پردہ… عورت کا حفاظتی حصار

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16ستمبر 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اسلامی پردہ کی اہمیت پر منفرد انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے اور بعض نَومسلم خواتین کے پردہ سے متعلق خیالات شامل مضمون کئے گئے ہیں ۔
٭ امریکہ سے تعلق رکھنے والی مکرمہ کارلوالاند لوسیا کا موجودہ اسلامی نام شریفہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بطور غیرمسلم مغربی معاشرہ میں رہتے ہوئے نظریۂ شرم و حجاب کی میرے ذہن میں کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ اپنی نسل کی دیگر خواتین کی طرح مَیں بھی اسے ایک فضول اور دقیانوسی چیز شمار کرتی تھی۔ مجھے ان مسلمان عورتوں پر ترس آتا جو برقع پہنے ہوئے یا ’بیڈ شیٹ‘ لپیٹے سڑکوں پر چلتی پھرتی نظر آتیں ۔ جب اللہ نے میری راہنمائی فرمائی اور مَیں نے مسلمان ہوکر حجاب پہنا تو بالآخر اس ماحول کے اصل روپ میں دیکھنے کی بھی اہل ہو گئی جس میں مَیں رہ رہی تھی۔ اب مَیں دیکھ سکتی تھی کہ اس سوسائٹی میں زیادہ قدر ان خواتین کی ہوتی ہے جو عوام کے سامنے اپنے آپ کو زیادہ ننگا کر دیتی ہیں مثلاً اداکارائیں ، ماڈل گرلز اور ڈانسرز وغیرہ۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ جس نے اسکارف پہننے کے بعد مجھے ایک پہچان دی۔ مَیں ان لوگوں سے دُور ہوتی گئی جو میری روح اور دل سے ہٹ کر میری شناخت کرتے تھے۔ جب مَیں نے سر کو ڈھانپ لیا تو مَیں حسن و جمال کے اشتعال کے باعث ہونے والے استحصال سے بچ گئی۔ جب مَیں نے سر کو ڈھانپا اور لوگوں نے دیکھا کہ مَیں اپنا احترام کرتی ہوں تو وہ بھی میرا احترام کرنے لگے۔
٭ فرانس کی مکرمہ یاسمین صاحبہ کا سابقہ عیسائی نام للی تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ دکھ اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلمان ملک پاکستان میں خواتین پردے کے بغیر کھلے عام گھومتی ہیں ۔ فرانس میں تو ہمیں پردے میں دقّت پیش آتی ہے لیکن پاکستان میں تو کوئی وجہ نہیں کہ پردے کے احکامات پر عمل نہ کیا جائے۔ کاش یہ خواتین مغربی تہذیب کی حقیقت سے آگاہ ہوجائیں ، تو پھر کبھی اس کی تقلید کی خواہش نہ کریں ۔ بے حجابی عورت کو بے وقعت بنا دیتی ہے۔ اسلام نے عورت کو بے حساب عظمت عطا کی ہے … اسلام میں عورت ایک ہیرے کی مانند ہے۔جبکہ مغربی تہذیب میں محض ایک پتھر ہے جو ادھر اُدھر لڑھکا دیا جاتا ہے۔ خدارا مغربی تہذیب کی چکا چوند پر مت جائیے۔ دُور کے ڈھول سہانے ہیں ۔ ایک قدم اللہ کی طرف اٹھائیے اللہ خود بڑھ کر آپ کو تھام لے گا۔
٭ بھارت سے تعلق رکھنے والی مکرمہ کملا داس صاحبہ کا اسلامی نام ثریا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے مسلمان عورتوں کا برقعہ بہت پسند ہے۔ مَیں پچھلے 24 برسوں سے پردے کو ترجیح دے رہی ہوں ۔ جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اسے احترام ملتا ہے، کوئی اس کو چُھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیابرقعہ آپ کی آزادی کو متأثر نہیں کرتا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے آزادی نہیں چاہیے،مجھے اپنی زندگی کو باضابطہ اور باقاعدہ بنانے کے لئے گائیڈ لائن کی ضرورت تھی۔ایک خدا کی تلاش تھی جو تحفظ دے۔ پردے سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ پردہ تو عورت کے لئے ایک بُلٹ پروف جیکٹ ہے۔
٭ جاپانی خاتون مکرمہ خولہ لگاتا صاحبہ پہلے عیسائی تھیں وہ کہتی ہیں کہ اگر چہ میں حجاب کی عادی نہ تھی،لیکن اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کے بعد فوراً ہی اس کا فائدہ محسوس کرنے لگی۔ مسجد میں اسلامی لیکچر میں پہلی مرتبہ شامل ہونے کے چند دن بعد مَیں نے ازخود سکارف خریدا۔ مَیں مسجد اور مسلمان بہنوں کے احترام میں ایسا کرنا چاہتی تھی۔ لیکچر روم جانے سے پہلے مَیں نے وضو کیا اور سکارف پہنا۔ اس تجربے نے مجھے اتنا مسرور اور مطمئن کیا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد بھی اس مسرّت کو اپنے دل میں محفوظ کرنے کے لئے مَیں سکارف پہنے رہی۔ عوام میں یہ میرا سکارف پہننے کا پہلا مظاہرہ تھا اور مجھے اپنے اندر ایک فرق کا احساس ہوا۔ مَیں نے اپنے آپ کو پاکیزہ اور محفوظ سمجھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہوگئی ہوں ۔ مَیں اپنے نئے ماحول میں مطمئن تھی۔ حجاب صرف اللہ کی اطاعت ہی کی علامت نہیں تھا بلکہ میرے عقیدے کا برملا اظہار بھی تھا۔ ایک حجاب پہننے والی مسلمان عورت جمِ غفیر میں بھی قابلِ شناخت ہوتی ہے۔ یہ دوسروں کے لئے اللہ تعالیٰ کے وجود کی یاد دہانی، اور میرے لئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے اور سپرد کرنے کی یاد دہانی تھی۔ میرا حجاب مجھے ہوشیار کرتا ہے کہ میرا طرزِ عمل ایک مسلم کی طرح ہونا چاہیے۔ جس طرح پولیس کا ایک سپاہی اپنی وردی میں اپنے پیشے کا لحاظ رکھتا ہے۔ اسی طرح میرا حجاب بھی میری مسلم شناخت کو تقویت دیتا ہے۔
٭ برطانوی ٹیلی ویژن کے عملہ کی ایک خاتون میری واکر صاحبہ Living Islam سیریز کے فلمائے جانے کے دوران مختلف اسلامی ممالک میں گئیں ۔ پردہ یا حجاب کے بارہ میں وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مَیں دو نائیجیرین خواتین زینہ اور فاطمہ سے ملی جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم یافتہ تھیں لیکن اب مغربی طرزِ زندگی کو چھوڑ کرباپردہ زندگی گزار رہی تھیں ۔ جب انہوں نے بولنا شروع کیا تو اُن کی گفتگو میں مجھے اپنی اقدار پر نظرثانی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ نقاب ایسے طرزِ زندگی کو دھتکارنے کا نام ہے جو عورت کی تذلیل کا موجب ہے جبکہ اسلام نے عورت کو عزت و وقار کے ایک بلند مرتبہ پر فائز کیا ہے۔یہ آزادی نہیں کہ تم عورتوں کو برہنہ ہونے پر مجبور کرو صرف اس لئے کہ مرد عورتوں کو برہنہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ تو ظلم ہے ظلم۔ جس طرح تمہاری نظروں میں نقاب مسلمانوں کے ظلم کا عنوان ہے بالکل اسی طرح ہماری نظروں میں مِنی سکرٹ اور مختصر بلاؤز ظلم کی علامت ہیں ۔
مَیری واکر خود کہتی ہیں کہ مغرب میں مرد عورتوں کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ وہ ہمیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آزاد ہوچکی ہیں ، لیکن در حقیقت ہم مَردوں کی نگاہوں کی اسیر ہوچکی ہیں ۔ چاہے مَیں لباس کے بارے میں کتنا ہی اپنی خواہش پر اصرار کروں لیکن مَیں اس بات سے انکار نہیں کرسکتی کہ میرا انتخاب اکثر اس بات کا مرہونِ منت ہوتا ہے کہ مَیں کس لباس میں مَردوں کو زیادہ پُر کشش نظر آؤں گی ۔ ایک حد تک مسلمان خواتین مجھ سے زیادہ آزاد ہیں ۔ کیونکہ مجھے اپنی قسمت پر اختیار کم ہے۔اب مَیں ان خواتین کو یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ وہ ظلم کا شکار ہیں اور مَیں نہیں ہوں ۔ میری زندگی بھی مَردوں کے دائرۂِ اثر سے خالی نہیں جیسا کہ ان کی، لیکن مجھ سے تو انتخاب کی آزادی تک چھین لی گئی ہے۔ان خواتین کے حالات اور دلائل نے بالآخر میری اپنی آزادی کے بارے میں ، اپنے تصورات کی خامیوں کو مجھ پر آشکار کر دیا ہے۔
پس حقیقت یہی ہے کہ

ہم کو آزادی نہیں عرشی خدا درکار ہے
ہم بہت مسرور ہیں پردے میں قصّہ مختصر

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں