سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍دسمبر 1998ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی پاکیزہ سیرۃ کے بعض واقعات ’’مبشرین احمد‘‘ مصنفہ مکرم ملک صلاح الدین صاحب سے (مرتّبہ: مکرم حافظ محمد نصراللہ صاحب) شاملِ اشاعت ہیں۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ کی سیرۃ کا ذکر قرآن سے آپؓ کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ جس باقاعدگی اور محبت سے حضورؓ نے پہلے حضرت مسیح موعود کے وقت میں پھر اپنے دورِ خلافت میں قرآن کریم کا درس دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپؓ اپنی عمر کے آخری پانچ چھ مہینوں میں جب بہت ہی ضعیف ہوگئے اور مسجد اقصیٰ جانا آپؓ کیلئے آسان نہ رہا تو بھی آپ بصد مشکل وہاں پہنچ جاتے اور کبھی دوسروں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر سہارا لیتے ہوئے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے، کبھی دو تین جگہ راستہ میں بیٹھ کر آرام فرماتے اور پھر آگے روانہ ہوتے۔ لیکن جب کمزوری مزید بڑھ گئی تو حضورؓ نے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں درس دینا شروع کردیا۔ جب اور زیادہ ضعف ہوگیا تو میاں عبدالحئی صاحب کی بیٹھک کے اندرونی برآمدہ میں چند دن درس دیتے رہے اور وفات سے ایک روز پہلے تو اتنا ضعف تھا کہ دو تین فٹ تک بھی آپؓ کی آواز بمشکل پہنچتی تھی لیکن عشق قرآن مجید کے باعث آپؓ درس دے رہے تھے۔… آخری درس سے ایک دن پہلے اتفاقاً حضورؓ کے صاحبزادے میاں عبدالحئی صاحب آپؓ کے دائیں طرف بیٹھے تھے کہ سورہ الذاریات کے تیسرے رکوع کا درس دیتے ہوئے آپؓ نے میاں عبدالحئی صاحب کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ میاں عبدالحئی! ہم تو جا رہے ہیں۔ بیٹا! ہمارے گھر میں مال نہیں ہے۔ لیکن میرے بیٹے! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، آسمان پر رزاق خداوند موجود ہے۔ جب کبھی زندگی میں تمہیں مالی تنگی محسوس ہو تو اپنے ربّ سے اس طرح دعا کرنا کہ الٰہی! جس طرح تُو میرے باپ کو رزق دیتا تھا تُو مجھے بھی رزق دے۔ تو میرے بیٹے! میں امید کرتا ہوں کہ تمہیں رزق کی تنگی محسوس نہیں ہوگی‘‘۔
حضرت خلیفہ اولؓ کا اپنے ربّ پر توکّل اس قدر بلند تھا کہ باوجود اس کے کہ زندگی میں آپؓ نے لاکھوں ہی کمائے اور لاکھوں ہی خرچ کئے لیکن بوقت وفات آپؓ کے گھر میں کوئی مال نہیں تھا۔ آپؓ کی اولاد کی یہ حالت تھی کہ میاں عبدالحئی صاحب صرف تیرہ چودہ برس کے تھے اور دیگر سارے بچے بھی بالکل چھوٹے تھے یہاں تک کہ سب سے چھوٹا بچہ عبداللہ صرف چند ماہ کا تھا۔ اتنی چھوٹی اولاد کو چھوڑ کر نورالدینؓ اپنے ربّ کے پاس جا رہے تھے اور ان کو کوئی گھبراہٹ نہ تھی کہ اُن کی اولاد اُن کے بعد زندگی کیسے گزارے گی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب سلوک تھا۔ آپؓ اکثر بیان فرماتے تھے کہ مہاراجہ کشمیر کی ملازمت چھوڑتے وقت آپؓ کے ذمہ ایک لاکھ پچانوے ہزار روپے کا قرض تھا جس کی ادائیگی کے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا فرمادئے۔ یہ واقعہ یوں تھا کہ سیاسی حالات کے تحت جب مہاراجہ نے آپؓ کو ملازمت سے فارغ کردیا تو بعد میں اُسے یہ خیال آیا کہ آپؓ کے ساتھ ظلم اور ناانصافی ہوئی ہے ۔ چنانچہ اُس نے آپؓ کو واپس بلانے کی کوشش کی تو آپؓ نے (جو اُس وقت قادیان پہنچ چکے تھے) فرمایا کہ اگر مجھے ساری دنیا کی حکومت بھی مل جائے تو میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ … چونکہ مہاراجہ صاحب کو ناانصافی کا شدت سے احساس تھا اس لئے اُس نے اس کے ازالہ کی یہ تجویز سوچی کہ اب کی مرتبہ جنگلات کا ٹھیکہ صرف اسی شخص کو دیا جائے جو منافع کا نصف حضرت مولوی صاحبؓ کو ادا کرے۔ چنانچہ اسی شرط کے ساتھ ٹنڈر طلب کئے گئے۔ جس شخص کو یہ ٹھیکہ ملا ، جب سال کے آخر میں اُس نے اپنے منافع کا حساب کیا تو خدا تعالیٰ کی حکمت سے اُسے ٹھیک تین لاکھ نوے ہزار روپے منافع ہوا جس کا نصف ایک لاکھ پچانوے ہزار بنتا ہے اور اسی قدر روپیہ حضورؓ کے ذمہ قرض تھا۔ چنانچہ جب یہ روپیہ آپؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ یہ رقم فلاں سیٹھ کو دیدی جائے ، ہم نے اُس کا قرض دینا ہے۔ جب دوسرے سال بھی اُسی شرط پر ٹھیکہ دیا گیا اور ٹھیکیدار نے منافع حضورؓ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؓ نے وہ رقم لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ نہ اس کام میں میرا سرمایہ لگا، نہ میں نے محنت کی، مَیں اس کا منافع لوں تو کیوں لوں؟ ٹھیکیدار نے عرض کی کہ آپؓ ضرور اپنا حصہ لیں ورنہ آئندہ مجھے ٹھیکہ نہیں ملے گا۔ آپؓ نے فرمایا ، اب خواہ کچھ ہی ہو میں یہ روپیہ نہیں لوں گا۔ اُس نے کہا پھر پچھلے سال کیوں لیا تھا؟۔ فرمایا، وہ تو میرے ربّ نے اپنے وعدے کے مطابق میرا قرض اتارنا تھا۔ جب وہ اتر گیا تو اب میں کیوں لوں۔ اس پر وہ ٹھیکہ دار واپس چلا گیا۔
’’تذکرہ‘‘ میں حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام ’’عبدالباسط‘‘ ہے اور ساتھ یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے فرمایا تھا کہ یہ الہام آپؓ کے بارہ میں ہے۔
جو دوست قادیان آیا کرتے، وہ اپنی رقوم بطور امانت حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے پاس جمع کروا دیتے تھے۔ جب بھی کوئی اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کرتا تو حضورؓ حاضرین میں سے کسی کو فرماتے کہ میری صدری پکڑاؤ اور پھر صدری کی جیب میں ہاتھ ڈال کر روپے نکال کر اُس دوست کے ہاتھ میں دیدیتے۔ بعض دفعہ جب رقم زیادہ ہوتی تو فرماتے کہ میرے مکان کا جو دروازہ گلی میں کھلتا ہے اُس کی طرف آ جائیں اور حضورؓ گھر کے اندر کی طرف سے اُس طرف تشریف لے جاتے اور اسی وقت کُل رقم ادا کر دیتے جبکہ آپؓ اپنے گھر میں رقم نہیں رکھتے تھے۔
حضورؓ نے یہ بھی فرمایا کہ امانت کی رقم خرچ نہیں کرنی چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی ہے کیونکہ اس کا میرے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ میری ضروریات خود مہیا فرمائے گا۔
ایک دفعہ ایک دوست اپنی کافی بڑی رقم جو آپؓ کے پاس امانتاً رکھوائی ہوئی تھی، واپس لینے آئے۔ آپؓ نے فرمایا کہ ظہر کی نماز کے بعد آکر لے جائیں۔ نماز کے بعد آپؓ نے اپنی صدری مولوی محمد جی صاحب کو دی کہ اسے لٹکادو۔ مولوی محمد جی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے صدری کی جیبوں کی اچھی طرح تلاشی لی لیکن وہ بالکل خالی تھیں اس پر مجھے خیال آیا کہ جیبوں میں تو ایک پیسہ نہیں، دیکھتے ہیں حضورؓ اپنے وعدہ کی ادائیگی کس طرح کرتے ہیں۔ اتنے میں وہ شخص آگیا۔ حضورؓ نے فرمایا، میری صدری پکڑاؤ اور پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر رقم نکال کر اس شخص کو دیدی اور کہا گن لو۔ اُس دوست نے رقم گنی اور کہا کہ رقم پوری ہے۔ مولوی محمد جی صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہمیں یقین ہوگیا کہ رزق کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ خود حضورؓ کا متکفّل ہے اور پھر آئندہ تجسس کرنا بھی چھوڑ دیا۔
چودھری غلام محمد صاحب جو بورڈنگ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے سپرنٹنڈنٹ تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ دو یا تین یتیموں کا خرچ اپنی طرف سے دیا کرتے تھے اور اُن بچوں کے اخراجات کے بارہ میں کبھی نہیں پوچھا کہ اتنا خرچ کیوں کیا گیا ہے بلکہ جتنا بِل بھی میں نے بھیجا، آپ نے فوراً ادا فرمادیا۔ لیکن جب آپؓ نے اپنے بیٹے میاں عبدالحئی کو بورڈنگ میں داخل کروایا تو مجھ سے فرمانے لگے ، میاں غلام محمد! مَیں ایک غریب آدمی ہوں، یہ خیال رکھیں کہ عبدالحئی کا خرچ کم ہو، میں زیادہ ادا نہیں کر سکتا۔
تعلیم الاسلام سکول کے بورڈنگ میں بچوں کے خادم حاکم دین صاحب ہوتے تھے۔ ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے اپنے اہل خانہ حضرت اماں جیؓ سے فرمایا کہ میرا ایک دوست حاکم دین ہے اُس کی دعوت کرو۔ اماں جیؓ کو کیا علم کہ حاکم دین کون ہے۔ انہوں نے پڑوس میں رہنے والے چودھری حاکم علی صاحب (جو ضلع سرگودہا کے ایک معزز زمیندار اور پرانے احمدی تھے) کی دعوت سمجھ کر اُنہیں دعوت پر بلالیا۔ کچھ دنوں کے بعد حضورؓ نے حضرت اماں جیؓ سے کہا کہ مَیں نے چودھری حاکم دین کی دعوت کے لئے کہا تھا۔ اماں جیؓ نے کہا کہ میں نے تو اُن کی دعوت کردی تھی۔ فرمایا کہ میں نے تو انہیں کسی دن اپنے گھر آتے نہیں دیکھا۔ باتوں باتوں میں جب اصل واقعہ کا علم ہوا تو حضورؓ نے فرمایا کہ میرا دوست تو حاکم دین ہے جو بورڈنگ میں خادم طفلاں ہے۔ … جب بھی چودھری حاکم دین صاحب یہ بات سنایا کرتے تو حضورؓ کی شفقت یاد کرکے رونے لگ جاتے ۔
یہی حاکم دین صاحب تھے جن کی بیوی ایک رات دردزہ کی شدید تکلیف میں مبتلا تھیں تو آپ رات بارہ بجے کے قریب حضورؓ کے گھر پر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضورؓ اُس وقت سو رہے تھے۔ چنانچہ پہریدار نے آپ کو بتایا کہ حضورؓ آرام فرما رہے ہیں۔ لیکن حضورؓ کو آواز پہنچ گئی تو حضورؓ نے خود آواز دے کر پوچھا کون ہے؟۔ آپ نے اپنا نام بتلایا تو پوچھا کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ بیوی کو درد زہ کی سخت تکلیف ہے اور بچہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس پر حضورؓ نے دعا کرکے کھجور کے چند دانے دیئے اور فرمایا کہ یہ اپنی بیوی کو کھلا دو۔ آپ نے گھر آکر بیوی کو وہ کھجور کے دانے کھلا دئے تو تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہوئی۔ آپ نے سوچا کہ یہ رات کا وقت ہے ، اب حضور کو کیا تکلیف دینی ہے، صبح اطلاع کردوں گا۔ چنانچہ صبح کی نماز کے وقت آپ نے یہ خبر حضورؓ کو پہنچائی۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا، میاں حاکم دین! تم نے اپنی بیوی کو کھجور کھلادی اور تمہاری بچی پیدا ہوگئی، تم اور تمہاری بیوی آرام سے سو گئے لیکن نورالدین ساری رات جاگتا رہا اور تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا۔… یہ واقعہ سناکر حاکم دین صاحب رو پڑے اور کہنے لگے کہ کہاں چپڑاسی حاکم دین اور کہاں نورالدین اعظم۔
حضورؓ کی محنت کرنے کی عادت کا اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ محترم ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مدرسہ میں تفریح کے وقفہ میں حضورؓ کے پاس حافظ غلام محمد صاحب تشریف لائے تو حضورؓ نے اُن سے پوچھا کہ کیا آج مدرسہ میں تعطیل ہے؟ عرض کیا کہ Recessتھی اس لئے آگیا ہوں۔ فرمایا، Recess کیا ہوتی ہے؟۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ مدرسہ کا وقت دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا نصف گزرنے کے بعد چند منٹ کے لئے Recess کی جاتی ہے تاکہ اساتذہ اور طلباء آرام کرلیں۔ اس پر حضور نے فرمایا، ہم تو کوئی Recess نہیں کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں