حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب

حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حرم اول سے بڑے صاحبزادے تھے۔ 1852ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی چلے گئے، کچھ عرصہ دیوبند میں بھی بسلسلہ تعلیم مقیم رہے پھر سرکاری ملازمت شروع کی اور ترقی کرتے کرتے اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر اور پھر افسر خزانہ مقرر ہوئے، قائمقام ڈپٹی کمشنر بھی رہے اور پنجاب کے بعض اضلاع میں افسر محکمہ بندوبست بھی تعینات رہے ، ریاست بہاولپور میں ریونیو منسٹر کے عہدہ پر بھی مقرر ہوئے۔ گو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں رہ کر فیوض حاصل نہ کرسکے لیکن حضورؑ کے ساتھ حد درجہ عقیدت اور محبت رکھتے تھے اور دعا کی درخواست بھی کرتے رہتے تھے۔ حضرت اقدسؑ کے دعاوی پر ایمان رکھنے کے باوجود آپ نے اس لئے بیعت نہیں کی کہ آپ اپنی حالت ایسی نہیں سمجھتے تھے کہ آپ بیعت نبھا سکیں گے لیکن آپ کے صاحبزادے حضرت مرزا عزیز احمد صاحبؓ نے جب مارچ 1906ء میں حضرت اقدسؑ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔ حضور ؑ کی وفات پر آپ کو الہام ہوا تھا ’’ماتم پرسی‘‘۔ آپ حضرت مصلح موعودؓ کے دور میں بیعت کرکے حضرت اقدس علیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے بنے کہ ’’وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا‘‘۔ آپ کی سیرت کے حوالے سے ایک مضمون مکرم بشیر احمد زاہد صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ جولائی و اگست 1995ء کی زینت ہے۔
حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو اگرچہ حکومت برطانیہ نے ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا لیکن آپ یہ خطاب دوسروں کی طرح اپنے نام کے ساتھ استعمال نہ فرماتے تھے۔ ایک انگریز نے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا ’’یہ خطاب مجھے سرکار سے ملا ہے اور مرزا صاحب کا لقب باپ دادا سے ملا ہے۔ خان بہادر کا خطاب مشروط ہے اور مرزا صاحب کا خطاب غیرمشروط۔ اس لئے میں وہی خطاب عموماً اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میرے نام کے ساتھ رہا اور رہے گا‘‘۔
آپ کی تصانیف کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق 80 کے قریب ہے جبکہ آپ کی زندگی میں کوئی ایسا نامور علمی و ادبی رسالہ نہ تھا جس میں آپ کے مضامین شائع نہ ہوئے ہوں۔ آپ نے قوت تحریر اور زورِ قلم ورثہ میں پایا تھا۔ کئی دانشوروں سے آپ کے قریبی تعلقات تھے چنانچہ آپ نے اپنی تصنیف ’’فن شاعری‘‘ کو اکبر الہ آبادی اور ’’فنون لطیفہ‘‘ کو علامہ اقبال کے نام سے منسوب کیا۔ آپ کی وفات 2؍جولائی 31ء کو 80 سال کی عمر میں ہوئی اور اسی روز حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں