حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے؟
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مارچ اپریل2024ء)
سالانہ مقابلہ مضمون نویسی 2023ء میں اوّل آنے والا مضمون
(مضمون نگار: عثمان احمد علی۔ مجلس برنٹ وُڈ)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آمد کے بارہ میں قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں بہت ساری پیشگوئیاں ہیں جن میں آپؑ کی بیعت کرنے، آپؑ کو سلام پہنچانے اور آپؑ کےساتھ چمٹ جانے کا تذکرہ ہوا ہے۔
قرآن کریم میں حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا تذکرہ
فہرست مضامین
show
وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۔ (الجمعۃ4:)
ترجمہ : اور انہى مىں سے دوسروں کى طرف بھى (اسے مبعوث کىا ہے) جو ابھى اُن سے نہىں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔
اس آیت کے نزول پر صحابہؓ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ کون لوگ ہیں تو آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا:’’لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثُّرَيَّا، لَنَالَهٗ رِجَالٌ – أَوْ رَجُلٌ – مِنْ هٰؤُلَاءِ‘‘
(صحیح البخاری کتاب التفسیر، سورۃ الجمعۃ ، بَابُ قَوْلِهِ:{وآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ} ، روایت نمبر 4897)
ترجمہ: اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی ہوا تو اس (یعنی حضرت سلمان فارسیؓ کی نسل میں) سے اسے کئی افراد یا ایک شخص واپس لائے گا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سورۃ الجمعۃ کی مذکورہ بالا آیت کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں:
’’ حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْکَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رَجَلٌ مِّنْ فَارِسَ یعنی اگر ایمان ثریّا پر یعنی آسمان پر بھی اُٹھ گیا ہو گا تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اُس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہو گا۔ اس زمانہ میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اُٹھایا جائے گا۔ یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے۔ اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لیے مسیح موعود کو آنا چاہیے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے۔‘‘
(ایام الصلح ، روحانی خزائن جلد 14صفحہ 304)
وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ۔ (المرسلات12:)
ترجمہ: اور جب رسول مقررہ وقت پر لائے جائىں گے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ یہ اشارہ درحقیقت مسیح موعود کے آنے کی طر ف ہے اور اِس بات کا بیان مقصود ہے کہ وہ عین وقت پر آئے گا۔‘‘ (شہادۃ القرآن ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 319)
وَعَدَاللّٰهُ الَّذِينَ اٰمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَايُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ۔ (النور56:)
ترجمہ : تم مىں سے جو لوگ اىمان لائے اور نىک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کىا ہے کہ انہىں ضرور زمىن مىں خلىفہ بنائے گا جىسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلىفہ بناىا اور اُن کے لیے اُن کے دىن کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کىا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کى خوف کى حالت کے بعد ضرور اُنہىں امن کى حالت مىں بدل دے گا۔ وہ مىرى عبادت کرىں گے، مىرے ساتھ کسى کو شرىک نہىں ٹھہرائىں گے اور جو اُس کے بعد بھى ناشکرى کرے تو ىہى وہ لوگ ہىں جو نافرمان ہیں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ مماثلت تامہ کاملہ استخلاف محمدی ﷺ کی استخلاف موسوی سے مسیح موعود کا آنا ضروری ٹھہراتی ہے جیسا کہ آیت مندرجہ ذیل سے مفہوم ہوتا ہے یعنی آیت وَعَدَاللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ صاف بتلا رہی ہے کہ ایک مجدّد حضرت مسیح کے نام پر چودھویں صدی میں آنا ضروری ہے کیوں کہ امرِ استخلافِ محمدی امرِ استخلافِ موسوی سے اسی حالت میں اکمل اور اتم مشابہت پیدا کرسکتا ہے کہ جب کہ اول زمانہ اور آخری زمانہ باہم نہایت درجہ کی مشابہت رکھتے ہوں۔ ‘‘
(شہادۃ القرآن ،روحانی خزائن جلد6 صفحہ363-364)
احادیث میں حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بارہ میں پیشگوئیاں
احادیث میں آخری زمانہ میں مامور من اللہ کی بعثت کےبارہ میں بے شمار روایات میں سے چند ایک یوں ہیں:
أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّهِ ﷺ:كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ، وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ
(صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسی ابن مریمؑ، حدیث نمبر 3449)
حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگ کیسے ہو گے جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تم میں سے تمہارے امام ہوں گے۔
الفاظ کے فرق کے ساتھ صحیح مسلم میں یہ روایت ہے کہ : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺقَالَ:كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ؟
(صحیح المسلم، كِتَابُ الْإِيمَان، بَابُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍﷺ، حدیث نمبر 155)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لوگ کیسے ہوگے جب ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور تمہاری امامت کروائیں گے۔
أَنَّ سَعِيدَ بْنَ المُسَيِّبِ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ؓ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّهِﷺ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ، وَيَضَع الْحَرْبَ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتّٰى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتّٰى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرٌ مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا-
(صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ، كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ، بَابُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ، جلد اول، صفحہ490، قدیمی کتب خانہ، کراچی، سن اشاعت 1961ء)
سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ نےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حَکَمْ و عَدْل ہو کر تم میں نازل ہوں گے۔ پس وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جنگ کو موقوف کر دیں گے اور بکثرت مال تقسیم کریں گے یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا ومافیھا سے بہتر ہوگا۔
عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ :يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلَاثَةٌ، كُلُّهُمُ ابْنُ خَلِيفَةٍ، ثُمَّ لَا يَصِيرُ إِلٰى وَاحِدٍ مِنْهُمْ، ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلًا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ – ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهٗ فَقَالَ : فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ، فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللهِ الْمَهْدِيُّ “
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی روایت نمبر 4084)
حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تمہارے ایک خزانے کے پاس تین (شخص) لڑائی کریں گے۔ ان میں سے ہر ایک خلیفہ کا بیٹا ہوگا ۔ لیکن وہ کسی ایک کو نہیں ملے گا۔ پھر مشرق سے سیاہ جھنڈے بلند ہوں گےاور وہ تمہیں اس طرح قتل کریں گے کہ کوئی قوم اس طرح قتل نہیں کی گئی۔ پھر کچھ اوربیان کیاجو مجھے یاد نہیں۔ پھرفرمایا جب تم اس کو دیکھو تو اس کی بیعت کرو خواہ برف پر گھٹنوں کے بل چل کر کیونکہ وہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے ۔
٭ نواب صدیق حسن خان صاحب ایک روایت یوں لکھتے ہیں کہ:
در فوائد الاخبار بسند خود از مالک بن انس از محمد بن منکدر از جابر آوردہ کہ گفت رسول خدا صلعم مَنْ کَذَبَ بِالْمَہْدِیِّ فَقَدْ کَفَرَ…
(آثار القیامۃ فی حجج الکرامۃ از نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ 351)
فوائد الاخبار میں مروی ہے کہ حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ رسول خداﷺ نے فرمایا جس نے مہدی کو جھٹلایا تو اس نے کفر کیا …
٭ آنحضرتﷺ نے صرف دو ہی افراد کو سلام پہنچانے کا ارشاد فرمایا ہے۔ ایک یمن میں حضرت اویس قرنیؓ کو اور دوسرا حضرت امام مہدیؑ کو۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّهُ قَالَ:’’ إِنِّي لَأَرْجُوْ إِنْ طَالَ بِي عُمُرٌ أَنْ أَلْقٰى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتٌ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَلْيُقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ۔‘‘
(مُسْنَدُ اَحْمَدِ بْنِ حَنْبَل جلد 3 صفحہ 182 مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ،حدیث نمبر 7957 عالم الکتب بیروت)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں امید رکھتا ہوں کہ اگر میری عمر لمبی ہوئی تو میں عیسیٰ بن مریم سے ملوں گا اور اگر مجھے جلدی موت آگئی تو تم لوگوں میں سے جو شخص بھی اس کو پائے اسے میری طرف سے سلام پہنچائے۔
٭ عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ:مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً یعنی حضرت معاویہؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص امام کے بغیر مرگیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوئی۔
(مسند معاویۃ بن ابی سفیان، روایت نمبر 17000 ،
مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ 766 ، عالم الکتب بیروت 1998ء)
بانی دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب بیان کرتے ہیں:’’’ایک وقت آئے گا جب امام مہدی علیہ السلام بھی پیدا ہوں گے اور اس وقت جو اُن کی اتباع نہ کرے گا اور امام پہچان کر ان کی پیروی نہ کرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ ‘‘
(قاسم العلوم مع اردو ترجمہ انوار النجوم صفحہ 100، مترجم محمد انوارالحسن شیرکوٹی،، ناشران قرآن لمیٹڈ لاہور )
بزرگان اُمّت کی خواہش
صحابہؓ کرام اور بزرگان امت ، رسول اللہ ﷺ کا سلام پہنچانے کے لیے نہ صرف بے قرار رہے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی اس کی نصیحت کرتے رہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:’’میری جان اس پر قربان ہو۔ اے میرے بیٹو اسے تنہا نہ چھوڑ دینا اور جلدی سے اس کے ساتھ ہوجانا۔‘‘ (شرح دیوان علی جلد 2 صفحہ 97)
حضرت ابوہریرہؓ نے اپنے عزیزوں کو نصیحت کی کہ اگر تمہارے زمانے میں عیسیٰ بن مریم آجائیں تو انہیں کہنا کہ ابوہریرہ آپ کو سلام کہتا ہے۔
(الدارالمنثور جلد 2صفحہ 245)
مصنف اقتراب الساعۃ نورالحسن خان صاحب ابن نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:’ ’تم میں سے جو کوئی عیسیٰ کو پاوے وہ ان سے میرا سلام کہے یہ خطاب ہے ساری امت کو۔ میں بھی ایک فرد اسی امت کا ہوں اگر میں نے ان کو پایا تو سب سے پہلے میں ہی ان شاء اللہ سلام رسول ﷺ کا پہنچاؤں گا ورنہ میری اولاد میں سے جو کوئی ان کو پاوے بڑی حرص سے سلام نبوت کو ان تک پہنچادے تاکہ پھر لشکر کتائب محمدیہ میں سے میں ہی ہوں یا میری اولاد ہو ۔ ‘‘
(اقتراب الساعۃ از نورالحسن خان از صفحہ 194مطبوعہ مفید علم الکائنہ آگرہ، 1301ہجری)
بارھویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحب بیان کرتے ہیں:’’ اس فقیر(شاہ ولی اللہ دہلویؒ) کی بڑی آرزو ہے کہ اگر حضرت روح اللہ (علیہ السلام) کا زمانہ پاوے تو پہلا شخص جو سلام پہنچاوے وہ میں ہی ہوں۔ اور اگر وہ زمانہ مجھے نہ ملے تو میری اولاد یا متبعین میں سے جو کوئی اس مبارک زمانے کو پاوے وہ (رسول اللہ ﷺ کے) سلام پہنچانے کی بہت آرزو کرے کیونکہ ہم لشکر محمدیہ کے آخری لشکر میں سے ہوں گے۔‘‘
(مجموعہ وصایا اربعہ صفحہ 84 وصیت ہشتم، اکادیمیۃ الشاہ ولی اللہ الدھلوی، 1964ء )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی امر کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:’’ اگر تم ایماندار ہو تو شکر کرو اور شکر کے سجدات بجا لاؤ کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس کے شوق میں ہی سفر کر گئیں وہ وقت تم نے پا لیا۔ اَب اس کی قدر کرنا یانہ کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 7)
ایک اور جگہ حضورؑ بیان فرماتے ہیں: ’’اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام نبیوں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا جس کے دیکھنے کے لیے بہت سے پیغمبروں نے بھی خواہش کی تھی۔ اس لیے اب اپنے ایمانوں کو خوب مضبوط کرو اور اپنی راہیں درست کرو اپنے دلوں کو پاک کرو اور اپنے مولیٰ کو راضی کرو۔ ‘‘ (اربعین نمبر4، روحانی خزائن جلد17 صفحہ442)
ان حوالہ جات سے یہ امر بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور آمد قرآن کریم، نبی کریمﷺ کے اقوالِ مبارکہ، بزرگانِ سلف کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تھی۔ اب جو بھی مسلمان قرآن کریم کو مانتا ہے اور نبی کریمﷺ کی پیروی کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ حضرت اقدسؑ پر اور آپؑ کے دعاوی پر ایمان لائے۔ جس شخص کی بعثت کا اتنا زیادہ تذکرہ ہو اور تیرہ سو سال کے بزرگانِ سلف بھی اس کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوگئے ہوں تو وہ شخص کتنا ہی عظیم المرتبت اور بلند شان والا ہوگا۔
انبیاء علیہم السلام اور حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا مقصد
انبیاء علیہم السلام کی آمد کا جو مقصد تھا وہی حضرت اقدسؑ کی آمد کا تھا اور جو آپؑ کو ردّ کرتا ہے گویا وہ تمام انبیاء کو ردّ کرتا ہے۔ حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:’’انبیاء علیہم السلام کے دنیا میں آنے کی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جو انہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں نجات پائیں۔ حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد اُن کے آگے ہوتا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلددوم صفحہ 352-353 ایڈیشن 2022ء)
نیز فرمایا:’’ جو شخص اُترنے والا تھا وہ عین وقت پر اُتر آیا اور آج تمام نوشتے پورے ہو گئے۔ تمام نبیوں کی کتابیں اِسی زمانہ کا حوالہ دیتی ہیں …… تمام نشانوں کے بعد جو شخص مجھے ردّ کرتا ہے وہ مجھے نہیں بلکہ تمام نبیوں کو ردّ کرتا ہے اور خداتعالیٰ سے جنگ کر رہا ہے۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کے لیے بہتر تھا۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 24-25)
مخالفین اور مکفّرین کا تذکرہ کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’ جو لوگ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کے مرسل کو نہیں مانتے وہ خدا تعالیٰ کی عدولِ حکمی کرتے ہیں… اِس زمانہ کے لوگ جو نہ صرف ہمارے مخالف ہیں بلکہ ہم کو کافر قرار دیتے ہیں وہ بموجب حدیث نبویؐ مومن کو کافر کہہ کر خود کافر بنتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 194 ایڈیشن 2022ء)
نیز فرمایا:’’میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاللہ، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 242 ایڈیشن 2022)
حضرت اقدسؑ کی بعثت سے قبل زمانہ بزبانِ حال خود ایک مصلح اور موعود کو پکار رہا تھا۔ چنانچہ علامہ سید ابوالحسن ندوی صاحب اپنی تصنیف ’’تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اس وقت ایک ایسے شخص اور جماعت کی ضرورت تھی جو دین و علم اور صلاحیتوں کے اس بچے کھچے سرمائے سے وقت پر کام لے لے اوراس کو ٹھکانے لگائے، جو خانقاہوں کا حال اور درسگاہوں کا قَالْ،وہاں کی حرارت اور یہاں کی روشنی سارے ملک میں عام کردے، جس کے جَلْو میں چلتی پھرتی خانقاہیں ہوں اور دوڑتے بھاگتے مدرسے،گھوڑوں کی پیٹھ پر عالِم ہوں اور مِحرابوں میں مجاہد۔جو دلوں کی بجھتی ہوئی انگیٹھیاں دوبارہ دَہکا دے …ہر پُرزے کو دین کی مشین میں لگائے اور اپنی اصلی جگہ پر جمائے ،پھر ہٹی ہوئی چُوْل کوا پنی جگہ پر لاکر ساری مشین کو اس طرح حرکت دے کہ زندگی کا پورا محور گھوم جائے۔ جو شخص ان اوصاف کا جامع ہو اس کو اسلام کی بلیغ و مُعْجَزْ اصطلاح میں ’’اِمام‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جگہ تیرھویں صدی کے تمام اہل کمال اور مشاہیر رِجَال کی موجودگی میں خالی تھی۔‘‘
(تاریخ دعوت و عزیمت حصہ ششم جلد اول صفحہ 83-84 مطبوعہ مجلس نشریات اسلام کراچی ایڈیشن 2005)
حضرت اقدسؑ کی بعثت ضرورتِ زمانہ کے مطابق ہوئی۔آپؑ نے مختلف جگہوں پر اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا ہے:
’’توحید حقیقی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عفّت، عزّت او ر حقّانیت اور کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے پر ظلم اور زُورکی راہ سے حملے کیے گئے ہیں توکیا خدا تعالیٰ کی غیرت کا تقاضا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کاسرالصلیب کو نازل کرے؟ کیا خداتعالیٰ اپنے وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ (الحجر10:) کو بھول گیا؟ یقیناً یادرکھو کہ خدا کے وعدے سچے ہیں۔ اس نے اپنے وعدہ کے موافق دنیا میں ایک نذیر بھیجا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 190 ایڈیشن 2022ء)
’’ مَیں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خدا تعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کر کے دکھلاؤں کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے…… میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کازمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ ‘‘
(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 291تا 293حاشیہ)
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راستبازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تاکہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریّت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو کچھ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 251)
’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لیے بھیجا کہ تا مَیں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور و ہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں۔‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143)
’’میرے آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی۔ یعنی مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف راہبری کرتا ہوں۔ ‘‘ ( ملفوظات جلددوم صفحہ 353ایڈیشن 2022ء )
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لیے میں دنیا میں بھیجا گیا۔ ‘‘ (رسالہ الوصیت،روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306-307)
حضرت اقدسؑ کی بیعت کرنے والے جن چیزوں سے امن میں ہیں اور جن چیزوں میں وہ ترقی کرتے ہیں
وہ خوش قسمت جنہوں نے آپؑ کو مسیح موعودؑ مان لیا، کن خطرناک چیزوں سے امن اور سلامتی میں ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’ یہ بات نہایت صاف اور روشن ہے کہ جنہوں نے اس عاجز کا مسیح موعود ہونا مان لیا ہے وہ لوگ ہر یک خطرہ کی حالت سے محفوظ اور معصوم ہیں اور کئی طرح کے ثواب اور اجر اور قوتِ ایمانی کے وہ مستحق ٹھہر گئے ہیں۔
اوّل یہ کہ انہوں نے اپنے بھائی پرحُسنِ ظن کیا ہے اور اس کو مفتری یا کذّاب نہیں ٹھہرایا اور اس کی نسبت کسی طرح کے شکوک فاسدہ کو دل میں جگہ نہیں دی۔ اس وجہ سے اس ثواب کا انہیں استحقاق حاصل ہوا کہ جو بھائی پر نیک ظن رکھنے کی حالت میں ملتا ہے۔
دوسری یہ کہ وہ حق کے قبول کرنے کے وقت کسی ملامت کنندہ کی ملامت سے نہیں ڈرے اور نہ نفسانی جذبات اُن پر غالب ہو سکے۔ اِس وجہ سے وہ ثواب کے مستحق ٹھہر گئے کہ انہوں نے دعوتِ حق کو پا کر ایک ربّانی مناد کی آواز سُن کر پیغام کو قبول کر لیا اور کسی طرح کی روک سے رُک نہیں سکے۔
تیسری یہ کہ پیشگوئی کے مصداق پر ایمان لانے کی وجہ سے وہ ان تمام وساوس سے مخلصی پا گئے کہ جو انتظار کرتے کرتے ایک دن پیدا ہو جاتے ہیں اور آخر یاس کی حالت میں ایمان دُور ہو جانے کا موجب ٹھہرتے ہیں اور ان سعید لوگوں نے نہ صرف خطرات مذکورہ بالا سے مَخلصی پائی بلکہ خدائے تعالیٰ کا ایک نشان اور اس کے نبیؐ کی پیشگوئی اپنی زندگی میں پوری ہوتی دیکھ کر ایمانی قوت میں بہت ترقی کر گئے اور ان کے سماعی ایمان پر ایک معرفت کا رنگ آگیا۔ اب وہ ان تمام حیرتوں سے چھوٹ گئے جو اِن پیشگوئیوں کے بارے میں دلوں میں پیدا ہوا کرتی ہیں جو پوری ہونے میں نہیں آتیں۔
چوتھی یہ کہ وہ خدائے تعالیٰ کے بھیجے ہوئے بندہ پر ایمان لا کر اُس سُخط اور غضبِ الٰہی سے بچ گئے جو ان نافرمانوں پر ہوتا ہے کہ جن کے حصّہ میں بجز تکذیب و انکار کے اَور کچھ نہیں۔
پانچویں یہ کہ وہ ان فیوض اور برکات کے مستحق ٹھہر گئے جو ان مخلص لوگوں پر نازل ہوتے ہیں جوحسنِ ظن سے اُس شخص کو قبول کر لیتے ہیں کہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔
یہ تو وہ فوائد ہیں کہ جو ان شاء اللہ الکریم ان سعید لوگوں کو بفضلہ تعالیٰ ملیں گے جنہوں نے اِس عاجز کو قبول کر لیا ہے لیکن جو لوگ قبول نہیں کرتے وہ اُن تمام سعادتوں سے محروم ہیں اور اُن کا یہ وہم بھی لغو ہے کہ قبول کرنے کی حالت میں نقصانِ دین کا اندیشہ ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 186-187)
’’جو شخص مجھے قبول کرتا ہے وہ تمام انبیاء اور اُن کے معجزات کو بھی نئے سرے قبول کرتا ہے۔ اور جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا اس کا پہلا ایمان بھی کبھی قائم نہیں رہے گا۔ کیونکہ اس کے پاس نرے قصّے ہیں نہ مشاہدات۔ خدانمائی کا آئینہ مَیں ہوں جو شخص میرے پاس آئے گا اور مجھے قبول کرے گا وہ نئے سرے اُس خدا کو دیکھ لے گا جس کی نسبت د وسرے لوگوں کے ہاتھ میں صرف قصّے باقی ہیں۔ ‘‘
(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 462-463)
’’مَیں ہر ایک مسلمان کی خدمت میں نصیحتًا کہتا ہوں کہ اسلام کے لیے جاگو کہ اسلام سخت فتنہ میں پڑا ہے۔ اس کی مدد کرو کہ اب یہ غریب ہے اور مَیں اسی لیے آیا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے علمِ قرآن بخشا ہے اور حقائق معارف اپنی کتاب کے میرے پر کھولے ہیں اور خوارق مجھے عطا کیے ہیں۔ سو میری طرف آؤ تا اس نعمت سے تم بھی حصّہ پاؤ۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘
(برکات الدعاء، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 36-37)
’’ اِس تاریکی کے زمانہ کا نور مَیں ہی ہوں۔ جو شخص میری پیروی کرتا ہے وہ ان گڑھوں اور خندقوں سے بچایا جائے گا جو شیطان نے تاریکی میں چلنے والوں کے لیے تیار کیے ہیں۔ مجھے اس نے بھیجا ہے کہ تا مَیں امن اورحلم کے ساتھ دنیا کو سچّے خدا کی طرف رہبری کروں اور اسلام میں اخلاقی حالتوں کو دوبارہ قائم کر دوں۔ ‘‘
(مسیح ہندوستا ن میں ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ13)
’’ اس زمانہ کا حصن حصین مَیں ہوں۔ جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا۔ مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت درپیش ہے اور اس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی۔ مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کجی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندۂ مطیع بن جاتا ہے۔ ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں ہے اور مَیں اُس میں ہوں۔ ‘‘ (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 34-35)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خود اس امر کی وضاحت فرمانا کہ آپؑ پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے
25؍اکتوبر 1905ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی میں مقیم تھے۔ چند مولوی اور طلبہ آئے۔ حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں۔ روزے رکھتے ہیں۔ قرآن اور رسول کو مانتے ہیں۔آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا :’’ انسان جو کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتا ہے وہ سب موجبِ معصیت ہوجاتا ہے۔ ایک ادنیٰ سپاہی سرکار کی طرف سے کوئی پروا نہ لے کر آتا ہے تو اس کی بات نہ ماننے والا مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا پاتا ہے۔ مجازی حکام کا یہ حال ہے تو احکم الحاکمین کی طرف سے آنے والے کی بےعزتی اور بے قدری کرنا کس قدر عدولِ حکمی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خدا تعالیٰ غیور ہے۔ اس نے مصلحت کے مطابق عین ضرورت کے وقت بگڑی ہوئی صدی کے سر پر ایک آدمی بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائے۔ اس کے تمام مصالح کو پاؤں کے نیچے کچلنا ایک بڑا گناہ ہے۔ کیا یہودی لوگ نمازیں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ بمبئی کے ایک یہودی نے ہم کو لکھا کہ ہمارا خد ا وہی ہے جو مسلمانوں کا خدا ہے اور قرآن شریف میں جو صفات بیان ہیں وہی صفات ہم بھی مانتے ہیں۔ تیرہ سو برس سے اب تک ان یہودیوں کا وہی عقیدہ چلا آتا ہے مگر باوجود اس عقیدہ کے ان کو سؤر اور بندر کہا گیا۔ صرف اس واسطے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانا۔ انسان کی عقل خدا کی مصلحت سے نہیں مل سکتی۔ آدمی کیا چیز ہے جو مصلحتِ الٰہی سے بڑھ کر سمجھ رکھنے کا دعویٰ کرے۔ خدا کی مصلحت اس وقت بدیہی اور اجلیٰ ہے۔ اسلام میں سے پہلے ایک شخص بھی مرتد ہوجاتا تھا تو ایک شور بپا ہوجاتا تھا۔ اب اسلام کو ایسا پاؤں کے نیچے کچلا گیا ہے کہ ایک لاکھ مرتد موجود ہے۔ اسلام جیسے مقدس مطہر مذہب پر اس قدر حملے کیے گئے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں کتابیں آنحضرت کو گالیاں سے بھری ہوئی شائع کی جاتی ہیں۔ بعض رسالے کئی کروڑ تک چھپتے ہیں۔ اسلام کے برخلاف جو کچھ شائع ہوتا ہے اگر سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک بڑا پہاڑ بنتا ہے۔ مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ گویا ان میں جان ہی نہیں اور سب کے سب مر ہی گئے ہیں۔ اس وقت اگر خدا بھی خاموش رہے تو پھر کیا حال ہوگا۔ خدا کا ایک حملہ انسان کے ہزار حملہ سے بڑھ کر ہے اور وہ ایسا ہے کہ اس سے دین کا بول بالا ہو جائے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ 19-20 ایڈیشن 2022ء)
اسی شام کو حضرت اقدسؑ نے مصلح کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام پر یہ کیسا مصیبت کا زمانہ ہے۔ اندرونی مصائب بھی بے انتہا ہیں اور بیرونی بھی بے حد ہیں۔ پھر یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت کسی مصلح کی ضرورت نہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نمازیں پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں پھر ہم کو کسی مصلح کی کیا ضرورت ہے مگر نہیں سمجھتے کہ جب تک خدا کی رحمت نہ ہو وہ رقت اور درد پیدا نہیں ہو سکتا جو انسان کے دل کو صاف کرتا ہے۔ چاہیے کہ بہت دعائیں کریں۔ صرف بحث کرنے والا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ وہ نہیں دیکھتے کہ اسلام پر کس طرح کے مصائب نازل ہیں۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کو گویا خدا نے فراموش کر دیا ہے۔ دہلی کے لوگ ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ لڑنے کو آئے ہیں۔ حق طلبی کا انہیں خیال نہیں۔ حلق کے نیچے بات تب اترتی ہے جب حلق صاف ہو۔ دوائی کا بھی یہی حال ہے کہ جب تک حلق صاف نہ ہو اور معدہ بھی صاف نہ ہو دوائی کا اثر نہیں ہو سکتا۔ دوائی قے ہو جاتی ہے یا ہضم نہیں ہوتی۔‘‘
(ملفوظات جلد8 صفحہ 24 ایڈیشن 2022ء)
27 ؍اکتوبر 1905ء کو چند مولوی اور مدرسہ طِبّیہ کے طالب علم حضرت اقدسؑ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ مختلف امور کی بابت گفتگو ہوئی۔ ایک طالب علم نے آپؑ سے سوال کیا : آپ کے مخالف کو کافر کیوں کہا جائے گا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:’’کفر کے معنے ہیں انکار کرنا۔ جب یہ لوگ مامور من اللہ کو نہیں مانتے اور گالیاں دیتے ہیں اور انکار کرتے ہیں تو بات یہاں تک نہیں رہتی بلکہ ایک فتح الباب ہوتا ہے اور زبان کھل جاتی ہے اور رفتہ رفتہ توفیق اعمال کی جاتی رہتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 40 ، ایڈیشن 2022ء)
27 ؍اکتوبر 1905ء کو پھر حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ جب ہم لوگ نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں اور شریعت کے دیگر امور کی پیروی کرتے ہیں تو صرف آپ کو نہ ماننے کے سبب کیا حرج ہو سکتا ہے؟ حضرت اقدس ؑنے فرمایا:’’میں نے اس بات کا جواب کئی دفعہ دیا ہے۔ ہم قال اللہ اور قال الرسول کو مانتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ کی وحی کو مانتے ہیں۔ میرا آنا اللہ اور رسولؐ کے وعدے کے مطابق ہے۔ جو شخص خدا اور رسول کی ایک بات مانتا ہے اور دوسری نہیں مانتا وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ میں خدا پر ایمان لاتا ہوں ۔ یہ تو وہ بات ہے جو قرآن شریف میں تذکرہ ہے کہ وہ لوگ بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض پر ایمان نہیں لاتے۔ ورنہ در اصل ایمان نہیں۔ ایک خدا اور اس کے رسول کا موعود اپنے وقت پر آیا، صدی کے سر پر آیا، نشانات لایا، عین ضرورت کے وقت آیا، اپنے دعویٰ کے دلائل صحیح اور قوی رکھتا ہے۔ ایسے شخص کا انکار کیا ایک مومن کا کام ہے؟ یہودی موحد کہلاتے تھے۔ اب تک ان کا دعویٰ ہے کہ ہم توحید پر قائم ہیں۔ نماز پڑھتے، روزہ رکھتے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ مانتے۔ اسی سبب کافر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک حکم فرمودہ رسول کی ایک بات کا بھی جو شخص انکار کرتا ہے اور اس کے مخالف ضد کرتا ہے وہ کافر ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ان لوگوں کی غلطی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم نماز روزہ ادا کرتے ہیں اور تمام اعمالِ حسنہ بجا لاتے ہیں، ہمیں کیا ضرورت ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ اعمالِ حسنہ کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ ہر قسم کے شرک انفسی آفاقی کا نکالنا؛ خلوص، لذّت اور احسان کے ساتھ عبادت بجا لانا یہ کوئی اختیاری بات نہیں ہے۔ اس کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی نہایت ہی ضروری ہے۔ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بن جائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ نیک اعمال کی توفیق فضلِ الٰہی پر موقوف ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہو اندر کی آلودگیاں دور نہیں ہوسکتیں۔ جب کوئی شخص نہایت درجہ کے صدق اور اخلاص کو اختیار کرتا ہے تو ایک طاقت آسمانی اس کے واسطے نازل ہوتی ہے۔ اگر انسان سب کچھ خود کر سکتا تو دعاؤں کی ضرورت نہ ہوتی۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے: میں اس شخص کو راہ دکھاؤں گا جو میری راہ میں مجاہدہ کرے۔ یہ ایک باریک رمز ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو خدا آنکھیں دے۔ اور تم سب مردے ہو مگر وہ جس کو خداتعالیٰ زندگی دے۔ دیکھو یہودیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ مثل گدھوں کے ہیں جن پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ ایسا علم انسان کو کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ جب تک دل آراستہ نہ ہو ہدایت اور سکینت نازل نہیں ہوتی۔ شیطان سے مناسبت آسان ہے مگر ملائک سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں اوپر کو چڑھنا ہے اور اس میں نیچے گرنا ہے۔ نیچے گرنا آسان ہے مگر اوپر چڑھنا بہت مشکل ہے۔ یہ مقام تب حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان در حقیقت پاک ہو کر محبت الٰہی کو اپنے اندر داخل کر لیتا ہے۔ لیکن اگر یہ امر آسان ہوتا تو اولیاء ابدال، غوث اور اقطاب ایسے کمیاب کیوں ہوتے؟ بظاہر تو وہ سب عام لوگوں کی مانند نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں مگر فرق صرف توفیق کا ہے۔ ان لوگوں نے کسی قسم کی شوخی اور کجروی نہ کی بلکہ خاکساری کا راہ اختیار کیا اور مجاہدات میں لگ گئے۔ جو شخص دنیوی حکام کے بالمقابل شوخی کرتا ہے وہ بھی ذلیل کیا جاتا ہے۔ پھر اس کا کیا حال ہو گا جو خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے حکم کے ساتھ شوخی اور گستاخی سے پیش آتا ہے۔ آنحضرت ﷺ دعا کیا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طُرْفَۃَ عَیْنٍ۔ یا اللہ مجھے ایک آنکھ جھپکنے تک بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر۔
اب ان لوگوں کے تقویٰ کے حال کو دیکھنا چاہیے۔ میں ان کے سامنے آیا۔ میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے۔ کیا انہوں نے میرے معاملہ میں تدبر کیا؟ کیا انہوں نے میری کتب کا مطالعہ کیا؟ کیا یہ میرے پاس آئےکہ مجھ سے سمجھ لیں؟ صرف لوگوں کے کہنے کہلانے سے بے ایمان، دجّال اور کافر مجھے کہنا شروع کیا اور کہا کہ یہ واجب القتل ہے۔ بغیر تحقیقات کے انہوں نے یہ سب کارروائی کی اور دلیری کے ساتھ اپنا منہ کھولا۔ مناسب تھا کہ میرے مقابلہ میں یہ لوگ کوئی حدیث پیش کرتے۔ میرا مذہب ہے کہ آنحضرتﷺ سے ذرا ادھر ادھر جانا بے ایمانی میں پڑنا ہے لیکن کیا اس کی پہلے کوئی نظیر دنیا میں موجود ہے کہ ایک شخص25سال سے خدا پر افترا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ ہر روزاس کی تائید اور نصرت کرتا ہے۔ وہ اکیلا تھا اور خدا تعالیٰ نے تین لاکھ آدمی اس کے ساتھ شامل کر دیا۔ کیا تقویٰ کا حق ہے کہ اس کے مخالف بے ہودہ شور مچایا جاوے اور اس کے معاملہ میں کوئی تحقیقات نہ کی جاوے۔ وفات مسیح پر قرآن ہمارے ساتھ ہے۔ معراج والی حدیث ہمارے ساتھ ہے۔ صحابہؓ کا اجماع ہمارے ساتھ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تم حضرت عیسیٰؑ کو وہ خصوصیت دیتے ہو جو دوسرے کے لیے نہیں۔ مجھے ایک بزرگ کی بات بہت ہی پیاری لگتی ہے اس نے لکھا ہے کہ اگر دنیا میں کسی کی زندگی کا میں قائل ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا قائل ہوتا۔ دوسرے کی زندگی سے ہم کو کیا فائدہ؟تقویٰ سے کام لو۔ ضد اچھی نہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 43تا 46 ، ایڈیشن2022ء)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں یعنی محمد ﷺ کے نقطۂ نگاہ سے میں امتی ہوں مگر تم لوگوں کے نقطۂ نگاہ سے میں نبی ہوں۔ جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے۔ جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اسی طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہو گی۔‘‘
(خطبات محمود جلد 21 صفحہ 271-272 خطبہ جمعہ فرمودہ 26جولائی 1940ء)
پس یہ ہیں وہ باتیں جن کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ آپؑ پر ایمان لائیں۔ جو آپؑ پر ایمان لاچکے ہیں اُن کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان میں اضافے کے لیے ان باتوں کو پیش نظر رکھیں اور حضرت اقدسؑ نے جو ہم احمدیوں سے توقعات وابستہ رکھی ہیں اُن پر کاربند رہیں۔
اس کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرماتے ہیں:
’’ہر احمدی کو، ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے تو کیا اس ماننے اور بیعت کا حق ادا کرنے والے بھی ہیں؟ اکثر میرے جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو نمازیں بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ نمازوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہے۔ استغفار کی طرف تو بعضوں کی بالکل توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ اگر یہ حالت ہے تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرے نہ مان کر گناہگار ہو رہے ہیں۔ جنہوں نے نہیں مانا اور انکار کیا وہ گناہگار ہورہے ہیں۔ اور ہم مان کر پھر اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کر کے، ایک عہد کر کے پھر اسے پورا نہ کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو رہے ہیں۔ پس بڑی فکر سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم صرف رسمی طور پر یومِ مسیحِ موعود منانے والے نہ ہوں بلکہ مسیح موعود کو قبول کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے بچنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور ہر بلا اور ہر مشکل سے بچائے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل مورخہ13اپریل 2018ء تا 19اپریل 2018 ء ۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 23 مارچ 2018ء)