مکرم چودھری ریاض احمد صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم چودھری ریاض صاحب جولائی 1947ء میں ضلع لدھیانہ کی تحصیل جگراؤں کے گاؤں ملہہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد چودھری کمال الدین صاحب خود احمدی ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اس گھرانے نے مردان میں رہائش اختیار کی۔ چودھری ریاض احمد صاحب نے مردان میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہیں کاروبار شروع کیا۔ آپ نے بسلسلہ روزگار قریباً چھ سال ابوظہبی میں بھی قیام کیا جہاں سے آپ کو احمدی ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔آپ اکثر خواہش کیا کرتے تھے کہ کاش مجھے بھی صاحبزادہ عبداللطیف کی طرح شہادت کی توفیق ملے۔ چنانچہ بارہا ان کو احمدیت کی خاطر تکلیفیں پہنچیں۔ مردان میں ان پر چھری سے وار کیا گیا۔ 1974ء میں سرگودہا ریلوے سٹیشن پر جن احمدیوں کو گولیاں ماری گئیں ان میں یہ بھی شامل تھے۔ اُس وقت گولی لگنے پر آپ نے فرمایا کہ یہ تو ابھی آغاز ہے۔ گویا اسی وقت سے شہادت کی خواہش تھی۔ جب تک زندہ رہے اسی نیت کے ساتھ زندہ رہے۔
سانحہ شب قدر (مردان) کا پس منظر یہ ہے کہ ریاض شہید کے خسر محترم ڈاکٹر رشید احمد خان صاحب کی تبلیغ سے شب قدر کے مکرم دولت خان صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ وہ چونکہ ایک طاقتور پٹھان خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اُن کے احمدی ہونے پر وہاں بڑا سخت ردّعمل ہوا اور تمام علاقے میں ان کے متعلق قتل کے فتوے جاری ہونا شروع ہوگئے۔ دولت خان صاحب کے بھائیوں میں سے ایک بھائی سخت متشدد اور مخالفت میں پیش پیش تھا۔ اُس نے افغانستان سے آئے ہوئے ایک ملاّں سے ان کے قتل کا فتویٰ لیا مگر وہ پھر بھی وہاں پر ہی مقیم رہے۔ آخر پولیس نے نقصِ امن کی دفعہ لگا کر ان کو جیل میں ڈال دیا۔ 9؍اپریل1995ء کی صبح جب رشید احمد صاحب اور ریاض احمد صاحب اُن کی ضمانت کے لئے شب قدر گئے تو وہاں پانچ ہزار عوام کا ایک مشتعل ہجوم اکٹھا کیا جاچکا تھا اور ملاّں فضل ربی بڑے زور کے ساتھ احمدیوں کو سنگسار کرنے کی تعلیم دے رہا تھا۔ چنانچہ عین احاطۂ عدالت میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں پہلے ریاض شہید کی پیشانی پر پتھر مارا گیا۔ جب وہ نیم بے ہوش ہوکر گر پڑے تو اُن پر مزید سنگ باری کی گئی۔ آپ مسلسل کلمہ کا ورد کرتے رہے۔ آپ کی آخری آواز بھی کلمہ طیبہ ہی تھا

لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہ۔

بعد ازاں آپ کی نعش کو گھسیٹا گیا۔ اس پر ان درندوں نے ناچ کیا۔ پولیس نے بھی ان کی نعش کو ٹھڈے مارے تاکہ ثواب میں شریک ہو جائیں۔
ریاض شہید کے خسر پر بھی بہت زیادہ تشدّد کیا گیا یہاں تک کہ سمجھا گیا کہ وہ مرچکے ہیں۔ لیکن وہ بچ گئے اور اُن کا اب تک زندہ رہنا اور روزمرہ کے فرائض سرانجام دینا ایک چلتا پھرتا معجزہ ہے۔ ایکسرے اور ڈاکٹری معائنہ کے بعد یہ قطعیت کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ کے جسم کے بازوؤں اور ٹانگوں کی ساری ہڈیاں کئی کئی جگہ سے ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اور ڈاکٹر وں کو سمجھ نہیں آتی کہ کیسے یہ شخص چلتا پھرتا ہے۔ (یعنی خدا کے فضل سے)۔ انہوں نے بھی ہر قسم کا علاج کرانے سے انکار کردیا اور کہا کہ تا دمِ آخر میں اللہ کے فضل کے ساتھ اُسی کے اعجاز کے سہارے زندہ رہوں گا۔ اسی جذبہ کے ساتھ ہی اب بھی بیلجیم میں روزمرہ کے کام سرانجام دیتے ہیں۔ پہلے کاروبار میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے رہے۔
اس واقعہ سے پہلے ریاض شہید کی بھابھی نے یہ رؤیا دیکھی تھی کہ ایک بکری تو ذبح کردی گئی ہے اور ایک چھوڑ دی گئی ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا کہ یہ چھوڑی ہوئی بکری بھی عملاً شہیدوں ہی میں داخل ہے۔
ریاض شہید مرحوم کے پسماندگان میں آپ کی بیوہ کے علاوہ دوبیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں