محترم صاحبزادہ محمد طیب لطیف صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍جولائی 2003ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے فرزند محترم صاحبزادہ محمد طیب لطیف صاحب کا مختصر ذکر خیر اُن کی اہلیہ محترمہ کے قلم سے ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔
محترم صاحبزادہ صاحب 1926ء میں اپنی والدہ صاحبہ، تینوں بھائیوں اور خاندان کے چند افراد کے ہمراہ نہایت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے علاقہ خوست سے خفیہ طور پر نکلے اور سرائے نورنگ بنوں پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کے بعد خلافت کے قیام کا علم ہوا تو کچھ کشمکش کا دَور آپ پر آیا لیکن جلد ہی آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی۔ اور پھر دیگر افراد خاندان بھی خلافت کی غلامی میں آگئے۔
محترم صاحبزادہ صاحب بہت جوشیلی اور جلالی طبیعت رکھنے والے تھے۔ جب تک آپ سرائے نورنگ میں رہے وہاں کی جماعت کے صدر رہے۔ پھر ربوہ آکر بھی اپنے محلہ کے صدر رہے۔
معمر ہونے کے باوجود آپ کا حافظہ بہت شاندار تھا۔ چنانچہ پورا قرآن کریم صرف چار ماہ میں حفظ کرکے مسجد اقصیٰ قادیان میں آپ نے تراویح بھی پڑھائیں۔ پھر نورنگ میں اور بعد میں ربوہ اور پاکستان کے کئی بڑے شہروں میں آپ کو تراویح پڑھانے کا موقع ملتا رہا۔ آپ بہت دعاگو تھے۔ دعا کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست تھی جن کے لئے روزانہ نام بنام دعا کرنے کی توفیق پاتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب شہید کیا گیا تو آپ کی عمر صرف ڈیڑھ سال تھی۔ افغانستان میں اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرکے آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ساری داستان تم لوگ سن بھی نہیں سکتے۔ مَیں نے جب ہوش سنبھالا تو ایسا محسوس ہوا کہ مصائب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ایک لمبا عرصہ کابل کے جیل خانہ میں رہے جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ہر صبح یہی سنتے کہ ہمیں توپ سے اڑا دینے کا حکم ہوجائے گا۔ پھر سفر کیا تو تاریکی ہی تاریکی تھی۔ ماریں کھاتے رہے۔ میرے بھائی صاحبزادہ احمد ابوالحسن قدسی صاحب کو تو بہت زیادہ مارا پیٹا جاتا اور رہائی کے لئے ایک ہی شرط تھی کہ (حضرت) مرزا صاحب کو گالیاں دو۔ میرے پاؤں پر بیڑیوں کے نشان اُس وقت سے موجود ہیں۔ پھر ہمیں ترکستان جلاوطن کردیا گیا۔ لیکن اڑہائی سال بعد واپس کابل بلاکر پانچوں بھائیوں کو قید اور عورتوں کو نظربند کردیا گیا۔ قیدخانہ میں ہی پانچوں بھائی ٹائیفائیڈ سے بیمار ہوگئے تو نڈھال حالت میں انہیں گھر بھیج دیا گیا تو چند دن بعد ایک بھائی (محترم صاحبزادہ محمد عمر صاحب) کی وفات ہوگئی۔ بعد میں قید کے دوران ہی ہماری والدہ محترمہ کی بھی وفات ہوگئی تو صرف ایک بھائی کو گھر جاکر والدہ کا منہ دیکھنے کی اجازت ملی۔ … لیکن اس سارے زمانہ میں ناشکری کا ایک لفظ بھی کبھی زبان پر نہ آیا۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ محترم صاحبزادہ صاحب کی طبیعت بہت سادہ تھی۔ نماز میں باقاعدگی بہت زیادہ تھی۔ فالج کی بیماری کے دوران بھی نمازیں جمع نہیں کیں۔ کئی تکیوں کا سہارا لے کر بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ آپ کو حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء سے سچا عشق تھا اور سلسلہ کی خدمت میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں