مکرمہ سلیمہ اختر صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20اکتوبر 2010ء میں مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب نے اپنی والدہ محترمہ سلیمہ اختر صاحبہ (اہلیہ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب) کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
میری امی 22فروری 1935ء کو معروف شاعر مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب شادؔ کے ہاں پیدا ہوئیں جنہوں نے جلسہ سالانہ 1926ء کے موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ امی کا نکاح3ستمبر1953ء کو حضورؓ نے ہی پڑھا تھا۔ اُس وقت کی کمزور مالی حالت کا اندازہ اباجان کی اس تحریر سے کیا جاسکتا ہے جس میں لکھتے ہیں کہ: جو معمولی سی تنخواہ ملتی تھی وہ گزشتہ ماہ کے قرض کی ادائیگی میں دکاندار کو چلی جاتی تھی۔ گھر میں مدت تک گوشت پکنے کا سوال نہیں ہوتا تھا۔ سبزی دال جو ملتی اللہ کا نام لے کر صبر شکر سے گزارا کر لیتے تھے۔ پہلے بچہ کی پیدائش کا وقت قریب تھا۔ میرے ذہن میں یہ سوال اٹھنے لگا کہ بچے کی پیدائش پر اگر لڑکا ہوا تو دائی 10روپے اور اگر لڑکی ہوئی تو 5روپے لے گی۔ میرے پاس نہ توپانچ روپے ہیں اور نہ دس۔ مَیں سوچتا رہتا تھا کہ یہ خرچہ کہاں سے پورا ہوگا؟
میری امی کو خلافت کے ساتھ عشق تھا۔ خلیفۂ وقت کے احکامات کی بجاآوری اپنے اوپر فرض کرلیتیں۔ کوئی بھی تحریک ہوتی بھرپور انداز میں اس پر لبیک کہتیں۔ غربت اور مالی کشائش نہ ہونے کے باوجود ہر مالی قربانی میں مقدور بھر حصّہ لیا۔
4 جون 1974ء کو میرے ماموں مکرم محمد الیاس عارف صاحب کو ٹیکسلا میں شہید کردیا گیا۔ امی نے بیحد صبر کا مظاہرہ کیا۔ آہ و بُکا کی بھی تو خداکے حضور۔
میری بڑی ہمشیرہ کے لئے جرمنی سے رشتہ آیا۔ چونکہ بہنوئی پاکستان نہیں آسکتے تھے اس لئے طبعًا امّی کو پریشانی تھی کہ لڑکا بھی نہیں دیکھا اور لڑکی کس طرح جائے گی۔ اسی دوران اباجان کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے لندن بلوالیا اور پھر آپ جرمنی بھی گئے جہاں لڑکے سے مل لیا تو تسلی ہوگئی مگر امی ابھی متذبذب تھیں۔ اسی دوران مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں اس بارہ میں لکھا تو جواب میں حضورؒ نے فرمایا کہ لڑکی کو جرمنی بھجوانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس پر امّی نے فوراً بشاشت کا اظہار کردیا اورپھر لندن میں حضور نے ہی رخصتانہ کے انتظامات فرمائے اور اپنی دعاؤں سے رخصت کیا۔ حضورؒ کے طفیل امّی کو یہ موقع بھی مل گیا کہ انگلستان گئیں اور وہاں دونوں میاں بیوی حضورؒ کی براہِ راست شفقتوں کے مورد بنتے رہے۔
پنجوقتہ نماز امی کی غذا تھی۔ قرآن مجید سے بے پناہ عشق تھا۔ دعاؤں میں مصروف رہتیں۔ قناعت خود بھی اختیار کی اور ہمیں بھی اس پر کاربند کیا۔ محدود آمدنی اور وسائل میں لباس کاخیال بھی رکھا، مہمان نوازی بھی کی۔ ایک دفعہ ابا جان سے کہا کہ فلاں مولانا صاحب کی بیوی نے بتایا ہے کہ میرے میاں کو حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب ماہانہ کچھ رقم بھجواتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ بھی کوشش کر دیکھیں۔ ابا جان نے جواب دیا: مَیں تو جو کچھ مانگوں گا اپنے خدا سے مانگوں گا۔
امی نے ابا جان کا بہت خیال رکھا اور اُن کی دینی ذمہ داریوں کی بجا آوری میں اُن کو گھر کے کام کاج سے بری الذمہ کر رکھا۔ راشن، کپڑے ، بچوں کی تعلیم کی ذمہ داریاں۔ مَیں اُن کا اکیلا بیٹا تھا جو چار بیٹیوں کے بعد ہوا تھا۔ میرے بعد ایک بہن بھی تھی ۔ مجھ سے بہت پیار کیا مگر ہرگز ایسا نہیں کہ مزاج ہی بگڑ جائے۔ گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ نئے کپڑے قسمت سے ہی شاید عید پر نصیب ہوتے۔ ہم سب کے کپڑے وہ خود ہی سی لیا کرتیں۔ اُنہی کے ہاتھوں کے بُنے ہوئے سویٹر ہم زیب تن کرتے۔
امی صرف مڈل پاس تھیں مگر خط خوبصورت تھا۔ لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتیں اور کئی پروگراموں کی روح رواں ہوتی تھیں۔ محلہ میں شادی اور غمی کے موقع پر پہلے پہنچ کرانتظامات سرانجام دیتیں۔ بیماروں کی عیادت بھی خود پر فرض کررکھی تھی۔
پچاس کی دہائی میں دارالنصر ربوہ کے آخر پر چند گھر تھے جن میں سے ایک میں آپ اپنی بچیوں کے ساتھ رہیں۔ اباجان دورہ پر ہوتے یا دفتر سے رات گئے واپس آتے تو امی میری کم عمر بہنوں کے ساتھ دلیری سے گزارا کرتیں۔ 1974ء میں پولیس نے خلافت لائبریری کو گھیرے میں لے لیا تو امی ایک بہادر مرد کی طرح گھروں میں تسلی دینے نِکل پڑیں۔ سب کی ہمت بندھائی اور صبر کی تلقین کی۔ گھروں میں لجنہ کی ہدایات پہنچانے اور ان پر عمل درآمد کروانے کے لئے نہایت مستعد ہوتیں۔
آپ بہت سادہ تھیں مگر اس سادگی میں بھی ایک وقار تھا۔ کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئیں، شیخی نہیں بگھاری، نہ ہی اپنی کمزور حالت کا رونا رویا۔ صاف لباس، صاف گھر،صاف دل۔خرچ کے معاملہ میں احتیاط پسند تھیں۔ فضول خرچی کا تو کوئی موقع تھا نہ محل۔ کوارٹروں کے ابتدائی ایام میں نہ پانی تھا نہ گیس۔ نلکا کا فلٹر نمکین پانی ہونے کی وجہ سے اکثر بلاک ہوجاتا۔ لیکن کبھی شکوہ زبان پر نہیں آیا۔
شروع سے ہمارا گھر ہمارے رشتہ داروں کی آماجگاہ رہا۔ یہ رشتہ دار ہمارے ننھیال کے بھی ہوتے تھے اور ددھیال کے بھی۔ ہمارے ددھیال میں بہت سے عزیز ابھی بھی غیر احمدی ہیں۔ اُن سے میل ملاقات ایسی تھی کہ وہ اب بھی امّی کو یاد رکھتے ہیں۔ ہمارے بہت سے عزیزوں نے ہمارے ہاں رہ کر تعلیم پائی۔ محدود وسائل کے باوجود امّی کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا۔ ہم بہن بھائیوں کی طرح ہی بلکہ بعض اوقات ان سے بہتر سلوک ہوتا۔ ابّاجان کی عادت تھی کہ کوئی بھی آئے تو مشروب پیش کرنا ضروری سمجھتے۔ بعض اوقات تو ابھی دروازے پر دستک ہوتی تو شربت یا چائے لانے کا حکم صادر ہوجاتا۔ہم مذا ق میں کہتے کہ مہمان کو آتو لینے دیں۔ جلسہ سالانہ کے ایّام میں تو گھر مہمانوں سے بھر جاتا اور صِحن میں ایک چھولداری بھی لگوا لی جاتی۔ لنگرخانہ سے کھانا آتا تو تھا مگر بیماروں کے لئے اور اس کے علاوہ مہمانوں کے مزاج کے مطابق کھانے کا خاص اہتمام کرتیں۔
امّی میں احسان مندی کا جذبہ بہت تھا۔ جس کِسی نے بھی اُن سے ادنیٰ سا خیر بھی کیا، اُن کا تذکرہ ممنونیت کے ساتھ کرتیں۔
ہمارے بزرگ والدین کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے لئے ہی بنایا تھا۔ ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے والے، ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ۔ مَیں نے کبھی لڑتے دیکھانہ بلند آواز میں آوازہ کستے۔ تنہائی میں کبھی اختلاف کا اظہار کرلیتے ہوں تو پتہ نہیں۔ امی نے خود کو ابا کی خدمت کے لئے وقف کررکھا تھا۔ روزانہ دس گیارہ بجے دفتر میں چائے یا دودھ بھجواتیں۔ دوپہر کے وقت کھانے کا خاص اہتمام کرتیں کیونکہ ابا جان مرچ زیادہ نہیں کھاتے تھے۔ انہیں توّے پر گرم تازہ روٹی پکاکردیتیں۔ رات کو اباجان بہت دیر سے گھر لوٹتے۔ اُس وقت چائے یا دودھ وغیرہ پیش کرنا یا کسی اَور چیز کا بنا کردینا۔ سردی ہو یا گرمی، ابا جان پانی گرم پیتے تھے۔ لہٰذا اس کا خاص خیال رکھتیں۔ یہ سب کچھ لکھ دینا نہایت آسان ہے مگر ایک جہدِ مسلسل تھا جو امی جان کی زندگی کا بہت بڑا خاصہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اُنہیں کسی اَور کی کوئی پروا نہیں۔ دُھن ہے تو بس یہی کہ اپنے واقفِ زندگی شوہر کا ہر لمحہ خدمتِ دین میں صَرف ہو۔
ابا جان کو تین دفعہ اسیر راہ مولیٰ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔1982ء میں ایک دن حوالات میں گزارنا پڑا۔ پھر 1988ء میں گوجرانوالہ میں اسیر بنے اور چار دن بعد رہائی ملی۔ 1990ء میں امی بیمار ہی تھیں کہ اباجان کو دو سال قید بامشقت اورپانچ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا کر سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں پابندِ سلاسل کردیا گیا۔ اس خبر نے امّی کی بیماری کو اَور بھی بڑھا دیا۔ لیکن اس کے باوجود صبروتحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
غرباء سے ہمدردی اورخدمتِ خلق ان کی وہ خوبیاں تھیں جن کی یاد میرے دل میں ابھی بھی تازہ ہے۔ باجود عُسرت کے، غرباء کی امداد اور دیگرلوگوں کی خدمت کرکے لذّت محسوس کرتیں۔ پیسے نہ ہوتے تو کھانا پیش کردیا، گندم نکال کردے دی، کپڑے حاضر کردئیے۔ ایسا بھی ہوا کہ اُن کے لئے کپڑے اپنے ہاتھ سے سی کر مدد کر دیتیں۔
صفائی اُن کی عادتِ ثانیہ تھی۔ سارے گھر میں جھاڑو لگانا، اپنے ہاتھوں سے گھر کے تمام افراد کے کپڑے دھونا۔ کھانا پکانا اور کھلانا، برتنوں کی دُھلائی ، بستروں کی ستھرائی وغیرہ، ہر چیز کو ترتیب اور قرینے سے رکھنا اُن کا معمول تھا۔
امی اپنے بہن بھائیوں میں بڑی تھیں۔ اپنے سسرال میں بڑی بہو تھیں۔ لیکن صلح جوئی ہمیشہ پیش نظر رکھی۔ گھروں میں کئی تلخ باتیں ہوجاتیں یا اگر کسی نے امی کے بارہ میں ناواجب بات کربھی دی تو کمال حوصلہ کے ساتھ اُسے اس طرح فراموش کردیاکہ پھر کبھی اس بارہ میں بات نہیں کی۔ اپنی ساس اورسُسر کا بہت خیال رکھا۔ ہمارے دادا مکرم حافظ محمد عبداللہ صاحب (معلم اصلاح وارشاد) کا خاص خیال رکھتیں۔
اپنی اکلوتی نرینہ اولاد سے کسے پیار نہیں ہوتا۔ امّی نے مجھے بہت پیار دیا مگر لاڈ کا ایسا مظاہرہ نہیں کیا جو بگاڑ کر رکھ دے۔ اپنی بچیوں سے بھی برابر شفقت کا سلوک کیا۔ اور اس میں کوئی فرق نہیں رکھا۔
22مئی 1990ء کو 55 سال کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے میرے والد محترم کے نام تعزیتی خط میں تحریر فرمایا:’’…مرحومہ نے آپ کی خدماتِ دینیہ میں پورا پورا تعاون کیا اوربچوں کی نیک تربیت کرکے اپنے پیچھے اچھی یاد چھوڑی ہے ‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں