دوالمیال میں جماعت احمدیہ کی تاریخ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اکتوبر 2008ء میں مکرم ریاض احمد ملک صاحب کے قلم سے دوالمیال ضلع چکوال میں احمدیت کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ریاض احمد ملک صاحب

دوالمیال قدرتی مناظر اور پرانی تہذیب و ثقافت اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ اس علاقہ میں کوروؤں اور پانڈوؤں کے آثار۔ بدھ مت۔ اشوکا اور جین مت کے اسٹوپے۔ ہندوؤں کی پرانی مذہبی اور لسانی یونیورسٹی کے آثار۔ سنگھاپورہ شہر ، قلعہ ملوٹ کے تاریخی آثار۔ شہنشاہِ بابر کا تاریخی تخت بابری اور باغ صفا وغیرہ شامل ہیں۔
دوالمیال دو لفظوں کا مجموعہ ہے’’دولمی‘‘ اور آل‘‘ یعنی دولمی کی اولاد۔ دوالمیال گاؤں کے جد امجد کا نام دولمی ہے۔ جن کا شجرئہ نسب ان کے جد امجد قوم اعوان ’’قطب شاہ عون‘‘ سے ہوتا ہوا حضرت علی ؓ سے جا ملتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم میں دوالمیال سے 460 آدمیوں نے حصہ لیا جن میں سے 100سے زیادہ کمیشنڈ آفیسرز تھے۔ اس جنگ میں کامن ویلتھ ممالک میں دو توپیں انعام میں دی گئی تھیں۔ ایک توپ یورپ میں سکاٹ لینڈ کے ایک گائوں کو انعام میں ملی تھی اور دوسری دوالمیال کے بہادر سپوتوں کو۔ اس توپ کو کیپٹن غلام محمد ملک صاحب نے اپنے تالاب کے کنارے پر سجایا۔ اس تالاب کے ساتھ ایک پیپل کا درخت بھی ہے جس کی عمر چھ سو سال سے زیادہ ہے اور تنا تقریباً 31فٹ محیط کا۔ اونچائی تقریباً ڈیڑھ سو فٹ۔ پنجاب بھر میں اپنے تنے کی موٹائی، اونچائی، عمر اور ہیئت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔
دوالمیال سے 63 کے قریب صحابہؓ نے قادیان کا سفر کیا۔ بعض نے یہ سفر پاپیادہ کیا۔ اس گاؤں کے لوگوں نے نشانات اور معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ جس مخالف نے حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت کی تھی وہ خود اسی سال طاعون کی نذر ہوا اور کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں اس نشان کو خود حضرت مسیح موعودؑ نے درج فرمایا ہے۔
دوالمیال کے پہلے احمدی حضرت حافظ ملک شہباز خان صاحبؓ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ مشرق سے ایک نور ابھرا ہے اور اس نے سارے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ آپ کو جب حضورعلیہ السلام کے دعویٰ کی خبر ملی تو بلا تامل ایمان لے آئے۔ یہاں کے پہلے امیر حضرت مولوی کرم داد صاحب کی قیادت میں 1927ء میں منارۃالمسیح کی طرز کا ایک مینارہ تعمیر کرنے کا کام احمدیہ مسجد میں شروع ہوا۔ مستری غلام محمد صاحب نے قادیان جاکر منارۃالمسیح کا معائنہ کیا اور واپس آکر 16لکڑی کے بالوں اور 16تختوں سے منارۃالمسیح کی طرز کا ایک مینار بنا کر سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ پھر دو سال کی انتھک محنت کے بعد یہ مینار 1929ء میں مکمل ہوا۔ 67-1964ء احمدیہ مسجد کی جدید تعمیر کی گئی۔ 1991ء میں اس مینار کی مرمت کروائی گئی اور تزئین کے لئے سنگ مرمر لگوایا گیا جس کا تقریباً تمام خرچ مکرم میجر ملک حبیب اللہ صاحب نے برداشت کیا۔ جبکہ ملک ممتاز احمد صاحب نے ذاتی مالی قربانی سے دفاتر، مربی ہاؤس کی تعمیر اور واٹرپمپ کی تنصیب کروائی۔
اس گاؤں کے میجر جنرل نذیر احمدملک کا شمار پاکستان کے پہلے جرنیلوں میں ہوتا ہے اور آپ 1948ء کی جنگ کشمیر میں کور کمانڈر تھے اور آپ کو اس جنگ کا ہیرو مانا جاتا ہے۔ یہاں کے ڈاکٹر گل محمد ملک صاحب اس علاقہ کے پہلے مسلمان ڈاکٹر تھے۔ تحصیل کونسل کے ممبر بھی رہے۔
احمدیہ مسجد سے ملحقہ اپنی جگہ محترمہ حاجرہ بی بی صاحبہ بیوہ ملک ضیاء احمد صاحب نے بطور عطیہ دے کر اعلیٰ قربانی کی مثال قائم کی۔ مکرم ملک محمد احمد صاحب نے احمدیہ دارالذکر دوالمیال کو 1960ء میں لاؤڈ سپیکر کا عطیہ دیا۔ اس وقت علاقہ بھر میں یہ پہلا لاؤڈ سپیکر تھا۔ دوالمیال میں لڑکیوں کا ایک پوسٹ گریجوایٹ کالج حضرت مولوی کرم داد صاحبؓ کے گھر میں قائم ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں