جسے خالق نے بھی امین کہا اور مخلوق نے بھی

عبدالسمیع خان

سابق ایڈیٹر الفضل ربوہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن سیرۃالنبیﷺ نمبر 6؍اکتوبر 2022ء)

امانت کی اساس امن پر ہے۔ اس کے بنیادی معنیٰ اطمینان اور بے خوفی کے ہیں اس لیے امانت ایسی چیز کو کہتے ہیں جو کسی پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہوئے دی جائے۔ امین ایسا وجودہوتا ہے جس سے دوسرے بے خوف ہوجائیں۔ اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر وہ دوسروں سے بےخوف ہوجاتا ہے یعنی وہ ایسے اخلاق حاصل کرلیتا ہے کہ دوسروں سے امن میں آجاتا ہے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26و 27؍اپریل 2013ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا ایک طویل مضمون شامل اشاعت ہے جس میں رسول اللہﷺ کے خلق امانت اور دیانت پر جامع نظرڈالی گئی ہے۔

مسز اینی بیسنٹ صدر تھیوسوفیکل سوسائٹی ہندوستان نے آنحضرت ﷺ کو یوں خراج عقیدت پیش کیا: ’’لوگ انہیں الامین کے نام سے یاد کرتے ہیں اور یہ وہ نام ہے جو پڑوسیوں نے انہیں دیا ہے اور حقیقت میں وہ امین ہی کہلانے کے مستحق بھی ہیں اور یہ سب سے زیادہ شریفانہ نام ہے جو کسی شخص کو دیا جاسکتا ہے … دشمن تک آپ کو امین کہتے تھے۔‘‘ (برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول حصہ دوم صفحہ54,20)
امانت کے مضمون میں استقلال اور نہ تھکنے کامفہوم بھی شامل ہے۔ پس امین وہ ہے جو اپنی منزل تک،خوف سے بےخوفی کی طرف مسلسل اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور جس قدر منازل طے کرتا رہتا ہے اسی حد تک وہ خدا کی نظر میں امین کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے انبیاء علیہم السلام دنیا کے لیے نمونہ کے طور پر امین بنائے گئے اور انہی کے ذریعہ دنیا میں امانت کی تعلیم جاری کی گئی وہ کامل امن کا پیغام دنیا میں لے کر آئے۔ ان کی ذات سے دنیا کو کوئی خوف نہ تھا۔ اسی لیے قرآن کریم نے امین کا لفظ اللہ کے رسولوں کی صفت میںاستعمال کیا ہے۔ یعنی یا تو دوسرے لوگوں نے انہیں امین قرار دیا جیسے حضرت یوسفؑ کو عزیز مصر نے کہا کہ تُو آج سے ہمارے ہاں معزز مرتبہ والا اور امین آدمی قرار پایا ہے (یوسف:55) یا ان انبیاء نے اپنی قوموں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے امین ہونے کا اعلان کیا جیسے حضرت نوحؑ نے فرمایا: مَیں تمہارا ایک امانتدار پیغمبر ہو کر آیا ہوں۔ (الشعراء:108) یہی جملہ بعینہٖ حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ، حضرت لوطؑ، حضرت شعیبؑ اور حضرت موسیٰؑ کی زبان سے قرآن کریم نے نقل کیا ہے۔ (بالترتیب۔ الشعراء :125، 143، 162، 178 اور الدخان: 19)
اگرچہ خداتعالیٰ کے سارے انبیاء ہی امانت کے پیکر تھے لیکن یہ خلق ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے وجود میں اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے خود آپؐ کو امین کا لقب عطا فرمایا۔ (التکویر:22)
آپؐ کی امانت کا کمال یہ بھی ہے کہ آپؐ سے تعلق رکھنے والے وجود بھی امانت کی تصویر بن گئے۔ جو فرشتہ آپؐ پر پیغام خداوند لے کر اترا اسے ’’الروح الامین‘‘ قرار دیا گیا۔ (الشعراء: 164)۔ جومقام آپؐ کامولد اور مرکز تھا اسے خداتعالیٰ نے ’’البلد الامین‘‘ کا خطاب عطا فرمایا جو آمن بھی ہے اورمامون بھی۔ یعنی وہ شہرجو دنیا کو امن دیتا ہے اور وہ شہر بھی جس کو خدا نے امن عطا فرما دیا ہے۔
امانت کے خلق کو آنحضرت ﷺ نے جو عظمت عطا کی اس کا سب سے عظیم الشان ثبوت یہ ہے کہ آپؐ نے امانت کو زندگی کے ہرشعبہ پرحاوی کر دیا بلکہ مذہب کا دوسرا نام امانت رکھ دیا۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: ہم نے کامل امانت یعنی شریعت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تھا لیکن اس کے اٹھانے سے انہوں نے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے۔لیکن انسان کامل آگے آیا یعنی محمدمصطفیٰ ﷺ اور اس نے اس امانت کا بوجھ اٹھا لیا وہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والا اور عواقب سے بے پرواہ تھا۔ (الاحزاب:73)
اس آیت میں رسول اللہ کی ان اعلیٰ صفات کا تذکرہ بھی کر دیا گیا ہے جو ایک کامل امین کے اندر ہونی چاہئیں اور رسول اللہﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ظلوم: اپنے نفس کی ہر تمنا کو خدا کی خاطر کچلنے والا ہے۔ گویا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہا ہے۔اور جہول: بیرونی خطرات کے لحاظ سے وہ جہول ہے یعنی امانت کے بوجھ کے نتیجہ میں جو بکثرت ظلم ہونے والے ہیں ان سے غافل ہے۔ چنانچہ آغاز وحی پر جب آپؐ سے کہا گیا کہ آپؐ کی قوم آپؐ کو وطن سے نکال دے گی تو بڑی معصومیت سے آپؐ نے پوچھا : مجھے کیوں نکال دے گی؟ (بخاری باب بدء الوحی) مطلب یہ تھا کہ مَیں تو قوم کے اخلاق کا علمبردار ہوں۔ مَیں تو اعلیٰ اخلاق کو زندہ کرنے والا ہوں تو مجھے کس وجہ سے نکال دے گی۔ نیز جہول اُس بہادر کو بھی کہتے ہیں جو موت کے خطرات سے خوب واقف ہو اور اس کے باوجود اس میں چھلانگ لگا دے اور اس بات سے مستغنی ہوکہ اس پرکیا گزرے گی۔ رسول اللہ ﷺ پر جہول کے دونوں معنے صادق آتے ہیں۔ چنانچہ جب خطرات کا علم ہوگیا تو بھی بڑی جرأت اور مردانگی سے ان سب مظالم کو برداشت کیا۔ رسولؐ اللہ نے شریعت کی اشاعت اور ابلاغ کے لیے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں جو دکھ اٹھائے وہ جتنی دردناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان ہے اتنی ہی بلند قامت اور عظمتوں سے معمور ہے۔ راہ مولیٰ میں آپؐ نے سارے انبیاء سے بڑھ کر دکھ اٹھائے۔ خود فرماتے ہیں: خدا کی راہ میں کسی شخص کو اتنے مصائب اور اذیتوں سے واسطہ نہیں پڑا جتنا مجھے پڑا ہے۔ (کنزالعمال۔ جلد3 حدیث نمبر5818)
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہر دوسرے نبی سے بڑھ کر پوری شان اور جامعیت کے ساتھ الٰہی پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا اور حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ صحابہؓ نے اس کی گواہی دی۔ جب رسولؐ اللہ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ کیا میں نے پیغام خداوندی پوری طرح پہنچا دیا ہے؟ تو سب بول اٹھے ہاں یا رسولؐ اللہ۔ اس پر آپؐ نے عرض کیا: اے خدا !تُو بھی گواہ رہنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا آج یہاں پر حاضر ہونے والے یہ پیغام غیرحاضروں تک پہنچا دیں۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی) اس طرح آپؐ نے شریعت حقہ کے ابلاغ کا فریضہ ہر آنے والی نسل کے سپرد فرمادیا۔
حضرت عائشہؓ نے بڑے ہی لطیف انداز میں امانت کے اعلیٰ مفہوم کے اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے امین ہونے پر گواہی دی۔ چنانچہ جب بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ آپؐ نے نعوذ باللہ حضرت علیؓ کے بارہ میں کسی حکم الٰہی کو چھپا لیا ہے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی شخص یہ کہے کہ رسولؐ اللہ نے خدا کی طرف سے آنے والی کسی بات کو چھپا لیا (اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی امانت کو ادا کرنے میں نعوذ باللہ غفلت کی) تو سمجھ لو کہ وہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ وہ جانتا ہی نہیں کہ آپؐ امانت کے کس مقام پر فائز تھے۔ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں آپؐ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمارا پیغام اچھی طرح لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر اس بارے میں ذرہ بھر بھی کوتاہی کی تو یہی سمجھا جائے گا کہ تُو نے ہمارا پیغام لوگوں تک پہنچایا ہی نہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر آیت مائدہ:70)
مہاتما گاندھی لکھتے ہیں:کسی روحانی پیشوا نے خدا کی بادشاہت کا پیغام ایسا جامع اورمانع نہیں سنایا جیسا کہ پیغمبر اسلام نے۔ (ماہنامہ ایمان پٹی ضلع لاہور اگست 1936ء۔ وعرض الانوار صفحہ221)
انگلستان کے ڈاکٹر ڈی رائٹ کہتے ہیں: تاریخ میں کسی ایسے شخص کی مثال موجود نہیں جس نے احکام خداوندی کو اس مستحسن طریقہ سے سرانجام دیا ہو۔ (ماہنامہ اسلامک ریویو اینڈ مسلم انڈیا فروری 1920ء)
رسول اللہ ﷺ کے حامل شریعت ہونے کا مفہوم اس شریعت کو عمل میں ڈھال کر دکھانا اور اسوۂ حسنہ قائم کرنا بھی تھا اوراس کو آپؐ نے اس طرح ادا کیا کہ آپؐ مجسم قرآن بن گئے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں آپؐ کے اخلاق تو عین قرآن تھے۔ (مسند احمد جلد6 صفحہ163,91)
قرآن کریم محض چند قواعد اور ضوابط کا مجموعہ نہیں بلکہ نظریہ حیات اور طرز زندگی ہے۔ آیت قرآنی وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانَاتِھِمْ … (المومنون:9) میں امانتوں سے مراد وہ قویٰ ہیں جو انسان کو عطا کیے گئے ہیں۔ سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’انسان کا نفس اور اس کے تمام قویٰ اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں پیروں کی قوت یہ سب خداتعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اس نے دی ہیں اور جس وقت وہ چاہے اپنی امانتوں کو واپس لے سکتا ہے۔ پس ان تمام امانتوں کا رعایت رکھنا یہ ہے کہ باریک در باریک تقویٰ کی پابندی سے خداتعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اس کے تمام قویٰ اورجسم اور اس کے تمام قویٰ اور جوارح کو لگایا جائے اس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اس کی نہیں بلکہ خدا کی ہوجائیں اور اس کی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قویٰ اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ ان میں کام کرے اور خداتعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا مُردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21 صفحہ240)
اس لحاظ سے بھی آنحضورﷺ کامل امین تھے جنہوں نے اپنی تمام طاقتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ودیعت فرمائی تھیں بلااستثناء خدا کی تابع مرضی کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کوکہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اورمیری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالموں کا رب ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اول المسلمین ہوں یعنی دنیا کی ابتداء سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو، جو خداتعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو۔ (الانعام: 164,163) (ترجمہ از آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ162)
اس آیت کی ہی تشریح میں حضرت مسیح موعود ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ’’یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرتﷺ اس قدر خداتعالیٰ میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپؐ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپؐ کی موت محض خدا کے لیے ہو گئی تھی اور آپؐ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا اور آپؐ کی روح خداتعالیٰ کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی۔‘‘ (ریویو آف ریلیجنز حصہ نمبر1 نمبر5 ص182)
حقوق اللہ کے بعد حضرت رسول کریم ﷺ نے حقوق العباد کو بھی مکمل امانت اور دیانت کے اعلیٰ ترین معیار کے ساتھ ادا کیا یہاں تک کہ زمین پر آپؐ کے متعلق وہی گواہی دہرائی گئی جس کی ندا آسمان سے آئی تھی۔
فی الحقیقت یہ ایک بے نظیر بات ہے کہ آپؐ اپنی قوم میں ابتداء ہی سے صادق اور امین کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ عربوں کی کئی ہزار سالہ تاریخ میں جو حضرت اسماعیلؑ کی مکہ میں آمد سے شروع ہوتی ہے، آپؐ یہ لقب پانے والے واحد فرد ہیں جس کو قوم نے متفقہ طور پر اس کا حقدار جانا۔
آپؐ کے چچا حضرت ابوطالب کی رسولؐ اللہ کے حالات سے گہری واقفیت تھی۔ رسولؐ اللہ نے اپنا بچپن ان کے گھر گزارا تھا۔ آپؐ کی ساری بے داغ جوانی ان کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ جب کفار عرب نے مل کر حضرت ابوطالب کومجبور کیا کہ وہ آنحضرت ﷺ کو توحید کی اشاعت سے روک دیں۔ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوطالب کو بڑا متوکلّانہ اورجرأت مندانہ جواب دیا جس سے متاثر ہوکر ابوطالب نے بے اختیار یہ شعر پڑھے۔ ؎
ترجمہ: اللہ کی قسم جب تک میں مر نہ جاؤں یہ لوگ تیرے قریب نہ پھٹک سکیں گے۔ تو نے مجھے اس دین کی طرف بلایا اور میںجانتا ہوں کہ تو میرا ہمدرد ہے اور تو سچا ہے اور امین بھی ہے۔ (سیرت ابن اسحق باب 20)
حضرت ابوطالب کے وہ فقرات جو انہوں نے موت کے وقت طویل خطبہ کے بعدکہے وہ بھی رسولؐ اللہ کی سیرت پر زبردست گواہ ہیں۔ انہوں نے کہا: اے گروہ قریش! میں تم کو محمدؐ سے اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ قریش میں امین ہے اور عرب میں صدیق ہے اور ایسا امر لایا جس کو دل نے تو تسلیم کرلیا مگر زبان نے بدنامی کے ڈر سے اس کا انکار کیا۔ (شرح المواہب زرقانی جلد اول صفحہ295)
مکہ ہی کی ایک نیک سیرت خاتون کا لقب طاہرہ تھا۔ یعنی حضرت خدیجہؓ۔اُن کو رسول اللہ ﷺ کی صفت امانت نے اس قدر مغلوب کرلیا کہ انہوں نے اپنا آپ اپنی تمام جائیداد سمیت رسولؐ اللہ کے حوالے کردی۔ جب آنحضور ﷺ کی عمر 25 سال کی تھی کہ خدیجہ بنت خویلد نے جو قبیلہ اسد کی ایک نہایت شریف اور مالدار خاتون تھیں اور مکہ کی تجارت میں ان کا بڑا حصہ تھا۔ آنحضوؐر کو تجارتی مال دے کر شام کی طرف بھیجا اور اپنے غلام میسرہ کو بھی آپؐ کے ساتھ کر دیا۔ اس سفر میں آپؐ کی دیانتداری کے طفیل خلاف معمول نفع ہوا۔ اسی طرح آنحضورؐ نے دو تین تجارتی سفر دوسرے علاقوں کی طرف کیے۔ حضرت خدیجہؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے والے غلاموں کو بلا کر ان سے آنحضورؐ کے حالات دریافت کیے تو ہر ایک نے آپؐ کی تعریف کی اور ہر غلام نے کہاکہ ہم نے اس جیسا دیانتدار اور بااخلاق انسان اَور کوئی نہیں دیکھا۔ وہ جانتی تھیں کہ تجارتی قافلوں کے ساتھ جن لوگوں کو بھیجا جاتا ہے وہ خود بہت سا مال کھا جاتے ہیں مگر ان غلاموں نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف خود کوئی مال نہیںکھایا بلکہ ہمیں بھی ناجائز تصرّ ف نہیں کرنے دیا۔ جو رقم ان کے لیے مقرر تھی صرف وہی لیتے تھے اور اسی رقم میں سے کھانا بھی کھاتے تھے۔ حضرت خدیجہؓ ایک بیوہ مگر بہت دولتمند خاتون تھیں اس لیے مکہ کے کئی لوگوں نے ان کو نکاح کا پیغام بھیجا مگر انہوں نے سب کا انکار کر دیا لیکن رسول اللہ ﷺ کی امانت و دیانت کا شہرہ سن کر وہ اس قدر متاثرہوئیں کہ انہوں نے خود رسول کریم ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیجا۔ بظاہر انہوں نے اپنے آپ کو ایک یتیم اور بیکس اور غریب کے حوالے کر دیا تھا اور گھاٹے کا سودا تھا مگر درحقیقت انہوں نے اس کائنات کی عزیز ترین اور قیمتی ترین متاع حاصل کرلی تھی۔ خدا نے انہیں محمدؐ کا محبوب بنا دیا جس کو رسول اللہ ﷺ آخری سانسوں تک یاد کرتے رہے اور اسی سودے کا ثمر تھا کہ جب خدا نے حضرت محمد ﷺ کو شریعت کی امانت اٹھانے کے لیے چنا تو اس وقت حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کی پاک زندگی پر نظر کرکے برملا ایک دفعہ پھر اس کا اعلان کیا اور رسول اللہ ﷺ کے غلاموں میں شامل ہونے کے لیے تمام دنیا کی خواتین پر سبقت لے گئیں۔ (تاریخ طبری جلد2 ص47)
حضرت خدیجہؓ کو حضرت رسول کریم ﷺ کے جس خلق نے فتح کیا وہ امانت و دیانت کا خلق تھا جس کے مقدر میں فتح اور صرف فتح لکھی گئی ہے۔ ایک سکھ لیڈر سردار جو نہ سنگھ سعداللہ پور لکھتے ہیں عین عالم شباب میں لوگ بلکہ مکہ معظمہ کے کفار جو آپؐ کے جانی دشمن تھے اپنی امانتیں حضورؐ کے پاس رکھتے تھے اور آنحضرتؐ امین کے نام سے مشہور تھے۔ چنانچہ اسی وصف اور محنت اور نیک چال چلن کا نتیجہ تھا کہ حضرت خدیجہؓ خود درخواست کرتی ہے کہ آپؐ مجھے اپنے نکاح میں لے لیں۔ (دنیا کا ہادیٔ اعظم غیروں کی نظرمیں ص3)
اس خلق کے مفتوح ایک یا دو فرد نہیں تھے ہر وہ شخص تھا جس کو کبھی آپؐ سے واسطہ پڑا تھا۔ عرب میں ایک سائب نام تاجر تھے جن کا کسی وقت تجارتی لین دین میں حضرت رسول کریم ﷺ سے معاملہ رہ چکا تھا۔ وہ مسلمان ہو کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوگئے۔لوگوں نے مدحیہ الفاظ میں سائب کا تعارف کرانا چاہا تو آپؐ نے فرمایا: میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ اس پر سائب نے کہا یا رسول اللہ آپؐ نے بالکل سچ کہا۔ میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ آپؐ میرے شریک کار رہے تھے اور معاملہ ہمیشہ صاف رکھا۔ آپؐ نے نہ کبھی وعدہ خلافی کی اور نہ کبھی کوئی جھگڑا کیا۔ (سنن ابوداؤد کتاب الادب)
سردار گوردت سنگھ دارا بیرسٹرایٹ لاء کہتے ہیں: جس جگ میں محبت کا معیار زر اور پریت کی پرکھ پیسہ ہو وہاں مال و متاع کے خریداروں کی دلداری بھلا بجز ریاکاری کیا ہوتی ایسے زمانے میں زر کا اس قدر زور ہو اور محبت کا عالمگیر قحط تو مکر و فریب سے بھاگنا اور راستی پر چلنا، جھوٹ سے کنارہ کرنا اور صادق اور امین کہلانا یہ کس کام کا ہے … آؤ لوگو دیکھو یہ طلسم حق ہے۔ اے آنکھ والو دیکھو۔ تربیت کے سلسلہ کو برہم نہ کرو اور ترنکار کے نور کو اجسام خاک میں نہ ملاؤ۔ آؤ اس امین کو دیکھو۔ یہ امن روپ ہے۔ یہ سندر روپ ہے۔ اے کانوں والو اس صادق کو سنو یہ کان قرآن ہے یہ صداقت کا پیغام ہے۔ (محمدؐ کی سرکار صفحہ 19,18 بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول حصہ دوم صفحہ59)
رسول اللہ ﷺ کی عین جوانی میں کعبہ کی تعمیر نَو کا واقعہ پیش آیا۔ جب قریش کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حجر اسود کی جگہ پرپہنچے تو حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھنے کی عزت حاصل کرنے کے لیے سخت جھگڑا شروع ہو گیا اور لڑنے مرنے کی قسمیں کھائی جانے لگیں۔ آخر ابوامیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص سب سے پہلے حرم کے اندر آتا دکھائی دے اس کو حکم بنایا جائے۔ اللہ کی قدرت لوگوں کی آنکھیں جو اٹھیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ محمد ﷺ تشریف لا رہے ہیں۔ آپؐ کو دیکھ کر سب پکار اٹھے امین آگیا امین آگیا۔ ہم سب اس کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد اول ص214)
یہ رضامندی صرف حجر اسود کے متعلق نہ تھی بلکہ ایک عام اصول کے طورپر تھی اور مکہ میں یہ عام دستور تھا کہ جس شخص کے پاس کوئی عجیب اور بیش قیمت چیز ہوتی جسے وہ اپنے پاس نہ رکھ سکتا اسے آنحضوؐر کے پاس بطور امانت رکھ دیتا۔ قوم کے ہر شخص کی زبان پر الامین المامون کے سوا آپؐ کی نسبت اور کوئی لفظ ہی نہ آتا تھا۔ شدید دشمنی کے باوجود آپؐ کی ہجرت مدینہ تک کفار کا آپؐ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے چلے جانا اسی بات کا اعتراف تھا۔ بلکہ جب شدید اذیت اور دکھ کے ساتھ آنحضوؐر مکہ سے ہجرت فرما رہے تھے اس وقت بھی آپؐ کو لوگوں کی امانتوں کی واپسی کا خیال تھا اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو اس بات پر مامور کیا کہ وہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر مدینہ آئیں۔
ہندو لیڈر رگھوناتھ سہائے ہیڈ ماسٹر کہتے ہیں: سارے قبیلہ کے لوگ اور تاجر اُن کو نہایت راستباز، دیانتدار اور دیندار نوجوان سمجھتے تھے بہت سے لوگ اپنے آپس کے جھگڑوں کا ان سے فیصلہ کرایا کرتے تھے۔ زمانہ پیغمبری سے پہلے بھی لوگ ان کونہایت سچا اور ایماندار خیال کرتے تھے اور بہت سے لوگ اپنے ذاتی جھگڑوں میں ان کو منصف مقرر کر دیتے تھے اور ان کے فیصلہ کو بسر و چشم منظورکرلیتے تھے۔ لوگ ہزاروں روپیہ بطور امانت کے ان کے پاس رکھ جاتے تھے۔ (پیغمبر اسلام صفحہ 103,19)
روسی مفکر کاؤنٹ ٹالسٹائے کہتے ہیں: حضرت محمدؐ نہایت ہی متواضع، خلیق، روشن فکر اور صاحب بصیرت تھے۔ لوگوں سے عمدہ معاملہ رکھتے تھے۔ اہل عرب آپؐ کی ایمانداری اور پاکبازی کے قائل تھے اور آپؐ کو الامین کہتے تھے۔ (برین آن اسلام بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ67)
یہی وہ پاک اور پُرامن زندگی تھی جس کو نبی اکرم ﷺ نے اپنے دعویٰ نبوت کے ثبوت کے طور پر پیش فرمایا اور خدا کے حکم سے یہ اعلان کیا کہ میں اس دعویٰ نبوت سے پہلے ایک عرصہ تم میں گزار چکا ہوں اس عرصہ میں میری زندگی صداقت کا ایک اعلیٰ نمونہ رہی ہے پھر اب یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میں خداتعالیٰ پرجھوٹ باندھنا شروع کردوں۔ (یونس:17)
یہی دلیل حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں قریش کے وفد کی موجودگی میں پیش کی اور اسلام سے قبل اپنی قوم کی حالت بیان کرکے بتایا کہ خدا نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ ہمیں ان بدیوں سے نجات دی۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف اپنا ایک رسول بھیجا جس کی نجابت اور صدق اور امانت کو ہم سب جانتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ290)
ایچ جی ویلز لکھتے ہیں: یہ محمدؐ کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ ان پر ایمان لائے حالانکہ وہ ان سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میںذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو ان پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔ (رسالہ نقوش رسول نمبر جلد11 صفحہ 550)
مسز اینی بیسنٹ صدرتھیوسوفیکل سوسائٹی لکھتی ہیں: پیغمبر اعظم کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عزت اور بزرگی قائم کی ہے وہ ان کی صفت ہے جس نے ان کو ان کے ہم وطنوں سے الامین کا خطاب دلوایا۔ کوئی صفت اس سے افضل نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے اشتراکاً لائق اتباع نہیں۔ ایک ذات جو مجسم سچائی ہے اس کے اشرف ہونے میںکیا شک ہے۔ ایسا ہی شخص مستحق ہوتا ہے کہ پیغام حق کا حامل بنے۔ (نظام المشائخ صفحہ 9 بحوالہ برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ 29)
آپؐ کے دشمن بھی باوجود دشمنی کے آپؐ کی ذاتی وجاہت اور قدوسیت کے قائل تھے۔ ان لوگوں میں نضر بن الحارث کی گواہی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ان نو دشمنوں میں سے ہے جنہوں نے آنحضورؐ کے قتل کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ ایک دفعہ کفار آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ مکہ میں جو لوگ حج یا دوسرے مواقع پر آتے ہیں ان میں سے آنحضرت ﷺ کو یہ کہہ کر بدنام کیا جائے کہ نعوذ باللہ رسول اکرمؐ لوگوں کو جھوٹی باتیں کہہ کر فریب دیتے ہیں۔ اس پر نضر بن حارث اٹھا اور اس نے قریش کو مخاطب کرکے کہا: محمد تم میں پل بڑھ کرجوان ہوا تم اس کو بچپن سے جانتے ہو اور تم جانتے ہو کہ وہ تمہیں تم سب میں سے زیادہ محبوب تھا اور وہ تم سب میں سے زیادہ راست گو اور تم سب سے بڑھ کر حق امانت اداکرنے والا تھا اور آج جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے اور اس کی کنپٹیوں پر سفید بال آنے لگے ہیں تم کہنے لگے ہوکہ وہ فریبی ہے اور ان اخلاق سے عاری ہے۔ خدا کی قسم ایسا انہیں ہے اور اگر تم ایسا کرو گے تو خود اپنے آپ کو جھٹلاؤ گے کیونکہ جو شخص بھی محمدؐ کو جانتاہے وہ تمہاری اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ (شفا عیاض باب صدقہ)
کعب بن زہیر آپؐ کاسخت دشمن تھا اور ہمیشہ آپؐ کے خلاف اشعار کہہ کر قوم کو آپؐ سے منحرف کرتا۔ جب اس نے سنا کہ اس کا حقیقی بھائی بحیر مسلمان ہوکر خادمان مصطفیؐ میں شامل ہو گیا ہے تو اس کو سخت ناگوار گزرا۔ آخر اس نے بھائی کو کچھ اشعار لکھ بھیجے جن میں اس نے بھائی کو مسلمان ہونے کا طعنہ دیا مگر آنحضورﷺ کی امانت کا بھرپور اعتراف بھی کیا۔ اس کے ایک شعر کا ترجمہ یوں ہے: تجھے مامون نے اسلام کا سیراب پیالہ پلایا پھر مامون اس سے خود ہلاک ہوا اور تجھ کو مکرّر وہی پیالہ پلایا۔ (بحوالہ فصل الخطاب جلد2 ص203)
اے جی لیونارڈ لکھتے ہیں: اُن کی جان کے دشمن، اسلام کے مٹانے کے لیے سازشیں کرنے والے بھی محمدؐ کی صداقت اور امانت کو تسلیم کرتے تھے۔ (Islam 1909)۔ ایک اَور جگہ لکھا: آپؐ کی عظمت کا راز بے نفسی، جانفشانی، سیاسی بصیرت اور دیانت میں مضمر ہے۔ (اردو ڈائجسٹ مئی 1989ء صفحہ328)
رسول اللہﷺ نے امانت کے مضمون کو ہر فرد بشر کی پوری زندگی پر پھیلا دیا اور اُس کو اس کی ذمہ داریوں اور فرائض کے لحاظ سے امین قرار دیا۔ فرمایا: تم میں سے ہر ایک چرواہے کی طرح ہے اورہر ایک شخص سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔ (بخاری کتاب الجمعہ)
پھر فرمایا: بیوی اپنے خاوند اور خاوند اپنی بیوی کے گھر، مال اور دیگر ذمہ داریوں کا امین ہے۔ (بخاری کتاب الجمعہ)
یہ بھی فرمایا کہ وہ امام الصلوٰۃ جو صرف اپنے لیے نماز میں دعا کرتا ہے اور اپنے مقتدیوں کے لیے نہیں کرتا وہ خائن ہے۔ (ترمذی کتاب الصلوٰۃ)
آنحضورﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ جس میں امانت کا خلق نہیں پایا جاتا اس کا ایمان کا دعویٰ جھوٹا ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ کا کوئی خطبہ شاید ہی ایسا ہوجس میں آپؐ نے یہ نہ فرمایاہو کہ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں۔ (مسند احمد جلد3 حدیث 12406)
آنحضورﷺ کو امّتوں پر نگران بنایا گیا تھا۔ اس ذمہ داری کا آپؐ کو بےحد احساس تھا۔ آپؐ نے ایک دفعہ عمرو بن مرہؓ سے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے سورۃ النساءکی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے: فکیف اذا جئنا من کل امۃ …۔ تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا بس کرو۔ اور اس آیت میں بیان کردہ ذمہ داریوں اور جواب دہی کے تصور سے آپؐ کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر)
آنحضورﷺ کو خداتعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا: تُو ان لوگوں سمیت جنہوں نے تیرے ساتھ ہو کر سچی توبہ کی ہے جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے سیدھی راہ پر قائم رہ۔ (ہود:107) چنانچہ ذمہ داری کا ہی احساس تھا کہ حضرت ابوبکرؓ سے آپؐ نے فرمایا کہ سورۃ ہود، واقعہ، مرسلات، نباء اور تکویر نے مجھے قبل از وقت بوڑھا کر دیا ہے۔ (جامع ترمذی حدیث نمبر3297)
دراصل آپؐ جانتے تھے کہ یہ ذمہ داری قیامت تک آنے والی نسلوں تک جاری رہے گی۔ چنانچہ آپؐ کی بےقرار دعائیں ہی تھیں جنہوں نے اس اُمّت کو سیدھی راہ پر قائم کرنے کے لیے مجددین اور مصلحین کا نظام جاری کردیا۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے یمن سے کچھ سونا رسولؐ اللہ کی خدمت میں بھیجا۔ آپؐ نے وہ سونا بعض نجدی سرداروں میں تقسیم کردیا۔ یہ بات قریش اور انصار کو ناگوار گزری۔ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپؐ نے اس موقع پر ہمیں اپنی عطا سے محروم رکھا اور نجد کے سرداروں کو سب سونا دے دیا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ میں نے تو ایسا صرف ان کی تالیف قلب کے طورپر کیا ہے۔ ایک آدمی آپؐ کی طرف بڑھا اور کہا کہ اے محمدؐ! تم نے (نعوذ باللہ) اس تقسیم میں اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کیا۔ آپؐ نے اس کی بات سن کر فرمایا اگر میں اللہ کا نافرمان ہوں تو پھر اس کااطاعت گزار کوئی بھی نہیں۔ تم مجھے امین نہیں سمجھتے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اہل زمین پر امین بنایا ہے۔ (بخاری کتاب الانبیاء)
آپؐ فرماتے تھے: خدا کی قسم میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔ (شفاء عیاض جلد1 صفحہ50)
ایک دفعہ باہر سے کچھ مال آیا تو رسول اللہﷺ نے بلالؓ کو تقسیم کرنے کا ارشاد فرمایا۔ مگر کچھ مال پھر بھی بچ گیا۔ آپؐ نے فرمایا مَیں اس وقت تک گھر نہیں جاؤں گا جب تک اس کا ذرہ ذرہ تقسیم نہیں ہو جاتا۔ مجھے اس مال سے نجات دلاؤ۔ مگر کوئی لینے والا نہ آیا تو آپؐ نے وہ رات مسجد میں گزاری۔ اگلے دن وہ مال حضرت بلالؓ نے کسی مستحق کو دے دیا تو آپؐ اطمینان سے گھر تشریف لے گئے۔(سنن ابی داؤد کتاب الخراج)
آنحضورﷺ کے گھر میں پڑی ہوئی صدقہ کی کھجوروں سے ایک دفعہ حضرت حسنؓ اور حسینؓ کھیلنے لگے اور ان میں سے ایک نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ آنحضورؐ نے فوراً انگلی ڈال کر اس کے منہ سے کھجور نکال دی اور فرمایا آل محمدؐ صدقہ نہیں کھاتے۔ (صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ)
آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات گھر میں بستر پر یا کسی جگہ کوئی کھجور پڑی ملتی ہے اٹھاتا ہوں اور کھانے لگتا ہوں مگر معاً خیال آتا ہے کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو تب اس کے کھانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب اللقطۃ)
اتنی باریک بینی سے امانت کا خیال کامل ایمان کا ہی حصہ ہے۔تھامس کار لائل کہتے ہیں: اگر کسی انسان کی پوری زندگی دیانتداری سے تعبیر کی جاسکتی ہے تو وہ محمدؐ ہیں۔ وہ جو محمدؐ کو طامع، لالچی، اقتدارپسند قرار دیتے ہیں میں ان سے شدید اختلاف کرتا ہوں۔ جب دنیا جہان کی نعمتیں اور دولتیں آپؐ کے قدموں میں تھیں تب بھی آپؐ نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا۔ اپنی ضروری حاجت کے لیے بھی جو لیتے وہ بہت معمولی اور حقیر ہوتا۔ (The Hero As Prophet)
جن دنوں اسلامی افواج نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا اور اس نے کہا یارسول اللہ میں تو اب ان لوگوں میں نہیں جاسکتا لیکن میرے پاس اپنے یہودی آقا کی جو بکریاں ہیں ان کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے۔ وہ بھوک اور فاقے کے ایام میں تھے لیکن آپؐ نے قربانی دے کر امانت کی حفاظت کا فیصلہ فرمایا اور یہ خیال آپ کی امانت میں کوئی فرق نہ ڈال سکا کہ یہ بکریاں تو آپؐ کے صحابہؓ کی مہینوں کے لیے خوراک بن سکتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا بکریوں کا منہ یہودی قلعہ کی طرف کردو اور ان کو ادھر ہانک دو اللہ تعالیٰ خود انہیں ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے انہیں اندر داخل کرلیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد3 صفحہ358)
ایک دفعہ قریش کا ایلچی رسول کریم ﷺ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپؐ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا۔ اس نے آنحضورؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور واپس نہیں جاؤں گا۔ رسول کریمؐ نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہدہ پرمامور ہو، تم اسی حالت میں واپس جاؤ اور وہاں جا کر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام قبول کرو۔ چنانچہ وہ واپس گیا اور پھر دوبارہ آکر اسلام قبول کرلیا۔
اسلام سے پہلے قاصدوں کا قتل کر دینا ممنوع نہ تھا لیکن رسول کریم ﷺ نے دشمن کی اس امانت کا بھی خیال رکھا اور فرمایا کہ قاصد کو قتل نہ کیا جائے۔ 10ھ میں مسیلمہ کذاب نے جب رسول اللہﷺ کے پاس قاصد بھیجے تو انہوں نے آنحضورﷺ سے گستاخانہ گفتگو کی۔ اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا اگر قاصدوں کو قتل کرنا روا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن مار دیتا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد)
حضرت رسول اکرم ﷺ نے مفتوح اقوام کی جان، مال اور عزت کو بھی امانت ہی سمجھا اور اس کی پاسداری کی۔ فتح خیبر کے بعد ایک یہودی سردار نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بعض مسلمانوں کی شکایت کی کہ وہ ہمارے جانور ذبح کرکے کھا رہے ہیں اور ہمارے پھل اجاڑ رہے ہیں اور عورتوں پر سختی کر رہے ہیں۔ وہ یہودی سردار رسول اللہ کے عدل و انصاف پر بھروسہ کرکے آیا تھا اور اس کی یہ توقع پوری ہوئی۔ رسولؐ اللہ نے فوراً صحابہؓ کو اکٹھا کر کے تقریر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بلااجازت اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہونے کی اور ان کے پھل کھانے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ وہ حق ادا کررہے ہوں جو اُن کے ذمہ ہے۔ (سیرۃ المحمدیہ صفحہ328)
رسول اللہ ﷺکو خبر ملی کہ بعض لوگوں نے مال غنیمت کی تقسیم سے قبل خیبر کے کچھ جانور پکڑ کر ذبح کرلیے ہیں اور ان کا گوشت پک رہا ہے تو آپؐ نے فوراً وہ ہانڈیاں توڑ دینے اور گوشت گرانے کا حکم دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
اس طرح آپؐ نے مسلمانوں کے جذبات، ان کی بھوک اور فاقے کی قربانی تو دے دی لیکن امانت اور دیانت کے اصولوں کو فراموش نہ کیا۔ آپؐ خوب جانتے تھے کہ جب فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں تو ان نازک لمحات میں برے اخلاق اور بدعادات چور دروازوں سے داخل ہوجایا کرتی ہیں۔ عرش کے خدا نے آپؐ کے متعلق کتنی سچی گواہی دی تھی کہ مطاع ثم امین (التکویر) یہ رسولؐ کل عالم کا مطاع بنایا جائے گا۔مگر ساتھ ہی امین بھی ہوگا۔ جو شخص مطاع ہو جاتا ہے اس کے اندر غرور اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ مگر فرماتا ہے کہ جب خدا اس کے ہاتھ میں لوگوں کی گردنیں اور عزتیں اور اموال دے گا تو تم دیکھو گے کہ یہ ہر شخص کا حق پوری طرح ادا کرے گا۔ چنانچہ فتح خیبر کے دوران تورات کے بعض نسخے بھی مسلمانوں کو ملے۔ یہودی رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے۔ رسول اللہﷺ نے صحابہؓ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں اُن کو واپس کر دی جائیں۔ (السیرۃ الجلید جلد3 صفحہ49)
جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گرکر ہلاک ہو گیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا تو کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درہم لے کر نعش ان کو دے دیں مگر آنحضورﷺ نے فرمایا ہم مُردہ فروش نہیں ہیں ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے اور پھر بلامعاوضہ وہ نعش واپس کر دی۔ (زرقانی جلد2 صفحہ194)
کاؤنٹ ہنری رقمطراز ہیں: محمدؐ سچے اور امین تھے پاکباز اور غمگسار تھے۔ نہایت متقی اور پرہیزگار تھے۔ (نقوش رسول نمبر4 صفحہ493)
ہربرٹ وائل اعتراف کرتے ہیں: آپؐ بہت سچے اور بے مثال امین تھے۔ آپؐ نے تمام لوگوں کو گمراہیوں سے نکال کر صراط مستقیم پر لا کر ڈال دیا۔ (نقوش رسول نمبر4 صفحہ494)
آنحضورﷺ نے نفس کے حقوق بھی قائم فرمائے۔ ایک دفعہ جب ایک صحابی نے کہا کہ مَیں روزانہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔دوسرے نے کہا میں عمر بھر روزہ رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ اسی اثناء میں رسول اکرم ﷺ تشریف لے آئے اور فرمایا: خدا کی قسم مَیں تم سب سے زیادہ خدا کی خشیت اور تقویٰ رکھنے والاہوں لیکن میں بعض دن روزہ بھی رکھتا ہوں اور بعض وقت نہیں رکھتا اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ یہی میری سنت ہے اور جو اس سے الگ ہوتا ہے وہ میرے گروہ سے خارج ہے۔(صحیح بخاری کتاب النکاح)
پس آپؐ نے اپنے نفس کی امانت کے حقوق بھی پوری جامعیت کے ساتھ ادا فرمائے اور امانت کے ہر پہلو کو پوری تفصیل کے ساتھ جاری کر دکھایا۔ جسے اپنوں نے بھی امین کہا۔ جسے دشمنوں نے بھی امین کا لقب دیا اور جسے آسمان سے خدا نے امین کہہ کرپکارا۔ جس نے امانت کے وہ بوجھ اٹھائے جنہیں تھامنے سے آسمان و زمین عاجز تھے ۔ آج اُس کے نام لیواؤں کے پاس اس کے خلق عظیم ایک مقدّس امانت ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں