’’نقشِ پا کی تلاش‘‘

اَنصار ڈائجسٹ
فرخ سلطان محمود

(مطبوعہ انصارالدین جنوری فروری 2013ء)

’’نقشِ پا کی تلاش‘‘

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا: ’’جو لوگ اپنے آباء و اجداد کا ذکر زندہ رکھتے ہیں ان کے آباء و اجداد کی عظیم قربانیاں ، خوبیاں نسلاً بعد نسلٍ قوموں میں زندہ رہتی ہیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ 30؍اپریل 1999ء)
چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب کا تعارف آج پیش کرنا مقصود ہے جو مسلسل کئی سال کی مشقّت اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد حال ہی میں طبع ہوکر آئی ہے۔ اگرچہ یہ کتاب ظاہری خوبیوں سے خوب آراستہ ہے لیکن اس کی اصل خوبی یہ ہے کہ اس ضخیم کتاب کا مواد اپنے اندر بعض ایسے ستاروں کا ذکر سموئے ہوئے ہے جنہوں نے اپنی روشنی سے ایک عالم میں نور کی کرنیں بکھیریں اور بہت سوں کی ہدایت و رہنمائی کا موجب بھی ہوئے بلکہ آج بھی اُن وجودوں کے ’نقوشِ پا‘، ساری دنیا میں پھیلی ہوئی، اُن کی نسلوں کے لئے نشانِ منزل کا پتہ دے رہے ہیں۔
کتاب ’’نقشِ پا کی تلاش‘‘ ایک عمدہ پیشکش ہے۔ ٹائپ شدہ کتابت، ستھری طباعت، بامعنی سرورق اور مضبوط جلدبندی کے اوصاف کی حامل اس کتاب میں چند تصاویر بھی شامل اشاعت ہیں۔ اگرچہ اس کتاب کا اصل حسن اس کے اندر موجود ایسی بہت سی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کے ہر لمحے میں نہ صرف دین کو دنیا پر مقدّم رکھا بلکہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی خاطر اپنی جان، مال، وقت اور عزّت کو قربان کرنے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہے اور اسے اپنے لئے باعثِ فخر خیال کیا۔ یقینا یہ کتاب تزئینِ گلستاں کے لئے خود کو وقف کردینے والے اُن مخلصین کی قربانیوں کی یاد دلاکر اُن کے لئے خاص دعائیں کرنے کا ذریعہ بنتی رہے گی اور ساتھ ہی اس کتاب کی تیاری میں حصہ لینے والوں کے لئے بھی صدقہ جاریہ ثابت ہوگی۔
تاہم یہ اظہار کردینا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کو مرتّب کرتے وقت اس میں شامل بہت سی غیرضروری تفاصیل نکال دی جاتیں اور محض مواد جمع کرتے چلے جانے کی بجائے اگر تحقیق کا دامن تھام کر بہتر نتائج کا حصول پیش نظر رکھا جاتا تو یہ ضخیم کتاب اپنے حجم میں کسی حد تک کم بھی کی جاسکتی تھی۔ اور یہ بھی کہ قاری کو پڑھنے میں زیادہ دلچسپی اور روانی کا بھی احساس رہتا۔
مکرمہ شاہدہ متین سجاد صاحبہ (آف سویڈن) نے نہایت درجہ محنت اور عرقریزی سے اکٹھی کی جانے والی معلومات کے حوالہ سے اپنی اس کتاب میں جن بزرگوں کا ذکرخیر کیا ہے، اُن کے حوالہ سے چند متفرق مگر دلچسپ اور ایمان افروز واقعات ہدیۂ قارئین ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان محدود صفحات کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہمارے قارئین اس کتاب کو تلاش کرکے اسے پڑھنے کی جستجو بھی یقینا کریں گے۔
………………

حضرت میاں مہر غلام حسن صاحبؓ

حضرت میاں مہر غلام حسن صاحبؓ نے 1898ء یا 1899ء میں قبول احمدیت کی توفیق پاکر اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ آپؓ سیالکوٹ کے محلہ اراضی یعقوب کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کے آباء و اجداد کئی سو برس پہلے افغانستان کے سرحدی علاقہ سے سیالکوٹ میں آباد ہوئے اور پھر یہاں مقامی لوگوں میں ایسے گھل مل گئے کہ مہر یا ارائیں کہلانے لگے۔ بعض بھٹی اور بعض راجپوت بھی کہلانے لگے۔ بہرحال یہ خاندان آسودہ حال تھا۔ ان کے باغات کا پھل بہت شہرت رکھتا تھا۔ ان کا خاندانی گھر قریباً 1700ء میں تعمیر ہوا تھا۔ اس کے دو سو سال بعد اس پر چوبارہ تعمیر کیا گیا۔ یہ چوبارہ بعد میں علمی محافل اور تبلیغی مجالس کے لئے مشہور ہوا۔ اُس وقت حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ سیالکوٹ میں مربی تھے اور ان تبلیغی نشستوں کے روح رواں بھی تھے۔
حضرت غلام حسن صاحب شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ دیگر دو بھائیوں کے نام غلام حسین اور غلام علی تھے۔ بعد میں یہ سب اہل حدیث ہوگئے۔ رجحان مذہبی تھا۔ نماز روزہ کی پابندی کرنے والے اور تہجدگزار تھے۔ صاحبِ رؤیا و کشوف تھے۔ مہدی کا شدّت سے انتظار تھا۔ لیکن جب حضرت مسیح موعودؑ نے دعویٰ فرمایا تو کوئی بھی ماننے کو تیار نہ ہوا بلکہ غلام حسن صاحب تو مخالفت میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ اُس زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ ایک پُرجوش احمدی مبلغ تھے۔ ایک روز انہوں نے غلام حسن صاحب کو باغ میں جالیا اور نہایت دوستانہ انداز میں سمجھایا۔ جب قرآن کریم کے حوالہ جات سمجھ میں آگئے ۔ پھر کچھ عرصہ پہلے کی دیکھی ہوئی اپنی خوابیں بھی یاد آئیں اور اُن کی تفہیم بھی ہوئی تو آپ نے بیعت کرلی۔ پھر تبلیغ میں ایسے منہمک ہوئے کہ جلد ہی والد، بیوی اور کئی دوسرے لوگوں نے بھی سمجھ کر بیعت کرلی۔
حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ نے کئی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور کئی روایات بھی بیان کیں۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’میرے بھائی کی لڑکی کی آنکھیں بچپن سے ہی بیمار رہتی تھیں۔ چونکہ وہ لڑکی حضرت صاحب کے ہاں رہتی تھی۔ حضرت صاحب نے اپنے ایک خادم کے ساتھ اس لڑکی کو بھیجا اور فرمایا کہ مولوی صاحب کو جاکر کہو کہ کچھ اس لڑکی کی آنکھوں میں ڈال دیں۔ چنانچہ مولوی حکیم نورالدین صاحبؓ نے کوئی چیز ڈال دی۔ پھر عمر بھر اس لڑکی کی نظر خراب نہ ہوئی‘‘۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں اور میرا بڑا بھائی حضرت اقدسؑ کے ساتھ سیر کو جارہے تھے تو بھائی نے پوچھا کہ کیا عقیقہ کے بکرے یہاں بھیج دیئے جائیں یا قیمت یہاں بھیج دی جائے اور بکرے یہاں ہی ذبح کئے جائیں۔ فرمایا: نہیں وہاں ہی ذبح کرو۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کہنے لگے کہ اگر دو بکرے کرنے ہوں تو ایک یہاں بھیج دیا جائے۔ مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے، ہاں کھالیں یہاں آنی چاہئیں۔ پھر فرمایا: بعض غریب ہمسائے ہوتے ہیں، اُن کے دل میں آرزو ہوتی ہے کہ ہمیں گوشت دیا جائے تو ایسا کرنے سے ان کی بھی حق تلفی ہوتی ہے۔
محترم میجر رحمت علی صاحب کے والد حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ کے عم زاد تھے۔ محترم میجر صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ کو نہ صرف نمازیں بلکہ اکثر تہجد بھی مسجد جاکر ادا کرتے۔ اُس زمانہ میں سیالکوٹ میں احمدیوں کی تین مساجد تھیں جن میں سے ایک محلہ اراضی یعقوب میں (یعنی ہمارے محلہ میں) تھی۔ اس میں احمدی اور غیراحمدی پہلے اپنی اپنی نماز پڑھ لیا کرتے تھے لیکن 1940ء میں باہمی اختلاف کے نتیجہ میں عدالت میں معاملہ چلا گیا اور یہ مسجد غیراحمدیوں کو مل گئی جبکہ اس مسجد کے قریب ہی ایک جگہ احمدیوں کو مسجد بنانے کے لئے دیدی گئی۔ اس مسجد کی تعمیر کی ذمہ داری آپؓ نے لے لی اور نہایت غربت کے زمانہ میں بھی چار ہزار روپیہ اکٹھا کرلیا۔ مسجد کی تعمیر کے بعد آپؓ ہی امام بھی مقرر ہوئے اور درس بھی دیا کرتے تھے۔ آپؓ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ مَیں نے کئی بار ایک بدبخت کو دیکھا کہ وہ آپؓ کی بات سننے کی بجائے گالیاں دیا کرتا تھا۔ ایک روز مَیں نے پوچھ ہی لیا کہ جب یہ آپ کی بات ہی نہیں سنتا اور بدکلامی کرتا ہے تو آپ اس کو تبلیغ کیوں کرتے ہیں۔ آپؓ نے بہت تحمّل سے فرمایا: میرا کام حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچانا ہے، کوئی چاہے سنے یا نہ سنے۔
مکرم میجر صاحب بیان کرتے ہیں کہ 1945ء میں مَیں فرسٹ ایئر میں تھا تو ہاکی کھیلنے کا اتنا جنون تھا کہ پڑھائی پیچھے رہ گئی۔ جب چند دن امتحان میں رہ گئے تو پڑھائی کا خیال آیا لیکن آگا دوڑ پیچھا چھوڑ والی بات تھی۔ مگر دعا پر کامل یقین تھا چنانچہ ہر نماز پر آگے بڑھ کر نہایت عاجزی سے چاچاجی کو دعا کے لئے عرض کرتا۔ چاچاجی کو ہم بچوں سے بہت پیار تھا۔ وہ دعاؤں میں لگ گئے۔ امتحان سے چند دن پہلے مجھے بلاکر پنجابی میں فرمایا کہ مَیں نے دعا کی تھی، مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے پتہ چلا ہے کہ تم اوّل رہے ہو۔ میرے لئے یہ خبر نہایت حیرت انگیز تھی۔ چنانچہ مَیں نے نہایت سنجیدگی سے آخری گھڑیوں میں کتابیں الٹنی پلٹنی شروع کردیں۔ جب امتحان کا وقت آیا تو ریاضی کے پرچہ میں کوئی سے پانچ سوال کرنا تھے۔ لیکن یہ پرچہ ہمیشہ کی طرح مجھے مشکل لگا۔ جیسا تیسا بھی پرچہ کیا۔ جب نتیجہ نکلا تو استاد نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے نقل لگائی تھی؟ اُس نے دوبارہ نمبر گنے پھر غور سے پرچہ دیکھا، پھر پرکھا اور مجھے پکڑا دیا۔ میری عجیب کیفیت ہوگئی جب مَیں نے دیکھا کہ مَیں نے 150 میں سے 150 نمبر حاصل کئے تھے اور مَیں اوّل رہا تھا۔ … لوگ بھی آپؓ سے عقیدت رکھتے تھے۔ بعض لوگ پانی پر آپؓ سے دَم کرواتے اور مریض کو دیتے (خصوصاً طاعون کے زمانہ میں)۔ کئی لوگوں کو جب چھپاکی نکل آتی تو لوگ آپ ؓ کا کرتہ لے جاکر مریض کو پہناتے جس سے آرام آجاتا۔
حضرت غلام حسن صاحبؓ کی پہلی شادی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی پھر یکے بعد دیگرے آٹھ بیٹے فوت ہوگئے۔ پھر حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی ولادت ہوئی۔ آپؓ نے دوسری شادی اپنے چھوٹے بھائی کی وفات کے بعد اُن کی بیوہ سے کی۔ دوسری اہلیہ سے تین بچے پیدا ہوئے۔
………………

حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب

حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب اگست 1909ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے قبل آپ کے والد محترم کو آپ کی شکل خواب میں دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ زندہ رہے گا۔ آپ کے بعد تین بچے پیدا ہوئے مگر فوت ہو گئے۔
پانچویں پاس کرنے کے بعد آپ کے والد صاحب نے آپ کو احمدیہ سکول قادیان میں داخل کروادیا۔ مولوی فاضل کرنے کے بعد آپ کی پہلی تقرری سیالکوٹ میں ہوئی اور قریباً ایک سال بعد یکم فروری 1936ء کو آپ پہلی بار غانا کے لئے روانہ ہوئے جہاں سے گیارہ سال بعد 7؍جنوری 1947ء کوواپس قادیان آئے۔ غانا میں آپ کے قیام کے دوران اکرافو مڈل سکول اور کماسی احمدیہ سکول کا اجراء ہوا۔ دوسری بار جنوری 1949ء سے مارچ 1954ء تک اور تیسری مرتبہ 27 جنوری 1955ء سے 30 اکتوبر 1961ء تک آپ نے غانا میں خدمت دین کی توفیق پائی۔ حضرت مولوی صاحب نے انگریزی اور عربی میں تحقیقی مضامین کے علاوہ عربی زبان میں ایک تصنیف ’القول الصریح فی ظہور المہدی والمسیح‘ بھی تحریر کی۔ آپ غانا میں جنرل مینجر آف سکولز کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ کئی مناظرے بھی کئے اور نصرت الٰہی کے بے شمار نشانات مشاہدہ کئے۔
افریقہ سے واپسی پر فروری 1963ء میں آپ نائب وکیل التبشیر مقرر ہوئے۔ فروری 1969ء میں ناظم دارالقضاء بنائے گئے۔ 1982ء میں وکیل التعلیم اور نومبر 1985ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد نائب صدر تحریک جدید مقرر ہوئے۔ مجلس افتاء اور مجلس کارپرداز کے رکن بھی رہے اور قائم مقام وکیل اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔
حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی مغربی افریقہ سے پہلی بار کامیاب واپسی پر آپ کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شرکت فرمائی۔ اس تقریب میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب وکیل التبشیر نے بتایا کہ حضرت مولانا صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے لیکن آپ کی والدہ نے آپکو صرف اڑھائی ماہ کی عمر میں خدمتِ دین کیلئے وقف کردیا تھا۔ آپ نے قادیان میں اپنے اخراجات پر دینی تعلیم حاصل کی اور پھر غیرمشروط طور پر خود کو غانا میں خدمت کیلئے پیش کردیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی درخواست کو یہ کہہ کر منظور فرمایا کہ ’’ جو لوگ شرطیں پیش کرتے ہیں ، کام کم کرتے ہیں‘‘۔ چنانچہ آپ نے غانا میں اپنے خرچ پر ایک لمبے عرصہ تک خدمت کی توفیق پائی۔ ابتدا میں آپ کا معمول تھا کہ نماز عصر تک جماعتی خدمت میں وقت صرف کرتے اور پھر مغرب سے پہلے تک کچھ وقت کے لئے تجارت کرتے اورنہ صرف اپنا مالی بوجھ خود برداشت کرتے رہے بلکہ 37ء میں جب حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کو سیرالیون میں مشن کھولنے کا ارشاد ملا تو ان کے ابتدائی اخراجات بھی تجارت کرکے آپ نے خود ادا کئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک جنگ کی وجہ سے تجارت بند نہ ہوگئی۔
حضرت مولوی صاحب کی بھانجی مکرمہ نبیلہ رفیق صاحبہ لکھتی ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے ہر فعل سے رضائے الٰہی حاصل کرنے کی تڑپ ملتی تھی۔ آخری عمر تک باوجود کمزوری کے روزے رکھتے اور نماز تہجد ادا کرتے رہے۔ قبولیت دعا کے بے شمار نشان آپ کی زندگی میں ظاہر ہوئے۔ آپ نے بارہا اپنی والدہ سے کہا کہ فلاں معاملہ میں میں خدا کے آگے جھک گیا اور اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک یقین نہ ہوگیا یا اللہ میاں نے یقین نہ دلادیا کہ تمہاری بات قبول ہوگئی ہے۔
دعوت الی اللہ کا جنون تھا ۔ افریقہ میں قیام کے دوران کئی کئی دن آپ نے درختوں کی جڑیں ابال کر کھائیں یا بے ذائقہ صحرائی پودے ابال کر کھاتے رہے اور متعدد خطرناک اور دشوار گزار سفر کرکے دور دراز مقامات پر اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس دوران کئی جان لیوا خطرات سے واسطہ پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔ آپ میں حد سے زیادہ سادگی، انکساری اور غریب مزاجی تھی۔ لباس اور جوتے سادہ اور پیوند لگے ہوتے اور جب تک یہ اشیاء پیوند لگنے کے قابل رہتیں، آپ کے زیر استعمال رہتیں۔… جو لوگ آپ کو دعا کیلئے کہتے آپ ان کیلئے بہت توجہ سے دعا مانگتے۔ تقریب چھوٹی ہوتی یا بڑی، دعوت کسی امیر نے دی ہوتی یا غریب نے کبھی بھی نہ ٹھکراتے۔ موروثی جائیداد کی تقسیم شروع کی تو پہلے اپنی بہنوں کا حصہ ان کے حوالہ کیا۔ …ایک بار میرا بیٹا شدید ملیریا کا شکار ہوگیا اور بخار تھا کہ اترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ چنانچہ چھٹے دن ہم اسے لے کر ربوہ میں حضرت مولوی صاحب کے پاس آگئے اور حال عرض کیا۔ آپ نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی رات سے بچے کا بخار ٹوٹ گیا اور وہ روبہ صحت ہوگیا۔
حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی وفات پر جماعت احمدیہ غانا کی طرف سے جو قرارداد تعزیت پیش کی گئی اس میں تحریر ہے کہ اگرچہ آپ کی امارت کے دور میں غانا اقتصادی لحاظ سے بڑی مشکل صورتحال سے دوچار تھا تاہم آپ کی محنت، ہمت، اعلیٰ منصوبہ بندی اور خداداد فراست کے نتیجہ میں جماعت کو غیرمعمولی ترقیات نصیب ہوئیں۔ غانا میں بہت سے احمدیہ سکولز قائم کئے گئے اور حکومت نے جماعت کو ایک تعلیمی یونٹ کے طور پر تسلیم کرلیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم جماعت کو اس حیثیت میں تسلیم کیا گیا۔
آپ کے دَور میں غانا کے دوردراز علاقوں میں بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اس ابتدائی دور میں آپ نے غانا میں احمدیہ پریس کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کی۔ سالٹ پانڈ کی احمدیہ مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا جو گنبدوں اور میناروں والی ملک کی پہلی مسجد تھی اور اس کی افتتاحی تقریبات میں غانا کے بانی صدر ڈاکٹر کوامے نکرومہ بھی تشریف لائے۔ اسی طرح احمدیہ سینئر سیکنڈری سکول کماسی کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا جس کی افتتاحی تقریب میں بھی ڈاکٹر نکرومہ نے شرکت کی اور اس سکول سے فارغ التحصیل طلبہ آج بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ سرکاری سطح پر صدر مملکت سمیت کئی اہم شخصیات کے آپ سے ذاتی تعلقات تھے چنانچہ وہ بلا تردّد جماعتی تقریبات میں شامل ہوتے۔ آپ کے دَور میں ہی غانا سے جامعہ احمدیہ ربوہ کے لئے طلبہ بھجوانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ آپ بہت دعاگو انسان تھے اور آپ کی دعاؤں سے بارہا جماعت کے کئی مشکل مسائل حل ہوئے۔ آپ کے ایک بیٹے ڈاکٹر نصیر احمد مبشر صاحب کو بھی مجلس نصرت جہاں کے تحت کافی عرصہ غانا میں خدمت کا موقعہ ملا ہے۔
مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب لکھتے ہیں کہ تبلیغ محترم مولوی صاحب کی روح کی غذا تھی اور آپ کی جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے فانٹی قوم کے علاقہ میں بے شمار مخلص اور فدائی جماعتیں پیدا کردیں۔ اس کے علاوہ آپ نے دو ایسے کام کئے جن سے وہاں احمدیت کو بے حد تقویت اور استحکام نصیب ہوا۔ ایک کام پرائمری سکولوں کا قیام تھا جو آپکے عرصۂ امارت میں ہی ایک سو سے تجاوز کرگئے اور کئی سیکنڈری سکول بن گئے۔ ان سکولوں کے مینیجر آپ تھے اور نگرانی کرتے ہوئے کوشش کرتے تھے کہ جماعتی پیسے کی ہرممکن حفاظت کی جائے۔ دوسرا کام مقامی معلّمین کی تیاری تھا۔
مکرم عبدالحلیم سحر صاحب نے حضرت مولوی صاحب کی بیان فرمودہ کئی روایات کو قلمبند کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ 1930ء میں جامعہ احمدیہ سے مولوی فاضل کا امتحان دینے کے بعد آپ کو سیالکوٹ کے دورہ پر بھجوایا گیا جہاں ایک روز ظہر کی نماز کے آخری سجدہ میں آپ کو آواز آئی: ’’نذیر احمد پاس‘‘۔ اسی قسم کا کشف آپ کے والد صاحب نے بھی دیکھا اور اُنہیں ایک تختی پر یہی الفاظ لکھے ہوئے دکھائے گئے۔
1935ء میں حضرت مولوی صاحب اپنے والد محترم کی آنکھوں کے آپریشن کے سلسلہ میں ڈسکہ ہسپتال میں تھے جب اخبار الفضل میں حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کی طرف سے یہ اعلان شائع ہوا کہ گولڈکوسٹ (غانا) میں ایک مولوی فاضل کی ضرورت ہے جو افریقن مربیان کی تربیت کرے، اُسے معمولی گزارہ دیا جائے گا۔ آپ نے یہ اعلان پڑھا تو حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کو لکھ دیا کہ مَیں بلاشرط جانے کیلئے تیار ہوں۔
افریقہ پہنچے تو چونکہ آپ کو اپنے گزراوقات کا سامان خود کرنا تھا چنانچہ آپ نے اپنے والد صاحب سے کچھ کھیلوں کا سامان منگوایا اور کچھ دوائیں بھی منگوائیں جنہیں فروخت کرکے اپنا گزارہ کرتے اور سارا دن دعوت الی اللہ بھی کرتے۔ دراصل آپ کی روانگی کے وقت حضرت مصلح موعودؓ نے اشارۃً آپ کو تجارت کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت میں اتنی برکت ڈالی کہ 1937ء میں جب حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ کا تبادلہ سیرالیون میں ہوا تو اُن کے کرایہ جہاز اور دیگر اخراجات کی ساٹھ پاؤنڈ کی رقم اسی تجارت کی آمدنی سے ادا کی۔ حضرت مولوی صاحب کی روانگی کے وقت آپ کو فکر ہوئی کیونکہ آپ کی انگریزی کمزور تھی اور غانا میں سکولوں کے انتظام کے سلسلہ میں حکومت سے انگریزی میں خط وکتابت ہوا کرتی تھی۔ جب آپ نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ کا سونٹاتو بے جان تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس سے کام لے لیا۔ آپ تو خدا کے فضل سے عالم ہیں، اللہ تعالیٰ آپ سے ضرور کام لے گا۔ اسی دوران ایک پیراماؤنٹ چیف نے بیس احمدیوں کو تبلیغ کے الزام میں قید کردیا تو مولوی صاحب نے آپ کو پیراماؤنٹ چیف کے پاس دو مترجمین کے ہمراہ بھجوادیا۔ چیف پڑھالکھا تھا۔ اُس نے آپ سے کہا کہ تبلیغ کرنے والے اَن پڑھ لوگ ہیں اس لئے انہیں تبلیغ کا کوئی حق نہیں۔ آپ نے اُس سے پوچھا کہ کیا زمینداروں کے دماغ اچھے ہوتے ہیںیا مچھیروں کے؟ چیف نے جواب دیا کہ زمینداروں کے۔ آپ نے فرمایا کہ ایک نبی کے شاگرد اَن پڑھ مچھیرے تھے اگر اُنہیں تبلیغ کا حق تھا تو آپکی چیفڈم کے زمینداروں کو کیوں نہیں؟ اس پر چیف نے احمدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔
ایک بار آپ نے خواب دیکھا کہ ایک سانپ نکلا ہے اور دوسری جگہ غائب ہوگیا ہے۔ اگلی دوپہر دوبارہ خواب میں سانپ دیکھا جسے آپ نے بھون دیا۔ چند روز بعد اس خواب کی تعبیر سامنے آئی کہ ایک مخالف نے احمدیہ سکول کے ایک ٹیچر کو ساتھ ملاکر ایک خطرناک سکیم بنائی تھی جو اللہ تعالیٰ نے بروقت ناکام بنادی۔
اسی طرح علاقہ اشانٹی میں کچھ فتنہ انگیزوں نے جماعتی نظام کو خراب کرنا چاہا اور حضرت مولوی صاحب کے سمجھانے سے بھی وہ باز نہ آئے تو ایک رات آپ کو خواب میں کچھ سانپ دکھائے گئے جو پھر انسانوں میں تبدیل ہوگئے۔ اس طرح آپ فتنہ پردازوں کو پہچان گئے اور فتنہ کا ازالہ کرنے کی توفیق بھی مل گئی۔
ایک بار آپ نیکر بنیان پہنے مشن ہاؤس کی کیاریاں درست کر رہے تھے کہ سوٹ میں ملبوس ایک پادری وہاں آیا اور آپ کو مالی وغیرہ سمجھتے ہوئے کہا کہ وہ مولوی مبشر سے ملنا چاہتا ہے۔ آپ نے جواباً کہا کہ مَیں ہی ہوں۔ وہ بے ساختہ بولا: Very Great۔ لیکن پھر آپ کے روکنے کے باوجود وہ واپس چل دیا اور کہا کہ اگر اتنا عالم فاضل ہوکر بھی یہ مبلغ اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرتا ہے تو مَیں اس سے بحث نہیں کرسکتا۔
جنگ عظیم دوم کے دوران عام تجارت ختم ہوگئی۔ آپ کی جمع شدہ رقم مجلس عاملہ نے آپ سے ادہار لے لی۔ مقامی معلّمین کی تنخواہیں کم کردی گئیں۔ چنانچہ آپ ہر سہ ماہی میں ایک سرکلر جاری کرتے کہ ہر مرد ایک شلنگ اور ہر عورت چھ پینس چندہ ادا کرے۔ اس چندہ سے جماعت کے معمولی اخراجات ادا کئے جاتے۔ آپ کی تجارت بھی بند ہوچکی تھی۔ آپ اُس دَور میں ناشتہ نہ کرتے۔ دوپہر کو ایک پودا کساوا اُبال کر نمک مرچ ڈال کر کھالیتے۔ لیکن آپ کو علم نہیں تھا کہ اس پودے کے ساتھ مچھلی کا گوشت ضرور کھانا چاہئے۔ یہ بھی تھا کہ آپ کو مچھلی خریدنے کی استطاعت ہی نہیں تھی۔ چنانچہ کساوا کے مسلسل استعمال سے آپ کے جسم پر خارش اور پھنسیاں نکل آئیں اور حالت اتنی خراب ہوگئی کہ ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔
1939ء میں آگونا سرکٹ کے چیف رئیس نے آپ کو بتایا کہ مکّہ سے ہوکر آنے والا ایک نوجوان احمدیت کی بہت مخالفت کر رہا ہے۔ اُس کے اصرار پر آپ اُس کے علاقہ میں گئے اور ظہور مہدی پر لیکچر دے کر واپس آگئے۔ لیکن مخالفین نے وہاں بہت شور ڈالا کہ مہدی اگر آگیا ہے تو زلزلہ کیوں نہیں آیا جو کہ مہدی کے آنے کی نشانی ہے۔ جب شور بہت بڑھا تو آپ نے وہاں مختلف مقامات پر جلسے کرنے کا ارشاد فرمایا اور مخالفین کو کہا کہ اگر تم زلزلوں کے خواہشمند ہو تو اللہ تعالیٰ وہ بھی بھیج دے گا۔ آپ نے خاص طور پر دعا بھی شروع کی۔ ابھی دو جلسے ہی ہوئے تھے کہ تیسرے مقام پر جلسہ سے قبل عشاء کے بعد شدید زلزلہ آیا کہ ساری رات لوگ کھلے میدانوں میں بیٹھے رہے اور گھروں میں واپس نہ گئے۔ اس سے اگلے ہی روز مخالفین نے گانا شروع کردیا کہ مسیح آگیا ہے کیونکہ زلزلہ آگیا ہے۔
1941ء میں آپ دریا کے پار گھنے جنگل میں واقع ایک گاؤں میں تربیتی پروگرام کے لئے گئے۔ ایک نوجوان بطور گائیڈ آپ کے ہمراہ تھا۔ واپسی پر وہ راستہ بھول گیا اور ایک جگہ آپ کو بٹھاکر راستہ ڈھونڈنے نکلا۔ اسی اثناء میں خنجر لئے ایک نائیجیرین وہاں پہنچا جس کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا۔ اُس نے آپ سے پوچھا کہ لوگ کہاں ہیں۔ آپ نے اونچی آواز میں جواب دیا کہ یہیں ہیں۔ اُسی وقت احمدی گائیڈ ایک طرف سے نمودار ہوا تو حملہ آور جنگل میں بھاگ گیا۔ بعد میں یہ حملہ آور احمدی ہوگیا اور آپ سے احمدیہ مسجد میں ملا۔
25؍ستمبر 1942ء کے خطبہ جمعہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’مولوی نذیر احمد مبشر سیالکوٹی آجکل گولڈکوسٹ میں کام کر رہے ہیں۔ یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کر رہے ہیں، جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ دعوت الی اللہ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کا رخصتانہ بھی نہ کرسکے‘‘۔
ایک بار احمدی اساتذہ نے آپ سے تعلیم یافتہ افراد کو ایک لیکچر دینے کے لئے کہا۔ آپ نے کہا کہ میری انگریزی اچھی نہیں ہے، دیہاتیوں کے سامنے تو لیکچر دے سکتا ہوں لیکن تعلیم یافتہ افراد کے سامنے بہت مشکل ہے۔ جب اصرار بڑھا تو آپ نے ایک ہفتہ دعا کرنے کے بعد آمادگی ظاہر کردی۔ چنانچہ لیکچر کے لئے دعوت نامے جاری کئے گئے۔ آپ نے ڈیڑھ گھنٹہ انگریزی میں لیکچر دیا۔ پھر ایک گھنٹہ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ لیکچر ریویو آف ریلیجنز نومبر 1943ء میں شائع ہوچکا ہے۔
1943ء میں ٹاکوراڈی بندرگاہ کے نزدیک ایک گاؤں میں ہاؤسا قوم سے تعلق رکھنے والے ایک غیراحمدی معلم داؤد کے ساتھ حضرت مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا۔ وہ صرف فتنہ برپا کرنا چاہتا تھا۔ اسی جوش میں اُس نے احمدیوں کے جنرل سیکرٹری کو تھپڑ بھی مار دیا۔ لیکن مناظرہ میں شکست کھاکر جب وہ واپس اپنے گاؤں پہنچا تو اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور چند روز میں وہ ہلاک ہوگیا۔
حضرت مولوی صاحب 14؍ستمبر 1946ء کو غانا سے واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو شدید مالی تنگی تھی۔ احمدیوں نے کثیر تعداد میں جمع ہوکر آپ کو الوداع کہا اور راستہ کے اخراجات کے لئے پچاس پاؤنڈ پیش کئے لیکن آپ نے لینے سے انکار کردیا۔ پھر جماعت کے اصرار پر یہ رقم لے لی۔ یہ سفر بہت دشوار گزار تھا۔ راستہ میں کئی کئی دن پانی نہیں ملتا تھا۔ لوگ اپنے ساتھ مشکیزہ رکھتے تھے۔ بدقسمتی سے آپکا مشکیزہ چوری ہوگیا تو آپ پیاس سے نڈھال ہوگئے۔ سامان میں دودھ کی ایک بوتل پڑی تھی، اُس کی موجودگی غنیمت ثابت ہوئی۔ خشکی کا سفر شام چار بجے شروع ہوتا اور اگلے روز دس بجے تک جاری رہتا۔ پھر گرمی کی وجہ سے سفر کرنا ممکن نہ رہتا۔ آپ ٹوگولینڈ، ڈھومی، نائیجیریا، کیمرون اور چاڈ سے ہوتے ہوئے سوڈان پہنچے جہاں سے بذریعہ بحری جہاز 31؍اکتوبر کو جدہ پہنچے۔ پہلے مکہ جاکر فریضۂ حج ادا کیا۔ پھر واپس جدہ آکر جہاز کا انتظار کرنے لگے۔ چونکہ رقم کافی نہ تھی اس لئے صرف ایک وقت کھانا کھاتے۔ 26؍دسمبر کو جہاز ملا۔ سفر شروع ہوا تو سمندر میں بہت طوفان تھا۔ کئی مسافروں کے ساتھ آپ بھی بیمار ہوگئے۔ اس جہاز کے طوفان میں غرق ہونے کی افواہ بھی پھیلی۔ لیکن آخر مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد یہ جہاز کراچی پہنچ گیا۔ وہاں سے آپ اپنے بوڑھے والد کو ملنے سیالکوٹ جانے کی بجائے بذریعہ ٹرین بٹالہ پہنچے اور 7؍جنوری 1947ء کو قادیان پہنچ گئے۔ احمدیوں کی کثیر تعداد استقبال کے لئے موجود تھی۔ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ؓ نے آپ کو حضرت مصلح موعودؓ کی کار میں بٹھایا اور دارالضیافت لے گئے۔ اگلے روز آپ نے حضورؓ سے ملاقات کی اور پچاس پاؤنڈ کی وہ رقم جو جماعت غانا نے آپ کو دی تھی، وہ حضورؓ کی خدمت میں پیش کردی جو حضورؓ کے ارشاد پر وکیل التبشیر صاحب کو دیدی۔ 13؍جنوری کو مدرسہ احمدیہ کی طرف سے مولوی صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا جس میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: وہ قومیں جن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے اُنہیں یہ سعادت حاصل نہیں اور مولوی نذیر احمد مبشر صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت مولوی صاحب کا نکاح جنوری 1928ء میں محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ سے ہوا تھا۔ جب گیارہ سال کے بعد آپ افریقہ سے واپس آئے تو آپ کے بال سفید ہوچکے تھے۔ 1947ء میں آپ کی شادی ہوئی۔
مکرم عبدالحلیم صاحب لکھتے ہیں کہ مَیں نے ایک روز حضرت مولوی صاحب کے پاؤں میں پیوند لگی پرانی سی چپلی دیکھی تو کہا کہ اب تو اس کو نئی چپلی سے بدل لیں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے پہن کر سامنے میدان سے چکر لگاکر آئیں۔ میرے واپس آنے پر پوچھا کہ کوئی تکلیف یا دقّت تو نہیں ہوئی؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا کہ اس جوتی میں کیا نقص ہے، مَیں تو یہی پہنوں گا۔
اگرچہ آپ کو جماعتی نظام کے تحت کار استعمال کرنے کی سہولت حاصل تھی لیکن آپ یہی کوشش کیا کرتے تھے کہ پیدل ہی دفتر آیا جایا کریں۔ گویا ہرممکن سادگی سے زندگی بسر کی۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل آپ اپنے کمرہ میں پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے باتیں شرع کردیں کہ اے اللہ! مولوی نذیر احمد مبشر جب بارہ سال کا تھا تو اُس وقت سے نماز تہجد باقاعدگی سے پڑھ رہا ہے اور آج تک کبھی ناغہ نہیں ہوا۔ تیری توفیق اور فضل سے فرض نمازیں بھی باجماعت اور باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ تیرے پیارے دین کی خدمت کی بھی توفیق ملی اور قدم قدم پر تیرے فضلوں کے نظارے بھی دیکھے۔ تیری عزت کے نظارے بھی دیکھے۔جو دعا بھی مانگی تُو نے قبول کی، جو مانگا، تُو نے دیا۔ میری زندگی تو ساری کی ساری تیرے اور تیرے دین کیلئے ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ کبھی اپنا دیدار تو کروا۔ یہ الفاظ مکمل ہوئے ہی تھے کہ سامنے کی کھڑکی سے روشنی کا ایک ہیولہ سا آیا جو اتنا طاقتور اور روشن تھا کہ آپ پلنگ سے اچھل کر زمین پر گر گئے اور آدھ گھنٹہ تک بے ہوش رہے۔ جب تھوڑا ہوش آیا تو زور زور سے کہنے لگے: بس اللہ میاں! بس۔
………………

محترم کیپٹن ڈاکٹربشیر احمد صاحب

محترم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب 27؍جولائی 1906ء کو سیالکوٹ کے گاؤں بوبک متراں میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ 21 سال کی عمر میں ڈاکٹری کا کورس پاس کیا اور دوسری جنگ عظیم میںبطور ڈاکٹر بھرتی ہوگئے۔ دوسرے سال میں ترقی کرکے کیپٹن بن گئے۔ تیسرے سال برما کے محاذ پر بہادری کا تمغہ یعنی ملٹری کراس حاصل کیا۔ اسی وجہ سے ضلع لائلپور (فیصل آباد) کے گاؤں دسوہہ میں ایک مربع زمین انعام میں ملی۔ 1946ء میں واپس آگئے۔ اُسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں یہ سکیم عرض کی کہ ہمیں افریقہ میں ہسپتال کھولنے چاہئیں جو دعوت الی اللہ کے لحاظ سے سود مند ہوں گے اور ساتھ عیسائیوں کی طبی مساعی کی مثالیں دیں اور آخر میں اپنے آپ کو اس کارخیر کے لئے پیش کردیا۔ آپ کی بیوی وہ درخواست لے کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضورؓ نے فرمایا: ڈاکٹر کو کہنا وقف میں بہت تکلیفیں ہوتی ہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، وہ اعلیٰ جگہ پر فائز رہا ہے۔
بہرحال آپ درخواست دے کر واپس گاؤں آگئے۔ کچھ عرصہ بعد حضورؓ کا جواب مل گیا۔ فرمایا: ’’کشمیر اور سرینگر جاؤ، وہاں جاکر اپناکلینک کھولو۔ اپنی گرہ سے روپیہ لگاؤ۔ جو آمدہو اس میں سے نصف اپنے خرچ کے لئے رکھو اورنصف جماعت احمدیہ کو بھیج دو۔ نیز جو واقفین کا الاؤنس 125/- روپے ہے، وہ الگ ملتا رہے گا اور وہاں جاکر بہائیت کا مقابلہ کرو۔ ایک مہینہ کی ٹریننگ بہائی مذہب کے خلاف قادیان سے حاصل کرکے جاؤ‘‘۔ چنانچہ حسب حکم 31؍مارچ 1947ء کو سرینگر پہنچ کر کلینک کھول لیا۔ پہلے مہینہ میں نوسو روپے آمد ہوئی۔ نصف روپے قادیان بھیجے تو حضورؓ نے روپیہ وصول کرنے کے بعد فرمایا کہ اب انجمن کو روپیہ نہ بھیجنا۔ جو انجمن کا حصہ ہے وہ بھی کلینک میں ڈالو اور کلینک پوری طرح سنبھالو۔ پانچ ماہ بعد پاکستان بن گیا تو آپ بیوی بچوں کو اپنے گاؤں چھوڑ کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے فرمایا: کشمیر واپس جاکر پاکستان کے حق میں پراپیگنڈہ کرو۔ چنانچہ آپ مری کے راستے دوبارہ کشمیر چلے گئے۔
آپ کشمیر پہنچے تو وہاں سے خزانہ، مہاراجہ اور وزراء وغیرہ سب دہلی جاچکے تھے۔ آپ نے کوشش کی کہ پاکستانی فوج جلد وہاں پہنچے لیکن پاکستان اپنی مصیبت اور کم مائیگی کی وجہ سے کچھ نہ کرسکا اور چوتھے روز ہندوستانی جہاز آگئے۔ غلام محمد بخشی اور شیخ عبداللہ احمدیوں کے دشمن ہوگئے۔ چنانچہ چار دفعہ آپ کے وارنٹ گرفتاری آئے۔ کلینک کے پاس ہی پولیس چوکی تھی۔ وہاں کا تھانیدار ایک ہمدرد سیّد تھا۔ ہر دفعہ آپ کی حمایت میں رپورٹ لکھ کر وارنٹ واپس کر دیتا اور آپ کو بتا دیتا۔ جب پانچویں مرتبہ وارنٹ آئے اور پولیس افسر کو تنبیہ بھی آئی تو وہ آکر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! اب یہاں سے نکل جانے کی کوششیں کرو، اب میرے بس کی بات نہیں، بخشی غلام محمد آپ کے درپے ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب واقف زندگی تھے۔ حضورؓ کے حکم کے بغیر واپس نہیں آسکتے تھے۔ خواجہ غلام نبی گلکار کے ذریعے حضورؓ نے آنے کی اجازت دیدی۔ پانچ اَور احباب بھی تھے جو کہ سرینگر سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ حویلیاں کی پہاڑی پر کھڑے بلند آواز سے ہاتھ کے اشارہ سے فرمارہے ہیں: اس طرف سے آجاؤ۔ چنانچہ خواب سے رہبری مل گئی۔ چند گھنٹوں میں کلینک سمیٹا۔ گھریلو سامان سید سردار احمد صاحب کے گھرڈالا اور سب احباب دن کے پچھلے پہر ایک تانگہ پر سوار ہوکر سرحد پار کرنے لگے۔ سرینگر کے چاروں طرف پہرہ تھا۔ کئی جگہ سنتری آواز دیتا کون ہے۔ تانگے والا جواب دیتا: ڈاکٹر بشیر صاحب جارہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر سپاہی گزر جانے دیتا۔ اسی طرح حویلیاں کے رستے پیدل آٹھ روز کی مسافت طے کرکے برف پر سے پھسلتے ہوئے یہ احباب پاکستان پہنچ گئے اور 18؍ دسمبر کی صبح لاہور پہنچ کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ ناشتہ کی چوکی پر بیٹھے تھے۔ جلدی میں باہر تشریف لائے اور حالات دریافت فرمائے۔ نیز فرمایا کہ گھر جاکر بیوی بچوں کو مل آؤ، میں تمہیں قادیان بھجوانا چاہتاہوں۔
3؍جنوری 1948ء کو مکرم ڈاکٹر صاحب قادیان بھجوادئے گئے۔ اُس وقت چھ بیٹیاں تین بیٹے دو بیویاں اور ایک بوڑھی ماں آپ کے زیر کفالت تھیں۔ قادیان کے حالات نہایت مخدوش تھے۔ کچھ ادویات ڈاکٹر احسان الحق صاحب کی دوکان سے اور کچھ دیگر مختلف گھروں سے نکلیں تو وہاں پر کلینک کا کام شروع کردیا۔ غالباً چھ سات ماہ تو اسی طرح گزر گئے۔ درویش اپنے مخصوص حلقہ سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ ایک روز آپ اور فضل الٰہی خان صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر دعا کررہے تھے کہ ایک سکھ عورت بھی مزار پر آکر دعا کرنے لگی۔ وہ عورت ننگل سے آئی تھی اور اس کا داماد بیمار تھا۔ اس عورت نے ان دونوں احباب سے بھی التجا کی کہ مریض کے لئے دعاکرو۔ خانصاحب نے فرمایا کہ مائی جی! ہم دعا بھی کرتے ہیں اور یہ ڈاکٹر صاحب علاج بھی کریں گے لیکن خطرہ کے پیش نظر ہم نہیں جاسکتے۔ ادھر بہشتی مقبرہ کے دروازہ پر لے آؤ۔ چنانچہ مریض دروازہ پر لایا گیا۔ مریض دیکھا اور اس بڑھیا کو ساتھ لے کر محلہ احمدیہ میں آگئے۔ دوائی دی، چند روز میں وہ صحت یاب ہوگیا تو اس کے بعد گویا مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔ مخالفوں کی طرف سے بہت شور اٹھا مگر مریضوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ اس طرح سے آزادی کا تھوڑا سا رستہ کھل گیا۔ مریضوں کے ذریعے سے ضروری اشیاء خریدی جانے لگیں۔ پھر پہرہ میں باہر جاکر بھی مریض دیکھنے لگے۔ پھر انجمن سے باقاعدہ ہسپتال کھولنے کی مدد مانگی اور 80 روپے لے کر کام شروع کردیا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے مکان کو ہسپتال بنالیا اور قریب قریب کے تین مکانوں کو ان ڈور مریضوں کے لئے استعمال کرنے لگے۔
1955ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے سوئٹزرلینڈ سے تار بھیجا کہ آپ کو پاکستان بھیج دیاجائے۔ چنانچہ 7؍جولائی 1955ء کو کھوکھراپار کے رستہ آپ پاکستان میں داخل ہوئے اور 8؍جولائی 1955ء کو ربوہ پہنچے۔ اس وقت ربوہ کے ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا۔ حضورؓ علاج کی غرض سے یورپ میں تھے۔ مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی حضورؓ کے ساتھ ہی تھے۔ آپؓ نے آتے ہی ربوہ میں ہسپتال کا کام سنبھال لیا۔ آپ بہت اچھے سرجن بھی تھے۔ فروری 1957ء میں دل کی تکلیف ہوجانے کے بعد فراغت کی درخواست دیدی اور پھر ربوہ میں ہی کلینک کھول لیا۔ اور لائلپور کی زرعی زمین فروخت کرکے ربوہ کے نواح میں زمین خریدکر کاشت شروع کرادی۔
جب آپ پر 1957ء میں دل کا پہلا حملہ ہوا تو آپ کی پہلی اہلیہ کے بچے جوان تھے۔ تین کی شادی ہوچکی تھی۔ البتہ دوسری اہلیہ کے بچے بہت چھوٹے تھے۔ چنانچہ دوسری اہلیہ گھبراہٹ میں حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے پاس گئیں اور عرض کیا کہ آپ اللہ میاں سے پوچھیں کہ ڈاکٹر صاحب کی عمر کتنی ہے۔ انہوں نے دعا کرکے بتایا کہ آواز آئی ہے کہ 12×6=72۔ یعنی عمر 72 سال ہے۔ آپ کی اہلیہ کے لئے ان دنوں 72 ہفتے بھی بہت بڑی خوشخبری تھی۔ لیکن پھر بھی کہا کہ میری سب بچیاں تو اس عمر تک نہیں بیاہی جائیں گی۔ فرمانے لگے: پتر! اتنی عمر تو لے اور مانگ لیں گے۔ اس دوران بڑی بیماریاں آئیں۔ کئی مرتبہ دل پر حملے ہوئے۔ خداتعالیٰ اپنا فضل فرماتا رہا۔ آخر آپ کی عمر 70 برس ہوگئی۔ آپ کی اہلیہ کو گھبراہٹ تھی کہ چار بچے ابھی زیر تعلیم تھے اور وقت آن پہنچا ہے۔ اب وہ حضرت مولوی عبداللطیف صاحبؓ بہاولپوری کے پاس گئیں اور حضرت مولوی راجیکی صاحبؓ کی قبولیت دعا کا واقعہ سناکر ڈاکٹر صاحب کی درازیٔ عمر کی دعا کے لئے درخواست کی۔ اگلے دن حضرت مولوی صاحبؓ کا خط ملا کہ 9سال مزید عمر مانگ لی ہے۔
1987ء میں محترم ڈاکٹر صاحب جلسہ سالانہ لندن پر آئے۔ پھر سویڈن اور ناروے بھی اپنی بیٹیوں کے پاس کچھ وقت قیام کیا۔ 8؍اکتوبر کو واپس ربوہ پہنچ گئے جہاں 11 نومبر 1987ء کی صبح وفات پائی۔
محترم ڈاکٹر صاحب نہایت کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود بہت خاکسار انسان تھے۔ بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ چھٹیاں ہوتے ہی سلسلہ کی کتب بچوں میں بانٹ دی جاتیں کہ چھٹیوں میں پڑھ کر انہیں ختم کرنا ہے۔ تہجدگزار اور دعاگو تھے۔ اپنے مریضوں کے لئے بھی باقاعدہ دعا کرتے۔ آپ نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری ہے۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ عزیزوں اور دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ اپنے محلہ میں کبھی کسی مریض کو دیکھنے جاتے تو بھی پیسے نہیں لیتے تھے۔ کوئی گھر آجائے تو دوائی کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ بہت متوکّل اور قانع انسان تھے۔
وفات سے کچھ دن پہلے کسی نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے پندرہ سال سے آپ کو اسی حالت میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ کی صحت کا راز کیا ہے؟ فرمایا: ’’کم کھانا اور زیادہ کام کرنا‘‘۔
………………………..
اس کتاب میں شامل بعض دیگر شخصیات کا ذکرخیر کئے بغیر اس کتاب کا تعارف مکمل نہیں ہوسکتا مثلاً محترم عبدالحق رامہ صاحب سابق ناظر بیت المال ربوہ (جن کی ایک بڑی خدمت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی منظوم کلام پر کیا جانے والا کام بھی ہے)، محترم رشید احمد چودھری صاحب (لندن میں پہلے مرکزی پریس سیکرٹری جماعت احمدیہ) اور بہت سے دیگر واقفین زندگی اور بے لوث خدمت دین کرنے والے احباب کرام۔ لیکن محدود صفحات کے باعث مجبوراً ہمیں اسی پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔ تاہم امید ہے کہ اس کتاب سے متعلق ہمارا یہ مختصر تبصرہ بھی آپ کو یہ کتاب تلاش کرکے اسے پڑھنے پر مجبور کردے گا کیونکہ ’’نقش پا کی تلاش‘‘ دراصل اپنی ہی تلاش کا دوسرا نام ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں