مکرم وسیم احمد بٹ صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 8مئی 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ پروین بٹ صاحبہ کے قلم سے محترم وسیم احمد بٹ صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 14؍فروری 2020ء کے شمارے کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں کیا جاچکا ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب کے دادا محترم غلام محمد بٹ صاحب قادیان کے نواحی علاقے کے رہنے والے تھے۔ آپ نے 1933ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ یہ وہ دَور تھا جب احمدیت کی شدید مخالفت ہورہی تھی اور آپ کی بیعت کے اگلے ہی سال قادیان میں احراریوں نے آکر وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کا دعویٰ کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ احمدی خاندان سمن آباد (فیصل آباد) آگیا۔ اتفاق سے ان کے پرانے گاؤں سے وہ خاندان بھی یہیں آبسا جو احمدیت کا شدید مخالف تھا اور انہوں نے 1953ء سے ہی اپنی مخالفانہ کارروائیاں یہاں بھی شروع کردیں۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب 1970ء میں پیدا ہوئے۔ بڑے ہوئے تو پاورلومز آپریٹ کرنے کا ذاتی کام شروع کیا۔ آپ کے والد مکرم محمد رمضان بٹ صاحب قریباً 26 سال سے بوجہ بیماری فارغ ہی تھے۔ 30؍اگست 1994ء کو مکرم وسیم احمد بٹ صاحب دوپہر کا کھانا کھانے گھر آرہے تھے جب تین دہشت گردوں نے آپ پر فائرنگ کردی۔ گولیاں آپ کی ٹانگ، کلائی اور سینے میں لگیں۔ کلاشنکوف کا ایک برسٹ بھی مارا گیا۔ آپ نے اسی حالت میں ایک دہشت گرد سے اُس کی گن چھین لی لیکن پہلا فائر کرتے ہی گرگئے اور شہید ہوگئے۔ آپ کے ہمراہ آنے والے آپ کے بھائی مکرم محمد امین بٹ صاحب اور دو چچازاد بھائی مکرم اختر کریم بٹ صاحب اور مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب بھی شدید زخمی ہوئے۔جن میں سے مکرم حفیظ احمد بٹ صاحب بھی بعدازاں شہید ہوگئے۔
مکرم وسیم احمد بٹ صاحب بہت کم گو تھے لیکن اکثر یہ بات کہا کرتے کہ’’پتہ نہیں کب بلاوا آجائے‘‘۔ اپنے بزرگوں اور گھر والوں سے بہت محبت اور دوستی رکھتے۔ کام سے واپسی پر کبھی خالی ہاتھ نہ آتے، ہمیشہ کوئی کھانے کی چیز ساتھ ہوتی۔ نماز بروقت اور سنوار کر ادا کرتے۔ تلاوت قرآن کریم بھی اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ حقوق العباد کا بہت خیال رکھتے۔ اکثر اپنے نئے کپڑے بھی غرباء میں بانٹ دیتے۔ اُن کی غریب پروری اور سماجی خدمات کی وجہ سے ہی آپ کی شہادت پر غیراحمدی دکانداروں نے ہڑتال کی اور جلوس نکال کر قاتلوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ شہید مرحوم کی نماز جنازہ پانچ مرتبہ ادا کی گئی۔ دو بار احمدیوں نے اور دو بار غیرازجماعت شرفاء نے جبکہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور اپنے ایک خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر بھی کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں