھی سختی نہیں کی۔ یا تو آرام سے سمجھاتے تھے یا اپنے رویّے سے اس طرح ظاہر کرتے تھے کہ ان کو خود ہی احساس ہو جائے۔
چنانچہ اس ضمن میں ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ثعبانؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺجب کسی سفر پر جاتے تو سب سے آخر پر اپنے گھر والوں میں سے حضرت فاطمہؓ سے ملتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے جاتے۔ ایک مرتبہ جب آپؐ ایک غزوہ سے واپس تشریف لائے تو حضرت فاطمہ کے ہاں گئے۔ جب دروازے پر پہنچے تو دیکھا کہ دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا تھا اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما نے چاندی کے دو کڑے پہنے ہوئے تھے۔آپؐ کے بڑے لاڈلے نواسے تھے۔ جب آپؐ نے یہ دیکھا آپؐ گھر میں داخل نہ ہوئے۔ بلکہ واپس تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ بھانپ گئیں کہ آپﷺکو ان چیزوں نے گھر میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے پردہ پھاڑ دیا اور بچوں کے کڑے لے کر توڑ دئیے۔اور اس کے بعد دونوں بچے روتے ہوئے حضور ﷺ کے پاس گئے۔ حضور ﷺ نے ان میں سے ایک بچے کو اٹھایا اور راوی کہتے ہیں کہ مجھے ارشاد فرمایا کہ اس کے ساتھ مدینہ میں فلاں کے ہاں جاؤ اور فاطمہ کے لئے ایک ہار اور ہاتھی دانت کے بنے ہوئے دو کنگن لے آؤ اور پھر فرمایاکہ مَیں اپنے اہل خانہ کے لئے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس دنیا میں ہی تمام آسائش اور آسانیاں حاصل کر لیں۔
(سنن ابی داؤد کتاب الترجیل باب فی الانتفاع بالعاج4213)
چاندی کیونکہ اس زمانے میں بھی زیب و زینت کی علامت سمجھی جاتی تھی اس لئے پسند نہ فرمایاکہ میرے بچے یہ چیزیں پہنیں۔ بہرحال جو دوسری سادہ چیزیں تھیں منگوا بھی دیں۔
آپؐ جو اپنی بیویوں اور بچوں کے اعلیٰ اخلاق دیکھنا چاہتے تھے اور ان کو اعلیٰ اخلاق پر قائم دیکھنا چاہتے تھے آپ کو یہ برداشت نہ تھا کہ آپ کے قریبی کوئی ایسی بات کریں جو کسی کا دل دکھانے والی ہو۔ اس لئے ذرا ذرا سی بات کی بھی آپ اصلاح فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں چھوٹے قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذاق کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو صفیہ کے بارے میں یہ باتیں ہی کافی ہیں۔ ان کے چھوٹے قد پر طنز کیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا کلمہ ہے کہ اگر یہ سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کو بھی مکدّر کر دے۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ)
تو آپ نے بڑے آرام سے ان کو یہ سمجھایا کہ میرے سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے معیار اخلاق بہت اونچے ہونے چاہئیں۔ اس چھوٹی سی مذاق میں کی گئی بات کو گو اس میں طنز بھی شامل تھا، عام طور پہ معمولی سمجھا جاتا ہے لیکن آپ نے اس کا بھی نوٹس لیا کیونکہ جس کے بارے میں بات کی جا رہی ہے، جب اس کو پہنچتی ہے تو اس کے لئے تو وہ بہت بڑی بات بن جاتی ہے۔ اور آپؐ نے طنز سے کراہت کا اظہار بھی فرما دیا۔ بات کرنے والے کو بڑے اچھے انداز میں اس طرف توجہ بھی دلا دی کہ جس کو تم مذاق سمجھ رہی ہو یہ اتنی بڑی بات ہے جس سے معاشرے میں فساد پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور میرے قریبیوں کے اخلاق کے معیار اتنے اونچے ہونے چاہئیں کہ کبھی ذرا سی بھی ایسی بات نہ ہو جس سے کسی بھی قسم کا جھگڑا پیدا ہو۔اور مثال دے کر یہ فرمایا کہ بظاہر یہ چھوٹی باتیں ہیں جو اپنے اندر اتنا گند لئے ہوئے ہیں کہ سمندر کا پانی جس کی انتہا نہیں ہوتی اس میں بھی اگر اس گند کو ڈالا جائے تو اس کو بھی یہ خراب کر دے۔ تو یہ ہیں اعلیٰ اخلاق، اور کس خوبصورت طریقے سے آپؐ نے سمجھایا۔
گھر والوں کو یہ اعلیٰ اخلاق سکھانے کے بارے میں ایک اور روایت ہے۔ کسی نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ مجھے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ کی بابت بتلائیں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کیا تم قرآن میں یہ نہیں پڑھتے۔

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔(القلم:5)

پھر آپؓ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تھے۔ مَیں نے آپ کے لئے کھانا تیار کیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی کھانا تیار کیا۔ اور حفصہ نے مجھ سے پہلے کھانا تیار کرکے بھجوا دیا میں نے اپنی خادمہ سے کہا جاؤ اور حفصہ کے کھانے کا برتن انڈیل دو۔ اس نے آنحضورﷺ کے سامنے کھانے کا پیالہ رکھتے ہوئے انڈیل دیا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا اور کھانا زمین پر بکھر گیا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالے کے ٹکڑوں اور کھانے کو جمع کیا اور چمڑے کے دستر خوان پر رکھا اور وہاں سے اس بچے ہوئے کھانے کو کھایا اور پھر میرا پیالہ حضرت حفصہ کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا کہ اپنے برتن کے عوض یہ برتن رکھ لو اور جو اس برتن میں ہے وہ بھی کھاؤ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ لیکن آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر کوئی ایسے آثار نہیں تھے جس سے بہت زیادہ ناراضگی کا اظہار ہوتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب الحکم فیمن کسر شیئًا۔حدیث نمبر 2333)
لیکن آپؐ نے بڑے آرام سے سمجھا دیا۔تو اپنے عملی نمونے سے یہ بتایا کہ جو تم نے حرکت کی غلط کی۔ اور سزا یہ ہے کہ تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا۔ یہی کھاؤں گا جو تم نے ضائع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور جو پیالہ تم نے توڑا ہے اس کے بدلے میں بھی تم اپنے پاس سے دو۔ اور جو کھانا میرے لئے بنایا تھا اب وہ مَیں نہیں کھاؤں گا بلکہ وہ بیوی کھائے گی جس سے زیادتی ہوئی ہے۔ لیکن بڑے تحمل سے، بغیر غصے کے یہ سب باتیں سمجھا دیں کہ کسی سے بھی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔اور یہ بات بھی سمجھا دی کہ یہ جو آپس کی Jealousies ہیں ان کو بھی اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے سے اعلیٰ اخلاق دکھائے جائیں۔ اور اب اس کا طریقہ یہی ہے کہ اب اپنا پیالہ لوٹاؤ۔ یہ ویسے بھی حکم ہے کہ تحفے کو احسن طریق پر لوٹایا جائے اس لئے اب احسن طریق یہی ہے کہ جو کھانا میرے لئے تیار کیا گیا تھا وہ بھی ان کو واپس بھجوا دیا جائے۔
تو یہاں اگر اس طرح عمل کیا جائے، اگر عورتیں عمل کریں تو دیکھیں ہر سطح پررشتے کتنے مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بچوں کو اعلیٰ اخلاق سکھانے اور نصیحت کرنے کا انداز بھی آپؐ کا بڑا عجیب اور پیارا ہوتا تھا۔ ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔
ابو رافع بن عمرو کے چچا سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں ابھی بچہ ہی تھا تو انصار کی کھجوروں پر پتھر مار مار کر پھل گرایا کرتا تھا۔ آنحضرت ﷺ کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ ؐسے عرض کیا گیا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو ہماری کھجوروں کو پتھر مارتا اور پھل گراتا ہے۔ چنانچہ مجھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو آپؐ نے پوچھا کہ اے لڑکے تو کیوں کھجوروں کو پتھر مارتا ہے۔ میں نے عرض کیا تاکہ میں کھجوریں کھا سکوں۔ فرمایا کہ آئندہ کھجور کے درخت کو پتھر نہ مارنا۔ ہاں جو پھل گر جائے اسے کھا لیا کر۔ پھر آپ نے میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر ا اور دعا دی۔ کہ اے میرے اللہ! اس کا پیٹ بھر دے۔ (مسنداحمد بن حنبل جلد 5صفحہ31مطبوعہ بیروت)
پتھر مارنے سے تو ہر قسم کی کچی پکی کھجوریں گر جاتی ہیں۔ دوسرے درختوں پہ بھی پھل ضائع ہو جاتا ہے،۔ نقصان ہوتا ہے بلاوجہ کا۔ اس لئے آپ ؐ نے اس سے منع فرمایا۔ لیکن اگر بھوک لگی ہوئی ہے، بہت برا حال ہے، تو فرمایاجو نیچے پکی ہوئی گری ہوتی ہیں ان میں سے کھا لیا کرو۔ لیکن سب سے اچھی بات جو مَیں تمہارے ساتھ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ تمہیں د عا دیتا ہوں کہ ایسے کھانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ تمہارا پیٹ یا حرص یا لالچ جو بھی ہے اگر ہے تو بھرا رہے تاکہ تم کبھی کسی دوسرے کی چیز پہ نظر نہ رکھو۔ اور یہی اعلیٰ اخلاق بھی ہیں۔ دوسرے دعا دے کر اس بچے کو بھی اس طرف توجہ دلا دی کہ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہئے اور جو جائز طریقے ہیں ان کو اختیار کرنا چاہئے۔
اس سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ کل ہی مجھے کسی نے بتایا کہ ہمارے بیت الفضل کے قریب ایک خاتون گزر رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے بچے کو ایک تھیلا دے کر بھیجا،کسی گھر کے سیب باہر نکلے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ جاؤ اور توڑ لاؤ۔ اور جب گھر والا باہر نکلا تو فوراً روانہ ہو گئیں اگر تو جائز سمجھ رہی تھیں تو نہیں رکنا چاہئے تھا۔ اور یوں اس بچے کو بھی عادت پڑ گئی کہ شاید اس طرح کی چیزیں توڑنا جائز ہے۔ تو اس میں قصور اس بچے کا نہیں بلکہ اس ماں کا تھا۔
اگر بچوں کے اعلیٰ اخلاق ہو جائیں، ان کی تربیت ہو جائے تو آئندہ نسلوں میں بھی وہی اخلاق رائج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک بچے کو کھانے کے آداب سکھاتے ہوئے فرمایا ایک روایت میں اس کا ذکر آتا ہے۔ حضرت عمر بن ابی سلمی رضی اللہ عنہ جو آنحضرت ﷺ کے ربیب تھے، حضرت ام سلمیٰ کے بیٹے تھے بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں آنحضرت ﷺ کے گھر رہتا تھا۔ کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ تیزی سے تھالی میں ادھر ادھر گھومتا تھا۔ یعنی بے صبری سے جلدی جلدی کھاتا اور اپنے آگے کا خیال بھی نہیں رکھ رہا تھا۔ حضورؐ نے میری اس عادت کو دیکھ کر فرمایا کہ کھانا کھاتے وقت بسم اللہ پڑھو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔ حضورؐ کی یہ نصیحت میں ہمیشہ یاد رکھتا ہوں اور اس کے مطابق کھانا کھاتا ہوں۔ (بخاری کتاب الاطعمۃ باب التسمیۃ علی الطعام والاکل بالیمین)
دیکھیں بچپن سے ہی اس خُلق کی طرف توجہ دلائی، ان اعلیٰ اخلاق کی طرف توجہ دلائی، کھانا کھانے کے آداب کی طرف توجہ دلائی کہ ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھاؤ تاکہ تمہیں یہ احسا س بھی رہے کہ سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ پھر یہ کہ گنواروں کی طرح نہ کھاؤ۔ اب تم وہ اجڈ اور جاہل عرب کے شہری نہیں رہے بلکہ تم میں وہ نبی مبعوث ہو چکا ہے جس نے اعلیٰ اخلاق قائم کرنے ہیں اس لئے تم لوگوں کو کھانا کھانے کے آداب بھی آنے چاہئیں۔
ابتدائی زمانے میں جولوگ مسلمان ہوئے تھے جب وہ مختلف باتیں سیکھتے تھے یعنی جو کچھ بھی آنحضرتﷺسے سیکھا یا آپ ؐ کے صحابہ سے سیکھا تو ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔۔ اور بعض دفعہ کم علمی کی وجہ سے یہ نہیں پتہ ہوتا تھا کہ کون سا عمل موقع کی مناسبت سے جائز ہے اور کون سا نہیں۔ بعض بے موقع باتیں ہو جاتی تھیں لیکن آپ ﷺ بڑے تحمل سے اصلاح فرمایا کرتے تھے،سمجھایا کرتے تھے کہ کونسی بات کس موقع پر کہنی ہے،کس طرح عمل کرنا ہے۔
حضرت معاویہ بن الحکم السُلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں رسول کریمﷺ کے پاس آیا تو مَیں نے حضورﷺ سے اسلام کے بارے میں باتیں سیکھیں۔ ان میں سے ایک بات جو مجھے بتائی گئی وہ یہ تھی کہ جب تجھے چھینک آئے تو تو اَلْحَمْدُلِلہ کہہ۔ اور جب چھینک مارنے والا اَلْحَمْدُلِلہ کہے تو تو یَرْحَمُکَ اللہ کہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نماز میں رسول کریم ﷺکے ساتھ کھڑا تھا کہ اسی اثناء میں ایک شخص نے چھینک ماری اور اَلْحَمْدُلِلہ کہا تو میں نے جواباً بلندآواز سے یَرْحَمُکَ اللہ کہہ دیا۔ اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے جو کہ مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مَیں نے کہا تم مجھے کیوں تیز نظروں سے گھورتے ہو۔ اس پر لوگوں نے سُبْحَانَ اللہ کہا۔ جب رسول کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ بولنے والا کون تھا۔ اشارہ کرکے بتایا گیا کہ یہ بدوی باتیں کر رہا تھا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہوتی ہے۔ پس جب تو نماز پڑھ رہا ہو تو تو یہی کام کیا کر۔ راوی کہتے ہیں (جو بیان کررہے ہیں اور جس پر لوگوں نے گھورا تھا) کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے زیادہ نرمی سے بات کرنے والا مُعلّم اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔(سنن ابوداؤد کتاب ا لصلوٰۃ باب تشمیت العاطس فی الصلوٰۃ)
دیکھیں نئے آدمی کو کس خوبصورتی سے نماز کے آداب بھی سکھا دئیے، تقدس بھی بتا دیا اور اس خوبصورت انداز کا اس بدوی پر بھی ایسا اثر ہوا جو ساری عمر رہا۔ یہی لوگ تھے جو اسلام سے پہلے ان چیزوں یا ان باتوں کے سکھانے والوں سے بڑی سختی سے پیش آیا کرتے تھے یا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
ایک اعلیٰ خلق سچ بولنا اور سچ کا قیام ہے اور جھوٹ سے نفرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک اور جھوٹ سے اجتناب کا ایک ہی جگہ ذکر فرمایا ہے۔ اس لئے آپؐ بچوں کو بھی پہلا سبق یہی دیا کرتے تھے کہ سچ بولو۔ اور ماؤں اور باپوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ ان کو سچ سکھاؤ۔اس طرح پر ہر نئے مسلمان ہونے والے کے لئے بھی یہی سبق ہوتا تھا کہ سچائی کو اختیار کرو، ہمیشہ سچ بولو۔ اب سچ کو قائم کرنے کے لئے اور بچوں میں اس کو راسخ کرنے کے لئے کتنا اس کا خیال رکھا کرتے تھے، اس بات کا ایک روایت سے پتہ لگتا ہے۔
عبداللہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے۔مَیں اس وقت کم سن بچہ تھا۔ مَیں کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہ ادھر آؤ میں تمہیں چیز دوں گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے جواب دیا کہ ہاں میں کھجور دوں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہو تا اور صرف بچے کو بلانے کے لئے ایسا کہا ہوتا تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا۔
(مسند احمد،حدیث عبداللہ بن عامر۔ؓ جلد 3صفحہ 447)
اب دیکھیں اس چھوٹی عمر میں آنحضرت ﷺ کی یہ نصیحت بچے کے ذہن پر نقش ہو گئی۔ اب جس بچے کی اٹھان ایسے ماحول میں اور ان نصیحتوں کے ساتھ ہوئی ہو وہ کبھی زندگی بھر جھوٹ بول سکتا ہے؟ اور ایسے ہی تربیت یافتہ بچے ہوتے ہیں جو پھر دنیا کو سچائی دکھانے والے بن جاتے ہیں۔
پھرجھوٹ سے ناپسندیدگی کے بارے میں یوں نصیحت فرمائی۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ اور اس کے مطابق عمل اور جہالت کو نہیں چھوڑتا پس اللہ کواس کا کھانا پینا چھوڑنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ (بخاری کتاب الادب باب قول اللہ تعالیٰ واجتنبوا قول ا لزور۔ حدیث 6057)۔یعنی روزے رکھ کر اگر جھوٹ بول رہے ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اصل مقصد تو نیک تبدیلی پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ نہیں کر رہے تو جس اللہ کی خاطر روزے رکھے جا رہے ہیں اس نے تو جھوٹ سے منع کیا ہے۔ اپنے عمل سے تو تم جھوٹے خدا،کے سامنے کھڑے ہو رہے ہو۔ پس اللہ کی عبادت کرنا اور پھر جھوٹ بھی بولنا یہ دونوں چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں اور اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہیں۔
ایک دفعہ ایک شخص کو آپؐ نے فرمایا کہ اگر تم تمام برائیاں نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ چنانچہ اس ایک برائی کے چھوڑنے سے آہستہ آہستہ اس کی تمام برائیاں دور ہو گئیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے ذکرکر چکا ہوں کہ جھوٹ شرک کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔ اس لئے آپؐ کو جھوٹ سے شدید نفرت تھی۔ یہ ایسی برائی ہے جو انسان کو تباہی کے گڑھے میں لے جاتی ہے۔ آپؐ اپنی امت کو اس سے بچنے کے لئے شدت سے نصیحت فرمایا کرتے تھے۔
چنانچہ روایت میں آتا ہے عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے تین بار فرمایا کیا میں تمہیں گناہ کبیرہ کے متعلق نہ بتاؤں۔ہم نے عرض کی یا رسول اللہ! کیوں نہیں۔ آپؐ نے فرمایا، گناہ کبیرہ یہ ہیں : اللہ کا شرک، والدین کی نافرمانی، آپؐ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، اٹھ بیٹھے اور فرمایا اور غور سے سنو کہ جھوٹ اور جھوٹی گواہی، غور سے سنو جھوٹ اور جھوٹی گواہی۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ یہ فرماتے چلے گئے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ کاش حضورؐ خاموش ہو جائیں۔(بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین)۔ تو جس شدت سے آپؐ نے اس سے بچنے کی نصیحت فرمائی ہے اس شدت سے ہمیں بھی اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور بظاہر معمولی سی بھی غلط بیانی سے بچنا چاہئے۔ جیسا کہ اس بچے کی ماں کو آپؐ نے فرمایا تھا کہ اگر تم اس بچے کو کچھ نہ دیتیں تو یہ بھی جھوٹ ہوتا۔ یہ ایسی چیز ہے جو آج کل عام ہوئی ہوئی ہے۔ مذاق مذاق میں بھی اتنے جھوٹ بولے جا رہے ہوتے ہیں کہ جس کی انتہا نہیں۔ ہر احمدی کو جس کے اندر بھی ہو، اپنے اندر سے اس برائی کو جڑ سے اکھیڑنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر آپؐ بڑے حوصلے سے برداشت کیاکرتے تھے اور اگر کوئی انتہائی ناپسندیدہ شخص بھی آپؐ کے پاس آ جاتا اس سے بھی آپؐ کبھی بداخلاقی سے پیش نہیں آئے بلکہ بڑے حوصلے سے اس کی بات سنا کرتے تھے۔ اور اگر کوئی غلط حرکت کر جاتا تھا تو اس کو بھی بڑے اچھے طریقے سے برداشت کر لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ بعض بدّو گاؤں کے لوگ آیا کرتے تھے جو بعض حرکتیں کر جاتے اور صحابہ کو اس پر بڑا غصہ چڑھا کرتا تھا۔ لیکن آپ ﷺ نہایت خوشی سے اچھے طریقے سے سمجھا دیتے تھے لیکن کبھی غصہ نہیں کیا۔
ایک روایت میں ذ کرآتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجدمیں ایک اعرابی آیا اور وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگ اس کی طرف لپکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کرتے ہوئے فرمایا۔ اس کو چھوڑ دو اور جہاں اس نے پیشاب کیا ہے وہاں پانی کا ڈول بہا دو۔ تم لوگوں کی آسانی کے لئے پیدا کئے گئے ہو نہ کہ تنگی کے لئے۔ (بخاری کتا ب الوضوء با ب صب الماء علی البول فی المسجد۔220)
ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ بعد میں وہ بدُّو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا ہمیشہ تذکرہ کیا کرتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ رسول کریم ﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپؐ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا۔ مجھے کوئی گالی نہیں دی۔ سرزنش نہیں کی، مارا پیٹا نہیں بلکہ آرام سے سمجھا دیا۔ تو دیکھیں ایک اَن پڑھ کو پیار سے سمجھانے سے ہی اس کی کایا پلٹ گئی۔
پھر بدظنی ایک ایسی برائی ہے بلکہ ایک زہر ہے جو معاشرے میں فساد پیدا کر دیتی ہے اور ایک چھوٹی سی بدظنی کی وجہ سے بھی خاندانوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے،رشتوں میں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ عہدیداروں کے خلاف نفرتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ عہدیداروں کے دلوں میں لوگوں کے خلاف نفرتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

یٰٓاَیُھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ (سورۃ الحجرات آیت ۱۳)

کہ اے لوگو!جو ایمان لائے ہو ظن سے بکثرت اجتناب کیا کرو۔ کیونکہ بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی بدظنی سے بچنے کے نمونے دکھائے ہیں تاکہ کسی کمزور ایمان والے کے لئے ٹھوکر کا باعث نہ ہو۔ آپؐ اس پیارے انداز میں نصیحت فرماتے تھے کہ دوسرا شخص نہ صر ف نصیحت کا اثر لیتا تھا بلکہ شرمندہ بھی ہوتا تھا۔
روایت میں ایک واقعہ کا ذکر آتا ہے جو بظاہر چھوٹا سا ہے لیکن آپؐ نے برداشت نہ کیا کہ آپؐ جو معلّم اخلاق ہیں آپؐ کے بارے میں کسی فاسد دل میں کوئی خیال پیدا ہوجس سے دوسروں کو، مخالفین کو باتیں کر نے کا موقع ملے۔
حضرت ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺایک دفعہ اعتکاف میں تھے۔ مَیں رات کے وقت آپؐ سے ملنے آئی۔ کچھ دیر باتیں کرتی رہی۔ جب واپس جانے کے لئے اٹھی تو حضور ﷺ بھی کچھ دور چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ تشریف لے گئے۔ ہم دونوں جا رہے تھے کہ پاس سے دو انصاری گزرے۔ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے آگے نکل گئے۔ آنحضور ﷺ نے ان کو فرمایا :ٹھہرو، یہ میری بیوی صفیہ ہے۔ اس پر ان انصاری نوجوانوں نے عرض کیا: سبحان اللہ! معاذ اللہ! کیا ہم آپؐ پر بدگمانی کر سکتے ہیں۔آپؐ نے فرمایا شیطان انسان میں اس طرح سرایت کر جاتا ہے جس طرح خون رگوں میں چلتا ہے۔ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو اور تم ہلاک نہ ہو جاؤ۔(بخاری کتاب الاعتکاف باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ)۔ یقینا آپؐ کے نور فراست نے بھانپ لیا ہو گا کہ ان لوگوں کے سامنے اظہار ضروری ہے اس لئے کر دینا چاہئے ورنہ یہ کہیں کسی قسم کی بات کر دیں اور پھر فتنہ پیدا ہو۔ اور اپنے ماننے والوں کو یہ سبق بھی دیا کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی ہوتی ہیں جن سے عموماً بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں او ریہی باتیں ہیں جو معاشرے میں فساد کی بنیاد پڑتی ہیں اس لئے ان سے ہمیشہ بچنا چاہئے۔
پھر پڑوسی ہیں، اگر پڑوسی،پڑوسی سے خوش ہو تو اس پڑوسی کو جس سے اس کاپڑوسی خوش ہے اعلیٰ اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے آپؐ نے اپنے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں بہت سی نصائح فرمائی ہیں۔ صحابہؓ بھی اس وجہ سے بہت زیادہ کوشش میں رہتے کہ کس طرح پڑوسی کو خوش رکھیں۔
ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!ﷺ مجھے کس طرح علم ہو کہ مَیں اچھا کررہا ہوں یا برا کررہا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے۔ اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بہت بُرے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا رویہ برا ہے۔ یعنی خود تم اپنے جج نہ بن جاؤ۔ بعض لوگ اپنے آپ کی خود ہی تعریف کرتے ہیں کہ ہم اچھے ہیں۔ بلکہ تمہارے پڑوس تمہارے اچھے ہونے کی گواہی دیں۔ اگر ہر کوئی اس بات پر عمل کرے تو ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہوجاتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا اتنا بڑا خلق ہے کہ جبریل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث ہی نہ بنادے۔ اتنی اہمیت ہے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی۔
پھر حکام کی اطاعت ہے۔ اس بارے میں آپؐ نے ہمیشہ ہی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ حکام کی اطاعت کرنا تمہارا فرض ہے اور اعلیٰ اخلاق کا یہ تقاضا ہے اور اچھا شہری ہونے کا یہ تقاضا ہے کہ اپنے افسر کی اطاعت کرو۔ کوئی حبشی غلام بھی تمہارا امیر مقرر ہو جائے، تمہارا افسر مقرر ہوجائے تو اس کی اطاعت کرو اور پھر جس ملک میں رہ رہے ہو جس کے شہری ہو اس سے محبت کرنے کے بارے میں فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس لیے جہاں یہ اخلاق تقاضا کرتے ہیں کہ اپنے افسروں کی اطاعت کرو اور اپنے وطن سے محبت کرو وہاں یاد رکھو کہ یہ چیزیں ایمان کا حصہ بھی ہیں۔ اس لیے ایک مسلمان کو جس ملک میں بھی وہ رہ رہا ہے ملکی قانون کی پابندی کرتے ہوئے امن اور سکون سے رہنا چاہئے۔
پھر افسروں کو بتایا کہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کیا ہیں۔ اس وقت تمہارے اعلیٰ اخلاق قائم ہوں گے جب تم اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھو گے اور قوم کی خدمت کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لاؤگے۔اپنے ذاتی فوائد حاصل کرنے کی بجائے لوگوں کی خدمت کی طرف توجہ دو گے تو تبھی تم اچھے افسر اور اچھے لیڈر کہلاسکتے ہو۔
غرض کہ بیشمار اخلاق ہیں اور آداب ہیں جو آپؐ نے ہمیں سکھائے اور اپنے عمل سے ان کے معیار قائم کئے۔ کوئی بھی دنیا کا ایسا خُلق نہیں جو اس معلّم اخلاق نے اپنے نمونے سے ہمیں سکھایا نہ ہو اور لوگوں کو بتایا نہ ہو۔ بلکہ یہ توقع رکھی کہ یہ اخلاق نہ صرف اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے ہیں، ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے بلکہ ان کے اعلیٰ معیار بھی قائم کرنے ہیں۔ بعض دفعہ اصلاح کے لیے ناراضگی ہو بھی تو اخلاق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہئے۔ مقصد اصلاح ہونا چاہئے نہ کہ دلوں میں کینہ پیدا ہوجائے یا یہ مقصد ہوکہ کسی سے بدلہ لینا ہے۔ یہ معیار ہیں جوکہ ایک احمدی کو اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں۔
آنحضرت ﷺ کے بارے میں ایک اور روایت آئی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ بداخلاق ترین اشخاص سے بھی کس طرح شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی نے آنحضور ﷺ کے پاس آنے کی اجازت طلب کی۔ آنحضور ﷺ نے اسے دیکھ کر فرمایا یہ اپنے گھرانے میں بہت ہی بُرا بھائی ہے اور اپنے خاندان کا بہت ہی بُرا بیٹا ہے۔ جب وہ آکر بیٹھ گیا تو آنحضور ﷺ نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے نہایت خوش اخلاقی سے گفتگو فرمائی۔ جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! جب آپؐ نے اسے دیکھا تو اس کے بارے میں فلاں فلاں بات کی اور پھر اس سے گفتگو کے دوران آپ نے کمال خندہ پیشانی کا مظاہرہ فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا عائشہ! توُ نے کب مجھ کو بدزبانی کرتے ہوئے پایا۔ یقینا سب سے بُرا آدمی اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ ہوگا جس کی بدی سے ڈر کر لوگ اس کی ملاقات چھوڑ دیں۔(بخاری کتاب الأدب باب لم یکن النبی فاحشاً ولا متفحشًا حدیث 6032)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰؑ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت ﷺ کے حق میں فرمایا ہے۔

اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔(القلم:5)

تو خلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائی کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لیے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں۔ (مکمل طور پر آنحضور ﷺ میں موجود ہیں)۔سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں ‘‘۔
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ606بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ آنحضرت ﷺ کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے۔ آپؐ کیا بلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کے اور کیا بلحاظ اپنی قوت قدسی اور عقد ہمت کے اور کیا بلحاظ اپنی تعلیم کی خوبی اور تکمیل کے اور کیا بلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعاؤں کی قبولیت کے، غرض ہر طرح اور ہر پہلو میں چمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ایک غبی سے غبی انسان بھی (یعنی بیوقوف انسان بھی) بشرطیکہ اس کے دل میں بے جا ضد اور عدوات نہ ہو (ایسا جو ضدی قسم کا آدمی حد سے بڑھ جائے) صاف طور پر مان لیتا ہے کہ آپ

تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ

کا کامل نمونہ اور کامل انسان ہیں ‘‘۔ (الحکم 10؍ اپریل1902ء صفحہ4)
اور پھر اخلاق کو صحابہ میں رائج کرنے کی بھی کوشش فرمائی اور کیا بھی۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:’’ جو تبدیلی آنحضرت ﷺ نے عرب کے وحشیوں میں کی اور جس گڑھے سے نکال کر جس بلندی اور مقام تک انہیں پہنچایا اس ساری حالت کے نقشے کو دیکھنے سے بے اختیار ہو کر انسان روپڑتا ہے کہ کیا عظیم الشان انقلاب ہے جو آپؐ نے کیا۔ دنیا کی کسی تاریخ اور کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ یہ نری کہانی نہیں ،یہ واقعات ہیں جن کی سچائی کا ایک زمانہ کو اعتراف کرنا پڑتا ہے‘‘۔(الحکم 24؍جنوری 1907ء صفحہ5)
آج ہمارا بھی فرض ہے کہ جو اخلاق آپؐ نے ہمیں سکھلائے ان کو اختیار کریں اور دنیا کو بتائیں کہ یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اس معلم اخلاق نے ہمیں سکھائے اور آج بھی حسین معاشرے کے قیام کے لیے ان کو اپنانا ضروری ہے۔ پس اپنے نمونوں سے ہمیں ان کو دنیا کو دکھانا ہوگا۔ اللہ توفیق دے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں