میرے ابّا محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 4 ستمبر 2020ء)

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے- محترم شاہ صاحب کے بڑے بیٹے مکرم سیّد احمد یحییٰ صاحب (چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ) اپنے مضمون میں لکھتے ہیں دو ہفتے ابّا کے ساتھ گزار کرمَیں دبئی روانہ ہوا۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ واپس جاؤں لیکن آپ کا اصرار تھا کہ اب وہ بہت بہتر ہیں اور دفتر جانا شروع کرچکے ہیں۔اسلام آباد پہنچ کر ابا کو فون کیا تو آپ دفتر میں تھے۔ کہا بہت بہتر محسوس کررہا ہوں اور حضور کو اپنے ہاتھ سے خط لکھ رہا ہوں۔ یہ وہی خط ہے جس میں ذکر تھا کہ’’میری خواہش ہے کہ کام کے دوران ہی میری وفات ہو۔‘‘
اللہ نے اُن کی خواہش اس طرح قبول کی کہ اگلے پندرہ دن آپ باقاعدگی سے دفتر جاتے رہے۔ روزانہ بات ہوتی۔ مجھے یاددہانی کرواتے کہ انڈیا کا ویزہ مل جائے اور ہم جلسہ قادیان میں شامل ہوسکیں۔ 14؍دسمبر کو دفتر سے چیک اَپ کے لیے ہسپتال گئے تو ڈاکٹرز کے مشورے پر داخل ہوگئے۔ اگلے تین دن دفتر سے کارکن ہسپتال آکر ڈاک پر ہدایات لیتے رہے۔ 18؍دسمبر کو اچانک بیٹے سے کہا فلائیٹ آگئی ہے۔ اور اسی وقت وفات ہوگئی۔
بچپن سے گزرا ہوا وقت یاد آنے لگا۔ ہم نے گھر میں مُرغیاں پال رکھی تھیں۔ نئے ہمسائے آئے تو مرغ اُن کے ہاں چلاگیا۔ انہوں نے اس کو بھگانے کے لیے کوئی چیز اُس کی طرف پھینکی تو وہ زخمی ہوکر تڑپنے لگا۔ اس خیال سے کہ ضائع نہ ہوجائے انہوں نے مرغ کو ذبح کیا اور پھر شرمندگی اور معذرت کے ساتھ ہمارے گھر لے آئے اور معاملہ بیان کیا۔ ابّا نے اُن سے معذرت کی کہ ہمارے مرغ کی وجہ سے اُن کو تکلیف ہوئی۔ اور پھر کچھ دیر بعد گوشت کا نصف حصہ اُن کے گھر بھجوادیا۔ یہ ہمسائے آج تک اُس واقعے کو یاد کرتے ہیں۔ اُن دنوں معاشی حالات کے پیش نظر مرغ کا نقصان معمولی نہیں تھا لیکن آپ نے جس طرح یہ معاملہ نپٹایا اُس نے دوسروں کے لیے کئی سبق چھوڑے۔
ہمارے والدین انتہائی مہمان نواز تھے۔میرے پڑنانا بیماری کے آخری چند سال ہمارے گھر پر رہے۔ میری نانی قریباً پندرہ سال ہمارے گھر پر رہیں۔ میری امّی ہمیشہ ان بزرگوں کی خدمت میں مصروف رہتیں اور ابّا نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے میری امّی کا ساتھ دیا۔
آپ اکثر کشمیری روایت کا ذکر کرتے کہ مالک اور ملازم ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ آپ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھتے تو ضرور پوچھتے کہ ملازمہ کو کھانا دے دیا ہے؟ اپنی وفات سے تین ماہ قبل فون پر بتایا کہ آج ملازمہ کے ساتھ اُس کی شادی کا سامان لینے گیا ہوا تھا۔ مَیں نے کہا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں، اُن کو پیسے دے دیتے، وہ خود خرید لیتے۔ کہنے لگے کہ اگر تمہاری امّی زندہ ہوتیں تو وہ یہ کام خود ہی کرتیں اس لیے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
ہمارے گھر میں تیس سال سے زائد عرصے سے جو شخص دودھ مہیا کررہا تھا، اُس نے اپنی بیٹی کے رخصتانے پر مدعو کیا تو اُس روز غیراحمدی ربوہ میں جلوس نکال رہے تھے۔ میرے منع کرنے کے باوجود ابا اور امی نے کچھ عزیزوں کو ساتھ لیا اور اُس کے گاؤں جاکر اُس کی خوشی میں شامل ہوئے۔
دفتری کتب اور مضامین وغیرہ پر تو گھر میں کام ہوتا تھا لیکن کبھی دفتری ڈاک یا خلیفہ وقت کی کسی ہدایت یا ملاقات میں ہونے والی بات کا ذکر تک نہیں کرتے تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شدید بیماری کے دوران جلسہ سالانہ یوکے کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کے لیے جب حضورؒ نے ابّا کو ارشاد فرمایا تو بعد میں کچھ ملنے والوں نے بے تکلّفی سے مبارکباد دی۔ آپ نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ حضور کا شرکت نہ کرسکنا تو تکلیف کی بات ہے۔
ابا جب چار سال کے تھے تو آپ کی والدہ بیمار ہوگئیں اور جموں کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ناامیدی ظاہر کردی۔ آپ بیان کرتے تھے کہ میرا دل بہت غمگین تھا۔ انہیں واپس لانے کے لیے گاؤں سے چند لوگ آئے۔ جب ہم بس اڈہ پر پہنچے تو اتفاق سے ابّا کے ماموں مکرم مولوی عبدالواحد صاحب قادیان سے آتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ وہ قادیان سے آم لائے تھے (جو عموماً کشمیر میں نہیں ملتے)۔ اُن کو اپنی بہن کی حالت دیکھ کر بہت تشویش ہوئی اورانہوں نے وہ آم دادی کو کھلادیا۔ ابا بتاتے تھے کہ دادی نیم مُردہ حالت میں تھیں لیکن قادیان سے آیا ہوا آم کھایا تو کچھ دیر بعد آنکھیں کھل گئیں اور معمولی حرکت بھی کی۔ گاؤں پہنچنے تک حالت مزید بہتر ہوگئی، پھر معجزانہ صحت عطا ہوئی۔ انہوں نے لمبی زندگی پائی اور سینکڑوں بچوں کو قرآن پڑھایا۔
ابا کبھی ایسا اظہار نہیں کرتے تھے کہ بہت دعاگو ہوں لیکن آپ کی دعا کا ایک خاص رنگ تھا جس کے ثمرات ہمیشہ ہم نے دیکھے۔اکثر بعد میں پوچھتے کہ فلاں معاملہ حل ہوگیا؟ تو شرمندگی ہوتی کہ آپ کو بتانا بھول گیا کہ معاملہ تو میری خواہش کے مطابق حل ہوگیا تھا۔آپ کو خداتعالیٰ پر بہت توکّل تھا۔ بچپن میں اگر ہماری امّی ہماری تعلیم کے بارے میں فکرمندی ظاہر کرتیں تو آپ یہی کہتے کہ ٹھیک ہوجائے گا، اللہ فضل کرے گا۔ بظاہر کوئی ناکامی بھی ہوتی تو یہی کہتے شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسے ہی بہتر سمجھا ہے۔
گزشتہ بیس سال سے اکثر یورپ آتے لیکن آپ کا اصرار ہوتا کہ واقف زندگی کو لمبی چھٹی لینا مناسب نہیں لگتا۔ اگر کہا جاتا کہ آپ تو اب ریٹائرڈ ہیں تو کہتے مَیں نے زندگی وقف کی ہے نہ کہ زندگی کا ایک حصہ۔ اسی طرح کبھی اپنی کسی ذاتی ضرورت کا ذکر نہیں کرتے تھے۔البتہ کسی مستحق کی ضرورت بیان کرکے کارِثواب میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلادیتے۔
لباس بہت سادہ تھا۔ میری امّی کپڑا خرید کر سلواتیں تو ابّا طبیعت میں بوجھ محسوس کرتے کہ نئے سوٹ ضرورت سے زیادہ بن گئے ہیں۔جب پاؤں کی سوجن کی وجہ سے کوئی جوتا پورا نہ آتا اور کوئی بیٹا نئی سینڈل وغیرہ لے آتا تو ناپسند کرتے کہ پہلے ہی کئی جوتے موجود ہیں۔ ایک دن مَیں نے جوتوں کی ایک دکان کے سامنے کار روکی کہ یہاں سے آرام دہ جوتے مل جاتے ہیں۔ کہنے لگے مجھے تو نہیں چاہیے۔ مَیں نے کہا یہ جوتے پاکستان میں نہیں ملتے، ایک دو سال آرام سے چل جائیں گے۔ کہنے لگے کہ زندگی کا ایک ماہ کا بھروسہ نہیں، تم دو سال کی تیاری کر رہے ہو۔مَیں اصرار کے ساتھ ایک جوتا لے آیا تو آپ نے ناپسند کیا اور کافی دیر خاموش رہے۔ آپ کی عادت تھی کہ اگر کسی بات کو ناپسند کرتے تو خاموش ہوجاتے۔ اپنی ذات پر خرچ کرنے کے برعکس گھر کی روزمرہ اشیاء میں کبھی کمی نہ ہونے دیتے۔ مہمان وغیرہ آنے ہوں تو امّی کے ساتھ ہر طرح سے ہاتھ بٹاتے۔ ہم چھوٹے تھے تو سبزی اور پھل وغیرہ باقاعدگی سے گھر لاتے۔ ہمارے اصرار کے باوجود کبھی خود نہ کھاتے۔ پڑھائی میں ہماری مدد کرتے لیکن کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے اور نہ کبھی ڈانٹتے۔ بچوں کے ساتھ اور پھر اُن کی اولاد کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرتے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ڈانٹتا تو بہت بُرا مناتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں