خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم اکتوبر 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج مجالس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ یو۔ کے کے اجتماعات شروع ہو رہے ہیں۔ اسی طرح بعض اور ممالک میں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں تنظیمیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے بڑی اہم تنظیمیں ہیں اور جماعتی ترقی اور تعلیم و تربیت اور اگلی نسل کو سنبھالنے میں عورت اور مرد خاص طور پر وہ جو چالیس سال سے اوپر کی عمر کے ہیں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر اپنی اس ذمہ داری کو ہماری عورتیں اور مرد حقیقی رنگ میں محسوس کر لیں اور جو ذمہ داریاں مرد اور عورت پر ہیں ان پر بھر پور طور پر توجہ دیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کریں تو اگلی نسل کے جماعت سے جڑے رہنے اور ان کے اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جانے کی ضمانت مل سکتی ہے۔ جہاں تک جماعتی ترقی کا سوال ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اسی طرح وعدہ ہے جیسا کہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے تسلی دلائی تھی کہ آخری زمانے میں آپ کے غلامِ صادق کے مبعوث ہونے کے بعد اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا ایک اور دور شروع ہو گا، اس میں اسلام کا آخری غلبہ ہو گا۔ پس یہ ترقی تو جماعت کا مقدر ہے، انشاء اللہ۔ راستے کی مشکلات بھی ہوتی ہیں جیسا کہ دوسری الٰہی جماعتوں کو ہوئیں۔ امتحانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت احمدیہ کو بھی وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں پر ان مشکلات سے گزرناپڑتا ہے۔ آگیں بھڑکائی جاتی ہیں لیکن یہ آگیں اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دیتا ہے۔ اور نہ صرف ٹھنڈی کر دیتا ہے بلکہ مومن ان تکالیف اور مشکلات میں سے جب گزرتا ہے تو اس سونے کی مانند ہوتا ہے جو آگ میں پڑ کر کندن بن کر نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو خود بھی قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میں آزمائشیں بھی کرتا ہوں، امتحان بھی لیتا ہوں۔ فرماتا ہے کہ

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(العنکبوت: 3) کیا اس زمانے کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہو گا اور وہ چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟

پھر فرماتا ہے: وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْنَ (العنکبوت: 4) جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کو بھی ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی وہ ایسا ہی کرے گا۔ سو اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا ان کو بھی جنہوں نے سچ بولا اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا۔

پس یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کے لئے آزماتا ہے۔ کبھی کسی قسم کے امتحان سے گزارتا ہے اور کبھی کسی اور قسم کے امتحان سے گزارتا ہے۔ یہ امتحان ایمان میں جو مضبوط لوگ ہیں ان کے تعلق میں اضافہ کرتا ہے۔ ان کا مضبوط ایمان بڑھا دیتا ہے اور جو کمزور اور معترض ہیں جو کہ کسی نہ کسی رنگ میں اعتراض میں مصروف رہتے ہیں، وہ لوگ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض ہوتے ہیں۔ چھوٹے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں۔ بڑے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں اور پھر یہ اعتراض جو شروع ہوتے ہیں تو بڑھتے بڑھتے ان لوگوں کے ایمان کے لئے بھی خطرہ اور ابتلا بن جاتے ہیں اگر اللہ کا خاص فضل نہ ہوتو پھر بعضوں پہ ایک صورت ایسی بھی آ جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کی صداقت پر ہی شک کرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح مخالفین کی طرف سے تکالیف اور دشمنیاں کمزور ایمان والوں کو ابتلاؤں میں ڈال دیتی ہیں۔ پس مومن کا امتحان اس کو مزید صیقل کرنے کے لئے ہے۔ اس کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کے لئے کامیابی کے نئے راستے کھولنے کے لئے ہے، نہ کہ مغلوب کرنے کے لئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’جو لوگ خدائی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں پھر ان کے واسطے ہر طرح کے آرام و آسائش رحمت اور فضل کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 460 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 299 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ابتلاء انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کے لئے فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے ہیں۔ اگر ہم اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جو بھی ابتلاء اور امتحان آئیں گے، ان میں سے کامیابی سے گزرنے کی کوشش کرتے رہے تو رحمت اور فضل کے دروازے ہم پر بھی کھلتے چلے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ جب اللہ تعالیٰ نے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) فرمایا تو ساتھ ہی فرمایا کہ یہ یقینی غلبہ اس لئے ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(المجادلہ: 22) کہ یعنی اللہ تعالیٰ قوی ہے، مضبوط ہے اور تمام طاقتوں والا ہے۔ وہ عزیز ہے۔ وہی ہے جو اپنی تمام صفات کی وجہ سے قابلِ تعریف ہے۔ وہ ناقابلِ شکست ہے اور ہر چیز پر غالب ہے۔

پس یہ ہمیشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کی قائم کردہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غالب تو انشاء اللہ تعالیٰ آنا ہے۔ راستے کی مشکلات ناکامی کی نہیں بلکہ کامیابی کی علامت ہیں۔ اگر ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھیں گے، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس نظام کا حصہ بنائے رکھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تو ہم بھی اس رحمت اور فضل کے حاصل کرنے والے بن جائیں گے جو خدا تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں۔ او ر ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات دیکھیں گی۔ اگر ہم میں سے کوئی عمر کے اس حصے میں پہنچا ہوا ہے جہاں بظاہر زندگی کا کچھ حصہ نظر آ رہا ہے، بڑی عمر ہے، ویسے تو کسی کا نہیں پتہ کہ کب قضا آ جائے، لیکن بہر حال بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ فکر ہوتی ہے۔ جو اس میں بھی پہنچا ہوا ہے تو جس طرح بچوں کی دنیاوی بہتری کے لئے بڑی عمر کے لوگوں کو فکر ہوتی ہے، بڑا تردّد ہوتا ہے، اسی طرح اسے دینی حالت کی بہتری اور جماعت سے اپنی نسلوں کو جوڑے رکھنے کے لئے بھی فکر ہونی چاہیے۔ دنیاوی بہتری کے سامان کرنے کے لئے، بچوں کے لئے جائیداد، مکان، بہتر تعلیم یا کام کی ان کو فکر ہوتی ہے۔ بڑے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں۔ تو اسی طرح ان کی بچوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کی بہتری کے لئے بھی فکر ہونی چاہئے۔ یہی تقویٰ ہے اور یہی اس عہد کا حق ادا کرنے کی کوشش ہے جو ہم اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں دہراتے ہیں۔ پس یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے۔ جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ ناقابلِ شکست اور غالب ہے۔ اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قومیں کھڑی کر دیتا ہے۔ پس اس اہم بات کو، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں۔ انصار اللہ کی عمر چالیس سال سے شروع ہوتی ہے۔ گویا انصاراللہ کی عمر میں انسان اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور سوچ میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ صورت ہو تو اس عمر میں پھر آخرت کی فکر بھی ہونی چاہئے اور یہی ایک ایسے شخص کا، ایک ایسے مومن کا رویہ ہونا چاہئے جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو، یقین ہو اور تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے اس کی کوشش ہو تو پھر اس کی یہ سوچ ہونی چاہئے کیونکہ ایک احمدی نے اپنے عہد میں، عہدِ بیعت میں اس بات کا اقرار کیا ہوا ہے کہ اس نے تقویٰ میں ترقی کرنی ہے، تمام اعلیٰ اخلاق اپنانے ہیں، اس لئے اس کو تو عمومی طور پر اور اس پختہ عمر میں خاص طور پر یہ سوچ اپنے اندر بہت زیادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انصار اللہ ہیں۔ ایک ایسی عمر ہے جو نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کو تو ہر وقت یہ بات اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے۔

عہدِ بیعت کا خلاصہ کیا ہے؟ شرک سے اجتناب کرنا، جھوٹ سے بچنا، لڑائی جھگڑوں اور ظلم سے بچنا، خیانت سے بچنا، فساد اور بغاوت سے بچنا، نفسانی جوش کو دبانا، پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی کرنا، تہجد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا، استغفاردعاؤں اور درود کی طرف توجہ دینا، تسبیح و تحمید کرنا، تنگی اور آسائش ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے وفا کرنا، قرآنِ شریف کے احکامات پر عمل کرنا، تکبر تخوت سے پرہیز کرنا، عاجزی اور خوش خلقی کا اظہار کرنا، ہمدری خلق کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اندر پیدا کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلا م کی کامل اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر ڈالنا۔ یہ ہے خلاصہ شرائطِ بیعت کا۔ پس اگر غور کریں تو یہ باتیں ایک انسان میں تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ کم از کم معیار ہے جس کی ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توقع فرمائی ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کایہی مقصدتھا کہ ایک انسان میں یہ چیزیں پیدا کی جائیں اور انسان آپ کی بیعت میں آ کر تقویٰ میں ترقی کرے۔

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مامور کیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے پیدا ہو۔ خدا تعالیٰ تاوان نہیں چاہتا بلکہ سچا تقویٰ چاہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 100 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس یہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ تقویٰ وہ ہے جو دل کی آواز ہو، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دل سے اٹھنے والی آواز ہو۔ یہ عبادتیں، شرک سے پرہیز یا ان باتوں پر عمل جو انسان کے اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہیں یہ سب کسی قسم کی چٹی، جرمانہ یا تاوان سمجھ کر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ سے پیار کے تعلق کی وجہ سے ہو۔ ایمان کا وہ مقام ہو جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرۃ: 166) اور جو لوگ ایمان لانے والے ہیں ان کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان میں ترقی کرتے ہیں اور ایمان میں ترقی تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہے۔ پس ہمارے انصار اللہ کی بھی اور ہماری لجنہ اماء اللہ کی بھی یہ ایک ذمہ داری ہے کہ تقویٰ میں ترقی کر کے ہم آئندہ نسلوں کے لئے وہ پاک نمونہ قائم کرنے والے بن جائیں جو ہماری نسلوں کی روحانی زندگی اور روحانی ترقی کی ضمانت بن جائے۔ عورت اور مرد ہر ایک پر اپنے اپنے دائرے میں بعض فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جن کا پورا کرنا دونوں کا فرض ہے اور اس کے لئے لائحہ عمل، اس کے لئے ایک گائیڈ لائن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائطِ بیعت کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دی ہے، اس پر ہر وقت غور ہونا چاہئے۔ اس کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے۔

نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہ کا نعرہ کیوں لگایا گیا تھا۔ قرآنِ کریم میں ہمیں دو جگہ اس کا ذکر ملتا ہے، ایک سورۃ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ۔ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ۔ وَاشْھَدْبِاَنَّامُسْلِمُوْن۔ (سورۃ آل عمران: 53) پس جب عیسیٰ نے ان میں انکار کا رجحان محسوس کیا تو کہا کہ کون اللہ کی طرف بلانے میں میرے انصار ہوں گے تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں۔ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبردار ہیں۔ جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ انکار اور کفر میں یہ لوگ بڑھتے چلے جا رہے ہیں تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے دین کے لئے پکار رہا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں۔ تمہاری بقا اسی میں ہے کہ مجھے قبول کرو اور اللہ کی پہچان کرو اور اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرو۔ آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دین کو اختیار کرو۔ اور پھر ان میں سے جو چند حواری تھے وہ آگے آئے اور انہوں نے جب نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کہا تو یہ دعا بھی کی کہ رَبَّنَا اٰمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ (سورۃ آل عمران: 54) کہ اے ہمارے رب! جو کچھ تو نے اتارا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم اس رسول کے متبع ہو گئے ہیں۔ پس تُو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔

رسول کی اتباع کیا ہے؟ اس سے کئے گئے عہد کو پورا کرنا، اس کی لائی ہو ئی تعلیم پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرنا، اس تعلیم کی سچائی پر کامل ایمان ہونا۔

اور پھر ہم دیکھتے ہیں اس کا دوسرا ذکر سورۃ الصف میں ملتا ہے۔ یہاں فرمایا کہ: یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیِْنَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاَمَنَتْ طَائِفَۃٌ مِّنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّائِفَۃٌ فَاَیََّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظَاھِرِیْن (الصف: 15) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ، جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف رہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں۔ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں۔ پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا۔ پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آ گئے۔

پس غلبہ ایمان لانے والوں کا ہوا اور یہی ان کا مقدر ہوتا ہے اور یہی الٰہی جماعتوں کا مقدر ہے۔ جو ایمان لاتے ہیں وہی غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ یہاں حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی مثال دے کر ہمیں یہ توجہ دلائی ہے کہ اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کے انصار بن جاؤ۔ جب مسیح موعود کا دعویٰ ہو تو تم بھی ایمان لانے والے گروہ میں شامل ہو جانا، انکار کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہونا۔ پس اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ آج ہمیں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے گروہ میں شامل فرمایا ہے۔ تو پھراب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کی مکمل پیروی کریں تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین دنیا میں پھیلا سکیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور اپنی نسلوں میں وہ ایمان پیدا کریں اور کرنے کی کوشش کریں جن سے آگے پھر انصار اللہ کی جاگ لگتی چلی جائے۔ ایک کے بعد دوسرا مددگار پیدا ہوتا چلا جائے۔ اور اس کی جاگ تبھی لگ سکتی ہے جب ہم اپنے عہدِ بیعت کو سامنے رکھیں اور اس کی ہر شِق کے نمونے اپنی اولادوں کے سامنے پیش کرنے والے بن جائیں۔ تبھی یہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ جاری رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے کچھ عرصہ یا نسلوں بعد تو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور تعلیم کی پیروی ختم ہو گئی تھی، جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا۔ اس کا ذکر ہو چکا ہے کہ بادشاہوں کے عیسائی ہونے کے ساتھ ہی وہ آزادی تو مل گئی لیکن کچھ عرصے بعد موحدین کی جوتعداد تھی وہ کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی ذات تو پیچھے چلی گئی اور اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور اللہ تعالیٰ کا رسول ظالمانہ طور پر خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں نے توحید کے قیام اور اس کو اپنی نسلوں میں جاری رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے اور وہ روحانی غلبہ حاصل کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنانا ہے۔ خدا تعالیٰ کے پیغام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اہتمام فرمایا ہے، اس پیغام کو مسیح اور مہدی کے انصار بن کر دنیا میں پھیلانا ہے۔ اور پھر اپنے تک ہی محدودنہیں رکھنا بلکہ اپنی اولاد کے دل میں بھی اس دین کی عظمت کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ ان میں سے نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگانے والے پیدا ہوتے چلے جائیں اور یہ تعداد پھر بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ دنیا پر اسلام کا ایک نئی شان کے ساتھ غلبہ ہم دیکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پہلی چیز اپنی شرائطِ بیعت میں ہمارے سامنے رکھی ہے وہ شرک سے اجتناب ہے۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159۔ اشتہار ’’تکمیل تبلیغ‘‘ 12 جنوری 1889ء۔ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

مسیح موسوی کے حواریوں کا جو اثر تھا اس معیار تک قائم نہیں رہا جہاں نسلاً بعدنسلِِ وہ موحدین پیدا کرتے چلے جاتے، اس لئے کچھ عرصے کے بعد ان کی نسلیں شرک کے پھیلانے کا باعث بن گئیں۔ اس لئے کہ انہوں نے تعلیم پر عمل نہیں کیا اور ان کے ایمانوں میں کمزوری پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق آہستہ آہستہ کم ہو گیا اور دنیا داری ان کا مقصود اور مطلوب ہو گئی۔ پس مسیح محمدی کے غلاموں نے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کو نہ اپنی ذات میں کم ہونے دینا ہے نہ اپنی نسلوں میں کم ہونے دینا ہے، ورنہ پہلے حواریوں کی طرح یا ان کی نسلوں کی طرح ایمانی کمزوری پیدا ہوتے ہوتے شرک کی حالت پیدا ہو جائے گی۔ اور اب دیکھ لیں جو دوسرے مسلمان ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو مسلمان کہلانے کے باوجود قبروں اور پیروں اور اس قسم کے شرکوں میں مبتلا ہوئے ہوئے ہیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم بتا کر اس قسم کے شرکوں سے محفوظ رکھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں ہر احمدی کو اور جماعت میں شامل ہونے والے کو یہ فرمایا کہ اگر میری بیعت میں آنا چاہتے ہو تو شرک سے بچنے کے بعد یہ عہد کرو کہ بلا ناغہ پنج وقت نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتے رہو گے۔ پس ہمیں دیکھنا ہے کہ خدا نے نمازوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دعا سکھائی کہ تیرے حکم کے مطابق تیری عبادت کرنے کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم کچھ نہیں۔ اس لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن، تجھ سے مدد بھی مانگتے ہیں۔ پس جب ایک عاجزی کے ساتھ عبادت کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کی طرف توجہ رہے گی تو پھر نماز کا یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 4)کا حکم بھی سامنے آ جائے گا اور پھر نمازوں کے قیام کے نمونے قائم ہوں گے۔ یعنی پانچ وقت نمازوں کے اوقات میں نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی۔ وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْن (البقرۃ: 239) کہ نمازوں اور خصوصاً درمیانی نماز کا خیال رکھو۔ پس نمازوں کا خیال رکھنا اور اس کی نگرانی کرنا ایک مومن پر فرض ہے۔ اور خاص طور پر وہ نماز جو ہمارے کاموں کے دوران، ہماری مصروفیات کے دوران، ہماری تھکاوٹ اور نیند کے اوقات میں آتی ہے۔ اس کا خیال رکھنا خاص طور پر ضروری ہے۔ اب اس ایک حکم میں ہی تمام نمازوں کی حفاظت کا حکم آ گیا ہے۔ ہر شخص کے لئے اس کی صلٰوۃِ الْوُسْطٰی کی حفاظت اسے عمومی طور پر نمازوں کی طرف متوجہ رکھے گی۔ اور پھر نمازوں کی یہ حفاظت نہ صرف ایک مومن کے لئے اس کے ایمان میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے نمازوں کی ادائیگی اس کی نسل کے لئے پاک نمونہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اولاد کو بھی دعاؤں کا وارث بناتے ہوئے ان کے نیک مستقبل کی حفاظت کا سامان بھی کرتی چلی جائے گی۔ نمازوں کا حق ادا کرنا کیا ہے؟ بہت سے لوگ جو خاص طور پر انصار اللہ کی تنظیم میں پہنچے ہوئے ہیں نمازیں تو پڑھنے والے ہیں لیکن ان کی اولادیں ان سے نالاں ہیں۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی بھی ماں باپ کا فرض ہے۔ لیکن اس فرض کے ادا کرنے کے لئے بچوں کی بچپن سے تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے۔ بچپن میں جب اہمیت کا نہ بتایا جائے تو بچہ جب جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے خاص طور پر لڑکے تو پھر ان پر بعض والدین ضرورت سے زیادہ سختی کرتے ہیں۔ کئی بچے مزید بگڑ جاتے ہیں۔ پھر ماں باپ کو شکوہ ہوتا ہے کہ بچے بگڑ رہے ہیں۔ پھر بعض دفعہ ایسی صورت ہوتی ہے کہ نمازوں کی ادائیگی میں تو بظاہر باپ بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن بیوی اور بچوں کے ساتھ اس کے سلوک کی وجہ سے بچے نہ صرف باپ سے دور ہٹ جاتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ کو اس کی نمازوں نے اتنا خشک مزاج اور سخت طبیعت کا کر دیا ہے اور وہ نمازیں پڑھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ یا اگر انکاری نہیں ہوتے تونہ پڑھنے کے سو بہانے تلاش کرتے ہیں۔ پس نمازوں کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا یہ بھی ہے کہ ایسی نمازیں ادا ہوں جو ہر قسم کے اخلاق کو مزید صیقل کرنے والی ہوں۔ بیویوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں اور بچوں کے بھی حقوق ادا ہو رہے ہوں۔ چالیس سال کی عمر جیسا کہ میں نے کہا بڑی پختگی کی عمر ہے لیکن اس عمر میں اگر ہم جائزے لیں تو بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں گے جو اپنی نمازوں کی بھی حفاظت نہیں کرتے۔ اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ تو پھر اپنے بچوں سے کس طرح امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ نیکیوں پر قائم ہوں۔ یا ان کی کیا ضمانت ہے کہ وہ احمدیت کے ساتھ جڑے رہیں گے۔

ہم اپنے شہداء کا ذکر سنتے ہیں۔ ایک چیز خصوصیت سے ان میں نظر آتی ہے۔ عبادت اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ۔ جس طبقہ کے لوگ بھی تھے ان کی اس طرف توجہ تھی۔ اور اپنے بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق اور ان کو دین سے جوڑے رکھنا۔ اور بچوں پر بھی ان کی باتوں کا ایک نیک اثر تھا۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جو انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ پس میں پھر انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ انصار اللہ کا حق ادا کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی نہ صرف خود حفاظت کریں بلکہ اس کا حق اپنی نسلوں میں عبادت کرنے والے پیدا کر کے ادا کریں۔ پھر آپ نے اپنی شرائط بیعت میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ فرائض نمازوں کے ساتھ تہجد اور نوافل کی طرف بھی توجہ دو۔ پینسٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر تو شاید ایک تعداد تہجد پڑھتی بھی ہو اور ان کو خیال بھی آ جاتا ہو۔ لیکن انصار کی جو ابتدائی عمر ہے اس میں بھی تہجد کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یقینا ایک تعداد ہے جو تہجد کا التزام کرنے والی ہے۔ بلکہ خدام میں بھی ہیں۔ لیکن انصار میں یہ تعداد اکثریت میں ہونی چاہئے۔ انصار اللہ کا نام جو چالیس سال سے اوپر کی مردوں کی تنظیم کو دیا گیا ہے اور جو پیغام نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ کے اعلان میں ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر غیر معمولی قربانی پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ اور دین کے قیام کے لئے ہم اپنی ہر کوشش اور ہر صلاحیت اور ہر ذریعہ بروئے کار لانے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ دین کا پھیلاؤ تو دعاؤں کے ذریعے سے ہونا ہے۔ تبلیغ کے ساتھ ساتھ دعاؤں نے ایک بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے۔ پس دعاؤں کی طرف ایک خاص جوش کے ساتھ ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انصار اللہ کی عمر ایک تو پختہ عمر ہے اس میں عارضی اور جذباتی کوششوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے مستقل جائزے لیتے ہوئے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے۔ دعاؤں کا حق، نمازوں اور نوافل کے ذریعے ہی صحیح طور پر ادا ہو سکتا ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی قرآنِ شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا۔ قرآنِ حکیم کی حکومت قبول کرنے کے لئے اس سے ایک خاص تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ کے اس کلام کو روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پس انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہر شخص اس بات کی پابندی کرے کہ میں نے قرآنِ کریم کی تلاوت ہر صورت میں روزانہ کرنی ہے۔ اسی طرح لجنہ ہے، خواتین ہیں، ان کا بھی فرض ہے۔ یہ حکم صرف انصاراللہ کے لئے نہیں ہے۔ جماعت کے ہر فرد کے لئے ہے اور خاص طور پر وہ لوگ، عورتیں اور مرد جنہوں نے اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے ان پر خاص فرض ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور روزانہ تلاوت کریں۔ پھر اس کا ترجمہ بھی سمجھنا ہے۔ تو جہاں ہم میں سے ہر ایک اس وجہ سے اپنے علم میں اضافے اور برکات سے فیض یاب ہونے کے سامان کر رہا ہو گا وہاں یہ پاک نمونہ اپنے بچوں کے سامنے پیش کر کے انہیں بھی خدا تعالیٰ کے اس کلام سے تعلق جوڑنے کا سامان کر رہا ہوگا۔

یہ شرائط بیعت کا خلاصہ جومَیں نے بیان کیا ہے، جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ ایک احمدی کا کم از کم معیار ہے اور انصاراللہ کو تو ان باتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اسی طرح ہماری عورتیں ہیں وہ گھر کی نگرانی کی حیثیت سے اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں جیسے مرد بلکہ مردوں سے بھی زیادہ۔ کیونکہ بچے کی ابتدائی عمر جو ہے ماں کے قرب میں اور اس کی گود میں گزرتی ہے۔ سکول جانے والا بچہ ہے۔ وہ بھی گھر میں آ کر ماں کے پاس ہی اکثر وقت رہتا ہے۔ تو ماؤں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر ماؤں کی اپنی دینی تربیت ہے۔ ان کو خود دین کا علم ہے تو بچے ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں اِکَّا دُکَّا استثناء کے علاوہ عموماً بچوں کو دین سے گہرا لگاؤ ہوتا ہے۔ ایسی ہی عورتوں کے متعلق ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض عورتیں بسبب اپنی قوتِ ایمانی کے مردوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ فضیلت کے متعلق مردوں کا ٹھیکہ نہیں۔ جس میں ایمان زیادہ ہوا وہ بڑھ گیا۔ خواہ مرد ہو خواہ عورت۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 268 مطبوعہ ربوہ)

تو ہماری تو ہر عورت کو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مرد اور عورت میں ایک دوڑ ہو۔ دونوں طرف سے نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی ایک کوشش ہو۔ جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ نئی نسل کس طرح خدا تعالیٰ کے قریب ہوتی چلی جائے گی۔ یہ شرائطِ بیعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے بیان فرمائی ہیں ان میں یہ تخصیص کوئی نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں کے لئے نہیں۔ بلکہ ہر دو اور ہر طبقے کے لئے ہیں۔ پس جو بھی ان نیکیوں پر قدم مارنے والا ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بن کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار لے گا اور اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کی حفاظت اور تقویٰ پر چلنے کے سامان کر لے گا۔ پس عورتوں کو بھی ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بچوں کی تربیت میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے دعا کرتے ہوئے اگلی نسل کی تربیت میں بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔ مرد یا عورت جو بھی اپنے فرض کو ادا نہیں کرے گا وہ اپنے عہد کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے پوچھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس زمانے کے امام کے ساتھ سچا اور حقیقی وفا اور اطاعت کا تعلق پیدا ہو اور ہم آپ کی توقعات اور تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور ہماری ایک کے بعد دوسری نسل توحید کے قیام اور عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی بھرپور کوشش کرتی چلی جائے۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم مداہنہ سے دوسری قوموں کو ملو‘‘ یعنی کمزوری دکھاتے ہوئے اپنے مذہب چھپاتے ہوئے کسی قسم کے احساسِ کمتری کی وجہ سے اگر تم ملو تو فرمایا کہ ’’تو کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ یعنی کبھی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے نہ اپنا دین چھپانا چاہئے نہ اپنی دینی تعلیم پر کسی قسم کی شرمساری ہونی چاہئے۔ بلکہ تبلیغ کے میدانوں میں تبلیغ بھی کھل کر کرنی چاہئے۔ کیونکہ اسی سے کامیابی ملنی ہے۔ فرمایا ’’خدا ہی ہے جو کامیاب کرتاہے۔ اگر وہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہو تو پرواہ نہ کرو۔ ہر ایک جو اس وقت سُنتا ہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دُعا ہے اس لئے چاہئے کہ دعا میں لگے رہو۔

یہ یاد رکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اَور حیلہ‘‘۔ گناہ اور برائیاں جو ہیں، بدعملیاں جو ہیں ان کو نصیحتیں دور نہیں کر سکتیں۔ خود انسان کے اندر ایک احساس پیدا ہو اور پھر دعا ہو تو اس سے دور ہو جاتی ہیں۔ اور اپنی نسلوں کے لئے بھی آپ دعا کر رہے ہوں گے تو اس سے بھی ان کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ ’’اس کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ دُعا ہے۔ خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے۔ اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑنا چھوٹی سی بات نہیں ہے۔ یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ دُعاؤں سے ہو گا۔

ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں۔ اس کا وعدہ ہے اُدْعُونِِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن: 61)۔ عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دُعا ہے۔ وہ دنیا کے کیڑے ہیں۔ اس لئے اس سے پرے نہیں جا سکتے۔ اصل دُعا دین ہی کی دُعا ہے‘‘۔ اور ایک دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ اور اصل دین دعا میں ہے۔ فرمایا’’لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گناہگار ہیں یہ دُعا کیا ہو گی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی۔ یہ غلطی ہے‘‘۔ اس بارے میں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ گناہ اس میل کی طرح ہے جو کپڑوں پر ہوتی ہے اور دھونے سے دور کی جاتی ہے۔ پس گناہ کوئی مستقل چیز نہیں ہے۔ گناہ کو دھویا جا سکتا ہے۔ اگر ارادہ ہو اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو توصاف کیا جاسکتا ہے۔ فرمایا ’’بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آ سکتاہے‘‘۔ گناہوں پر انسان غالب آ جاتا ہے اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے۔ ’’دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطرتاً برودت اس میں ہے‘‘۔ ٹھنڈے کرنے کی جو اس کی خصوصیت ہے وہ اس پانی کی ہے۔ ’’ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے۔ ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے۔ وہ پاکیزگی کہیں نہیں گئی۔ اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دُعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 132-133 مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سربلندی کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور

اسلام کے پیغام کو ہم جرأت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بھی پیدا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں