سیرۃ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے ’’سیدنا طاہر نمبر‘‘ میں حضرت مرزا وسیم احمد صاحب نے حضورؒ کے حوالہ سے اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ حضورؒ بچپن سے ہی محنتی، جفاکش اور مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والے تھے۔پرائمری تک سب بھائیوں کی تعلیم تعلیم الاسلام سکول میں ہوئی بعد میں مجھے مدرسہ احمدیہ اور حضورؒ کو تعلیم الاسلام سکول میں داخل کروادیا گیا۔ بچپن میں ہی حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ہم دونوں کو حضرت غلام رسول صاحب افغان کے ذریعہ کئی ماہ تک فن تجوید سکھائی گئی۔ بچپن میں کئی مرتبہ ہم پرندوں وغیرہ کے شکار کے لئے جایا کرتے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی آبی پرندوں کے شکار کے لئے دریا پر جاتے رہے۔
حضورؒ کی طبیعت میں بہت سادگی تھی۔ مسجد مبارک میں جوتوں کی حفاظت کے لئے ایک جوتا مسجد کے باہر رکھ دیتے اور دوسرا کہیں اندر جاکر رکھتے۔
حضرت سیدہ امّ طاہرؓ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت سیدہ مہر آپا مرحومہ سے شادی کی۔ چونکہ اُن کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اس لئے حضورؒ نے اُن کا بہت خیال رکھا۔ جب حضورؓ 1991ء میں قادیان تشریف لائے تو آپؒ نے اُسی کمرہ میں قیام فرمایا جہاں آپؒ کی والدہ اور حضرت مصلح موعودؓ کا قیام ہوتا تھا۔ میری بیوی نے کمرہ کی مناسبت سے پلنگ کو سیٹ کیا لیکن حضورؒ نے فرمایا کہ جہاں اباجان اور امی کا بستر ہوتا تھا وہیں بچھائیں۔
مہاراجہ چنبہ کے چچا راجہ کیسری سنگھ کی درخواست پر حضرت مصلح موعودؓ نے بعض امور میں اُن کی بہت مدد کی تھی۔ اُن کے دو بیٹوں راجہ گلاب سنگھ اور راجہ شیر سنگھ کی حضورؒ سے بھی بہت بے تکلّف دوستی تھی۔ 1991ء میں حضور دہلی میں راجہ گلاب سنگھ صاحب کے گھر اُن کی دعوت پر تشریف لے گئے۔ انہوں نے حضورؒ کی تصویر اپنے گھر میں لگائی ہوئی تھی اور ڈش پر حضورؒ کے خطبات بھی سنتے تھے۔
ایک بار خاکسار نے ایک دوست سے کسی چیز کے خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ چیز لے آئے لیکن قیمت وصول نہ کی اور تحفۃً دینا چاہی۔ حضورؒ نے مجھے فرمایا کہ حضرت مصلح موعودؓ کا طریق یہ تھا کہ اگر کسی کو کوئی چیز لانے کے لئے کہتے تو وہ چیز تحفہ کے طور پر قبول نہیں فرماتے تھے بلکہ قیمت ادا کرکے وصول کرتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں