سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ 2006ء پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب

پردہ ایک اسلامی حکم ہے اور ایک احمدی عورت اور نوجوان لڑکی کی شان اور اس کا تقدّس بھی ہے اس کو قائم رکھنا ضروری ہے۔
جرأتمند مسلمان احمدی عورت کی طرح اپنے نیک عمل سے اور دلائل سے اپنے ماحول اور معاشرے میں اس بات کو پہنچائیں کہ پردہ کوئی قید نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی حکم ہماری عزّتوں کو قائم کر نے اور ہماراشرف بحال کرنے کے لئے ہے۔
مَیں نے تو بہرحال اس حکم کی پابندی کروانی ہے جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیاہے۔ اگر کسی کے ذہن میں خیال ہو کہ اس طرح کی سختی سے جماعت کم ہو جائے گی اور جماعت سے لوگ دوڑنا شروع ہوجائیں گے تو یاد رکھیں کہ جماعت کم نہیں ہوگی ۔
اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کے مقابل نئی قومیں عطا فرمائے گاجو اسلام کی تعلیم سے محبت کرنے والی ہوں گی۔
پردہ اور حیا کی تعلیم ہر زمانے اور ہر مذہب میں دی جاتی رہی ہے ۔
آج ہر احمدی عورت کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس معاشرے میں اعلا ن کر کے ہر ایک کو بتائیں کہ تم چاہے جتنی مرضی پابندیاں لگا لو ہمارے دلوں سے، ہمارے چہروں سے ، ہمارے عملوں سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نہیں چھین سکتے ۔
(لجنہ اماء ا للہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر 19؍ نومبر 2006ء کو
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آپ لوگ یہاں اپنا اجتماع منعقد کرنے کے سلسلے میں جمع ہیں، جس کا آج آخری دن ہے۔ان اجتماعوں کا انعقاد اس غرض سے کیا جاتا ہے تا کہ یہاں احمدی عورتوں اور بچیوں کو دینی تعلیم وتربیت کیلئے مل بیٹھ کر تعلیمی، تر بیتی اور اصلاحی تقاریر اور ہدایات سن کر اپنے اندر کی کمزوریوں کو دُور کرنے کا موقع ملے۔ بچیوں اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ مختلف علمی پروگراموں میں حصہ لے کر اپنی علمی صلاحتیوں کومزید نکھارنے کا موقع ملے، ایک خاص ماحول میسر ہو جس میں اپنی اصلاح کے مزید بہتر راستوں کی نشاندہی کریں اور ان کے بارے میں سوچیں۔ جس قوم کی بچیاں، نوجوان لڑکیاں، عورتیں اس سوچ کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوں جہاں وہ خالص دینی اور روحانی ماحول میں رہ کر پروگراموں میں حصہ لینا چاہتی ہوں، اپنا وقت گزارنا چاہتی ہوں اور گزار رہی ہوں،اس قوم کی نہ تو نسلیں برباد ہوتی ہیں، نہ ان پر کبھی زوال آتا ہے۔ پس آج خالصۃً اللہ کی خاطر ان نیک مقاصد کیلئے اگر کوئی عورت جمع ہوتی ہے تو وہ احمدی عورت ہے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے اس مقام کو یاد رکھیں۔
جو علمی اور روحانی مائدہ آپ نے یہاں سے حاصل کیا ہے اور کررہی ہیں اس سے فائدہ اٹھائیں کہ اسی میں آپ کی بقا ہے، اسی میں آپ کی نسلوں کی بقا ہے، اسی میں آپ کے خاندانوں کی عزت اور ان کی بقا ہے۔ انسان کو کبھی خودغرض نہیں ہونا چاہئے کہ صرف ا پنی فکر رہے، صرف اپنی ضروریا ت کا خیال رکھتا رہے، صرف اپنے جذبات کا خیال رکھے۔ بلکہ دوسروں کی بھی فکر ہونی چاہئے، دوسروں کی ضروریات کی خاطر قربانی کی سوچ ہونی چاہئے، دوسروں کے جذبات کا خیال بھی رہنا چاہئے۔ صرف اپنی عزت کا نہیں سوچنا چاہئے بلکہ اپنے خاندان اور جماعت کی عزت کا خیال بھی ہر وقت ذہن میں رہنا چاہئے۔
یہ بات بھی ہر وقت ذہن میں رہنی چاہئے کہ میرا ایک بصیر خدا ہے جو ہر وقت مجھے دیکھ رہا ہے، میرا ایک علیم و خبیر خدا ہے جس کی نظر کی گہرائی میرے پاتال تک کا بھی علم رکھتی ہے، میرے اندر تک گئی ہوئی ہے، میری ہر بات کی اس کو خبر ہے، اس لئے کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ اور جب اس کی ہر بات پر نظر ہے، اس کو ہر بات کا علم ہے، اس کو میرے اندر اور باہر کے پل پل کی خبر ہے تو پھر جب میں یہ ا علان کرتی ہوں کہ میں ایک احمدی مسلمان عورت ہوں تو ہمیشہ آپ کو یہ خیا ل رہے کہ مجھے ان باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے جو خدا تعالیٰ نے ا پنے پیارے نبی ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچائی ہیں۔ اگر کبھی ہم ان باتوں کو کسی وجہ سے بھول گئے تو جب بھی یاد کروائی جائیں تو پھر اللہ کے نیک بندوں کی طرح ان سے ایسا معا ملہ کرنا چاہئے جیسے اللہ کے نیک بند ے کرتے ہیں اور جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَاناً (سورۃ الفرقان:74)

یعنی وہ لوگ کہ جب ا ن کے رب کی آیات انہیں یاد دلائی جاتی ہیں تو ان سے بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے۔
تو یقینا احمدی عورت جس کے دل میں نیکی کا بیج ہے جس نے اسے ابھی تک احمدیت پر قائم رکھا ہوا ہے، جو وفاؤں کی پتلی ہے، جو د ین کی خاطر قربانی کا فہم رکھتی ہے، جو خلافتِ احمدیہ سے عشق و محبت کا تعلق رکھتی ہے، اسے جب نصیحت کی جا ئے تو اندھوں اور بہروں کی طرح سلوک نہیں کرتی۔ ا گر حقیقی احمدی ہے اور یہی ہر احمدی سے امید کی جاتی ہے کہ اسے ہر نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ اندھوں اور بہروں کی طرح کا سلوک اس سے ہو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی یہی سوچ ہونی چاہئے کہ میں نے ان باتوں کی طرف توجہ دینی ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں بتائی ہیں اور یہی ایک مومن کی نشانی اور ایک مومن کی شان ہے۔ آپ جو عہد کرتی ہیں، ہمیشہ اس عہد کو ا پنے سامنے رکھیں۔
د یکھیں جب آنحضر ت ﷺ نے عورتوں سے عہدِ بیعت لیا تو ا س میں مردوں کے عہدِ بیعت سے زائد باتیں رکھیں، جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ملتا ہے۔ جس میں شرک سے بچنے کی طرف توجہ ہے، برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ ہے، اولاد کی صحیح تربیت کرنے کی طرف توجہ ہے اور فرمایا

وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (الممتحنہ:13)

کہ نیک باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گی۔ تو اللہ تعالیٰ کوئی زبردستی نہیں کررہا کہ ہر ایک سے زبردستی یہ (عہد) لو۔ ہاں اگر مسلمان ہو نے کے لئے آئی ہیں تو پھر ان شرائط کی پابندی کرنی بھی ضروری ہے جو اسلام میں شامل ہونے کیلئے ضروری ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جب عورتوں سے بیعت لیتے تھے تو یہی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ پس بعض دماغوں میں خاص طور پر اس ماحول میں آکے، آج کل کے معا شرے میں ہر جگہ ہی جو یہ خیال آجاتا ہے کہ ہم آزاد ہیں تو یاد رکھیں کہ ایک حد تک آزاد ہیں۔ لیکن جہاں آپ کے دین کے، شریعت کے احکامات کا تعلق ہے وہاں آزاد نہیں ہیں۔ اگر جماعت میں شامل ہوئے ہیں تو ان شرائط کی بہرحال پابند ہیں جو ایک احمدی کیلئے ضروری ہیں۔ دیکھیں ابتداء میں آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جب ان عورتوں نے بیعت کی تھی تو وہ معاشرہ بالکل آزاد تھا ، اس میں کوئی قانون نہیں تھا، آج کی برائیوں سے زیادہ ان میں برائیاں موجود تھیں، تعلیم کی کمی تھی، چند ایک مگر وہ بھی معمولی سا پڑھی لکھی تھیں۔ خدا کے وجود کا کوئی تصور نہ تھا، وہ صرف بتوں کو جانتی تھیں، یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ علیم و خبیر اور بصیر خد ا کیا ہے؟
لیکن جب بیعت کی تو اپنی زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا کرلیا۔ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر جب اسلام کی روشنی حاصل کی تو علم کی روشنی پھیلانے کا منبع ایک عورت بن گئی، پردے وغیرہ کی تمام رعائت کے سا تھ بڑوں بڑوں کو دین کے مسائل سکھائے اور آنحضرت ﷺ سے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کیا کہ دین کا آدھا علم اگر حاصل کرنا ہے تو عائشہ سے حاصل کرو۔
میدانِ جنگ میں اگر مثال قائم کی تو اپنے پردے کے تقدس کو قائم رکھتے ہوئے، اپنی جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رومیوں کی فوج سے اکیلی اپنے قیدی بھائی کو آزاد کرواکے لے آئی اور تاریخ میں اس عورت کا ذکر حضرت خولہ کے نام سے آتا ہے۔ پھر مدینہ پر جب کفار کا حملہ ہوا تو مرد اگر خندق کھود کر شہر کی اس طرف سے حفاظت کررہے تھے تو گھروں کی حفاظت عورتوں نے اپنے ذمّہ لے لی اور جب یہو د یوں نے جاسوسی کرنے کیلئے اپنا ایک آدمی بھیجا کہ پتہ کرو تاکہ ہم اس طرف سے حملہ کریں اور مدینہ پر قبضہ کرلیں تو مرد تو اس جاسوس کے مقابلے پر نہ آیا لیکن عورت نے اس کو زخمی کرکے، مار کے باندھ دیا اور اٹھاکر اس کو باہر پھینک دیا۔
جنگِ اُحد میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے تو اس وقت عورتیں ہی تھیں جنہوں نے دین کی غیر ت میں اور آنحضرت ﷺ کی محبت میں ایک مثالی کردار ادا کیا اور وفا کی ایک مثال قائم کردی۔ پس یہ طا قت، یہ جرأت، یہ وفا، یہ علم ان میں اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی وجہ سے آیا تھا۔ اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگربے نفس ہوکر اپنے دین کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گی، اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی، خداتعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ پیدا کریں گی تو آ پ میں د ین کی غیرت بھی پیدا ہوگی اور وفا بھی پیدا ہوگی اور آپ ہر قسم کے کامپلیکس (Complex) سے بھی آزاد ہوجائیں گی۔ ورنہ اس دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب کر دنیاداروں کی طرح غائب ہوجائیں گی۔
پس جس طرح آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی عورت نے اپنے اندر یہ ا نقلاب پیدا کیا کہ حقیقی مسلمات بنیں، مومنات بنیں، قانتات بنیں، تائبات بنیں، عابدات بنیں، آپ نے بھی اگر ان کے نقشِ قد م پر چلنا ہے تو پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہوگا۔ اگر یہ لاگو نہ کیا تو پھر آپ مسلمان نہیں کہلاسکتیں، اگر آپ نے اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا نہ کی اور معاشرے کی برائیوں سے ا پنے آپ کو نہ بچایا تو مومنات نہیں کہلاسکتیں، اگر فرمانبرداری کے اعلیٰ معیار قائم نہ کئے تو قانتات نہیں کہلاسکتیں، اگر توبہ اور عبادتوں کی طرف ہر وقت توجہ نہ رکھی تو تائبات اور عابدات نہیں کہلاسکتیں ۔
پس اپنے جائزے لیں کہ دعوے کیا ہیں اور عمل کیا ہیں، ا پنے آ پ کو خود Assess کریں، اپنے خود جائزے لیں۔ ہمیشہ اس مقصد کو سامنے رکھیں جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے۔ اللہ کی رضا حاصل کرنا آپ کا مطمح نظر ہو۔ اپنے لئے بڑے بڑے Targets بنائیں کہ Goal بنائیں جن کو حاصل کرنا ہے۔ اعلیٰ مقاصد کی نشاندہی کریں جن کی طرف بڑھنا ہے۔ جب آپ کے سامنے Targets بڑے ہوں گے تو پھرآپ ان کو حاصل کرنے کیلئے حقیقی کوشش کریں گی۔ لڑکیاں بھی اپنے جائزے لیں اور مائیں بھی ا پنے جا ئزے لیں۔ اس سے آپ اپنی بھی اصلاح کرسکتی ہیں اور اپنی نسل کی بھی اصلاح کرسکتی ہیں، بچوں کی تربیت بھی اچھے رنگ میں کرسکتی ہیں۔ آج معاشرے میں اسلام کے خلاف ہرطرف حملے ہو رہے ہیں،آج اس کے د فاع کیلئے ہر احمدی بچی، ہر احمدی لڑکی اور ہر احمدی عورت کو اسی طرح میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے جس طرح پہلے زمانے کی عورت آئی یا قرونِ اولیٰ کی عورت آئی، ورنہ پھر آپ پوچھی جائیں گی کہ تمہارے سپرد کام کیا تھا اور تم نے کیا کیا؟ تمہارے دعوے کیا تھے اور تمہارے عمل کیا تھے؟
آج عورت کے حوالے سے اسلام پر حملے ہورہے ہیں، بڑا Issue آجکل جو اٹھا ہوا ہے وہ حجاب یا اسکارف یا برقعہ کا مسئلہ ہے۔ مرد اس کی لاکھ وضاحتیں پیش کریں، جتنی مرضی اس کی توجیہیں پیش کریں کہ اسلام میں پردہ کیوں کیا جاتا ہے، جتنی مرضی اس کی Justification پیش کریں اس کا صحیح جواب اگر کوئی دے سکتی ہے تو وہ ایک باعمل اور نیک احمدی عورت دے سکتی ہے۔ پس بجائے کسی کا مپلیکس(Complex) میں مبتلا ہو نے کے، جرأتمند مسلمان احمدی عورت کی طرح اپنے عمل سے اور دلائل سے اس با ت کو اپنے ماحول میں، اپنے معاشرے میں پہنچائیں کہ یہ قرآنی حکم ہماری عزتوں کیلئے ہے، ہمارا شرف بحال کرنے کیلئے ہے، یہ کو ئی قید نہیں ہے۔
ا ن لوگوں کی حالت بھی د یکھ لیں۔ ایک طرف تو یہ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں جبر ہے، سختی ہے، اور دوسری طرف خود بھی کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کررہے ہیں۔ اگر کوئی عورت اسکارف لینا چاہتی ہے، حجاب لینا چاہتی ہے تو ان سے کوئی پوچھے کہ تمہیں کیا تکلیف ہے؟ آجکل کیونکہ عمل تو رہا نہیں جنہوں نے حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا ان مسلمان عورتوں کی اکثریت پردہ نہیں کرتی تو اسلام انہیں کوئی سزا نہیں دیتا، کوئی قانون انہیں سزا نہیں دے رہا۔ لیکن جو دین کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرتی ہے اس پر کسی دوسرے مذہب والے کا کیا حق ہے کہ کہے کہ سخت قانون بنانا چاہئے تاکہ وہ پردہ نہ کرے، اسکارف نہ لے، سر نہ ڈھانپے۔ کل کو کہہ د یں گے کہ یہ تمہارا لباس ٹھیک نہیں ہے، شلوار نہیں پہننی، فراکیں پہنو یا جین پہنو یا میکسی یا کوئی ایسی چیز پہنو، ہمیں اعتراض ہے اور پھر اس پر بھی اعتراض شروع ہوجائے گا۔ پھر یہ کہہ دیں گے کہ چھوٹی فراکیں پہنو، اس طرح کی پہنو اور پھرمنی اسکرٹ پہنو، پھر ننگے ہوجاؤ۔
تو ان لوگوں کا کسی عورت کی عزت سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔ یہ آپ لوگ ہیں جنہوں نے جواب دینے ہیں کہ تم کسی کے ذاتی معاملا ت میں دخل دینے والے کون ہو؟ ان سے پوچھیں کہ یہ بھی تو آزادی سلب کرنے والی بات ہے۔ کسی کا لباس اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ کیوں اس کے لباس پہننے کی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن کیونکہ ان کی حکومتیں ہیں، دنیا میں آجکل ا ن کا سکّہ چلتا ہے اس لئے ناجائز اور احمقانہ باتیں کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑی عقل کی بات کی ہے۔ تو احمدی عورت نے اپنی عزت بھی قائم کرنی ہے اور ہر ایسے اعتراض کا جواب بھی دینا ہے۔ اس کیلئے تیار ہوجائیں۔
بعض عورتیں احمدی کہلا کر بھی پتہ نہیں کیوں کسی کامپلیکس (Complex) کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ کسی نے بتایا کہ ایک عورت نے کہا کہ میری بیٹی اگر اسکارف نہیں پہنتی یا جین اور دوسرا لباس پہنتی ہے تو اسے کچھ نہ کہو، وہ بڑی ڈیسنٹ (Decent) ہے۔
ڈیسنٹ کیوں ہے؟ کہ اس کی لڑکوں سے دوستی نہیں ہے۔ وہ آزاد ہے، اپنا اچھا برا جانتی ہے۔ تو یہ تو بچوں کی تربیت خراب کرنے والی بات ہے۔ آج اگر دوستی نہیں ہے تو کل کو دوستی ہو بھی سکتی ہے، آج اگر کسی برائی میں مبتلا نہیں ہے تو اسی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی برائی میں مبتلا ہو بھی سکتی ہے۔ اگر وہ آزاد ہے، اپنا اچھا برا جانتی ہے اور اس بات پر آزاد ہے کہ اسلامی حکم یا قرآنی حکم پردے پر عمل نہ کرے تو پھر جماعت بھی آزاد ہے، نظامِ جماعت بھی آزاد ہے، خلیفہ ٔوقت سب سے زیادہ اس کا حق رکھتا ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر جماعت سے باہر کردے جنہوں نے قرآنِ کریم کے بنیادی حکم کی تعمیل نہیں کرنی۔
اگر آپ ایک دنیاوی کلب بھی جا ئن(Join) کرتے ہیں تو اس کی بھی ممبرشپ کے کوئی قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ اگر ان کو پورا نہ کریں تو ممبرشپ ختم ہو جاتی ہے۔ تو د ین کا معاملہ تو خد ا کے سا تھ ایک با نڈ (Bond) ہے ایک عہدِ بیعت ہے۔ اگر اس کی واضح تعلیم کے خلاف عمل کریں گی اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے انکار کریں گی تو پھر اگر آپ کی لڑکی کو یا آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ پردہ نہ کریں تو پھر مجھے بھی یہ حق حاصل ہے، اسی حق کی وجہ سے جو آپ کو حاصل ہے کہ پھر ایسے نافرمانوں کو جماعت سے نکال کرباہر کردوں۔ مَیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ایسا کروں گا، اس لئے کسی کو کوئی شکوہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں میں انتظامیہ کو بھی یہ بتادوں کہ پہلے Step میں یہ جائزہ لیں کہ کوئی لڑکی، کوئی ایسی عورت عہد یدار نہ ہو جو پردہ نہ کرتی ہو اور اگر باپرد کام کرنے والی نہیں ملتی تو اس مجلس کو جس مجلس میں کام کرنے والی کوئی بھی ایسی نہیں ہے جو باپرد ہو کسی ساتھ کی مجلس کے سا تھ Attach کردیں یا کوئی باپرد چاہے کم علم رکھنے والی ہو تو اس کو کام سپرد کردیں۔ اگر اس مجلس میں کوئی بھی نہیں ملتا جو اسلامی حکم کہ ’اپنے سر اور بال اور زینت کو ڈھانپو‘ پر عمل کررہی ہو اور قریب کوئی مجلس بھی نہ ہو تو پھر ایسی مجلس کو ہی بند کردیں۔ اوّل تو مجھے امید ہے کہ یہ جو میں نے انتہائی صورت پیش کی ہے ایسی خوفناک شکل کہیں نہیں ہوگی۔ انشاءاللہ تعالیٰ۔
اللہ کے فضل سے جماعت میں نیکیوں میں آگے بڑھنے والی بے شمار خواتین ہیں۔ اگر بڑی عمر کی عورتوں میں سے نہیں تو نوجوان بچیوں میں سے مَیں دیکھ رہا ہوں کہ ایسی ہیں جو منافقت سے پاک ہیں، جو کسی قسم کی منافقت نہیں کرتیں۔ بعض ا پنے گھر کے ماحول کی وجہ سے ایسی ہوں گی لیکن بہت ساری ایسی ہیں جو اپنے بڑوں سے زیادہ نیکیوں پر قائم ہیں۔ کوشش کرتی ہیں کہ حجاب لیں، حیا رکھیں۔ ا یم ٹی اے کیلئے ایک پروگرام انہوں نے بنایا ہے جو ابھی دکھایا نہیں لیکن مَیں ریکارڈنگ د یکھ رہا تھا اس میں ہماری ایک بچی نے جو ٹیچر بھی ہے، جب سکول میں حجاب کا مسئلہ آیا تو یہ کہا کہ مَیں سکول میں بھی سر ڈھانکوں گی کیونکہ مَیں بچوں کو سکول میں یہ نہیں سکھانا چاہتی کہ مَیں نے منافقانہ رویّہ یا دوہرا معیار رکھا ہوا ہے۔ بچے مجھے باہر اسکارف میں دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ سکول میں کیوں نہیں لیتی، سکول میں سر کیوں نہیں ڈھانکتی؟ وہاں ایک Discussion یہ بھی ہو ر ہی تھی کہ پرائمری سکول میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے والی ہماری ایک ٹیچر ہے وہ سر نہیں ڈھانپتی۔ ٹھیک ہے جہاں چھوٹے بچے ہوں، عورتیں ہوں بے شک نہ ڈھانپیں، کوئی حرج نہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ جس بچی نے کہا کہ مَیں سکول میں بھی سر ڈھانکوں گی، اس کے سکول میں بڑے بچے ہوں۔
تو بہرحال پردہ ایک اسلامی حکم بھی ہے اور ایک احمدی عورت اور نوجوان لڑکی کی شان بھی ہے اور اس کا تقدّ س بھی ہے کیونکہ احمدی عورت کا تقدّ س بھی اسی سے قائم ہے، اس کو قائم رکھنا ضروری ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اسکارف کے ساتھ نچلا لباس بھی ڈھیلا ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ زینت نظر نہ آ ئے۔ بعض غیر از جماعت لڑکیاں نظر آجاتی ہیں، انہوں نے اسکارف تو شاید اس ری ایکشن (Reaction) میں لیا ہوتا ہے کہ ہمیں کیوں اسکارف لینے سے روکا جارہا ہے۔ لیکن ان کا جو لباس ہوتا ہے وہ Tight جین اور بلاؤز پہنے ہوتے ہیں۔ اس پردے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ تو منافقت ہے۔ پردہ ایسا ہو جو پردہ بھی ہو اور وقار بھی ہو۔
پھر مجھے پتہ چلا ہے کہ ایک جگہ عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں تو ایک عہدیدار عورت نے دوسری کو کہا کہ حالات کی وجہ سے اب پردے میں ہمیں کچھ Relax ہونا چاہئے، اتنی سختی نہیں کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے Relax ہوجائیں تو جس طرح مَیں نے پہلے کہا ہے کہ پھر وہ اپنا حق استعمال کریں اور مَیں اپنا حق استعمال کروں گا۔ یہ تو نہیں ہے کہ آپ ا پنے حق لیتی رہیں اور میرا حق کہیں کہ تم استعمال نہ کرو۔ میں نے تو بہرحال اس حکم کی پابندی کروانی ہے انشاءاللہ تعالیٰ، جو قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں د یا ہے۔ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا دروازہ کھلا ہے جو جانا چاہتا ہے چلاجائے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کامپلیکس (Complex) کس و جہ سے ہے، کیسا ہے، کیوں ہے؟ یہاں کی لوکل برٹش عورتیں بھی ہیں، یورپ میں اور جگہ بھی احمدی ہو تی ہیں، لڑکیاں بھی ہیں، جماعت میں داخل ہورہی ہیں۔ انہوں نے تو اسکارف پہننا شروع کردیا ہے، اپنے سر ڈھانکنے شروع کردئیے ہیں اور آپ لوگوں میں سے بعض ایسی ہیں جو احساسِ کمتری کا شکار ہورہی ہیں۔ ابھی کل ہی یہاں کی ایک انگریز لڑکی جو چند دن پہلے احمدی ہوئی ہے مجھے ملی ہے، اس کو تو اسکارف یا حجا ب کی کوئی عادت نہیں تھی لیکن اس نے بڑا اچھا حجاب لیا ہوا تھا۔ یہ لوگ تو اس خوبصورت تعلیم پر عمل کرنے کے لئے اسے قبول کررہے ہیں اور ہماری بعض خواتین احساسِ کمتری کا شکار ہیں اس پر سوائے اِنَّالِلّٰہِ کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ اس طرح سختی سے جماعت کم ہوگی، جماعت سے لوگ دوڑنا شروع ہوجائیں گے تو یاد رکھیں کہ جماعت کم نہیں ہوگی۔ ایسی تمام عورتیں بھی اگر چھو ڑدیں تو اللہ میاں کا وعدہ ہے اور اس کے مطابق وہ نئی قومیں عطا فرمائے گا۔ یہاں کے برٹش لوگوں میں سے بھی جو عورتیں آئی ہیں، احمدی ہئی ہیں بڑی مخلص ہیں اور آئندہ بھی ان لوگوں میں سے ہی آ پ دیکھیں گی کہ قطراتِ محبت ٹپکیں گے جو اسلا م اور اسلام کی تعلیم سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ ابھی جس کا میں نے ذ کر کیا ہے کہ کل ہی مجھے ملی ہیں اور بہت ساری ایسی ہیں، اس وقت یہاں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو خود احمدی ہوئی ہیں اور پھر احمدیت میں ترقی کرتی چلی گئیں۔ یہاں آپ کی صدر صاحبہ ہیں یہ بھی تو پاکستانی نہیں، جرمن ہیں، پردہ کرتی ہیں، برقعہ پہنتی ہیں ان کو تو کوئی کامپلیکس نہیں۔ تو جیسا کہ مَیں نے ذ کر کیا ہے وہ خاتون جو شاید عہدیدار بھی ہے، وہ پردے میں Relax ہونا چاہتی ہے۔ اصل بات جو مَیں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ بنیادی طور پر وہ اعتراض مجھ پر کرنا چاہتی ہے کہ مَیں پردے کے معاملہ میں سختی کرتا ہوں۔ اس قسم کے لوگ جو گول مول باتیں کرتے ہیں یہ بھی منافقانہ حرکت ہے، پس اپنے آپ کو سنبھالیں۔ اور ان نئی احمدیوں سے میں کہتا ہوں جو ان قوموں میں سے آرہی ہیں کہ اگر یہ پیدائشی احمدی اپنے پر اسلامی تعلیم لاگو نہیں کرنا چاہتیں تو ان کو نہ دیکھیں، آپ آگے بڑھیں اور ان لوگوں کیلئے نمونہ بن جائیں اور آگے بڑھ کر اسلام اور احمدیت کے حسن اور خوبیوں کو اس ماحول میں پھیلائیں۔
پردہ اور حیا ہر زمانے میں، ہر مذہب کی تعلیم رہی ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں بھی قرآن کریم میں جن دو عورتوں کا ذکر ہے کہ وہ ایک طرف کھڑی تھیں، اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلارہی تھیں تو وہ پردہ اور حیا کی وجہ سے ہی کھڑی تھیں کہ مرد جب فارغ ہو جائیں گے تب ہم آگے جائیں گی۔
پس حیا کو ایمان کا حصہ سمجھیں اور یہی ہمیں سکھایا گیا ہے۔ عیسائی عورتیں شروع زمانے میں پردہ کرتی تھیں، اپنے لباس ڈھانکے ہوئے پہنتی تھیں، بائبل میں پردے کی یہ تعلیم کئی جگہ درج ہے۔ اگرآج عیسائی پردہ نہیں کررہے جن کو د یکھ کر آ پ متاثر ہورہی ہیں تو وہ اپنے دین کو بھول رہے ہیں۔ اگر اپنے دین کو یاد رکھیں، اس پر عمل کریں تو بے شمار برائیاں جو ان لوگوں میں راہ پاگئی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ یہاں میں آپ کی تسلی کیلئے، جن لوگوں کو کامپلیکس ہے ان کے لئے بائبل میں سے چند حوالے پیش کردیتا ہوں، ایک حوالہ ہے:۔
ـ’’عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے کیونکہ جو ایسے کام کرتا ہے وہ خداوند تیرے خدا کے نزدیک مکروہ ہے۔‘‘ (استثناء باب 22آیت 5)
اس کی ٹرانسلیشن میں شاید دقّت پیش آئے اس لئے مَیں اصل انگلش version بھی پڑھ دیتا ہوں۔
“A woman must not wear men’s clothing, nor a man wear women’s clothing, for the Lord your God detests anyone who does this.”(Deuteronomy 22:5)
پھر بائبل میں لکھا ہے:۔
“حسن دھوکا اور جمال بے ثبات ہے۔ لیکن وہ عورت جو خداوند سے ڈرتی ہے ستودہ ہوگی۔”(امثال باب 31آیت 30)
اس کا انگلش ترجمہ یہ ہے:۔
“Favour is deceitful, and beauty is vain: but a woman that feareth the Lord, she shall be praised.”( Proverbs 31:30)
پھر ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’اسی طرح عورتیں حیادار لباس سے شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے۔ بلکہ نیک کاموں سے جیسا خداپرستی کا اقرار کرنے والی عورتوں کو مناسب ہے۔‘‘ (۱۔ تیمتھیس باب 2آیت 10,9)
“ٰI also want women to dress modestly, with decency and propriety, not with braided hair or gold or pearls or expensive clothes, but with good deeds, appropriate for women who profess to worship God.” (Timothy 2:9-10)
پھر ایک ہے:۔
’’جو مرد سر ڈھنکے ہوئے دعا یا نبوت کرتا ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتا ہے اور جو عورت بے سر ڈھنکے دعا یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے کیونکہ وہ سرمُنڈی کے برابر ہے۔ اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عورت کا بال کٹانا یا سر منڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔ البتہ مرد کو اپنا سر ڈھانکنا نہ چاہئے کیونکہ وہ خدا کی صورت اور اس کا جلال ہے مگر عورت مرد کا جلال ہے۔‘‘ (1۔ کرنتھیوں باب 11آیت 4 تا 7)
تو اسلا م پر تو یہ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ضمنی بات بھی آگئی کہ مرد کو عورت سے Superior تو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ کیونکہ مرد کا اپنا ایک مقام ہے عورت کا مقام نہیں۔ تو بہرحال یہ تو ضمنی بات تھی، اس وقت تو بحث نہیں ہوسکتی۔ اس کا انگلش Version یہ ہے کہ:۔
“Any man who prays or prophesies with something on his head,disgraces his head, but any woman who prays or prophesies with her head unveiled disgraces her head. It is one and the same thing as having her head shaved. For if a woman will not veil herself, then she should cut off her hair; but if it is disgraceful for a woman to have her hair cut off or to be shaved, she should wear a veil. For a man aught not to have his head veiled, since he is the immage and reflection of God; but woman is the reflection of man.”
(Corinthians 11: 4 – 7)
تو یہ سب د یکھنے کے بعد آپ لوگوں کو مضبوط ہونا چاہئے، مزید مضبوط ہونا چاہئے کہ آپ تو اپنی تعلیم پر عمل کرنے والی ہیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے اور جو زندہ خدا کے ساتھ تعلق جوڑنے والی ہے۔ جبکہ یہ مغربی معاشرہ مذہبی دیوالیہ ہوچکا ہے، اپنے د ین کی ہدایات کو بھلا بیٹھا ہے۔ پس ان کو کہیں کہ ہمارے خلاف باتیں کرنے کی بجائے، مضمون لکھنے کی بجائے، قانون بنانے کی بجائے، بیان دینے کی بجائے اپنی فکر کرو، ہمارے سر ننگے کرنے کی بجائے جو ہم اپنی خوشی سے ڈھانپتی ہیں، اپنی تعلیم کے مطابق اپنی عورتوں کے سر ڈھانپو۔
پس مَیں دوبارہ یہ کہتا ہوں کہ بجائے یہ کہنے کے کہ پردہ میں نرمی کرو یا مجھے ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہنے کے کہ پردہ کے معاملہ میں سختی کرتا ہے، اپنے احساسِ کمتری کو ختم کریں جن میں بھی یہ احساسِ کمتری ہے اور اس تعلیم پر عمل کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں کو برائیوں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ مرد کو عورت سے پہلے اس بات کی تلقین کی ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھو، اپنی نظریں نیچی رکھو۔ پھر عورت کو حکم دیا ہے کہ نظریں نیچی رکھو۔ اور مرد میں عورت کی نسبت کیونکہ بیباکی زیادہ ہوتی ہے اس لئے عورت کو حکم دیا کہ گو کہ نظر نیچی رکھنے اور شرم گاہوں کی حفاظت کرنے کا دونوں کو حکم ہے تاہم مرد کی فطرت کی وجہ سے تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم ا پنی زینت کو ڈھانکو تاکہ مرد کی بے محابا اٹھی ہوئی نظر سے بچ سکو۔
بعض لوگ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ پہلے خلفاء نے پردہ کے بارہ میں اتنی سختی نہیں کی تھی تو چند حوالے وہ بھی میں آ پ کے سامنے رکھ دیتا ہوں تاکہ تسلی ہوجائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق و فجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفت اور پاکدامنی بڑھ گئی ہے توہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہوجانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہوجاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ104، جدید ایڈیشن)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا بھی اس بارہ میں ایک بیان ہے، فرماتے ہیں:۔
’’ شرعی پردہ جو قرآن شریف سے ثابت ہے یہ ہے کہ عورت کے بال، گردن اورچہرہ کانوں کے آگے تک ڈھکا ہوا ہو۔ اس حکم کی تعمیل میں مختلف ممالک میں اپنے حالات اور لباس کے مطابق پردہ کیا جاسکتا ہے۔‘‘(الفضل مؤرخہ 3؍ نومبر 1924ء)
پھر فرماتے ہیں کہ:۔
’’ہاتھ کے جوڑ کے اوپر (ہاتھ کا اشارہ کرکے بتایا کہ ’’یہاں سے‘‘) سارے کا سارا حصہ پردہ میں شامل ہے۔‘‘ (الازھار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 150)
پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کا بیا ن بھی بڑا سخت ہے، یہ بھی غور سے سن لیں۔ ناروے میں لجنہ سے خطاب کرتے ہو ئے فرمایا تھا:۔
’’میں ایسی خواتین سے جو یہاں پردہ کو ضروری نہیں سمجھتیں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے پردہ کو ترک کرکے اسلام کی کیا خدمت کی ہے ……آج بعض یہ کہتی ہیں کہ ہمیں یہا ں پر د ہ نہ کر نے کی ا جا ز ت د ی جا ئے۔پھر کہیں گی کہ ننگ دھڑنگ سمندر میں نہانے اور ریت پر لیٹنے کی اجازت دی جائے۔ پھر کہیں گی شادی سے پہلے بچہ جننے کی اجازت دی جائے۔ مَیں کہوں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے… و ہ ا پنے آپ کو ٹھیک کرلیں قبل اس کے کہ خدا کا قہر نازل ہو۔‘‘(دورہ مغرب اگست 1980ء صفحہ 239,238)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں کہ:۔
’’…کیونکہ میں محسوس کررہا تھا کہ د نیا میں اکثر جگہ پردہ اس طرح غائب ہورہا ہے کہ گویا اس کا وجود ہی کوئی نہیں اور اس کے نتیجے میں جو انتہائی خوفناک ہلاکتیں سامنے کھڑی قوم کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی ہیں، ان ہلاکتوں کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ماں باپ ا پنی بے عملی او ر غفلتوں کے نتیجے میں اپنی نئی نسلوں کو ایک معاشرتی جہنم میں جھونک رہے ہیں اور کوئی نہیں جو اس کی پرواہ کرے۔ یہ صورتِ حال ساری دنیا میں اتنی سنگین ہوتی جارہی ہے کہ مجھے خیال آیا کہ اگر احمدیوں نے فوری طور پر اسلام کے دفاع کا جھنڈا اپنے ہا تھ میں نہ لیا تو معاملہ حد سے آگے بڑھ جائے گا……‘‘۔
پھر آپ نے فرمایا:۔
’’……پھر ایسی خواتین ہیں جن کو باہر تو نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ سنگھار پٹار کرکے نکلتی ہیں۔ اب کام کا سنگھارپٹار سے کیا تعلق ہے؟……‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں:۔
’’……عورتیں سمجھتی ہیں کہ اگر ہم اس د نیا میں جہاں سے پردے ا ٹھ رہے ہیں اپنی سہیلیوں کے سامنے برقع پہن کر جائیں گی تووہ کہیں گی کہ یہ اگلے وقتوں کی ہیں، پگلی ہیں، پاگل ہوگئی ہیں، یہ کوئی برقعوں کا زمانہ ہے اور یہی بات مردوں کو بھی تکلیف دیتی ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عزتِ نفس اور دوسرے کا کسی کی عزت کرنا انسان کے اپنے کردار سے پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کی نظر میں لباس کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی۔ اگر کوئی آدمی صاحبِ کردار ہو تو اس کی عزت پیدا ہوتی ہے اور یہ عزت سب سے پہلے اپنے نفس میں پیدا ہونی چاہئے۔‘‘ (خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 361تا 367)
پھر آپ نے فرمایا:۔
’’یہاں پرورش پانے والی بچیاں اپنے سر کے بالوں کے بارے میں ایک ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ بالوں کو ڈھانک کر رکھنا ایک دقیانوسی بات ہے (بڑ ی Backwardness ہے)۔ اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف نیم دلی سے قدم اٹھاتی ہیں نہ کہ بشاشتِ قلبی سے۔ وہ دراصل یہ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اے خدا تو ہمیں اسی طور سے قبول فرمالے کہ ہم دوپٹہ اوڑھے ہوئے ہیں مگر اس طور سے جس طور سے یہودی اپنے سر کی پشت پر ایک چھوٹی سی “چپنی نما” ٹوپی پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ پس تو اپنی طرف اٹھا ہوا یہ ادھورا قدم بھی قبول فرمالے۔ لیکن اگر آپ سب کچھ خدا کی خاطر کرتی ہیں تو پھر یہ بالکل نامناسب ہے۔ یاد ر کھیں کہ عورتوں کے خدوخال کا سب سے دلکش حصہ ان کے بال ہوتے ہیں، بالخصوص جب کہ وہ سامنے کی طرف لٹکے ہوئے ہوں۔ بعض لڑکیوں کو مَیں نے دیکھا کہ جب وہ دوپٹہ اپنے سر پر کھینچتی ہیں تو ایسے طریق سے کہ جس سے ا ن کے بال سامنے کی طرف جھک آئیں…۔ (آ پ یہ دیکھیں کہ) کیا مَیں خدا تعالیٰ کی زیادہ پرواہ کرتی ہوں یا انسانوں کی؟‘‘ (بچوں کی اردو کلاس مؤرخہ 06.06.98)
تو یہ تھے مختلف خلفاء کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیا ن۔ بعض لوگوں میں جو یہ سوچ پیدا ہو گئی ہے کہ فلاں خلیفہ نے تو ایسا نہیں کہا تھا اور فلاں خلیفہ کہہ رہا ہے۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ آپ لوگ بغیر علم کے خلفاء پر بدظنی کررہی ہیں کہ نعوذ باللہ وہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی حکم پر عمل نہیں کروانا چاہتے تھے۔ جتنے خلفاء پہلے گزرے ہیں میں نے سب کا بیان پڑھ دیا تاکہ آپ لوگوں میں سے جس کسی کے ذہن میں بھی یہ غلط فہمی یا خنّاس تھا تو وہ دور ہوجائے۔
دوسری بات یہ کہ بعض حالات میں کوئی خلیفہ کسی بات پر زیادہ زور دیتا ہے اور کوئی کسی بات پر۔ اس لئے یہ کہنا کہ پہلے خلیفہ نے اس بارہ میں یہ بات کی تھی، تم بھی اس بارے میں اسی طرح کرو یہ تو خلافت کو پابند کرنے والی بات ہے اور اس کی بے ادبی ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ نے بیعت صرف معاشرے کے دباؤ، ماں باپ کے دباؤ، خاوند کے دباؤ یا بچوں کے دباؤ کی وجہ سے کی ہے، د ل سے نہیں کی ۔ ا گر دل سے بیعت کی ہوتو تمام معروف فیصلوں پر عمل کرنے کا جو عہد آپ نے کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہو اور کبھی ایسی با ت نہ نکلے کہ یہ فیصلہ کیوں کیا اور یہ فیصلہ کیوں نہیں کیا؟میں پھر واضح کردوں کہ وہ چند ایک لوگ میرے زیادہ مخاطب ہیں جو ایسی باتیں کرتے ہیں، سارے نہیں کہ اگر حضرت مسیح مو عو د علیہ السلام کی جما عت سے منسلک رہنا ہے تو قرآنِ کریم اور حضرت محمد ﷺ کے واضح احکامات کی پابندی کرنی ہوگی۔ پھر جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا دوعملی نہیں چلے گی۔ یا خدا سے ڈریں یا بندے سے ڈریں۔
پس آج ہر احمدی عورت کی غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ بجائے لوگوں سے ڈرنے کے آج جبکہ اس معاشرے میں اسلام کے خلاف نفرتو ں کے بیج بوئے جا رہے ہیں، طوفانِ بدتمیزی پیدا کرنے کیلئے فضا ہموار کی جارہی ہے، اعلان کرکرکے ہر ایک کو بتائیں کہ تم چاہے جتنی مرضی پابندیاں لگالو ہمارے دلوں سے، ہمارے چہروں سے، ہمارے عملوں سے اس خوبصورت تعلیم کو نہیں چھین سکتے اور اگر تم لوگ مذہب سے دور جا رہے ہو، دور ہٹ رہے ہو، تباہی کے گڑھے میں گررہے ہو تو ہم تمہارے ساتھ اس جہنم میں گرنے کیلئے تیا ر نہیں ہیں۔ بلکہ ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسانیت کو اپنے برے کرتوتوں اور عملوں کے بھیانک انجام سے بچائے۔آ ؤ اور ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ اور ہمارے ساتھ شامل ہوکر اللہ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کروکہ اسی میں تمہارے دلوں کا سکون اور تمہا ری نسلوں کی بقا ہے۔ مجھے ا مید ہے کہ ہر باغیرت احمدی عورت جس کے دل میں کبھی ہلکا سا بھی اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے با رے میں کوئی شائبہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کو اپنے دل سے نوچ کر باہر پھینک دے گی اور حقیقی مسلمات، مومنات، قانتات، تائبات اور عابدات میں شامل ہوجائے گی۔ اللہ کرے کہ ا یسا ہی ہو۔ آ مین۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو خیریت سے اپنے اپنے شہروں میں لے کر جائے،گھروں میں لے کر جائے۔ اللہ حافظ و ناصر ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں