دو عظیم الشان کتب ’نسیم دعوت‘ اور ’سناتن دھرم‘ کا پس منظر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9ستمبر 2011ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کے قلم سے رقم کردہ ایک مضمون میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دو عظیم الشان کتب کا ایمان افروز پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
ابتداء 1903ء میں قادیان کے بعض نواحمدیوں نے ’’آریہ سماج اور قادیان کا مقابلہ‘‘ کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں نہایت تہذیب، متانت اور شائستگی سے آریوں ، ہندوؤں اور سکھ اصحاب کو مدعو کیا گیا کہ وہ دعا اور مباہلہ یا ایک مذہبی کانفرنس کے ذریعہ سے اپنے اپنے مذہب کی صداقت کا اظہار کریں ۔ یہ اشتہار حضرت مسیح موعودؑ کے ایماء سے شائع نہیں ہوا تھا بلکہ خود قادیان کے نواحمدی احباب نے محض ہمدردی اور خیرخواہی کی بِنا پر اپنی قوم پر اتمام حجّت کے لئے دیا تھا۔ اور یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ اس سے آریہ سماج کی طرف سے کوئی اشتعال انگیز محاذ قائم کرلیا جائے گا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 8؍فروری 1903ء کو الہام ہوا: حَرْبٌ مُھَیَّجَہ (جوش سے بھری ہوئی جنگ)۔ تفہیم یہ ہوئی کہ آریہ سماج کو جو اشتہار نَواحمدیوں نے دیا ہے اس سے جوش میں آکر وہ لوگ کچھ گندی گالیاں دیں گے۔
چنانچہ یہ پیشگوئی اسی شام کو پوری ہو گئی جب آریہ سماج کا ایک اشتہار نہایت گندہ اور گالیوں سے بھرا ہوا پہنچا جس پر 7؍ فروری کی تاریخ درج تھی۔ اس کا عنوان تھا ’’قادیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب‘‘۔ اس کے بعد آریہ سماج لاہور کے ایک انگریزی اخبار میں بھی اسی طرز کی تحریر چھپی اور ایک اشتہار طوطی رام نام کی طرف سے شائع ہوا۔ ان سب اشتہارات میں درد بھری دعوت کا جواب گالیوں سے دیا گیا تھا۔ خصوصاً پہلے اشتہار میں ہمارے سید و مولیٰ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت، حضرت اقدسؑ کی نسبت اور آپؑ کی معزز جماعت کی نسبت سخت الفاظ اور گالیاں دی گئی تھیں ۔
آریہ سماج نے 28 فروری و یکم مارچ 1903ء کو قادیان میں ایک سالانہ جلسہ منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
حضورؑ کا دل تو یہی چاہتا تھا کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جائے مگر وحیٔ خاص سے آپ کو اس کے جواب کا حکم دیا گیا جس پر حضورؑ نے رسالہ ’’نسیم دعوت‘‘ تصنیف فرمایا۔ اور فرمایا کہ: ’’خداتعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور میں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں ۔ تب مجھے اس مبشر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں مَیں اکیلا نہیں ۔ سو مَیں اپنے خدا سے قوت پا کر اٹھا اور اس کی روح کی تائید سے میں نے اس رسالہ کو لکھا۔‘‘
یہ کتاب 28 فروری 1903ء کو ایک ہفتہ کے اندر اندر تصنیف و طبع ہو کر عین اس وقت شائع ہوئی جبکہ قادیان میں آریہ سماج کا سالانہ جلسہ منعقد ہورہا تھا۔ یہ کتاب جب پنڈت رام بھجدت صاحب پریذیڈنٹ آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب کے پاس پہنچی تو اسی جلسہ میں اپنی آخری تقریر میں حضورؑ کا ذکر کرکے انہوں نے کہا کہ اگر وہ مجھ سے اس بارے میں گفتگو کرتے تو جو کچھ نیوگ کرانے کے فائدے ہیں سب ان کے سامنے بیان کرتا۔
حضرت اقدسؑ کو جب ایک ذمہ دار آریہ سماجی لیڈر کی نیوگ جیسے مسئلہ کے بارہ میں یہ رائے پہنچی تو حضورؑ نے ’’سناتن دھرم‘‘ کے نام سے 8 مارچ 1903ء کو ایک اَور مختصر رسالہ شائع فرمایا جو ’’نسیم دعوت‘‘ کا تتمّہ کہنا چاہئے۔
چند ماہ بعد ان دونوں کتب کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا گیا اور ان کی متعدد کاپیاں مفت تقسیم کی گئیں ۔
حضرت اقدس نے نسیم دعوت کے سرورق پر لکھوایا: وہ خدا جس نے تمام روحیں اور ذرّہ ذرّہ عالم علوی اور سفلی کا پیدا کیا اسی نے اپنے فضل و کرم سے اس رسالہ کے مضمون ہمارے دل میں پیدا کئے اور اس کا نام ہے ’’نسیم دعوت‘‘۔
پھر اشعار لکھے۔ ؎

نام اس کا نسیم دعوت ہے
آریوں کے لئے یہ رحمت ہے
دل بیمار کا یہ درمان ہے
طالبوں کا یہ یار خلوت ہے
کفر کے زہر کو یہ ہے تریاق
ہر ورق اس کا جام صحت ہے
غور کرکے اسے پڑھو پیارو
یہ خدا کے لئے نصیحت ہے

’’نسیم دعوت‘‘ کی تصنیف و اشاعت کے ایام میں حضرت حکیم اللہ بخش صاحب ببے ہالی ضلع گورداسپور کو قادیان جانے اور حضرت مسیح موعود کی پُردرد کیفیات دیکھنے کا موقع ملا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں اپنے گاؤں میں تھا کہ کسی نے آکر بتایا کہ قادیان میں آریوں کا بہت بڑا جلسہ ہے۔ ہم جو قادیان جانے کے بہانے ہی تلاش کیا کرتے تھے، یہ پتہ لگنے پر حضرت منشی جھنڈے خاں صاحب اور دین محمد صاحب اور مَیں قادیان کے لئے چل پڑے۔ ابھی ہم قادیان سے ایک میل کے فاصلہ پر تھے کہ چند آریہ آپس میں باتیں کرتے ہماری طرف آئے۔ ان کا باتیں کرنے کا انداز ایسا تھا کہ ہم بھی بخوبی سن سکیں ۔ وہ یہ کہتے آرہے تھے کہ قادیان والے مرزے کو شکست ہوگئی اور وہ مقابلہ سے بھاگ گیا۔ وغیرہ۔ ہم بہت حیران ہوئے کہ خداتعالیٰ کا مامور جو دنیا بھر میں دین کی عظمت و برتری ثابت کرنے کا باعث ہے اور جس کے دلائل کے مقابلہ میں باوجود چیلنج پر چیلنج کرنے کے کوئی عیسائی یا ہندو وغیرہ نہ آسکا، اُس جری اللہ کے متعلق ایسی باتیں !۔
جوں توں کرکے قادیان پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضورؑ نے احباب کو جلسہ میں شامل ہونے سے منع فرمایا ہے۔ چند آریہ حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑے اصرار سے حضورؑ کو اپنے جلسہ میں شامل ہونے کی دعوت دینے لگے۔ ان کے ہر قسم کے اصرار و تکرار کے باوجود حضورؑ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اس جلسہ میں فساد کا اندیشہ ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جانا چاہتے۔ یہ سن کر آریہ کہنے لگے کہ ہم تو فسادی نہیں ہیں ۔ فسادی تو سکھ اور مسلمان ہیں ۔ حضورؑ نے فرمایا کہ تمہاری اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمہاری نیت ٹھیک نہیں ہے، ہمارے گھر میں ہمارے منہ پر ہمیں فسادی کہہ رہے ہو۔ اگر ہم وہاں جائیں اور ایسی باتیں سن کر خاموش رہیں تو گویا اپنے فسادی ہونے کا اقرار کریں اور اگر کسی کو غصہ آجائے تو بھی نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔
آریوں کے اعتراضات کے جواب میں حضورؑ نے نسیم دعوت کتاب لکھی جو اُسی رات چھپ کر تیار ہوگئی۔ اگلے روز حضورؑ صحابہ کے ہمراہ بسراواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ رستہ میں ایک جوہڑ میں قریباً ایک سو آریہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جونہی آپ اس جگہ کے نزدیک پہنچے وہ اچانک باہر نکل آئے اور پھر اسی طرح اصرار کرنے لگے کہ اب تو آپ نزدیک آئے ہوئے ہیں چند منٹ کے لئے چل کر ہمیں درشن دے آئیں ہم تو آپ کے درشنوں کے بھوکے ہیں ۔ حضورؑ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر درشن کرنا ہی مقصد تھا تو درشن تو ہو گئے ہیں ۔ یہ فرما کر حضورؑ اپنے رستہ پر ہوئے اور حضرت عرفانی صاحب کو فرمایا کہ ان کو ایک کتاب دے دی جائے اور فرمایا کہ تم لوگ کہا کرتے ہو کہ مَیں نے اپنی کتابوں میں بہت گالیاں دی ہیں ۔ اس کو دیکھو اور بتاؤ کہ میں نے کونسا سخت لفظ استعمال کیا ہے۔
حضرت حکیم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ قادیان سے واپسی کے وقت حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دست مبارک سے خاکسار کو بھی ایک نسخہ کتاب ’’نسیم دعوت‘‘ کا عطا فرمایا تھا اور مَیں نے بڑے شوق سے رستہ میں ہی اسے پڑھ لیا تھا۔ مَیں قادیان سے گجو غازیاں (جہاں میرے سسرال تھے) گیا لیکن مجھے اس بات کی وجہ سے بڑی کوفت ہورہی تھی کہ حضورؑ باوجود مخالفوں کے شدید اصرار کے اُن کے جلسہ میں تشریف نہیں لے گئے اور اب ہمیں مخالفوں کے طعنے اور سخت باتیں سننی پڑیں گی۔ مذکورہ گاؤں میں روڑے شاہ نامی ایک فقیر کا تکیہ تھا مَیں نے وہاں پر نماز ادا کی اور بعد میں فقیر مذکور سے بعض اختلافی مسائل پر گفتگو شروع کردی۔ ابھی ہم گفتگو کر ہی رہے تھے کہ دو معزز سکھ بھی وہاں آگئے۔ جس پر فقیر مذکور نے بات چیت ختم کردی۔ مَیں نے جب اسے مزید گفتگو کرنے کے لئے کہا تو اس نے جواب دیا کہ ہمارا اختلاف تو ہماری گھر کی بات ہے اب یہ غیر آگئے ہیں ان کے سامنے ایسی باتیں مفید نہیں ہیں اس لئے میں خاموش ہو گیا ہوں ۔ لیکن اُن سکھوں نے بڑے شوق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کو تو خود بھی مذہبی باتیں سننے کا بہت شوق ہے، آپ اپنی باتیں جاری رکھیں ۔ پھر حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر مبارک پر وہ سکھ کہنے لگے کہ ہم تو مرزا صاحب کو بہت برگزیدہ اور خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں اور پھر خود ہی بتایا کہ ہم ایک دن بٹالہ جارہے تھے۔ رستہ میں دبانی نامی گاؤں آتا ہے وہاں سایہ اور پانی تھا۔ ہم کچھ سستانے کے لئے رُک گئے۔ وہاں کچھ ہندو بھی بیٹھے ہوئے تھے اور وہ آپس میں یہ باتیں کررہے تھے کہ قادیان والا مرزا ہمارا بہت بڑا دشمن ہے۔ ہمیشہ ہمارے دھرم کے خلاف لکھتا رہتا ہے۔ اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قادیان جا کر جلسہ کریں گے جس میں اس کو جھوٹا جھوٹا کہہ کر غیرت دلاتے ہوئے اپنے ہاں آنے پر مجبور کریں گے اور پھر اپنے مذہب کے سب سے بڑے دشمن کو قتل کر دیں گے وغیرہ۔ یہ پخت و پز کرکے ہندو قادیان کی طرف چلے گئے اور ہمیں یہ فکر ہی رہا کہ قادیان کے ایک معزز آدمی کے متعلق ان کے ارادے بہت برے ہیں اور پھر ہمارے کان ادھر ہی لگے رہے اور جب ہم کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت مرزا صاحب ان کی تمام کوششوں اور حیلہ سازیوں کے باوجود ان کے جلسہ میں تشریف نہیں لے گئے تو ہم کو بہت خوشی ہوئی اور یہ بھی یقین ہو گیا کہ یہ شخص خدا کی طرف سے ہے اور اُسی نے ان کی حفاظت کی ہے۔ ان سکھوں سے یہ بات سن کر تو میری کوفت مسرّت میں تبدیل ہو گئی اور میرے ایمان و ایقان میں اَور اضافہ ہوا۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ فرماتے ہیں : جبکہ ’’نسیم دعوت‘‘ چھپ رہی تھی تو حضرت مسیح موعودؑ نے اس کتاب کی تعریف کی۔ میری طبیعت للچائی کہ کتاب مجھ کو بھی ملے اور قیمت میرے پاس نہیں تھی۔ جب آپؑ جانے لگے تو مَیں نے حضورؑ سے عرض کی کہ حضور! مجھے بھی ایک کتاب ’’نسیم دعوت‘‘ دی جائے۔ آپؑ نے بہت شفقت سے خلیفہ رجب الدین صاحب سے فرمایا کہ اس لڑکے کو کتاب دلادیں ۔ اور صبح ہوتے ہی مجھے کتاب مل گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں