محترم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2010ء میں مکرم نوید احمد صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں وہ اپنے والد محترم محمود احمد شاد صاحب مربی سلسلہ کا ذکرخیر کرتے ہیں جو 28 مئی 2010ء کو مسجد بیت النور لاہور میں شہید ہوئے۔ شہید مرحوم کے بارہ میں قبل ازیں 2مئی 2014ء کے شمارہ کے اسی کالم میں مضامین شائع ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ذیل میں چند اضافی امور پیش ہیں۔

محمود احمد شاد صاحب

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے خاندان میں احمدیت میرے پرداد محترم چودھری فضل داد صاحب کے ذریعہ آئی لیکن آپ کی ساری اولاد گاؤں والوں کے ساتھ مل کر احمدیت کے خلاف شدید تعصب کا اظہار کرتی تھی۔ ایک دن آپ کے ایک بیٹے آپ کے کمرہ میں گئے تو فرض پر ایک کتاب بکھری پڑی تھی۔ آپ نے اُسے اٹھاکر صفحات ترتیب دیئے تو ارادہ یہی کیا کہ اس کو قطعاً نہیں پڑھوں گا لیکن اتفاقاً چند باتیں پڑھیں تو اتنی دلچسپی پیدا ہوئی کہ پوری کتاب پڑھ لی اور اُسی وقت بیعت کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ یہ کتاب ’’تبلیغ ہدایت‘‘ تھی۔ اس طرح محترم چودھری صاحب کے بیٹے محترم چودھری غلام احمد صاحب بھی احمدیت کی آغوش میں آگئے۔ کسی اَور بیٹے کو قبول احمدیت کی سعادت عطا نہ ہوئی۔
محترم چودھری غلام احمد صاحب بیعت کے بعد ایمان میں بہت ترقی کی۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ بھی مدرسہ احمدیہ قادیان میں تعلیم حاصل کرکے مربی بنیں لیکن یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ بعد میں یہ شوق آپ نے اس طرح پورا کیا کہ اپنے اکلوتے بیٹے (محترم محمود احمد شاد صاحب شہید) کو مبلغ بنایا اور اس سے پہلے محض اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اپنی تمام جائیداد چھوڑ کر ربوہ منتقل ہوگئے۔
محترم محمود احمد شاد صاحب 1962ء میں ضلع میانوالی کے گاؤں عیسیٰ خیل میں پیدا ہوئے تھے ۔ تعلیم ربوہ سے حاصل کی۔ بچپن سے ہی سلسلہ کے شیدائی تھے۔ جب آپ نے میٹرک کے بعد F.Sc میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ڈاکٹر بن سکیں تو آپ کے والد آپ کو اپنے کمرہ میں لے گئے جہاں اُن کی لائبریری تھی۔ پھر بڑی رقّت سے کہا کہ بیٹا مَیں نے تمہارے لئے کوئی جائیداد نہیں بنائی سوائے حضرت مسیح موعودؑ کی ان کتابوں کے، اور میری یہ خواہش ہے کہ تم ایک مربی بن کر جماعت کی خدمت کرو۔ آگے تمہاری مرضی۔
اس واقعہ سے اگلے ہی روز آپ نے اپنے والد محترم کی خواہش کے مطابق جامعہ میں داخلہ کی درخواست جمع کروادی۔
ایک بار بچپن میں جب آپ وقارعمل میں شریک تھے تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ وہاں جائزہ لینے کے لئے تشریف لائے۔ آپ اُس وقت کانٹے اٹھارہے تھے۔ حضورؒ نے آپ سے پوچھا کہ کیا تم بکری سے زیادہ طاقتور ہو؟ آپ نے عرض کیا: جی حضور۔ فرمایا کہ کیا تم کانٹے کھا سکتے ہو؟ آپ نے عرض کیا : نہیں حضور۔ فرمایا کہ پھر تم بکری سے طاقتور نہیں ہو کیونکہ بکری کانٹے کھاسکتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد جب آپ حضورؒ سے ملاقات کرنے جاتے تو حضورؒ پیار سے آپ کو بکری کہہ کر بلاتے۔
آپ کا قد چھوٹا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپ کو فرمایا تھا کہ جب تم سولہ سال کے ہوجاؤگے تو مَیں تمہیں قد لمبا کرنے کا طریقہ بتاؤں گا۔ جب آپ سولہ سال کے ہوئے اور حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ مَیں سولہ سال کا ہوگیا ہوں تو حضورؒ نے فرمایا کہ کوہاٹ جاکر کچھ عرصہ رہو۔ لیکن آپ کسی وجہ سے نہ جاسکے۔ کچھ عرصہ بعد حضورؒ کے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ فلاں مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکا۔ اس پر خود حضورؒ نے ہی ازراہ شفقت آپ کی چھٹیوں میں آپ کو کوہاٹ بھجوادیا۔
جن دنوں آپ کو دھمکیاں مل رہی تھیں تو ایک روز آپ نے مجھے اور میری والدہ کو بڑی رقّت سے یہ کہا کہ ’آج مَیں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری قربانی لینی ہے تو مَیں حاضر ہوں مگر میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں