جامعہ نصرت ربوہ برائے خواتین

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 2؍ ستمبر 2022ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍اکتوبر2013ء میں مکرمہ بشریٰ بشیر صاحبہ کے قلم سے جامعہ نصرت برائے خواتین (ربوہ)کی ابتدائی تاریخ بیان کی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 14؍جون 1951ء کو جامعہ نصرت ربوہ کا افتتاح فرماتے ہوئے اس کی عمارت کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ اس موقع پر حضورؓ نے مسلمانوں کے علمی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسلام کے عظیم الشان تاریخی واقعات کا تفصیلاً ذکر فرمایا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کالج میں دینیات کی تعلیم لازمی کردی جائے تاکہ دنیاوی مضامین کے ساتھ ساتھ وہ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی معلومات حاصل کرسکیں اور دین کے بارے میں اُن کی نظر اتنی وسیع ہوجائے کہ ہماری لڑکیاں پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی نہ صرف برابری کرسکیں بلکہ ان کی دین پر نظر وسیع ہونے کی وجہ سے دماغی اور قلبی کیفیت اور ذہانت دوسروں کی نسبت بہت بلند و بالا ہو اور جب ہماری لڑکیاں اُن کے پاس بیٹھیں تو وہ یہ محسوس کریں کہ ان کا علم اَور ہے اور ہمارا اَور، یعنی ان کا علم آسمانی ہے اور ہمارا زمینی۔ بعدازاں حضورؓ نے دعا کروائی۔
حضورؓ نے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ کو کالج کا نگران مقرر فرمایا اور مکرمہ فرخندہ اختر شاہ صاحبہ (اہلیہ مکرم سیّد محموداللہ شاہ صاحب)کو پرنسپل مقرر فرمایا۔ اساتذہ میں مذکورہ دونوں خواتین کے علاوہ درج ذیل شامل تھے: محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری، پروفیسر علی احمد صاحب، چودھری علی محمد صاحب اور استانی سردار بیگم صاحبہ۔
شروع میں سولہ طالبات نے جامعہ نصرت میں داخلہ لیا جن کے لیے کوئی عمارت موجود نہ تھی لہٰذا تدریس کا انتظام حضرت مصلح موعودؓ کی کوٹھی میں کیا گیا۔ دوسرے سال 1952ء میں یہ کالج لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفتر میں منتقل ہوا اور 1953ء میں موجودہ عمارت کے پہلے چار کمرے تیار ہونے پر اس میں منتقل کردیا گیا۔ اس کی وسیع عمارت اور بارہ دری 1961ء میں مکمل ہوئی۔
8؍مارچ 1971ء کو سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنے دست مبارک سے سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھا اور اسی سال F.Sc کی کلاسیں شروع ہوگئیں۔ 1973ء میں جامعہ نصرت میں ساڑھے تین صد طالبات زیرتعلیم تھیں اور اساتذہ کی تعداد بتیس تھی۔ طالبات نہ صرف بورڈ اور یونیورسٹی کے امتحانات میں اوّل آتی رہیں بلکہ بعض مضامین میں طلائی تمغے بھی حاصل کیے۔ مسز ڈاکٹر علی محمد صاحب (پرنسپل لاہور کالج برائے خواتین) کو جب حکومت کی طرف جامعہ نصرت کے معائنہ کے لیے بھجوایا گیا تو انہوں نے اپنے تأثرات کا اظہار یوں کیا: ’’ربوہ اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے لحاظ سے تمام پنجاب میں سبقت لے گیا ہے۔ یہاں عجب سماں ہے۔ پڑھنے اور پڑھانے والیاں ایک ہی مقصد کے ماتحت رواں دواں ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی توجہ کسی اَور طرف نہیں۔ اس بےلوث جذبے کو دیکھ کر بےاختیار کہنے پر مجبور ہوں کہ صحیح اسلامی تعلیم کی فضا ربوہ ہی میں پائی جاتی ہے۔‘‘
مجھے پڑھائی کا ایسا شوق تھا کہ شادی کے بعد مَیں نے ایف اے کرلیا۔ پھر 1956ء میں مَیں نے اور میرے میاں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے لاہور میں ہی ایم ایس سی کی کلاسز میں داخلہ لے لیا جبکہ مَیں اپنے دو بیٹوں کو لے کر ربوہ آگئی اور اپنے میاں کے بھائی اور بھابھی کے گھر میں مقیم ہوئی۔ پھر جامعہ نصرت میں سال سوم میں داخلہ لیا۔ اور دو سال میں بی اے پاس کرکے مَیں لاہور آگئی جہاں مکرمہ مسز شاہ صاحبہ کے مشورے پر ایم اے (اسلامیات) میں داخلہ لے لیا۔ جب ایم اے کرلیا تو مجھے حضرت اُمّ متین صاحبہ اور مسز شاہ صاحبہ کا پیغام ملا کہ جامعہ نصرت میں اسلامیات کی لیکچرر کی ضرورت ہے۔ اگرچہ ہم میاں بیوی کے لیے یہ فیصلہ مشکل تھا لیکن ان دو قابل احترام ہستیوں کی پیشکش کا انکار کرنا بھی بےحد مشکل تھا۔ لہٰذا مارچ 1961ء میں مَیں اپنے چار بچوں کے ساتھ ربوہ آگئی۔ یہاں آنا میرے بچوں کے لیے بھی ایک بہتر مستقبل کا ضامن بن گیا اور مجھے بھی جامعہ نصرت میں سترہ سال تک ملازمت کا بہترین موقع ملا۔
1972ء میں تمام پنجاب کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لیے گئے جس کے نتیجے میں جامعہ نصرت میں متعیّن احمدی اساتذہ کو بیرون از ربوہ بھجوایا جانے لگا اور غیرازجماعت سٹاف دیگر شہروں سے جامعہ نصرت میں بھجوایا جانے لگا۔ اسی اثنا میں مکرمہ مسز شاہ صاحب کی ریٹائرمنٹ ہوئی تو خاکسار کو قائمقام پرنسپل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ 1977ء میں خاکسار نے ایک سال کی رخصت لے لی اور چارج مکرمہ مس اریبہ خانم صاحبہ کے سپرد کردیا۔ بعدازاں غیرازجماعت خواتین بطور پرنسپل جامعہ نصرت ربوہ میں متعین ہوتی رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں