حضرت مولوی فتح علی صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت مولوی فتح علی صاحبؓ آف دولمیال (ضلع چکوال) دیگر دو افراد کے ہمراہ پہلی بار قادیان کیلئے تشریف لے گئے اور کئی رکاوٹوں کے بعد وہاں پہنچ پائے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک سے نظر ہٹتی ہی نہیں تھی اور حضورؑ کے ارشادات سننے کیلئے ہم ایسے ہمہ تن گوش تھے کہ آس پاس کی بھی کچھ خبر نہ تھی۔ حضورؑ نے آپ کی خواہش پر قرآن شریف سیکھنے کے لئے اور آپ کے ساتھی حضرت مولوی کرمداد صاحبؓ کی خواہش پر ان کو حکمت سیکھنے کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی شاگردی میں دیدیا۔
حضرت مولوی فتح علی صاحبؓ خالصہ ہائی سکول چکوال میں فارسی کے استاد تھے اور احمدیہ مسجد میں امام ا لصلوٰ ۃ بھی تھے۔ جن دنوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ سول ہسپتال چکوال میں سرجن تھے تو حضرت مولوی صاحبؓ کو حضرت سیدہ چھوٹی آپا کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت مولوی صاحبؓ کو 1904ء میں بمعہ اہل و عیال قادیان جا کر دستی بیعت کرنے کی توفیق ملی اور پھر ہر سال معہ بچگان قادیان کے جلسہ پر جاتے رہے۔ دوالمیال والوں کو چونکہ ریل گاڑی لینے کے لئے پہاڑی علاقہ پر دس گیارہ میل چلنا پڑتا تھا اور ایسے میں بستر لے جانا بہت مشکل ہوتا تھا اس لئے ان لوگوں کی درخواست پر حضرت مسیح موعودؑ بستر خود مہیا فرمایا کرتے تھے۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں ہم نے عرض کی کہ ہماری مسجد کے ایک قدیم امام حضورؑ کے معتقد ہیں لیکن غیروں کی بھی گاہ بگاہ جنازوں میں یا نماز میں اقتداء کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ حضورؑ کی خدمت میں یہ الفاظ بھی لکھوائے کہ میں حضرت صاحبؑ کے کتوں کا غلام ہوں، اگر کسی وقت جہالت یا نادانی سے کمی بیشی ہو گئی ہو تو فی سبیل اللہ معاف کردیں۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا: جب وہ اب تک دنیا کی لالچ یا خوف سے غیروں کے پیچھے نماز یا جنازہ پڑھتا ہے تو کب اس نے ہم کو مانا۔ آپ اس کے پیچھے نماز مت پڑھا کریں۔
حضرت مولوی فتح علی صاحبؓ کا ذکر خیر آپؓ کے نواسے محترم مبشر احمد صاحبؓ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍ اکتوبر 1996ء کی زینت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں