محترمہ شوکت رحیم صاحبہ شہید

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ نومبر 2003ء میں مکرمہ لبنیٰ سعید صاحبہ اپنی والدہ محترمہ شوکت رحیم صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ کی ساری زندگی انتھک محنت اور غموں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزری۔ بہت چھوٹی عمر میں والدہ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت اماں جانؓ اور حضرت چھوٹی آپا کے زیرسایہ تربیت پائی۔ بڑی ہوکر شادی ہوئی تو مالی حالات اچھے نہ تھے۔ اولاد جوان ہوئی تو بڑا بیٹا نوجوانی میں وفات پاگیا جبکہ چھوٹا بیٹا ساہیوال کیس میں اسیر راہ مولا بن گیا۔ اُس بیٹے کی جیل میں دس سال آپ نے بڑی دلجمعی سے خدمت کی۔ سارا ہفتہ اُس کے لئے ضرورت کی چیزیں اکٹھی کرتیں اور ملاقات والے دن کھانا وغیرہ لے کر جاتیں اور اُس کو دے آتیں۔ سخت گرمیوں میں روزے رکھ کر بھاری سامان اٹھاکر پیدل جیل تک جاتیں۔ یہ بیٹا قید سے باہر آیا تو کچھ ہی دیر بعد آپ کی ایک بیٹی بیوہ ہوگئی۔ آپ خود بیٹی کو حوصلہ دیتیں اور دعا کی طرف متوجہ کرتیں۔
آپ بہت پرہیزگار، تہجدگزار اور دعاگو تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوابوں کے زریعہ تسلّی دیتا رہتا تھا۔ دینی کاموں میں بہت شوق سے حصہ لیتیں۔ کچھ عرصہ نگران حلقہ بھی رہیں۔ دعوت الی اللہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ محلہ کے بچوں اور بچیوں کو قرآن شریف پڑھاتیں اور خود بھی اکثر وقت تلاوت یا دینی نظمیں پڑھتے ہوئے گزارتیں۔ سلسلہ کی کتب و رسائل کا باقاعدہ مطالعہ کرتیں۔ چندہ کے علاوہ اکثر صدقات دیتیں۔
9؍مئی 2001ء کو نامعلوم افراد رات کے وقت ساہیوال میں آپ کے گھر میں داخل ہوئے اور دونوں میاں بیوی کو قتل کردیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں