محترم چوہدری محمد علی صاحب آف لاٹھیانوالہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20جنوری 2012ء میں مکرمہ ر۔ جاوید صاحبہ کے قلم سے اُن کے دادا محترم چوہدری محمد علی صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
پاکستان بننے سے قبل محترم چودھری محمد علی صاحب ضلع قصور کے قصبہ للیانی میں مقیم تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ضلع فیصل آباد کے گاؤں لاٹھیانوالہ ہجرت کرکے آگئے۔ آپ چار بھائی تھے جن میں سے دو بھائیوں اور والد محترم چوہدری مولا بخش تھا کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔
بیعت سے پہلے محترم چودھری محمد علی صاحب کی زندگی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ علاقہ میں ہر کوئی آپ سے ڈرتا تھا۔ شراب و سگریٹ پینا، لوگوں سے جگا وصول کرنا، جوآ کھیلنا آپ کا معمول تھا اور کبھی نماز نہ پڑھی تھی۔ آپ کے قبولِ احمدیت کا واقعہ یوں ہے کہ 1953ء کے فسادات کے دوران ایک روز آپ اپنے گاؤں لاٹھیاں والا سے کھرڑیانوالہ جا رہے تھے تو سامنے سے ایک جلوس آتا ہوا دیکھا۔ آپ کے پوچھنے پر جلوس والوں نے بتایا کہ ہم لاٹھیانوالہ کے مرزائیوں کو ختم کرنے جا رہے ہیں۔ آپ کو خیال آیا کہ وہ سب تو ہماری برادری کے لوگ ہیں۔ اُس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ نے ان لوگوں کے آگے ایک لائن کھینچ دی اور کہا کہ جس آدمی کو اپنی موت منظور ہے وہ اس لائن کو پار کرلے۔ کسی کو لائن پار کرنے کی جرأت تو نہ ہوئی لیکن ایک آدمی نے آپ سے پوچھا کیا تم بھی مرزائی ہو گئے ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ یہی سمجھ لو۔ پھر آپ گھر واپس آگئے لیکن ساری رات اسی کشمکش میں گزر گئی کہ میں نے شاید کوئی برا کام کیا ہے کیونکہ مخالفین تو کہا کرتے ہیں کہ مرزائیوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپ جڑانوالہ چلے گئے جہاں احراریوں کا بہت بڑا اجتماع ہورہا تھا۔ آپ نے سوچا کہ اپنے گاؤں والے تو رشتے دار ہیں چلو وہاں جاکر ثواب کمائیں۔
جڑانوالہ پہنچ کر احراریوں کے جلسہ میں شامل ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک مخالف محمد علی جالندھری نے ’’الفضل‘‘ اخبار ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ سنو! مرزا محمود کہتا ہے کہ مَیں جماعت کو خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا آسمان سے ہماری مدد کو دوڑا آرہا ہے اور جو بھی جماعت احمدیہ سے ٹکرائے گا اس شخص کا حال اس شخص جیسا ہوگا جو کسی پہاڑ سے ٹکراتا ہے اور پاش پاش ہو جاتا ہے۔
اُس کا یہ کہنا ہی تھا کہ فوج کی طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہونے لگی اور سارا مجمع منتشر ہوگیا۔ ہر ایک اپنی جان بچانے کو بھاگنے لگا۔ تب آپ نے اپنے دل میں خداتعالیٰ سے دعا کی کہ اگر آج مَیں بچ گیا تو مَیں سمجھوں گا کہ حضرت مسیح موعودؑ سچے ہیں۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہی ہوا۔ جب آپ بچ نکلے تو گاؤں واپس پہنچ کر سیدھے صدر جماعت کے پاس گئے اور باقاعدہ بیعت کرلی۔
قبولِ احمدیت کے وقت آپ کی عمر 32 سال تھی۔ شادی بھی ابھی نہیں ہوئی تھی۔ جب آپ کے گھر والوں کو آپ کے قبولِ احمدیت کی خبر ہوئی تو وہ نہایت غضبناک ہوئے۔ آپ کے بڑے بھائی چھرا لئے پھرتے تھے کہ آپ کو قتل کر دیں گے۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ کو وہ محمد علی اچھا لگتا تھا جوکہ جوأ کھیلتا اور شراب پیتا تھا یا یہ جو پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے!۔
بیعت کرنے کے ساتھ ہی آپ میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہوئی۔ ہر قسم کی برائی کو ترک کر دیا۔ پانچ وقت مسجد میں حاضر ہونے لگے اور تمام چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرنے لگے۔ آپ کے احمدیت قبول کرنے سے وہاں کے احمدیوں کو بھی تحفظ کا احساس ہوا۔
اپنے گھر اور خاندان والوں کی سخت مخالفت دیکھ کر نہ صرف آپ خود اُن کے لئے بہت دعائیں کیا کرتے تھے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو بھی باقاعدگی سے خطوط لکھتے رہتے تھے۔ چنانچہ پھر یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ ایک ہی رات آپ کے والد صاحب اور بڑے بھائی چوہدری سید علی صاحب کو خداتعالیٰ نے خواب کے ذریعہ احمدیت کی صداقت کی خبر دے دی۔ تو دونوں نے اگلے ہی روز اپنی خوابیں بیان کرکے بیعت کرلی۔
جب چودھری محمد علی صاحب کی شادی ہوئی تو آپ کی اہلیہ نے بھی فوراً احمدیت قبول کرلی۔ وہ نہایت نیک اور عبادت گزار خاتون تھیں۔ تقسیم ہند سے پہلے امرتسر میں رہتی تھیں اور اس وقت ہی خداتعالیٰ نے اُن کو رؤیا کے ذریعے حضرت مسیح موعودؑ کی تصویر دکھاکر یہ خبر دے دی تھی کہ وقت کا امام آگیا ہے۔ شادی کے بعد جب پہلی بار حضور علیہ السلام کی تصویر دیکھی تو فوراً ایمان لے آئیں۔
محترم چودھری محمد علی صاحب نہایت ہی پاکباز اور سچے انسان تھے۔ غریبوں کے نہایت ہمدرد تھے اور یتیموں کی کفالت کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ نے ایک یتیم بچے کو پال کر بڑا کیا اور اس کی اچھی جگہ شادی کروائی مکان بھی خود خرید کر دیا۔
آپ چند سال کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ڈرائیور بھی رہے ہیں۔ جماعت کی طرف سے جب کبھی کوئی نئی تحریک ہوتی تو سب سے پہلے حصہ لیتے اور آخر وقت تک جماعت کے ساتھ نہایت مخلص رہے۔ اپنے گاؤں کے تین مرتبہ صدر جماعت بھی رہے۔ موصی تھے۔ 1985ء میں 70 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔ آپ نے اپنی اہلیہ کی بھی وصیت کروائی اور وہ بھی بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔
محترم چودھری محمد علی صاحب صدر ایوب کے دَورِ حکومت میں دس سال تک کھرڑیانوالہ کے چیئرمین بھی رہے اور اپنے علاقہ کے لئے بھی بہت کام کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں