اداریہ:مالی جہاد … قربِ الٰہی کا وسیلہ
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے جنوری فروری 2025ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی معرکہ آراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں فرماتے ہیں کہ انسان کی پیدائش کا مقصد خداتعالیٰ کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا کے لیے ہو جانا ہے۔ اس مدّعا کے حصول کے لیے جو وسائل ہیں اُن میں سب سے بڑا وسیلہ سچے خدا کو پہچان کر اُس پر ایمان لانا ہے۔ دوسرا وسیلہ خداتعالیٰ کے حسن و جمال کا ادراک ہے جبکہ تیسرا وسیلہ خداتعالیٰ کے احسانات کا احساس ہے کیونکہ محبت کی محرّک دو ہی چیزیں ہیں: حسن یا احسان۔ مقصود حقیقی کو پانے کا چوتھا وسیلہ دعا ہے جبکہ پانچواں وسیلہ خداتعالیٰ نے مجاہدہ ٹھہرایا ہے یعنی اپنا مال اور اپنی طاقتیں اور اپنی جان اور اپنی عقل کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے ذریعہ سے۔ جیسا کہ فرمایا جَاھِدُوا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ (التوبۃ:41) اور وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:4)۔ چھٹا وسیلہ خدا کا قرب پانے کا استقامت ہے۔
یہ خداتعالیٰ کا عظیم احسان ہے کہ اُس نے ہمیں مسیح دوراں پر ایمان لانے کی سعادت عطا فرمائی اور اُن راہوں سے ہم آشنا ہوئے جن پر چلنے کے نتیجے میں خداتعالیٰ کا قرب پانے کے وسائل میسر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ وسائل ہر انسان کے لیے ہمہ وقت مہیا ہیں تاہم بعض وسائل کی اہمیت مخصوص اوقات میں دیگر وسائل پر فوقیت اختیار کرجاتی ہے۔ قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم اور آنحضورﷺ کے ارشادات میں بھی ہمیں اس کی ہزاروں روشن مثالیں ملتی ہیں کہ حسب حالات مختلف قربانیوں کے لیے تقاضا ہوا تو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اُس کے حسن و جمال کی لذّت سے آشنا جماعت نے لبّیک کہنے میں ہی سعادت جانی۔ خداتعالیٰ کی راہ میں مومنین کی ایسی قربانیوں کے بےشمار واقعات اسلامی تاریخ کے ہر دَور میں موجود رہے ہیں تاہم دورِ آخریں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ صحبت نے نیک روحوں میں خداتعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کی ایسی شمع جلائی کہ انہوں نے قرونِ اولیٰ کی عظیم تاریخ کو ایک بار پھرزندہ کردیا۔ قربانی کا یہ جذبہ آج بھی دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم میں غلامانِ احمدؑ کے جہدِ مسلسل کا عکاس ہے۔ اس حوالے سے صرف ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب سابق امیر و مبلغ انچارج برطانیہ اپنی سوانح حیات میں رقمطراز ہیں کہ 1964ء میں خاکسار نے مرکز میں یہ تجویز بھجوائی کہ اُس وقت جو دو مکانات 63-61 میلروز روڈ (Melrose Road) پرجماعت کی ملکیت میں تھے، اُن کو گراکر نیا، خوبصورت اور کشادہ مشن ہاؤس تعمیر کیا جائے۔ مرکز کا جواب آیا کہ اگررقم کاانتظام بطور قرضہ وہاں سے ہوسکتا ہو، جس کی بالاقساط ادائیگی بعد میں مرکز کرے گا، تو اجازت ہے۔ اور مرکز نے اس سلسلہ میں ایک ’’ تعمیر کمیٹی‘‘ بھی بنادی جس نے متعدد فنانس کمپنیوں سے رابطہ پیدا کیا۔ بالآخر ایک تعمیری ادارہ اس شرط پررقم دینے پرآمادہ ہوا کہ وہ ہمارے منظور شدہ نقشہ کے مطابق تعمیرمکمل کرکے دیں گے اور مرکزاگلے 25سال میں بالا قساط اُن کی رقم واپس کرے گا۔ نقشہ جات کی منظوری کا کام شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے نقشہ کی منظوری عطا فرمادی۔ لیکن جب معاہدے پر دستخط کرنے کا وقت آگیا اور سب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو اچانک بغیرکسی نوٹس کے تعمیراتی کمپنی نے رقم دینے سے انکارکردیا اور قریباً ایک سال کی تگ و دو کا نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
جس دن کمپنی مذکورہ نے مجھے انکار کا خط لکھا اس کے اگلے دن حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ ہالینڈ سے لندن تشریف لائے اور خاکسار کے مہمان ہوئے۔ رات کے کھانے پر باتوں باتوں میں تعمیراتی کمپنی کا رقم دینے سے انکار کا بھی ذکر آیا اور خاکسار نے نہایت افسردگی کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ مرکز کا اور تعمیری کمیٹی کاایک سال ضائع گیا اور جو امیدیں ہم نے ایک کشادہ، خوبصورت اور آرام دہ مشن ہاؤس کی تعمیر کی باندھی تھیں وہ سب ختم ہوگئیں۔ مکرم چودھری صاحبؓ خاموش رہے اور بات ختم ہوگئی۔
اگلے ہفتہ حضرت چودھری صاحبؓ پھر لندن تشریف لائے۔ رات کے کھانے پرانہوں نے فرمایا کہ اگر انہی شرائط پر مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیے مَیں رقم کاانتظام کردوں جن شرائط پر رقم تعمیراتی کمیٹی کو ادا کی جانی تھی توکیا مرکز کو منظور ہوگا؟ خاکسارنے خوشی کے ساتھ کہا کہ مرکز کو اَور کیا چاہیے۔ لیکن اگر آپ کی آفر پختہ ہے تو مَیں فوراً حضورؒ سے اجازت حاصل کرنے کے لیے لکھ دوں گا۔ مکرم چودھری صاحبؓ فرمانے لگے: بے شک لکھ دیں۔
مَیں نے حضورؒ کو اطلاع دی۔ حضورؒ نے بذریعہ تار منظوری عطا فرمادی اور یہ طے پایا کہ مکرم چودھری صاحبؓ مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیے رقم کا انتظام کریں گے اور مرکز تکمیل تعمیرکے بعد 25سال کے عرصہ میں مکرم چودھری صاحبؓ کا قرضہ واپس کرے گا۔ اس وقت تعمیر کااندازہ ایک لاکھ پاؤنڈ لگایا گیا۔
نقشہ جات حضورؒ کی خدمت میں پیش کیے گئے جو منظور ہوکر آگئے اور کام شروع ہوگیا۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو مشن ہاؤس میں مناسب فرنیچر، پردے، تزئین و آرائش کا مرحلہ پیش آیا۔ معاہدہ میں صرف تعمیر کی ذمہ داری چودھری صاحب کی تھی۔ لیکن جب تعمیر کی تکمیل ہوگئی تو میں نے حضرت چودھری صاحبؓ سے فرنیچر وغیرہ کے سلسلہ میں بھی مدد کی درخواست کردی۔ وہ فرمانے لگے کہ یہ تو معاہدہ میں شامل نہ تھا، لیکن ٹھیک ہے جہاں اتنا خرچ کیا ہے وہاں یہ بھی سہی۔
جب تعمیر و تزئین و آرائش کے جملہ مراحل بخیر و خوبی طے ہوگئے تو خاکسار نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے حکم کی تعمیل میں معاہدہ کا ڈرافٹ مکرم چودھری صاحبؓ کی خدمت میں پیش کردیا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ اس کا مطالعہ کریں گے اور اگلے ہفتہ دستخط کی باقاعدہ کارروائی ہوگی۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت مرکز کی طرف سے خاکسار کو دستخط کرنے کا اختیار عطا فرمایا تھا۔
اگلے ہفتہ حضرت چودھری صاحبؓ ہالینڈ سے تشریف لائے اور فرمایا کہ انہوں نے معاہدہ کا مطالعہ کرلیا ہے اور وہ اب اس پر دستخط کرنے کو تیار ہیں۔ خاکسار نے عرض کیا کہ کل مجلس عاملہ کی میٹنگ بلا لیتے ہیں، ان کے سامنے دستخط ہوجائیں گے۔ اگلے دن صبح سویرے حضرت چودھری صاحبؓ نے فرمایا کہ میں رات بھر اس بات پر غور کرتارہا اور کسی قدر بے چینی کا شکار رہا اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے گفتگو کرتا رہا کہ ظفراللہ خان! یہ جو کچھ بھی تجھے ملا ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دیتے وقت کوئی شرائط عائد نہیں کیں تو پھر تم خدا کو کچھ حصہ اس دولت کا واپس کرتے وقت شرائط لگانے میں کس حد تک حق بجانب ہو؟ خدا تعالیٰ کا شکر تم اسی طرح ادا کرسکتے ہو کہ برضا و رغبت اور بشاشت یہ ساری رقم جو تم نے خرچ کی ہے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کردو۔
پھر فرمایا :’’معاہدہ مَیں نے پھاڑ دیا ہے۔ مشن ہاؤس جماعت کو مبارک ہو۔ صرف ایک شرط ہے کہ میری زندگی میں اس بات کو مشتہر نہ کیا جائے کہ مشن ہاؤس کی تعمیر کے لیے جملہ رقم میں نے فراہم کی تھی۔ یہ رقم میری طرف سے تحفہ ہے۔‘‘
برادرانِ کرام! آج بھی سیّدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت سے جماعتِ مومنین کے لیے قربانیوں کی ایسی کئی کشادہ راہیں موجود ہیں جن پر اہل ایمان ذوق و شوق سے رواں دواں ہیں۔ صرف مالی قربانیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو دنیابھر میں مساجد کی تعمیر، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت، مخلوق خدا کی خدمت کے لیے طبّی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی، صاف پانی کی فراہمی، ہنگامی آفات کا شکار مخلوقِ خدا کے لیے ہر قسم کی امدادی سرگرمیاں نیز غرباء، مساکین اور یتامیٰ کے لیے خوراک اور کفالت کے انتظامات کا ایک بھرپور سلسلہ جاری ہے۔
عالمی سطح پر مذکورہ بالا مساعی کے علاوہ بھی ہر خطّے کے مخصوص حالات کے مطابق قربانی کی مثالیں رقم کی جارہی ہیں۔ مثلاً ہم برطانیہ کے انصار کے لیے مسجد بیت الرحمٰن کارڈف (یوکے) کی تعمیر کے علاوہ افریقہ کے ملک بورکینافاسو میں آئی انسٹیٹیوٹ اور جنرل ہسپتال کی تعمیر کے حوالے سے مالی قربانی کے اَن گنت مواقع میسر ہیں جن سے استفادہ کرکے ہم اپنے مقصد حیات کی طرف جانے والی راہیں استوار کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اُس کا قرب حاصل کرنے والے بن سکیں۔ آمین
بہت شکریہ تمام انفارمیشن دینے کا اللہ تعالی سب کو مال قربانی کی توفیق عطا فرمائے اپنے اپنے وسائل کے مطابق امین