میں اپنا خون معاف کرتا ہوں

پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ کراچی یکم جون 2009ء میں نامور ادیب جناب مرزا فرحت اللہ بیگ کے اُس مضمون کا ایک حصہ مکرّر شامل اشاعت کیا گیا ہے جو ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ کراچی کے شمارہ اکتوبر 1968ء کے صفحات 71 تا 76 میں ’’میں اپنا خون معاف کرتا ہوں‘‘ کے عنوان کے تحت شائع ہوچکا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
’’اب ایک ایسے شخص سے میرے ملنے کا حال سنئے جو اپنے فرقے میں نبی سمجھا جاتا ہے اور دوسرے فرقے والے خدا جانے اس کو کیا کچھ نہیں کہتے۔ یہ کون ہے؟ جناب مرزا غلام احمد قادیانی بانی فرقہ احمدیہ۔ ان سے میرا رشتہ یہ ہے کہ میری خالہ زاد بہن ان سے منسوب تھیں۔ اس لئے یہ کبھی دلّی آتے تو مجھے ضرور بلا بھیجتے اور پانچ روپے دیتے۔ چنانچہ دو تین دفعہ اُن سے میرا ملنا ہوا مگر میں یقین دلاتا ہوں کہ انہوں نے کبھی مجھ سے ایسی گفتگو نہیں کی جس کو تبلیغ کہا جاسکے۔ اس زمانہ میں مَیں ایف اے میں پڑھتا تھا۔ زیادہ تر مسلمانوں کی تعلیم کا ذکر ہوتا تھا اور اس پروہ افسوس ظاہر کیا کرتے تھے کہ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں اور جب تک مذہبی تعلیم عام نہ ہوگی اُس وقت تک مسلمان ترقی کی راہ سے ہٹے رہیں گے۔
میرے ایک چچا تھے جن کا نام مرزا عنایت اللہ بیگ تھا۔ یہ بڑے فقیر دوست تھے، تمام ہندوستان کا سفر فقیروںسے ملنے کیلئے کیا، بڑی بڑی سخت ریاضتیں کیں۔ چنانچہ اس سے ان کی محنت کا اندازہ کر لیجئے کہ تقریباً چالیس سال تک یہ رات کو نہیں سوئے۔ صبح کی نماز پڑھ کر دو اڑھائی گھنٹے کے لئے سو جاتے ورنہ سارا وقت یاد الٰہی میں گزارتے۔ ایک دن میں جو مرزا غلام احمد صاحب کے یہاں جانے لگا تو چچا صاحب قبلہ نے مجھ سے کہا۔’’ بیٹا میرا ایک کام ہے وہ کر دو اور وہ کام یہ ہے کہ جن صاحب سے تم ملنے جارہے ہو اُن کی آنکھوں کو دیکھو کہ کس رنگ کی ہیں۔‘‘ میں سمجھا نہیں اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ مگر جب مرزا صاحب کے پاس گیا تو بڑے غور سے ان کی آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں سبز رنگ کا پانی گردش کرتا معلوم ہوتا ہے۔ اسی سلسلے میں مَیں نے خود بھی ان کو غور سے دیکھا۔ کیونکہ اس سے پہلے جو میں اُن کے پاس جاتا تھا تو ہمیشہ نیچی آنکھیں کرکے بیٹھتا تھا۔ اس دفعہ میں نے دیکھا اُن کا چہرہ بارونق تھا۔ سر پر کوئی دو انگل کے بال ہیں، داڑھی خاصی نیچی ہے۔ آنکھیں جھکی جھکی ہیں۔ بات کرتے ہیں تو بہت متانت سے کرتے ہیں مگر بعض وقت جھلّا بھی جاتے ہیں۔ بہر حال وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے چچا صاحب قبلہ سے تمام واقعات بیان کئے۔ ’’فرحت! دیکھو اس شخص کو برا کبھی نہ کہنا فقیر ہے اور یہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں‘‘۔ مَیں نے کہا یہ آپ نے کیوں کر جانا۔ فرمایا کہ ’’جو آنحضرت ﷺ کے خیال میں ہر وقت رہتا ہے اس کی آنکھوں میں سبزی آجاتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبز رنگ کے پانی کی ایک لہر اُن میں دوڑ رہی ہے‘‘۔ میں نے اس وقت تو ان سے اس کی وجہ نہیںپوچھی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ سب فقراء اور اہل طریقت اس پر متفق ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کا رنگ سبز ہے۔ اسی کا عکس آپؐ کے زیادہ خیال کرنے سے آنکھوں میں جم جاتا ہے۔ بہر حال یہ ایک فقیر دوست کی رائے تھی جو میں نے عرض کر دی۔ اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا میں ذمہ دار نہیں ہوں‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں