مکرم کامران ارشد صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 5 جون 2020ء)

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔2010ء) میں مکرمہ فرزانہ ندیم صاحبہ کے قلم سے اپنے چچازاد مکرم کامران ارشد صاحب شہید ابن مکرم محمد ارشد قمر صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔
شہید مرحوم پانچ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ایک بہن ہے جو سب سے چھوٹی ہے۔آپ مسجد دارالذکر کے بالکل سامنے رہتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ صرف تین جگہوں پر ہی مل سکتے ہیں: گھر، دفتر یا مسجد۔ آپ کی مسجد میں موجودگی اور خدمت دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ تو واقف زندگی ہیں۔ اگر کوئی کہتا کہ دنیاداری کی طرف بھی توجہ دیں تو جواب دیتے کہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا ہے اور یہ بھی کہ ہمارا تو مرنا جینا مسجد میں ہی ہے۔
مکرم کامران ارشد صاحب بہت سادہ مزاج، خوش اخلاق اور دوسروں کا خیال رکھنے والے انسان تھے۔ آپ ایم ٹی اے میں خدمت کرنے کے علاوہ شعبہ کتب کے انچارج بھی تھے۔ ایم ٹی اے کے انچارج محمود خان صاحب کہتے ہیں کہ جب گولیاں چلنے کی آواز آئی تو ہم تین دوست ایم ٹی اے کے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کامران صاحب نے کہا کہ چلیں مینار پر چڑھ کر ویڈیو بنالیتے ہیں۔ ہم کیمرے اٹھاکر باہر نکلے تو سیڑھیوں پر سامنے سے آتے ہوئے دہشت گرد نے فائرنگ کردی جس سے مکرم کامران ارشد صاحب اور مکرم آصف فاروق صاحب موقع پر شہید ہوگئے۔یہ دونوں میرے بازوؤں کی طرح تھے۔ مکرم کامران صاحب کو مَیں پچیس سال سے جانتا ہوں، وہ بے حد صاف گو انسان تھے۔ اتنے لمبے عرصے میں کبھی اُن کو جھوٹ بولتے ہوئے نہیں سنا خواہ کتنا ہی نقصان ہوجائے۔
مکرم کامران شہید کے والدین اور بہن بھائی عرصہ نو سال سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ وہ آپ کو باہر آنے کا کہتے تو آپ جواب دیتے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے تو مَیں یہی کہوں گا کہ جماعتی حالات بہت خراب ہیں لیکن مجھے ذاتی طور پر کبھی دھمکی نہیں ملی۔ تو پھر مجھے باہر کون بلائے گا۔
شہید مرحوم اپنی اکلوتی بہن کو نمازوں کی ادائیگی اور پردے کی اہمیت کی اکثر قرآن کریم کی روشنی میں تلقین کرتے۔ آپ رحمی رشتوں کو نبھانے والے تھے۔ آپ کی والدہ کہتی ہیں کہ آپ کی شادی سے پہلے کچھ رشتہ داروں نے کہا کہ اگر فلاں عزیز کو بلایا گیا تو ہم بارات میں نہیں آئیں گے۔ مَیں نے کہہ دیا کہ جو نہیں آنا چاہتا وہ نہ آئے۔ لیکن جب آپ کو علم ہوا تو پریشان ہوگئے۔ اور کہنے لگے: امی جان! آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ کچھ رشتہ دار نہ آئیں۔ ہم اُن کو فون پر راضی کریں گے ورنہ اُن کے گھر جاکر منالیں گے، ہم ان رحمی رشتوں کو کیسے توڑ سکتے ہیں جن کو قائم رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہوا ہے۔
اسی طرح ایک بار گھر والوں کی کسی عزیز کے ساتھ ناراضگی ہوئی تو دونوں خاندانوں کا آنا جانا موقوف ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد علم ہوا کہ دوسری فیملی میں ایک بزرگ بیمار ہیں۔ شہید مرحوم خاموشی سے ہسپتال گئے، اُن کی عیادت کی اور اُن کے لیے خون کا عطیہ بھی دیا۔
ہر ایک کی مدد پر آمادہ رہتے۔ آپ نے اپنے ایک خالو کو بیرونِ ملک جانے میں بہت مدد دی اور بعد میں اُن کے گھر کے امور ایک بیٹے کی حیثیت سے سنبھالتے رہے۔ بچوں کو سکول لانے لے جانے میں مدد کرتے۔ وہ خالہ کہتی ہیں کہ کامران کی شہادت سے لگتا ہے کہ جیسے میرا بیٹا مجھ سے دُور چلاگیا ہے۔
لاہور کی لجنہ ایم ٹی اے کی انچارج کا کہنا ہے کہ شہید مرحوم ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے اور ایسے لگتا ہے جیسے اُن کے بعد کام کرنا بہت ہی مشکل ہے۔
شہید مرحوم کی شادی کو چھ سال ہی ہوئے تھے۔ بوقت شہادت آپ کی ایک چار سالہ بیٹی اور ایک دو سالہ بیٹا تھا۔ آپ کی اہلیہ مکرمہ سدرہ کامران صاحبہ کہتی ہیں کہ مَیں چار پانچ سال کی عمر میں یتیم ہوگئی تھی۔ خدا تعالیٰ نے کامران صاحب کی شکل میں مجھے زندگی کا مہربان ساتھی عطا کیا تھا۔ وہ ہر مشکل میں ساتھ دینے والے تھے۔ بارہا لوڈشیڈنگ کے دوران ساری ساری رات بیٹی کو گود میں لے کر ٹہلتے رہتے۔میرے رشتہ داروں سے بھی بہت عزت اور محبت کا تعلق رکھا۔شادی کے وقت مجھے کھانا بنانا نہیں آتا تھا لیکن مَیں جو بھی بنادیتی وہ شوق سے کھالیتے۔ کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالتے تھے۔کبھی کسی سوالی کو خالی ہاتھ نہ لَوٹاتے۔ اگر مانگنے والا کھانا مانگتا تو دکان پر لے جاتے اور اُسے پیٹ بھر کر کھلاتے۔ رحم کا سلوک جانوروں کے ساتھ بھی تھا۔ ایک روز ایک بلونگڑا کہیں سے آیا تو گلی کے بچے اُسے تنگ کرنے لگے۔ آپ اُسے اٹھاکر اندر لے آئے۔ گتے کے ایک بڑے ڈبّے کو خالی کرکے اُس میں نرم کپڑا بچھایا اور پھر فیڈر میں دودھ ڈال کر اُس کو پلاتے رہے۔
شہید مرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ آپ شہادت سے کچھ دن پہلے بالکل خاموش سے ہوگئے تھے۔ شام کو مجھے باقاعدگی سے سیر کے لیے لے کر جاتے اور زندگی کی مختلف ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے کہ بیٹی کو سکول میں داخل کروانے کے بعد تم نے اُسے لانا لے جانا ہے۔ مَیں کہتی کہ بیٹا ابھی چھوٹا ہے اس لیے صبح دفتر جاتے ہوئے بیٹی کو آپ ہی سکول چھوڑ جایا کرنا تو کہتے کہ نہیں اب یہ کام تم نے ہی کرنا ہے اس لیے ذہنی طور پر تیار ہوجاؤ۔ مَیں سمجھ ہی نہیں پارہی تھی کہ وہ مہربان شوہر جو ہر وقت میری مدد کے لیے تیار رہتا ہے وہ سارے کاموں کی ذمہ داری مجھ پر کیوں ڈال رہا ہے۔ بہرحال خداتعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے میرے شوہر کو اپنے پیارے بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ حضور ایدہ اللہ کے فون نے مجھے بہت حوصلہ دیااور میرا سر فخر سے بلند ہوگیا کہ مَیں اُس شہید کی بیوہ ہوں جس کے لیے خلیفہ وقت اور دنیا کا ہر احمدی دعاگو ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں