مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 5 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔2010ء) میں مکرمہ امۃالرؤف صاحبہ اور مکرمہ فرزانہ ندیم صاحبہ کے قلم سے محترم پروفیسر عبدالودود صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں شہید مرحوم کا مختصر تذکرہ 4؍جولائی 2014ء اور 12؍اکتوبر 2018ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں تفصیل سے کیا جاچکا ہے جسے ویب سائٹ میں بھی سرچ کیا جاسکتا ہے۔ ذیل میں صرف اضافی امور پیش ہیں۔
مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب 31؍دسمبر 1954ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ غرباء کی ہمدردی آپ کی طبیعت کا حصہ تھی۔ گھر کے سامنے ایک غریب گھرانے میں کسی کی وفات ہوئی تو آپ نے اس کی تدفین کے لیے پیسے جمع کرکے انتظامات کروائے۔ ایسے کئی مواقع پر مالی مدد کرتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ کئی غرباء کی باقاعدہ امداد کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہت صائب الرائے تھے۔ چونکہ انگریزی میں M.A. کے علاوہ L.L.B. بھی کیا ہوا تھا اس لیے کئی قانونی معاملات آپ نے حل کروائے اور مظلوموں کی دعائیں لیں۔
بہت دعاگو تھے اور خداتعالیٰ کے فضل سے اعجازی نشانات بھی دیکھتے۔ آپ کے ہاں شادی کے چھٹے سال تک اولاد نہ تھی لیکن کبھی اپنی اہلیہ کو اس کا احساس نہ دلایا۔ پھر خداتعالیٰ نے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا فرمایا۔ ایک اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن روزوں کے ایّام میں کہیں گئے ہوئے تھے اور دیر سے آنا تھا لیکن خلافِ توقع افطاری سے پانچ منٹ پہلے آگئے تو مَیں پریشان ہوگئی۔ آپ نے کہا کہ پانی اور کھجور دے دو، کھانا بعد میں تیار کرلینا۔ اسی وقت باہر دستک ہوئی اور کسی نے پوری ٹرے پُرتکلّف افطاری کی بھجوادی۔
تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ مولانا طاہرالقادری صاحب سے بھی گفتگو ہوئی تو مولانا صاحب نے کچھ دیر بعد کہا کہ اُن کے پاس ابھی وقت نہیں، پھر بات کریں گے۔ گھر میں جب خاندان کے کچھ لوگ اکٹھے ہوتے تو جماعت کا ہی ذکر ہوتا۔ احمدی ہونے کی وجہ سے جو مصائب آپ کو پیش آتے اور پھر خدا کا جو فضل ہوتا اُس کا بیان بڑے جوش سے کرتے۔ کبھی ترقی روکی گئی تو بعد میں مل گئی۔ اگر الاؤنسز روکے گئے تو بعد میں سارے مل گئے۔ گھر میں باجماعت نماز کا اہتمام کرتے اور بیوی بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کے لیے باقاعدہ کلاس لیتے۔
آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے۔ کوئی سالن دو دن بھی کھانا پڑتا تو خوشی سے کھا لیتے۔ اگر کھانا وقت پر تیار نہ ہوپاتا تو بھوک کے باوجود کچھ نہ کہتے۔ اگر کبھی ناراض ہوتے تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہوجاتے۔
اسیر ساہیوال مکرم محمد الیاس منیر صاحب کہتے ہیں کہ شہید مرحوم سیلف میڈ انسان تھے۔ کلرکی سے نوکری کا آغاز کیا۔ 1986ء میں جب نمرودِ وقت کی طرف سے ہمیں سزائے موت سنائی گئی تو شہید مرحوم پنجاب سیکرٹریٹ کے جیل سیکشن میں متعیّن تھے جس کی وجہ سے اُن کے لیے جیل میں آنا بہت آسان تھا۔ چنانچہ ہر دو تین ہفتے بعد ہمارے پاس آتے اور مسلسل آٹھ سال ہمارا خیال رکھتے رہے۔ اُن کا ہمارے پاس آنا جیل حکّام کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہوتا۔ آپ احمدیت کے حوالے سے بڑے دلیر اور جرا?ت مند تھے اور اپنے احمدی ہونے کو کبھی پوشیدہ نہ رکھا۔
آپ کو کسی کی وفات کی اطلاع ملتی تو بارہا نماز جنازہ کی ادائیگی کے لیے ربوہ کا سفر کرتے اور کہتے کہ یہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ کبھی یہ سفر ہفتے میں دو بار بھی ہوتا۔
آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ آپ کی شہادت سے دو ماہ قبل مَیں نے خواب دیکھا کہ جیسے میری زندگی کا وقت کم ہو۔ بچے چھوٹے تھے اس لیے بہت پریشانی تھی لیکن کسی سے ذکر نہ کیا۔ شہادت سے دو ہفتے قبل شہید مرحوم کچھ پریشان نظر آئے اور جلدی جلدی اپنے کام سمیٹنے لگے۔ پوچھا تو کہنے لگے کہ ایک خواب دیکھا ہے مگر بتاؤں گا نہیں۔ مگر پھر باجماعت نمازوں میں اکثر شہادت کی مخصوص آیات (البقرۃ:154) کی تلاوت کرنے لگے۔
سانحہ لاہور کے دوران آپ اُس وقت شہید ہوئے جب دہشت گردوں نے افواہ پھیلائی کہ اب کوئی خطرہ نہیں۔ اُن کی آواز سُن کر آپ باہر نکلے اور اُن کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ اسی سانحہ میں آپ کے بڑے بھائی محترم عبدالشکور صاحب زخمی ہوئے۔
شہید مرحوم کی شہادت سے قبل اور بعد میں کئی عزیزوں نے خواب میں آپ کا انجام بخیر دیکھا۔ شہادت کے دو روز بعد شہید مرحوم کی چھوٹی بیٹی اپنی روتی ہوئی والدہ سے کہنے لگی کہ
’’پاپا کا صرف جسم ختم ہوا ہے اور وہ خود زندہ ہیں۔ جب آپ روتی ہیں تو وہ آپ کو دیکھتے ہیں اور ان کو بھی دکھ ہوتا ہے اس لیے آپ اب نہ رویا کریں‘‘۔
اسی طرح شہید مرحوم کے چودہ سالہ بیٹے نے ایم ٹی اے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ
’’مجھے خوشی ہے کہ میرے پاپا شہید ہوگئے ہیں لیکن مجھے دکھ ہے کہ مَیں اُن کے ساتھ شہید کیوں نہیں ہوا‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں