مکرم ولید احمد صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 5 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرم ولید احمد صاحب شہید کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 28 فروری 2014ء کے شمارے کے اسی کالم‘‘الفضل ڈائجسٹ’’میں بھی کیا جاچکا ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔
مکرمہ ساجدہ چودھری صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ عزیزم ولید احمد ابن مکرم منور احمد صاحب میری بہن آنسہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جب ٹی وی سے دہشتگردوں کی کارروائی کا علم ہوا تو فون کرنے پر پتہ چلا کہ ولید احمد میڈیکل کالج سے سیدھا دارالذکر چلا گیا تھا۔ وہاں سے اُس کا رابطہ صرف اپنی امّی کے ساتھ ربوہ میں ہوا جس میں اُس نے حملے کی اطلاع دی اور دعا کے لیے کہا۔ پھر اُس کی شہادت کی اطلاع آئی تو مَیں اور ولید کے تین چچا صاحبان پاکستان روانہ ہوگئے۔ مَیں سوچ رہی تھی کہ اپنی بہن کو تسلّی کیسے دوں گی جس کا اکلوتا بیٹا اس دہشت گردی کا شکار ہوگیا تھا۔ وہ ایک شہید (محترم چودھری عبدالرزاق صاحب شہید بھریاروڈ سندھ 1985ء) کی بیٹی اور ایک شہید (محترم چودھری عبدالحمید صاحب شہید محراب پور سندھ 1984ء) کی بہو تھی اور اب وہ ایک شہید کی ماں بھی تھی۔ وہ صبر اور ہمّت سے سب کو مل رہی تھی۔ لب پر دعا تھی، دل خون کے آنسو روتا تھا مگر آواز نہ تھی۔ جنازے سے پہلے تین چار بار پیشانی کو چوما اور سرہانے کھڑی دعائیں کرتی رہی۔ اُس کی بیٹیاں بھائی کے بچھڑنے پر تڑپتی تھیں تو اُن کو بھی سمجھاتی تھی کہ وہ خدا کے ہاں زندہ ہے۔ جب اپنا دل بھر آتا تو نوافل یا قرآن کریم پڑھنا شروع کردیتی۔
ولید گیارہ سال کا تھا جب ایک اجلاس میں سب سے پوچھا گیا کہ وہ بڑے ہوکر کیا بنیں گے۔ ولید نے جواب دیا کہ مَیں اپنے دادا کی طرح شہید بنوں گا۔ صرف چھ سال بعد اُس نے اپنے مقصد کو حاصل کرلیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس کی اپنے تعلیمی ادارے میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تدفین والے دن اُس کے اساتذہ اور طلباء نے ایک ہی دن میں تین دفعہ تعزیتی تقریب منعقد کی۔ ایک استاد نے بتایا کہ چند اساتذہ اور طلباء نے تدفین میں شامل ہونے کا پروگرام بنایا تھا لیکن بعض طلباء کے بلک بلک کر رونے کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ربوہ جاکر ولید کا چہرہ دیکھ کر غم کی شدّت سے بے حال نہ ہوجائیں اس لیے مجبوراً یہ پروگرام مُلتوی کردیا۔
……………………
شہید مرحوم کی چچی مکرمہ راشدہ ناصر صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ولید جب ڈیڑھ دو ماہ کا تھا تو بہت زیادہ بیمار ہوگیا۔ سارا گھر اس کے لیے فکرمند تھا۔ماں نے اپنا آپ بھلادیا تھا کیونکہ دوائی ہر دو گھنٹے بعد دینی تھی لیکن ایسے میں بھی وہ نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرتی اور بعد میں انہماک سے تسبیح کرتی۔
ولید کو رمضان میں اعتکاف کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ وہ نمازوں کا پابند تھا اور موصی بھی تھا۔وہ ہمارے خاندان میں پہلا بچہ تھا اس لیے سب کا پیار پایا اور سانجھا پُتّر کہلاتا تھا۔ ہم اُس کو کہتے کہ تم نے بہت اچھا اور دوسروں کے لیے مثال بننا ہے۔ اُس نے واقعی ایسا ہی بن کر دکھایا۔
……………………
شہیدمرحوم کی والدہ مکرمہ آنسہ منور صاحبہ لکھتی ہیں کہ ولید میرا اکلوتا بیٹا اور تین بہنوں کا لاڈلا بھائی تھا۔ اُس نے فون پر حملے کی اطلاع دی اور پھر رابطہ نہ ہوسکا۔ اُس کے والد اُسی وقت ربوہ سے لاہور روانہ ہوگئے۔ راستے سے فون پر بتایا کہ کسی نے بتایا ہے کہ وہ زخمی ہے۔ پونے آٹھ بجے انہوں نے اُس کی شہادت کی اطلاع دی۔ رات ڈیڑھ بجے اُسے لے کر ربوہ پہنچے۔ سارا وقت مَیں روتی رہی اور خداوند کریم سے صبر مانگتی رہی کہ میرے جسم کو طاقت دے کہ مَیں اپنے شہزادے کو دیکھ سکوں۔… خون میں لت پت۔ اوپر کی چادر بھی خون سے بھری ہوئی۔
وہ بہت سی صفات کا مالک تھا۔ اُس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ نماز پر جاتے ہوئے محلے کے بچوں سے بھی کہتا کہ چلو نماز کا وقت ہوگیا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں