محترمہ امتہ الرحمان صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اکتوبر 1997ء کے شمارہ میں مکرم لیفٹیننٹ کرنل (ر) بشارت احمد صاحب اپنی والدہ محترمہ امتہ الرحمان صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میری ماں بڑی دعاگو خاتون تھیں۔ 1965ء کی جنگ میں خاکسار سیالکوٹ محاذ پر تھا، والدہ میری طرف سے پریشان تھیں۔ ایک روز تہجد میں سخت اضطراری حالت طاری ہوگئی تو بارگاہ ایزدی سے آواز آئی ’’پاکستان محفوظ رہے گا‘‘۔ میری ماں نے عرض کیا الٰہی پاکستان میں تو ماؤں کے ہزاروں لاکھوں فرزند محاذ پر ہیں، میرے اکلوتے بشارت کا کیا بنے گا۔ پھر آواز آئی ’’سیالکوٹ کا محاذ محفوظ رہے گا‘‘۔ ڈرتے ڈرتے پھر ملتجی ہوئیں الٰہی اس محاذ پر بھی ہزاروں فرزند لڑ رہے ہیں میرے بشارت کی خبر دے تو پھر تیسری خوشخبری ملی ’’تیرا بیٹا بھی امان میں رہے گا‘‘۔
اس خواب کا ذکر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے تین چار مختلف مواقع پر فرمایا، نیز یہ بھی فرمایا کہ ہندوستان میں ابھی تک وہ گولا یا گولی نہیں بنی جو اس ماں کے اکلوتے بیٹے کو مار سکے۔ اور مجھے بھی ایک موقع کی تلاش تھی چنانچہ 1971ء میں چھمب جوڑیاں کے سخت ترین محاذ پر مجھے ایک جاندار حملے کا موقع ملا جس کی دوست دشمن سب تعریف کرتے رہے۔ جو بھی حیرت سے پوچھتا کہ تمہیں ایسی جرأت کا کام کرنے کی کیا سوجھی تو میرا یہی جواب ہوتا ’’ماں کی دعا‘‘۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی ماں کی قدر کریں، اس سے محبت کریں۔ یہ بڑھاپے میں کمزور اور چڑچڑی بھی ہو جائیں گی لیکن یہ ہمارے لئے سایہ خداوندی سے کم نہیں ہیں۔ ان کی کی ہوئی دعائیں ہمیں آگ اور طوفان سے نکال کر عافیت سے ہمکنار کردیں گی۔
ہندوستان کی قید کے دوران اودھم پور کے سکھ سرجن نے مجھے واضح طور پر بتایا کہ کرنل صاحب تمہارا بلڈ پریشر ، ہارٹ اور نبض بالکل بند ہے، تم کسی وقت بھی مر جاؤ گے۔ میں نے بڑے وقار اور بھروسے سے کہا ڈاکٹر صاحب میری ٹانگ نہیں کٹے گی اور میں بچ جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا ڈاکٹر میں ہوں یا تم۔ میں نے کہا مجھے میری ماں کی دعا ہے۔ آخر بفضل خدا تعالیٰ وہی ہوا جو میری ماں کی دعاؤں کے طفیل تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں