خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز16؍ستمبر2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
صدر صاحب خدام الاحمدیہ جرمنی کی خواہش کے مطابق میں آج اس وقت آپ سے مخاطب ہوں۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے شاید پہلی دفعہ اطفال الاحمدیہ جرمنی سے اجتماع پہ اس طرح براہِ راست مخاطب ہوں۔ بہرحال اطفال الاحمدیہ جماعت احمدیہ کی ایک ایسی تنظیم ہے جس پر مستقبل کا انحصار ہے۔ آج کے بچے کل کے نوجوان اور قوم کے راہنما ہوتے ہیں۔ پس اسی لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے جب مختلف تنظیمیں قائم فرمائیں تو خدام الاحمدیہ سے نیچے بچوں کی بھی ایک تنظیم قائم فرمائی جو اطفال الاحمدیہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ا س میں اطفال کے بھی دو معیار، ایک صغیر اور ایک کبیر ہیں۔ ایک سات سے دس یا بارہ سال کی عمر کے بچے اور ایک بارہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچے اور پھر اس کے بعدآگے خدام الاحمدیہ ہے۔ پس اطفال الاحمدیہ ایک بہت اہم تنظیم ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے جب تمام تنظیمیں قائم فرمائیں تو ان کے سامنے یہ بات تھی کہ قوم کا، جماعت کا ہر بچہ، جوان، بوڑھا، عورت، مرد اس قابل ہو جائے کہ وہ جماعت کی ذمہ داریاں کو سنبھال سکے۔ جماعت کے جو مقاصد ہیں ان کو پورا کرنے والا بنے۔ بہت سارے بچے جو دس بارہ سال سے اوپر کی عمر کے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوش میں ہیں اور جانتے ہیں کہ کیا اچھا ہے، کیا برا ہے۔ وہ اپنی ذمہ داریاں کو سمجھ سکتے ہیں اور آج کل جو سکولوں میں تعلیم دی جاتی ہے اس نے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی ذہنوں کو روشن کردیا ہے۔ پس آپ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آگے جاکے جماعت کے کام سنبھالنے ہیں۔ ابھی آپ نے نظم سنی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:
’’ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو‘‘۔
وہ گزر گئے۔ ہمارے بزرگ چلے گئے۔ موجودہ قیادت جو ہے اس نے بھی چلے جانا ہے۔ پھر جو ترقی کرنے والی قومیں ہوتی ہیں ، ترقی کرنے والی جماعتیں ہوتی ہیں وہ ایک نسل کے چلے جانے کے بعد وہیں کھڑی نہیں ہو جایا کرتیں بلکہ ان کے قدم آگے بڑھتے ہیں۔ اور وہ قدم آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک بچے اپنی ذمہ داریاں نہیں سمجھتے، جب تک بارہ سال کی عمر کے بچے، تیرہ سال کی عمر کے بچے، دس سال کی عمر کے بچے اپنے مقصد کو نہیں سمجھتے۔
پس آپ لوگ جو کہنے کو تو آج بچے ہیں لیکن آپ کے چہروں میں مجھے آئندہ کے مستقبل کے لیڈر نظر آرہے ہیں۔ جماعت کو سنبھالنے والے وہ عہدے دار نظر آرہے ہیں جنہوں نے انشاء اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر جماعت کی ترقی میں کردار ادا کرنا ہے۔ پس آپ لوگ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی احمدی بچہ ،کوئی احمدی طفل اس لئے پیدا نہیں کیا گیاکہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔ اس کی زندگی کا ایک مقصد ہے۔ ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی کا ایک مقصد رکھا ہے اور سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صحیح بندے بن کے رہو۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرو۔ پس آپ لوگ ابھی سے اس بات کو سمجھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ مستقبل میں جماعت کی ترقی کے لئے،جماعت کی قیادت کے لئے بھی ،ملک کی ترقی کے لئے بھی،ملک کی قیادت کے لئے بھی اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔
پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ عموماً بچے دس بارہ سال ،تیرہ سال،چودہ سال کی عمر تک جماعت سے بڑا تعلق رکھتے ہیں۔ مجالس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اجلاسوں میں بھی آتے ہیں۔ ڈیوٹیاں بھی دیتے ہیں لیکن بہت سے ماں باپ مجھے لکھتے ہیں کہ پتا نہیں ہمارے بچے کوکیا ہوا ہے۔ پندرہ سال کی عمر کو پہنچا ہے، سولہ سال کی عمر کو پہنچا ہے۔ سکول جانے لگا ہے اور باہر کے لڑکو ں سے دوستی ہونے لگی ہے تو نہ اب نمازوں کی طرف توجہ ہے، نہ مجلس کے کاموں کی طرف توجہ ہے،نہ گھر میں ماں باپ کا کہنا ماننے کی طرف توجہ ہے۔ ماں باپ کا توجو قصور ہے وہ ہوگا ہی لیکن بچوں کوتو اس لئے بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آ پ لوگ اگر ان باتوں پر عمل نہیں کریں گے تو آئندہ جماعت کی جو قیادت ہے، جماعت کی جو لیڈر شپ ہے اس کو کس طرح سنبھالیں گے۔ پس ہر بچہ جواب بارہ سال کی عمر کو پہنچا ہوا ہے ،دس سال کی عمر کو پہنچا ہوا ہے، ہوش و حواس میں ہے اس کو یہ یاد رکھنا چاہئے اور خاص طور پہ جب آپ پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں اور خدام الاحمدیہ میں داخل ہوتے ہیں تواس وقت یہ یاد ر کھیں کہ آپ کی جو preferencesہیں ، جو ترجیحات ہیں وہ بدل نہیں جاتیں۔ اب بھی آپ کا وہی کام ہے کہ جماعت کیساتھ پختہ تعلق رکھیں۔ اطفال الاحمدیہ کے ساتھ پختہ تعلق رکھیں۔ اپنے ماں باپ اور گھر والوں کیساتھ ایک ایسا تعلق رکھیں جس سے پتہ لگے کہ احمدی بچے اور غیراحمدی بچے میں یہ فرق ہے۔ بہت سارے بچے ہیں (مَیں تو اکثر پوچھتا رہتا ہوں) جو انٹر نیٹ اور ٹی۔ وی کا استعمال بہت زیادہ کرنے لگ گئے ہیں۔ ٹی۔ وی پر کارٹون دیکھنا ہے تو اگر کوئی شریفانہ کارٹون (خیر کارٹون تو شریفانہ ہی ہوتے ہیں) آرہے ہیں تو دیکھیں لیکن ایک گھنٹہ، آدھا گھنٹہ ، پونا گھنٹہ۔ کوئی تھوڑا سا معین وقت ہونا چاہئے۔ یہ نہیں ہے کہ ہفتہ اتوار جو چھٹی کا دن ہے اس میں صبح سے بیٹھے تو شام ہو گئی اور شام سے بیٹھے تو رات بارہ بج گئے اور ماں کہہ رہی ہے کہ آئو بچوکھانا کھا لو لیکن کوئی پرواہ نہیں۔ یہ کام کر دو توکوئی پرواہ نہیں۔ اور ٹی۔ وی کے سامنے بیٹھے ہوئے دیکھتے چلے جارہے ہیں۔ ایک craze جس کو کہتے ہیں ناں انگلش میں وہ ہو گیاہے اور دماغ ایسا بالکل ہی خراب ہو جاتا ہے کہ صبح سے شام تک یہی حال رہتا ہے۔ اسی طرح چودہ پندرہ سال کی عمر میں بچوں نے انٹر نیٹ پہ بیٹھنا شروع کر دیا ہے اور اگر انٹر نیٹ کا ماں باپ کو علم نہیں اور صحیح طرح سے بعض sitesلاک نہیں کی ہوئیں تو وہ غلط جگہوں پہ بھی چلے جاتے ہیں۔ پھر ساری تربیت جو چودہ پندرہ سال تک ماں باپ نے بھی اورجماعت نے بھی اور ذیلی تنظیم نے بھی کی ہوتی ہے وہ ساری تربیت ضائع ہو جاتی ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر بڑے کوئی بات آپ کو کہتے ہیں توآپ کے فائدے کے لئے، آپ کی ہمدردی کے لئے کہتے ہیں۔ آپ کے نقصان کے لئے نہیں کہتے۔ یہ نہ سمجھیں کہ اس ملک میں آزادی ہے توہم جو مرضی چاہے کریں۔ ہم اب چودہ سال کے، پندہ سال کے ہو گئے ہیں ،ہم پڑ ھے لکھے ہیں ہمارے والدین کو کیا پتا؟ ان کی تو تعلیم ہی کوئی نہیں۔ گو وہ نسل بھی اب ختم ہو رہی ہے بلکہ اکثر کے ماں باپ جو پچھلے اٹھائیس تیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں وہ پڑھے لکھے ہی ہیں لیکن تب بھی نئی نسل کو اورنوجوانوں کو جب teenageپہ آتے ہیں تو ایک وہم ہوتا ہے کہ شاید ہم عقلمند ہیں۔ باقی سب دنیا بیوقوف ہے۔ حالانکہ بیوقوف وہ ہے جو اچھی باتوں کو سن کے اس پر عمل نہیں کرتا۔ بڑوں کی نصیحت پہ عمل نہیں کرتا۔ بڑے ہمیشہ بات کریں گے توآپ کے فائدے کے لئے کریں گے۔ جو نئی ریسرچ ہو رہی ہے اس میں اب تو یہ ثابت شدہ بات ہوگئی ہے کہ آپ لوگ جو مستقل ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں ،انٹرنیٹ کے سامنے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں تو اس کا نہ صرف آپ کی آنکھوں پہ اثر ہو رہا ہے بلکہ دماغ پہ بھی اثر ہو رہا ہے اور بعض لوگ تو بعض دفعہ دماغی لحاظ سے بالکل ہی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ پس اگر بعض باتوں سے روکا جاتا ہے تو رکیں اور انٹرنیٹ پر اگر دیکھنا ہے تو کوئی فائدے کی چیز، کوئی علمی چیز اگر ہے تو وہ پروگرام دیکھیں جیسے انسائیکلوپیڈیا ہے، معلومات ہیں لیکن ہر siteپہ چلے جانا یہ غلط ہے اور بچوں کو تو ویسے بھی نہیں جانا چاہئے۔ چودہ پندرہ سال کے جو لڑکے ہیں میں ان کی بات کر رہا ہوں کہ وہ دیکھیں۔
پھر آجکل یہاں بچوں میں ایک اور بڑی بیماری ہے،ماں باپ سے مطالبہ ہوتاہے کہ ہمیں موبائل لے کے دو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کو ئی بزنس کر رہے ہیں ؟آپ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟پوچھو تو کہتے ہیں ہم نے اپنے ما ں باپ کو فون کرنا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو اگر فون کرنا ہوتا ہے تو ماں باپ خود پوچھ لیں گے۔ ا گر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے توآپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے پھر غلط عادتیں پیدا ہوتی ہیں۔ فونوں سے بعض لوگ خود رابطے کر لیتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلا تے ہیں ،گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں ،بیہودہ قسم کے کاموں میں ملوث کر دیتے ہیں۔ اس لئے یہ فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے۔ اس میں بچوں کو ہوش ہی نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں۔ ا س لئے اس سے بھی بچ کے رہیں۔
ٹی۔ وی کا پروگرام جیسا کہ مَیں نے ابھی بات کی ہے، اس میں بھی کارٹون یا بعض پروگرام جو معلوماتی ہیں وہ دیکھنے چاہئیں۔ لیکن بیہودہ اور لغو پروگرام جتنے ہیں ان سے بچنا چاہئے۔ اول تو آپ کے والدین یہاں بیٹھے ہیں جو اگر وہ سن لیں یا جو بڑے بچے ہیں وہ ویسے ہوش میں ہوتے ہیں وہ بھی دیکھ لیں کہ گھروں میں جو بیہودہ چینل ہیں ان کو تو ویسے ہی لاک کیا ہونا چاہئے، جیسے انٹرنیٹ میں ویسے ٹی۔ وی پر بھی لاک ہو جاتے ہیں۔ سو یہ دیکھنے ہی نہیں چاہئیں اور کہیں غلطی سے کوئی آبھی گیا تو فوراً اس کو بدل دینا چاہئے۔ تبھی آپ لوگ ایک احمدی بچے کا صحیح کردار ادا کر سکیں گے۔ اس کے بغیر آپ میں اور دوسرے بچوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دنیا کو ایک فرق نظر آنا چاہئے کہ یہ احمدی بچے ہیں۔ ا ن کی زندگی، ان کا رہن سہن ، ان کا کردار دوسروں سے مختلف ہے۔ ان کو آداب اور اخلاق آتے ہیں۔ جب ملتے ہیں تو سلام کرتے ہیں۔ ملتے ہیں تو عاجزی سے بڑوں کے سامنے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ بڑوں کا کہنا مانتے ہیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ میں نے یہاں مختلف سکولوں کے ایک دو ہیڈ ٹیچر سے اوردوسرے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کے بعض افسران سے بھی بات کی ہے،جنہوں نے مجھے بتایاکہ احمدی بچے دوسرے بچوں سے سکولوں میں مختلف ہیں۔ پڑھائی کی طرف بھی زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ویسے بھی اخلاقی لحاظ سے بہتر ہیں۔ پس یہ جو آپ کی پہچان ہے اس پہچان کوہمیشہ قائم رکھیں۔ اگر قائم نہیں رکھیں گے تو پھر آپ کے احمدی ہونے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دنیا آپ کو دیکھتی ہے۔ آپ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو کوئی نہیں جانتالیکن سکول کی ایڈمنسٹریشن جو ہے وہ اس بات پر نظر رکھ رہی ہوتی ہے کہ دیکھیں ان کے بچے کیسے ہیں؟ جب کسی اچھے بچے کو دیکھتے ہیں۔ ایسے بچے کو دیکھتے ہیں جس کے اخلاق اچھے ہیں۔ ایسے بچے کو دیکھتے ہیں جو پڑھائی میں بہت اچھا ہے، ہوشیا رہے، توجہ دے رہا ہے۔ اس کی طرف پھر ٹیچر بھی اور سکو ل کی انتظامیہ بھی توجہ دیتی ہے اور یہ توجہ پھر آپ کے فائدے کے لئے، آپ کی پڑھائی میں آپ کے لئے بہتر ثابت ہوتی ہے، ممدا ور معاون ثابت ہوتی ہے۔ آپ کی مدد کرتی ہے۔
پس اس بات کو جو اکثراحمدی بچوں میں ہے، اس کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ نے کبھی نہیں چھوڑنا کہ آپ کا ایک کردار ہے جو سکول میں بھی آپ کو، آ پ کے اساتذہ کواور آپ کی انتظامیہ کونظر آنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر میں نے دیکھا ہے کہ لڑکے بھی پڑھائی کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یاد رکھیں کہ آئندہ جماعت کی ذمہ داریاں بھی لڑکوں پہ، مردوں پہ زیادہ پڑنی ہیں اور ملک کی ذمہ داریاں بھی آ پ لوگوں نے ہی ادا کرنی ہیں۔ اس لئے آپ لو گوں کو لڑکیوں سے آگے بڑھنا چاہئے۔ لڑکیاں gymnasium میں پڑھ رہی ہوتی ہیں۔ لڑکے سے پوچھیں تو جواب ہوتا ہے کہ پتہ نہیں gesamtschule میں جا رہا ہوں۔ فلاں جگہ جا رہا ہوں۔ کیوں؟ لڑکیاں کیوں ہوشیار ہیں؟ اس لئے کہ وہ گھر میں رہ کے پڑھائی کی طرف توجہ دیتی ہیں اور آپ جب چودہ سال کے ہوتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوگئے۔ اب آزاد ہوگئے ہیں۔ اب ہم اِدھر اُدھر کھیلیں گے۔ کھیلیں گے تو فٹ بال کھیلتے چلے جائیں گے۔ ٹی۔وی دیکھیں گے تو دیکھتے ہی چلے جائیں گے۔ ہر کام کو وقت دیں۔ کھیلنا ضروری ہے۔ صحت کے لئے ضروری ہے۔ فٹ بال ضرور کھیلیں ، جو بھی گیم پسند ہے آپ کو وہ کھیلیں۔ یہاں جو فٹ بال کا رواج ہے اس لئے میں کہہ رہا ہوں۔ ایک گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جو شام کا وقت ہے وہ ضرور کھیلنا چاہئے۔ اسکول میں جو وقت ہے اس میں کھیلنا چاہئے۔ ٹی۔ وی بھی دیکھنا چاہئے۔ اس سے معلومات بڑھتی ہیں لیکن ایسا پروگرام دیکھیں جو معلومات والا ہو۔ لیکن انٹر نیٹ پہ بیٹھے رہنا ٹھیک نہیں کہ اس میں صرف فضول باتیں ہی ہوتی ہیں۔ یا پھر بیٹھنا ہے تواپنے بڑوں کو بتا کر بیٹھیں کہ یہ پروگرام دیکھ رہے ہیں ، دیکھو کتنا اچھا پروگرام اس پر آرہا ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا ٹیلی فون وغیرہ کے مطالبے جو بچے دس سال کی عمر میں کر دیتے ہیں وہ بالکل غلط چیزیں ہیں اور ماں باپ کو بچوں کی ایسی باتیں ماننی بھی نہیں چاہئیں۔
پس آپ لوگ ہمیشہ یاد رکھیں کہ جن باتوں کی طرف میں توجہ دلا رہا ہوں ان میں اعتدال ہو۔ یا اِ س طرف بہت زیادہ چلے گئے یا اُس طرف چلے گئے، یہ دونوں چیزیں غلط ہیں۔ اگر اعتدال ہوگا تو آپ لوگوں کی زندگی بھی ہمیشہ اچھی طرح گزرے گی اور بڑے ہو کر آپ ایک اچھے انسان بن سکیں گے۔ وہ انسان بن سکیں گے جن کی جماعت کو ضرورت ہے۔ پس اس چیز کو ہمیشہ اپنے ذہنوں میں رکھیں کہ آپ احمدی بچے ہیں اور آپ نے دوسروں سے مختلف ہونا ہے۔ آپ نے اپنے ہر کام میں دوسروں سے اچھا ہونااور اپنے آ پ کو اچھا ثابت کرنا ہے۔ ہر کام میں آپ نے آگے بڑھنا ہے۔ ہراحمدی بچہ جو ہے و ہ اسکول میں پوزیشن لینے والا ہونا چاہئے۔ پڑھائی کی طرف توجہ دینے والا ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ بعض گھر کے مسائل ہیں یاکسی وجہ سے پریشانی ہے تو آپ پڑھائی کی طرف سے توجہ چھوڑ دیں۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور پڑھائی کی طرف توجہ دیتے چلے جائیں۔
پھر ایک بیماری جس کا بچپن میں احساس نہیں ہوتااور مذاق مذاق میں انسان بچپن میں بھی کر رہا ہوتا ہے۔ بعض بڑے لوگ بھی احتیاط نہیں کرتے تو ان کی دیکھا دیکھی کر جا تا ہے، وہ جھوٹ کی بیماری ہے۔ غلط بات کرنے کی بیماری ہے۔ اپنی طرف سے مذاق کر رہے ہوتے ہیں کہ جی میں نے یہ بات کہہ دی حالانکہ وہ بات اس طرح نہیں ہوتی۔ اسی طرح پھر جھوٹ کی عادت پڑتی ہے۔ پس ہلکا سا بھی جھوٹ ایک احمدی بچے میں نہیں ہونا چاہئے۔
پھر جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا کہ والدین کی عزت بہت اہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے کہ والدین کی عزت کرو۔ ان سے احسان کا سلوک کرو۔ ان کے لئے دعا کا حکم ہے کہ جس طرح وہ بچپن میں میری پرورش کرتے رہے، میری خاطر تکلیفیں برداشت کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ آپ کے ماں باپ جو کما رہے ہیں اس کو آپ پر خرچ بھی کر رہے ہیں، آپ کی تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ آپ کے کپڑوں پر خرچ کر رہے ہیں۔ اس کا ایک بچے کو شکر گزار ہونا چاہئے۔ دس گیارہ سال کی عمر ہوش وحواس کی عمر ہوتی ہے۔ اور پندرہ سال کا جوطفل ہوتا ہے، چودہ سال کا جو طفل ہوتا ہے اس کو تو بہت اچھی طرح علم ہونا چاہئے کہ ماں باپ کا یہ میرے پہ احسان ہے کہ وہ میرے اخراجات بھی پورے کر رہے ہیں۔ میرے خرچ پورے کر رہے ہیں۔ میری پڑھائی پہ توجہ د ے رہے ہیں۔ سکولوں کی فیسیں ادا کررہے ہیں۔ بسوں میں جانے کے لئے کرایہ ادا کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے آپ ان کے شکر گزار ہوں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ والدین کا احسان ہے۔ آنحضورؐ نے فرمایا کہ تم اس کا بدلہ کبھی نہیں اتار سکتے۔ لیکن اس کے بدلے میں تمہارا بھی ان سے ایک اچھا اور احسان کا تعلق ہونا چاہئے اور ہمیشہ ان کے لئے دعا مانگو کہ اے اللہ تعالیٰ جس طرح وہ مجھ پر رحم کرتے ہیں تو بھی ان پر ہمیشہ رحم کرتا رہ۔ یہ عادت پڑے گی تو آپ لوگوں کے دلوں میں والدین کی عزت بھی قائم ہو گی اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس بات پہ خوش ہوگا اور آ پ لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشی کی وجہ سے انشاء اللہ اور بہتر انسان بن سکیں گے۔
پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ اطفال الاحمدیہ کی عمر سات سال سے لے کے پندرہ سال کی عمر ہے۔ سات سا ل کی عمر سے لے کے دس سال کی عمر تک بچے کو نماز پڑھنے کا حکم ہے۔ اس کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اور بچوں کو خود عادت ہونی چاہئے کہ ہم نے نمازیں پڑھنی ہیں اور پھر یہاں تک حکم ہے کہ دس سال کے بعد تھوڑی سی سختی بھی کروتو دس سال، بارہ سال کی عمر میں اگر ماں باپ آپ کو کہتے ہیں کہ بچے نماز پڑھواور سختی بھی کرتے ہیں تو آپ لوگوں کو برا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اسی عمر میں اگر نمازوں کی عادت پڑ گئی تو آئندہ ہمیشہ نمازوں کی عادت پکی رہے گی۔ آپ دیکھ لیں کہ جتنے نمازیں پڑھنے والے لوگ ہیں ،جن کو پانچ وقت نمازپڑھنے کی عادت ہے ان میں سے اکثریت وہی ہیں جن کو بچپن میں نمازیں پڑھنے کا شوق تھا۔ جو بچپن میں اچھے ماحول میں رہے اور جب جوانی میں قدم رکھاتب بھی اچھے ماحول میں قدم رکھا۔
بعض لوگ بچپن میں جیسا کہ میں نے کہا اچھے ماحول میں ہوتے ہیں۔ جماعت کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ اطفال الاحمدیہ کے اجلاسوں میں بھی آتے ہیں۔ مسجد میں بھی آتے ہیں لیکن جہاں چودہ پندرہ سال کے ہوتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہو گئے۔ لیکن اکثریت ایسی ہے جن کو نمازیں پڑھنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ پھر ہمیشہ چلتی ہے او ر جوبچپن میں توجہ نہیں دیتے وہ بڑے ہو کے بھی توجہ نہیں دیتے او ر نماز جو ہے ایک مسلمان پر فرض ہے اور مردوں پر تو مسجد میں جاکر پڑھنا بہت زیادہ فرض ہے۔ پس اطفال الاحمدیہ کو جو دس بارہ سال کی عمر کے ہیں یا اس سے اوپر، انکو تو جہاں تک ہو سکے اپنے والدین کے ساتھ اپنے نماز سنٹر میں جا کے نمازیں پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر ایک بہت اہم چیز یہ ہے کہ قرآن کریم پڑھنا۔ بہت سارے بچے خواہش کرتے ہیں اور میرے سے آمین بھی کروالیتے ہیں۔ چھ سات آٹھ سال نو سال کی عمر تک آمین ہو جاتی ہے بلکہ بعض پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف پڑھ لیتے ہیں لیکن یہاں کچھ والدین بھی بیٹھے ہیں میں ان سے بھی کہوں گا کہ وہ اس کے بعد بچوں کو قرآن شریف پڑھانے پہ توجہ نہیں دیتے۔ تو والدین بھی توجہ دیں اور جو بچے دس گیارہ سا ل کی عمر میں ہیں بلکہ نو سال کی عمر کے بھی، جب قرآن شریف ختم کر لیا ہے تو خود بھی روزانہ چاہے آدھا رکوع ہی پڑھیں ، قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی عادت ہوگی توپھر آہستہ آہستہ اس کو سمجھنے کی بھی آپ کو عادت پڑے گی۔ اور جب وہ قرآن شریف کو سمجھیں گے تو پھر آپ کو پتا لگے گا کہ ایک احمدی مسلمان بچے کی کیا ذمہ داریاں ہیں جن کو اس نے ادا کرنا ہے تاکہ پھر وہ دین کی بھی صحیح طرح خدمت کر سکے او ر معاشرے کے حق بھی ادا کرسکے اور اللہ تعالیٰ کے حق بھی ادا کر سکے، اپنی حکومت کے حق بھی ادا کر سکے، اپنے بڑوں کے حق بھی ادا کر سکے، اپنے ساتھیوں کے حق بھی ادا کر سکے۔ پس یہ قرآن کریم پڑھنا بہت ضروری ہے اورجو تیرہ چودہ سال کے بچے ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ ترجمے سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیں۔ ابھی سے ہی یہ بات آپ میں پیدا ہو جائے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ بڑے ہو کر وہ انسان بن سکیں گے جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ ان میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں کہ یہ اب انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے ہیں اور اس ترقی کا حصہ بنیں گے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہے۔ پس آپ لوگ ہمیشہ ان باتوں کو یاد رکھیں۔ نمازوں کی طرف توجہ دیں۔ اپنے اخلاق کی طرف توجہ دیں۔ قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دیں۔ اپنی اسکول کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں۔ بڑوں کے اد ب کی طرف توجہ دیں۔ اور آپس میں بچے بھی ایک دوسرے سے پیار اور محبت سے رہنا سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کرلیں۔