حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاخواتین سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ 25 ؍جولائی 2009ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ :

               ’’میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالَم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جا ہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اُس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہر گز اُس کوخدا تعالیٰ اور عالَم آخرت پر نہیں۔زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میںدنیا کی محبت کا غلبہ ہے‘‘۔

(کتاب البریۃ ۔روحانی خزائن جلد 13صفحہ 292-291 حاشیہ)

               جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام مبعوث ہوئے اُس زمانہ میں دنیا کی یہ حالت تھی جس کا ہر وہ دل جس میں خدا تعالیٰ کا خوف تھااور جس کے دل میں اسلام کا کچھ درد تھا، اظہار کرتا تھا اور دُعائیں کرتا تھا کہ کوئی مردِ میدان کھڑا ہو اور اسلام کی اِس ڈولتی کشتی کو سنبھالے۔ دُنیا میں ہمیشہ ایسی ہی حالتیں ہوتی ہیں جب اﷲ تعالیٰ اپنے نبی بھیجتا ہے تاکہ وہ انبیاء لوگوں کو اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان کروانے کی کوشش کریں۔ ایسی ہی حالت کا قرآنِ کریم نے ایک جگہ یوں نقشہ کھینچا ہے، فرمایا : ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِ ی النَّاس(سورۃا لروم 42) یعنی خشکی اور تری میں لوگوں کے کاموں کی وجہ سے فساد برپا ہو گیا اور اِس فساد کا اور بہت بڑے فساد کا ، جس نے تمام دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ زمانہ تھا جب اِس فساد کی اصلاح کے لئے اﷲ تعالیٰ نے عظیم نبی کو، جن کا نام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، کُل انسانیت کے لئے مبعوث فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام اِن الفاظ کہ  فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر یعنی خشکی میں اور تری میں کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:  ’’مراد اِس سے یہ ہے کہ اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب سب بگڑ چکے تھے اور قسم قسم کے فساد اور خرابیاں اُن میں پھیلی ہوئی تھیں‘‘۔

 (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 578ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                تو اِس حا لت میں اُس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور پھر ایک دنیا نے دیکھا کہ آپ نے ایک انقلابِ عظیم برپا کر دیا۔ شرک کی انتہا کو پہنچے ہوئے خدائے واحد و یگانہ کی عبادت کرنے والے ہو گئے۔ اخلاقی گراوٹوں کی انتہا کو پہنچے ہوئے با اخلاق بن گئے۔ خود غر ضیوں کی تمام حدیں پھلانگنے والے حقوق العباد کی ادائیگی اور قربانی کی مثال بن گئے۔ عورتوں کے حقوق پامال کرنے والے عورتوں کے حقوق کے پاسبان بن گئے۔ وہ لڑکی جو کسی گھر میں جب پیدا ہوتی تھی تو باپ کا چہرہ سیاہ ہو جاتا تھا اور وہ شرم سے لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا تھا اور اِس تلاش میں ہوتا تھا کہ کب موقع ملے تو میں اِس کو زندہ درگور کروں۔ وہی لڑکی جنت کی بشارت کا سامان بن گئی اور عزت و احترام سے دیکھی جانے لگی۔ اور اِس انقلاب سے فیض پانے والے جو تھے اُن میں بتوں کو پوجنے والے بھی تھے، یہود یوں میں سے بھی تھے، عیسائیوں میں سے بھی تھے جن کی اِس فیض پانے کے بعد کایا پلٹ گئی اور اسلام کا جھنڈا بلندیوں پر لہراتا چلاگیا جب تک کہ مسلمان اُس تعلیم سے حقیقی رنگ میں فیض پاتے رہے اور اعما لِ صالحہ بجا لاتے رہے۔ اور جب اُس تعلیم کو بھلایا تو پھر جو زوال تھا وہ لازم تھااور وہ آیا اور پھر دوبارہ زمین میں فساد برپا ہوا۔ غیر مذاہب کی حالت تو تباہی کے گڑھے کی طرف لے جانے والی تھی ہی کیونکہ اُن کی تعلیمیں پرانی ہو چکی تھیں، اُن میں کئی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔خود مسلمان بھی شرک ِ ظاہری اور خفی میں مبتلا ہو چکے تھے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا خدا تعالیٰ کا قانون ہے کہ  ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کے وقت اپنے خاص بندے مبعوث فرماتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غلامِ صادق کو دنیا میں بھیجا تا کہ وہ پھر اس دین کی شان اور عظمت قائم کرنے کے لئے جری اﷲ کا کردار ادا کرے ، جس کے قائم کرنے کے لئے ہمارے آقا و مولیٰ حضر ت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف لائے تھے۔

               پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس اقتباس میں اعلان فرمایا ہے، آپؑ کو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی میں اُن کاموں کی سر انجام دہی کے لئے بھیجا ہے جن کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تھے اور وہ کام یہ تھے جیسا کہ آپؑ خود فرماتے ہیں کہ مجھے کس لئے بھیجا گیا۔ فرمایا تاکہ ایمانوں کو مضبوط کریں، اﷲ تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کریں، تیسرے یہ کہ عالمِ آخرت کی حقیقت واضح کریں، چوتھے یہ کہ دنیاپرستی کی بجائے خداپرستی کی طرف دنیا کو لائیں، پانچویں یہ کہ قول و فعل کے تضاد کو دُور کر دیں، نمبر چھ یہ کہ اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ دلائیں۔

               یہ چیزیں ہیں جو آپ نے اپنے اِس اقتباس میں بیان فرمائی ہیں اور جب یہ باتیں پیدا ہوں گی تو پھر انسان اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچاننے والا بن سکے گا۔تب اُس حقیقی انقلاب سے حصہ پانے والا بن سکے گا جو آج سے چودہ پندرہ سو سال پہلے آیا تھا جس نے صدیوں کے مُردے زندہ کر دئیے تھے۔ ہم احمدی خو ش قسمت ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو مان کر، آپ سے عہدِ بیعت کر کے ہم نے حقیقی روحانی انقلاب برپا کرنے والوں میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ پس آج ہماری بہت بڑی ذمہّ داری ہے کہ اپنے جائزے لیتے ہوئے دیکھیں کہ کیا ہم اُن مقاصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دیتے ہوئے، جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے، اپنے آپ کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں جو اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں بتائی ہے اورجو خوب کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے اِس زمانہ میں پیش فرمائی ہے۔

                پس آئیں اور سب سے پہلے یہ جائزہ لیں کہ ہمارے ایمان کس حد تک مضبوط ہیں۔ در اصل تو یہ ایمان ہی ہے جو اﷲ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتا ہے۔ آخرت پر یقین پیدا کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے تمام حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرتا ہے ا ور اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرتا ہے ا ور نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی طرف توجہ رہتی ہے۔ پس یہ سمجھ لینا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو مسیح موعود مان لیا، مہدی موعود مان لیاتو ہم ایمان لانے والوں میں شامل ہو گئے۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے۔ اِس مان لینے کی حالت کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ  قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا(سورۃالحجرات 15) کہ یہ تو کہو کہ ہم نے کچھ حد تک فرمانبرداری اختیار کر لی لیکن ایمان فرمانبرداری سے اگلا قدم ہے۔جب کامل فرمانبرداری ہو جائے تو پھر ایمان میں ترقی ہوتی ہے۔ پھر انسان ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے شک تم نے  اَسْلَمْنَا  تو کہہ دیا لیکن اﷲ تعالیٰ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے، فرماتا ہے کہ  لَمْ تُؤْمِنُوا تم ایمان نہیں لائے۔ ابھی تم نے اس فرمانبرداری کی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ  (سورۃالحجرات 15)کیونکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ پس ایمان کا مسئلہ ایک بہت ہی نازک اور باریک مسئلہ ہے۔ اگر ہمیں اپنے جائزے لیتے ہوئے یہ بات نظر نہ آئے کہ روحانی حالت میں ہمارا آج ہمارے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہے تو پھر ہمارے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

               ’’ ایمان صرف اِسی کا نام نہیں کہ زبان سے کلمہ پڑھ لیا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ پر ایمان ایک نہایت باریک اور گہرا راز ہے اور ایک ایسے یقین کا نام ہے جس سے جذبات ِ نفسانیہ انسان سے دُور ہو جاویںاور ایک گناہ سوز حالت انسان کے اندر پیدا ہو جاوے‘‘ ( یعنی گناہوں کو جلانے والی حالت پیدا ہو جائے)۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 561ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:

                ’’ایمان کی دو ہی نشانیاں ہیں۔ اوّل درجہ یہ ہے کہ گناہ کو انسان چھوڑ دے اور ایسی حالت اس کو میسر آ جاوے کہ گناہ کرنا گویا آگ میں پڑنا ہے یا کسی کالے سانپ کے منہ میں انگلی دینا ہے یا کوئی خطرناک زہر کا پیالہ پینے کے برابرہے… ‘‘اور (دوسرے یہ کہ)’’ انشراحِ صدر سے نیکی کرنے پر قادر ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 562-561ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               اور انشراحِ صدر سے نیکی کیا ہے؟ یہ وہ اعمال ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے حکموں کے موافق ہوں اور آنحضرت  صلی اللہ علیہ و سلم کی سنّت کے مطابق ہوں۔

               پس یہ ہے ایمان کی حالت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ اب دیکھیں اور جائزے لیں۔ قرآن کریم کھولیں اور پڑھیں کہ اﷲ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں۔

               آجکل کے معاشرے میں بعض نوجوان بچوں اور بچیوں پر دنیاوی تعلیم کی وجہ سے یہ اثر ہے کہ مستقل دینی ماحول میں رہنا، ہر وقت اﷲ رسول کی باتیں سننا، اِ س قسم کی یکسانیت ہے جس سے کبھی کبھی اُن کو باہر آنا چاہئے اور یہ Fun ہے ، یہ ایک تفریح ہے۔ یہ تفریح ہے جو اُن کی تھکاوٹ کو دُور کرنے کے لئے ضروری ہے۔یہ خیالات عام ہوتے جارہے ہیں۔ اِس بات سے کوئی انکار نہیں کہ دماغی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لئے تفریح ہونی چاہئے لیکن اگر کوئی تفریح اﷲ تعالیٰ کے واضح حکموں کے خلاف ہے تو وہ تفریح نہیں بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایا ہے آگ میں گرنے کے مترادف ہے یا سانپ کے منہ میں اُ نگلی دینے کے برابر ہے یا زہر کا پیالہ پینے والی بات ہے۔

               ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان تبھی مضبو ط ہوتا ہے جب یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ بعض بُرائیاں اِس لئے پیدا ہو جاتی ہیں کہ بُرا ئی کرنے والا سمجھ رہا ہوتا ہے کہ مجھے کوئی دیکھ نہیں رہا اور اُ س وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ  وَاﷲُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (سورۃ اٰل عمران 157)کہ     اﷲ تعالیٰ جو کچھ تم عمل کرتے ہو اُسے دیکھ رہا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ پر ایمان یہی ہے کہ انسان کا ہر عمل اﷲ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہو۔

               مثال کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے اگر پردہ کا حکم دیا ہے تو پردہ کا یہ حکم صرف جلسہ پر آنے کے لئے نہیں دیا۔ یا جماعتی فنکشنز پر مسجد آنے کے لئے نہیں دیا۔ یا میرے سے ملاقات کے وقت کے لئے صرف یہ حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ اﷲ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مومنوں کی بیویوں کو یہ حکم دیا ہے، جیسا کہ فرماتا ہے  وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ (الاحزاب:60)  اور مومنوں کی بیویاں جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنی بڑی چادروں کو اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ یہ مومنوں کی بیویوں کی پہچان ہے۔ اور مومنوں کی بیویاں بھی مومن ہی ہوتی ہیں۔ شادی کے احکام میں بھی یہی حکم ہے کہ تم مومن عورتوں سے شادی کرو یا مومن عورتوں کو یہ حکم ہے کہ تم مومن مردوں سے شادی کرو۔  پس یہ پردہ کسی خاص موقع کے لئے نہیں ہے بلکہ گھروں سے باہر نکلتے ہوئے ہر اُس عورت کے لئے فرض ہے جو اپنے آپ کو مومن کہتی ہے اور بلوغت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور اﷲ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت میں اپنے آپ کو شامل سمجھتی ہے۔ اور اِس میں اُن مَردوں کے لئے بھی حکم ہے جو اپنی بیویوں کے پردے اِس لئے اُتروا دیتے ہیں کہ ہمیں باہر سوسائٹی میں جاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ لوگ کہیں گے کہ بڑا Backwardہے، اپنی بیویوں کو پکاّ پردہ کرواتا ہے۔ یہاں یورپ میں پردہ کے خلاف وقتاً فوقتاً اُبال اُٹھتا رہتا ہے اور فرانس اِ س میں پیش پیش ہوتا ہے۔ وہیں سے عام طور پر یہ تحریکیں شروع ہوتی ہیں۔ اور پھر ردّ عمل کے طور پر مسلمانوں کی طرف سے پردہ برداروں کا ایک جلوس نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور پردہ کے اِن جلوسوں میں اکثر مُنہ لپیٹے ہوئے وہ لوگ ہوتے ہیں اور پردہ کرنے والوں کی اُ ن میں ایسی تعداد ہوتی ہے جو آپ کو بازار میں اکثر ننگے مُنہ پھرتی نظر آئیں گی بلکہ لباس بھی قابلِ شرم ہوں گے۔ یہ اِ س لئے ہے کہ اُن کی کوئی رہنمائی نہیں ہے۔ ایک وقتی جوش اور اُ بال ہے جو ردّ عمل کے طور پر ظاہر ہوتا ہے اور جو پردے پر پابندی کا ردّ عمل ہے۔ لیکن ایک احمدی عورت اور ایک احمدی نوجوان لڑکی جو پردہ کی عمر کو پہنچ چکی ہے، اُ سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ پردہ اُس کے ایمان کا حصّہ ہے۔ اُن احکامات میں سے ہے جن کا قرآن کریم نے حکم دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی احمدی بچیاں اِس حقیقت کو سمجھتی ہیں۔

                گزشتہ دنوں پردہ کے خلاف فرانس میں جو رَو چلی تھی اُس پر ایک احمدی نوجوان بچی جو وقفِ نو بھی ہے اور جرنلزم میں ماسٹرز کر رہی ہے، اُس نے اخبار کو خط لکھا کہ ایک طرف تو یورپ فرد کی آزادی اور مذہبی آزادی کا نعرہ لگاتا ہے اور دوسری طرف پردہ جو ہمارے مذہب کے احکامات میں سے ایک حکم ہے اُس پر تم پابندی لگاتے ہو جبکہ ہم جو پردہ کرنے والی خواتین ہیں اُ سے خوشی سے قبول کرتے ہوئے اپنے خدا کے حکم کے مطابق اُ س پر عمل کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ تمہارا جو مذہبی آزادی دینے کا دعویٰ ہے صرف ایک اعلان ہے اور اِ س سے زیادہ اِ س کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آج کل مسلمانوں میں سے اکثریت ایسی ہے جو پردہ نہیں کرتی اور اب تو ان کے لباس بھی اتنے ننگے ہو گئے ہیں کہ ٹی وی وغیرہ پر بعض دفعہ جو پروگرام آرہے ہوتے ہیں، انہیں دیکھ کر شرم آتی ہے اور پھر یہ مسلمان کہلانے والی ہیں۔ اور خشکی اور تری میں فساد سے یہی مُراد ہے کہ نہ دین باقی رہا نہ اسلام باقی رہا لیکن پھر بھی مسلمان کہلا نے والی ہیں۔

               لیکن ایک احمدی عورت جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے اُ سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس نے احمدیت صرف اپنے ماں باپ کی عزّت کی و جہ سے قبول نہیں کرنی یا صرف اِس لئے اپنے آپ پر احمدیت کا لیبل چسپاں نہیں کرناکہ ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہونے کی مجھے سعادت ملی ہے اور اِس کے علاوہ میرا کوئی اور  راستہ نہیں کہ میں اپنے احمدی ہونے کا اعلان کروں کیونکہ میرے گھر والے احمدی ہیں، میرا خاندان احمدی ہے۔ اِ س لئے ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ ایک احمدی عورت کو احمدیت کی تعلیم کا پتہ ہونا چاہئے۔ ایمان کی مضبوطی کا پتہ ہونا چاہئے۔ ایک احمدی کی عزّت اِ س بات میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے ایمان میں اتنی مضبوطی پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی خواہش اُسے اُس کے ایمان سے ہٹا نہ سکے، اُس کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکے۔

                احمدی ماؤں کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے بچوں کی اِس رنگ میں تربیت کریں کہ اﷲ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اُس کو راضی کرنے کے لئے ہر کوشش اُس کی اوّلین ترجیح ہو۔ اور یہ اُ س وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک احمدی مائیں بھی اپنے آپ کو ایمان کے اعلیٰ معیار تک لے جانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ ماؤں کے قدموں میں جو جنّت رکھی گئی ہے وہ اس لئے ہے کہ جہاں اُن کا اپنا ایمان اور خشیّت اﷲ بلندیوں پر ہو وہاں اُن کی نیک تربیت سے اُن کے بچوں کے ایمان بھی ترقی پذیر ہوں ورنہ ہر ماں تو جنّت کی خوشخبریاں دینے والی نہیں ہے۔ پس ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فقرے کو یاد کریں کہ میں ایمانوں کو مضبوط کرنے آیا ہوں۔

               پردہ کی ایک مثال مَیں نے یہاں کے ماحول کے بچیوں کی ذات پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے دی ہے۔ اِس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ یہاں سے میری مُراد صرف انگلستان کی احمدی عورتیں اور نوجوان لڑکیاں نہیں ہیں بلکہ یورپ میں بسنے والی بھی ہیں اور امریکہ ، کینیڈا وغیرہ میں بسنے والی بھی ہیں اور افریقہ میں بسنے والی بھی ہیں اور ایشیا میں بسنے والی بھی ہیں اور جو بھی مغرب کے ماحول سے یا غلط قسم کے ماحول سے ، آزادی کے ماحول سے متأثر ہو کر قرآن کریم کی واضح تعلیم اور واضح حکموں کی خلاف ورزی کرتی ہیں وہ اپنے ایمانوں میں کمزوری دکھا رہی ہیں۔ بلکہ اب تو مجھے پاکستان سے بھی شکایات آتی ہیں کہ بعض شہروں میں نوجوان لڑکیوں کے لباس قطعاً ایسے نہیں کہ وہ احمدی کہلاسکیں۔ جہاں اکثریت اﷲ کے فضل سے شرعی احکامات کی پابندی کرنے والی ہے وہاں کئی پرانے اور اچھے احمدی خاندانوں کی لڑکیاں اپنے حجابوں سے نہ صرف باہر آ رہی ہیں بلکہ بعض اوقات اُن کے لباس بھی قابلِ اعتراض ہوتے ہیں۔

               اب اﷲ تعالیٰ کے فضل سے MTA کے ذریعہ تمام دنیا میں براہِ راست پیغام پہنچ جاتا ہے اس لئے مَیں جب بھی کسی بڑے فنکشن میں بات کرتا ہوں تو تمام دنیا کے احمدیوں کو ذہن میں رکھ کر کرتا ہوں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ مُنہ سے یہ کہہ دینا کہ ایمان کے جو تمام رکن ہیں ہم اُن پر ایمان رکھتے ہیں، اس لئے کوئی نہیں جو ہمیں مومن کہنے سے روک سکے، یہ بڑی غلط سوچ ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے پہلے حملہ کرتا ہے اور پھر بڑی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔

                بعض نوجوان بچے بچیاں یہ سمجھتے ہیں کہ بعض حرکات مثلاً لڑکے لڑکی کا جو نامحرم بھی ہیں اکیلے بازاروں میں گھومنا، لڑکے لڑکیوں کے گروپ کا ناچ گانے کی محفلیں لگانا وغیرہ اور اِس طرح کی بہت سی جو اَور برائیاں ہیں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ اِس پہ زیادہ زور نہیں دینا چاہئے۔ اِ ن کو برائیاں سمجھ کر پھر یہ خیال کرنا کہ احمدی معاشرہ اِ ن باتوں کو ناپسند کرتا ہے، یہ بھی ان کی سوچ ہے کیونکہ جماعت اِ ن معاملات میں زیادہ سخت ہے۔

                یاد رکھیں کہ یہ سب غیر اخلاقی باتیں ہیں اور دین اسلام اِس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اگر ان کی کوئی ایسی سوچ ہوتی ہے کہ کیونکہ احمدی معاشرہ نا پسند کرتا ہے اِس لئے کرتے جاؤ۔ اور اگر کوئی احمدی اُنہیں نہیں دیکھ رہا جسے ہماری یہ باتیں نا پسند ہیں یا پھر کوئی عہدیدار نہیں دیکھ رہا جس سے خطرہ ہو کہ شکایت پہنچ جائے گی یا کوئی بھی ایسا شخص جس سے یہ خطرہ ہو کہ شکایت لگا دے گا، وہ نہیں دیکھ رہا تو جو مرضی کرو، جس طرح دل چاہے کرو۔ یہاں مغربی معاشرے کا اثر ہے کہ جو برائی اپنی مرضی سے کی جائے جس سے دوسرے کا نقصان نہ ہوتا ہو تو وہ چاہے جتنی بھی اخلاق سوز ہو اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اگر خدا تعالیٰ پر یقین ہے، جس کے ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام مبعوث ہوئے، تو کبھی یہ سوچ نہیں ہو سکتی ۔ اور جیسا کہ خود اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو بھی تم عمل کرتے ہو اُ سے مَیں دیکھ رہا ہوں۔

               اگر ہر کام کرنے سے پہلے، چاہے آپ اُسے چھوٹا ہی سمجھ رہی ہوں، یہ خیال دل میں لے آئیں کہ جو میں کرنے جا رہی ہوں اسے خدا دیکھ رہا ہے۔ ایک طرف میرا احمدی ہونے کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف جس کو احمدی معاشرہ یا اسلامی معاشرہ برا سمجھتا ہے وہ مَیں کر رہی ہوں تو یقینا اسلام میں ایسی حرکتیں منع ہی ہیں تبھی برا سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہ سوچ ہو گی تو دنیا کے لہو و لعب سے بیزاری ہو گی اور نیک اعمال بجا لانے کی طرف رغبت پیدا ہو گی۔

               ایک طرف تو آج کل کے نام نہاد روشن معاشرے میں رہنے والے نوجوان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے اندر سچائی ہے اور ہم حق بات کہنے سے نہیں جھجکتے اور دوسری طرف جو اپنا عہد بیعت ہے اسے نہیں نبھاتے تو یہ کیسی سچائی ہے؟ ایک اعلان جو ہر نوجوان لڑکی اور نوجوان لڑکا اور مرد اور عورت یہ کر رہے ہوتے ہیں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا لیکن جب معاشرے کے لہو و لعب ، کھیل کود کا معاملہ آ جائے تو دین کی تعلیم بھول جاتے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور انٹر نیٹ پر جو بیہودہ اور لغو فلمیں اور پروگرامز دکھائے جاتے ہیں ، یہ بعض نوجوان بچے بچیاں بڑے شوق سے دیکھتے ہیں بلکہ بعض گھروں میں پورا گھرانہ ان کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ بڑے بھی اور چھوٹے بھی اور بچے بھی بلکہ نابالغ بچے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اسے برائی نہیں سمجھا جاتا۔ جن گھروں میں بھی رشتوں کے بعد لڑکے لڑکی میں رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، اور پھر جن کے گھر اور جن کے رشتے رنجشوں کی وجہ سے ٹوٹتے ہیں ان کا میں نے جائزہ لیا ہے کہ ٹی وی کے بیہودہ چینلز کی آزادی، انٹر نیٹ اور لڑکے لڑکیوں کا آپس کا میل جول اور دوستیاں اس کی وجہ بنتی ہیں۔ کیونکہ ان چیزوں کے بعد پھر ایسی عادتیں پڑجاتی ہیں کہ شرافت کی زندگی گزاری ہی نہیں جا سکتی اور جو بھی شریف ماحول کا لڑکی یا لڑکا شادی ہو کر ایسے ماحول میں آتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد ہی اس رشتے کو توڑ دیتا ہے۔

                پس غور کریں ، سوچیں کہ ایک طرف احمدی ہونے کا دعویٰ ہے، اُس شخص کی بیعت میں آنے کا دعویٰ ہے جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ مَیں دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ خداتعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ لوگوں کو اعمالِ صالحہ پر چلانے کے لئے بھیجا گیا ہوں تو پھر اپنے عمل اُس سے بالکل اُلٹ کرنا یہ تو عجیب بات ہے۔

                آج مَیں یہ باتیں خاص طور پر خواتین کے سامنے، لجنہ کے سامنے اِ س لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ اُن ماؤں کی ذمہ داری ہے جن کی گود میں بچے پل رہے ہیںکہ بچپن سے ہی بچوں کے کانوں میں اچھائی اور برائی کی تمیز ڈالیں۔ بچپن سے ہی بچوں کو یہ بتائیں کہ ہم احمدی ہیں۔ اور کیوں احمدی ہیں؟ ہمارے میں اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟

               جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا اُن کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ ہم نے دنیا کو خدا کے حضور جُھکنے والا بنانا ہے یا ہم نے دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں تلے لانا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ ہمارا ہے کہ ہم نے یہ کام کرنے ہیں۔ اسی طرح جو نوجوان بچیاں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں اُن کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنے آپ کو دنیا کے لہوو لعب اور کھیل کود میں اور غلاظتوں میں نہ ڈالیں اور اِن سے بچا کر رکھیں کیونکہ آئندہ قوم کی تربیت کی ذمہ داری بھی آپ پر پڑنے والی ہے۔احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے انشا ء اﷲ تعالیٰ دنیا پر غالب آنا ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اٹل تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے۔ اگر آپ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے اور اپنی نسلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گی تو اُس تقدیر کا حصہ بن کر دنیا و آخرت میں جنتوں کی وارث بنیں گی ورنہ اَور لوگ اس حق کو ادا کرنے کے لئے آگے آ جائیں گے۔ اِس ضمن میں مَیں ماں باپ کو بھی یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں اور پہلے بھی کئی مرتبہ اِس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ ماں باپ جس طرح بچپن میں اپنے بچوں سے پیار محبت کا اور دوستانہ تعلق رکھتے ہیں، بڑے ہونے تک یہ تعلق قائم رکھیں۔ لڑکیاں ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ اُنہیں ہر بات ماں سے کرنی چاہئے کیونکہ وہ کر سکتی ہیں۔ ماؤں کو ان کے اندر اتنا اعتماد پیدا کرنا چاہئے کہ وہ آپ سے ہر بات کریں ۔

               بے شک ماں باپ کا کام اپنے لڑکے لڑکیوں کی نگرانی کرنا اور تربیت کرناہے لیکن لڑکیوں کی تربیت زیادہ کرنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ پھر آئندہ نسلوں کی زیادہ بہتر تربیت ہوتی ہے۔ گو اِ س سے بعض نوجوان بچیوں نے یہ غلط تأثر لیا ہے اور میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ لڑکیاں اس بات سے شاکی ہیں کہ ماں باپ ہمارے پر زیادہ نظر رکھتے ہیں اور لڑکوں کو کچھ نہیں کہتے۔ اگر ماں باپ اپنے گھروں میں یہ تأثر پیدا کرتے ہیں تو غلط کرتے ہیں۔جماعت کی آئندہ ترقی کے لئے لڑکوں کی تربیت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی لڑکیوں کی۔ اور لڑکوں کی تربیت میں بعض معاملات میں خاص طور پر ماں باپ دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور یہ بہت ضروری ہے۔ لڑکوں کی تربیت کی اہمیت کے پیش نظر ہی حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا تھا کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی اس کے مخاطب ہیں۔ اگر باپ گھروں میں دینی باتیں کرتے رہیں تو بچوں کی دین کی طرف توجہ رہتی ہے۔ کئی مائیں مجھے شکایت کرتی ہیں کہ ہمارا بچہ چودہ پندرہ سال تک تو ٹھیک رہتا ہے اُس کے بعد مسجد آنے میں بھی کمی ہوتی ہے اور دوسری جماعتی مصروفیات میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ یہاں باپوں کا بھی کام ہے کہ باہر کی نگرانی کریں لیکن پیار سے اور خود ماں باپ کے نمونے ایسے ہوں کہ بچے سمجھیں کہ حقیقی زندگی یہی ہے جو ہمارے ماں باپ گزار رہے ہیں ۔

                اور ان بچیوں کو بھی مَیں کہتا ہوں جن کے ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے ماں باپ لڑکوں پر اتنی سختی نہیں کرتے جتنی ہمارے پر کرتے ہیں یا اُتنی نظر نہیں رکھتے جتنی ہمارے پر رکھتے ہیں۔ وہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ یہ سوچا کریں کہ ماں باپ میرا بُراسوچ رہے ہیں یا اچھا؟ اور جب آپ اِس سوچ کے ساتھ ماں باپ کی باتوں کو سُنیں گی تو سوائے استثنائی صورت کے اِلَّا مَاشَائَ اﷲ  اکثر بچے یہی کہیں گے کہ ہمارے ماں باپ ہماری بہتری کا ہی سوچ رہے ہیں اور محبت کے اُس جذبے کی وجہ سے سوچ رہے ہیں جو اُن کے دل میں ہمارے لئے ہے۔

               یہاں میں ایک بات اَور واضح کرنا چاہتا ہوں اور اکثر مَیں ایسے نوجوانوں کو جو اپنی اسلامی اقدار بھول جاتے ہیں اور خاص طور پر پاکستانی جو اپنی اچھی معاشرتی روایات بھی بھول جاتے ہیں، یہ کہا کرتا ہوں کہ اپنے اندر اعتماد پیدا کرو کہ اسلامی تعلیم ہی سب سے اعلیٰ تعلیم ہے۔ یہی تعلیم تھی جس کو مسلمانوں نے جب تک اپنائے رکھا علم میں بھی ترقی کرتے رہے اور اخلاق میں بھی ترقی کرتے رہے۔ دنیا میں حکومتیں بھی اُن کے ہاتھ میں رہیں اور دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں ان سے خوفزدہ بھی رہیں۔ اور جب یہ سب کچھ جاتا رہا تو نہ علم رہا، نہ دین رہا ،نہ دنیا رہی۔ اور یہ سب اِس لئے ہوا کہ اِسلامی اخلاق اور قدروں کو بھول گئے۔ عورت اور شراب کی برائیوں میں مبتلا ہوگئے۔ خود غرضی اُن میں پیدا ہو گئی۔ دھوکہ اور دو عملی ان میں پیدا ہو گئی۔ عورتیں اپنا تقدّس بھول گئیں۔ مرد اپنی ذمہ داریاں بھول گئے اور یہ تو اب اﷲ تعالیٰ کا مسیح و مہدی کے زمانے کے ساتھ وعدہ ہے کہ ان کی اصلاح ہو گی اور اِس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی تھی کہ مسیح موعود کے بعد خلافت کا نظام جاری رہے گا اور جب خلافت کا نظام جاری ہے تو پھر قبلے بھی درست رہیں گے۔ کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کا ایمان والوں، عملِ صالح کرنے والوں، نمازوں کا قیام کرنے والوںاور زکوٰۃ دینے والوں اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کے ساتھ وعدہ ہے کہ خلافت کا نظام اُن میں جاری رکھے گا۔ لیکن ایسے لوگ جو اسلامی اقدار کو چھوڑ کر کسی احساسِ کمتری کی وجہ سے نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کے غلط کاموں کی پیروی کرتے ہیں وہ نہ دین کے رہیں گے نہ ،دنیا کے۔

               کئی مرد، عورتیں میرے پاس آتے ہیں جن کو کچھ سال گزرنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا کی آزادی کو سب کچھ سمجھ کر اُسے اپنایا اور نقصان اُٹھایا۔ اور اب احساس ہوا کہ ہم غلط تھے اور ہمارے بڑے ہمیں سمجھانے والے صحیح تھے۔ پس بجائے اِس کے کہ بعد میں احساس ہو، بہتر یہی ہے کہ ابھی سے خدا تعالیٰ کے حکم پر چلتے ہوئے اُس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں جس نے پندرہ سو سال پہلے بھی خشکی اور تری کے فساد کو دور کیا اور اﷲ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخرین میں بھی اِس خشکی اور تری کے فساد کو دُور کیا اور کر رہی ہے۔

               احمدیت کی تاریخ بھی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے کہ رشوت خور اور شرابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرنے کے بعد پانچ وقت کے نمازی ، نوافل ادا کرنے والے اور ہمیشہ عملِ صالح کی تلاش میں رہنے والے بن گئے اور آج بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد ان نیکیوں پر قدم مارنے والی ہے۔ پس مَیںجب اس بارے میں توجہ دلاتا ہوں یا مجھ سے پہلے جو خلفاء نے تو جہ دلائی تو اِس لئے کہ جماعت کی طرف منسوب ہونے والا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ رہے جو نیکیوں میں ترقی کی بجائے برائیوں میں بڑھ رہا ہو۔ اگر مَیں بعض باتوں کی طرف سختی سے توجہ دلاتا ہوں یا بعض پر سختی کرتا ہوں تو کسی غصے یا غضبناکی کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے یہ میرے فرائض میں داخل کیا ہے کہ ہمدردی کے جذبہ کے تحت ہر اُس شخص کو جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کو مانا ہے، سانپ کے منہ میں جانے سے روکوں، دلی درد کے ساتھ اِس کی کوشش کروں۔ اب جبکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا زمانہ پا لیا ہے تو بار بار اُن راستوں کی طرف چلنے کی یاددہانی کرواؤں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو کر اپنے عہد ِبیعت کا پاس کرتے ہوئے چلنے کی کوشش کرو تاکہ ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو ایک عام احمدی سے اِس شرط پر بیعت لی ہے کہ عام خلق اﷲ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہمشغول رہے گا۔ ہمدردی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر احمدی دوسرے سے ہمدردی کرے تو میرا تو سب سے زیادہ یہ فرض بنتا ہے۔ اِس لئے میں تلقین بھی کرتا ہوں اور اِس کے لئے میں دُعا بھی کرتا ہوں کہ ہر احمدی عورت، مرد، بچہ، جوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات پر پورا اُترنے والا ہو۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔

               ’’ حقیقی جماعت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف بیعت کر لی بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کاربند ہو۔ سچے طور سے اُن میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور ان کی زندگی گناہ کی آلائش سے بالکل صاف ہو جاوے۔ نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجے سے نکل کر خدا تعالیٰ کی رضا میں محو ہو جاویں۔ … اپنی خواہشات اور ارادوں ،آرزؤوں کو فنا کرکے خدا کے بن جاویں۔…‘‘

                فرمایا کہ: ’’یقینا جانو کہ جماعت کے لوگوں میں اور اُن کے غیر میں اگر کوئی ما بہ الامتیاز ہی نہیں ہے‘‘ (کوئی فرق ہی نہیں ہے) ’’تو پھر خدا کوئی کسی کا رشتہ دار تو نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اِن کو عزت دے اور ہر طرح حفاظت میں رکھے اور اُن کو‘‘ (جو غیر ہیں)’’ ذلّت دے اور عذاب میں گرفتار کرے ۔ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اﷲُ مِنَ المُتَّقِیْنَ۔‘‘(سورۃالمائدۃ:28) (یقینا اﷲ متقیوں کو ہی قبول کرتا ہے۔ انہی کی قربانیاں قبول کی جاتی ہیں۔ انہی کی دُعائیں قبول کی جاتی ہیں)۔ فرمایا: ’’متقی وہی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشا ء الٰہی کے خلاف ہیں۔ نفس اور خواہشاتِ نفسانی کو اور دنیا و ما فیہا کو اﷲ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں۔‘‘ فرمایا: ’’ایمان کا پتہ مقابلہ کے وقت لگتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 455-454ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ)

                پس یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایمان کے معیار کیا ہیں؟ کیا دنیا کے رسم و رواج ہمارے ایمان پر حاوی تو نہیں ہو رہے؟ کیا دنیا کے کھیل کود اور جو تمام تفریحیں ہیں اور جس کو ہم Fun سمجھتے ہیں ہمارے ایمان پر اثر انداز تو نہیں ہو رہیں؟ کیا ہمارے دعوے اور منہ کے الفاظ ہمارے عمل سے مختلف تو نہیں؟۔ ہم جو دُنیاوی تعلیم سے اپنے آپ کو آراستہ سمجھتے ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ہم صحیح کو صحیح کہنے والی اور غلط کو غلط کہنے والی ہیں اور اِس کو کہنے سے نہیں جھجکتیں، کیا حقیقت میں ہم اس پر عمل کرنے والی بھی ہیں؟ پس جب اپنے جائزے لینے کی عادت پڑے گی تو اصلاح کی طرف بھی توجہ ہو گی۔

               حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام پھر فرماتے ہیں کہ:

               ’’ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے۔ اگر کسی کی زندگی بیعت کے بعد بھی اُسی طرح کی ناپاک اور گندی زندگی ہے جیسا کہ بیعت سے پہلے تھی اور جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر بُرا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے کیونکہ وہ تمام جماعت کو بد نام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے۔ بُرے نمونے سے اَوروں کو نفرت ہوتی ہے اور اچھے نمونہ سے لوگوں کو رغبت پیدا ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 455ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پس آپؑ کا یہ خطاب جماعت کے ہر فرد مرد ،عورت، جوان، بوڑھے اور بچے کے لئے ہے۔ عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ صرف مرد ہی اس کے مخاطب ہیں۔ پاک معاشرے کے قیام کے لئے عورت کو مَردوں سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہئے کیونکہ وہ اپنے خاوندوں کے گھروں کی نگران ہے کیونکہ وہ قوم کی نئی نسل کی تربیت گاہ ہے، کیونکہ وہ جماعت کی امانت جو بچوں کی شکل میں اُن کے پاس ہے اُس کی امین ہے۔ پس مَیں عورتوں سے کہوں گا کہ اپنے گھروں کی نگرانی کا حق ادا کریں۔ نئی نسل کی تربیت کا حق ادا کریں۔ جماعت کی امانت کا امین ہونے کا حق ادا کریں اور یہ حق تبھی ادا ہو سکتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰ ۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والی بنیں گی۔ جب آپؑ کی بیعت کے مقصد کو سمجھنے والی بنیں گی۔

                اِ سی طرح مَیں نوجوان بچیوں سے بھی کہتا ہوں جو پندرہ سال سے اوپر پہنچ کر اِس معاشرے کے زیر اثر جس میں ہر جگہ فساد ہے اپنی اِنفرادیت کو بھول جاتی ہیں، اپنے مقام کو بھول جاتی ہیں ، اپنے تقدّس کو بھول جاتی ہیں کہ اپنے تقدّس اور اپنے مقام کو سمجھیں ۔ واقفا تِ نَو بچیوں نے تو دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہوا ہے اُن کے نمونے تو اعلیٰ ہونے ہی چاہئیں۔ جو بچیاں وقفِ نو میں شامل نہیں ہیں وہ یہ نہ سجھیں کہ اُن کو جماعت نظر انداز کرتی ہے۔ جماعت کی ہر بچی کا ایک تقدس ہے اِسے قائم رکھنا آپ کا فرض ہے ۔

               پس ہر احمدی بچی کا ایک مقام ہے اُس مقام کو ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے۔ بہت سی بچیاں جو اس بات کو سمجھتی ہیں اُن کے پاک نمونوں کی وجہ سے مسلمانوں میں سے بھی اور غیر مسلموں میں سے بھی اُن کی ہم عمر بچیاں اُن سے تعلق کی وجہ سے جماعت سے تعلق رکھتی ہیں اور اُس کے نتیجے میں پھر آخر کار وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو جاتی ہیں ۔

               پس اِس حقیقت کو سمجھیں کہ یہی چیز آپ کو خدا کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گی۔ پس دنیا کی خواہشات کے پیچھے دوڑنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اِس تعلق میں مضبوطی پیدا کرتی چلی جائیں۔ اپنے نیک نصیب ہونے اور نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے دُعائیں بھی کریں اور بہت دُعائیں کریں ۔ جب اﷲ تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑیں گی تو اﷲ تعالیٰ قبولیت بھی فرماتا ہے تاکہ آپ کی گودوں میں پلنے والی آئندہ نسلیں بھی اﷲ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے والی ہوں اور یہی تربیت اور خدا تعالیٰ سے تعلق ہے جو بچوں کے لئے بھی جنت کے دروازے کھلنے کا باعث بنے گی اور ماؤں کے لئے بھی جنت کے دروازے کھلنے کا باعث بنے گی۔

                اﷲ تعالیٰ سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ کی جنتوں کی وارث بنتی چلی جائیں ۔آمین۔

               اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں