خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک شعر ہے کہ ؎
وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں
یہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو
یہ حضرت مصلح موعودؓ کی ایک لمبی نظم کا شعر ہے جس میں جماعت کو صبر اور حوصلہ اور استقامت کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ نظم آپ نے 1935میں کہی تھی جب جماعت پر شورشوں کا زور تھا۔ بہر حال اس وقت مَیں اس نظم کے حوالے سے تو مضمون نہیں بیان کر رہا۔ اس شعر کے حوالے سے بات کروں گا۔ اس شعر سے اسلام کی تاریخ کا ایک دردناک اور ظلم کی انتہا کا واقعہ ہر مسلمان کی نظر میں آتا ہے۔ لیکن اس اندوہناک اور دردناک واقعہ کی حقیقت کا صحیح ادراک وہی کر سکتا ہے جو ظلموں کی چکّی میں پیسا جا رہا ہو۔ اس واقعہ پر ہمدردی اور غم اور افسوس کا اظہار تو بے شک ہر مسلمان کرتا ہے اور شیعہ صاحبان ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا اظہار بھی اپنے طریقے کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور گو اس میں ہمارے نزدیک غلوّ کی حد تک بھی چلے جاتے ہیں لیکن بہر حال ان کا ایک اپنا اظہار ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اس ظلم کی حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو ظلموں میں سے گزر رہا ہو اور آج اس زمانہ میں جماعت احمدیہ سے زیادہ کون واقعہ کربلا کا احاطہ اور تصور کر سکتا ہے۔ اس لئے حضرت مصلح موعودنے فرمایا کہ وہ تم کو حسین بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیں۔ یہ دونوں فریق کون تھے؟ یہ دونوں کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ پڑھنے والے تھے یا پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے تھے۔ لیکن ایک کلمہ کی حقیقت کو جانتے ہوئے مظلوم بنا اور دوسرا کلمہ کا پاس نہ کرتے ہوئے ظالم بنا۔ واقعہ کربلا بھی جس میں حضرت امام حسینؓ ، آپ کے خاندان کے افراد اور چند ساتھیوں کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا، اصل میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے واقعے کا ہی ایک تسلسل ہے۔ جب تقویٰ میں کمی ہونی شروع ہو جائے، ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر حاوی ہونا شروع ہو جائیں، دنیا دین پر مقدم ہو جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے کہ ظلم و بربریت کی انتہا کی جاتی ہے۔ اللہ والوں کا اللہ کے نام پر ہی خون بہایا جاتا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ کلمہ گو ہی کلمہ گوؤں کو ظلم و تعدّی کا نشانہ بنا رہے ہوں، زیادتیوں اور دکھوں کا نشانہ بنا رہے ہوں حتیٰ کہ معصوموں کا خون، بچوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہ کیا جا رہا ہو۔ خدا کے اور رسول کے نام پر خدا اور رسول پر جان، مال اور عزت قربان کرنے والوں کو دکھوں، تکلیفوں اور مصائب کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کی کیا بدنصیبی ہو سکتی ہے؟ جو خدا اور رسول کے نام پر ظلموں کا بازار گرم کرتے ہوئے یہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں یا ظلموں کایہ بازار گرم کرتے ہیں، قرآنِ کریم ایسے لوگوں کی بد حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (النساء: 94) اور جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہوگی وہ اس میں لمبے عرصے تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ کا غضب اس پر نازل ہو گا اور اُسے اپنی جناب سے اللہ دور کر دے گا، اپنے سے دور ہٹادے گا۔ یعنی لعنت برسائے گا، اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لئے ناراضگی کی انتہا کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ پھر یہ نہیں کہ جہنم میں ڈالا جائے گا بلکہ لمبے عرصے تک جہنم اس کا ٹھکانہ ہے اور پھر اللہ کا غضب اس پر برستا رہے گا اور اللہ کی لعنت کا مورد بنتا رہے گا۔ یہ جہنم، یہ اللہ کا غضب، یہ اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بہت بڑاعذاب ہے۔ یہ عذابِ عظیم ہے۔ اس سے زیادہ بڑی بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کلمہ گو ہونے کے باوجود ایک شخص جہنم کی آگ میں پڑ کر مسلسل اللہ تعالیٰ کے غضب اور لعنت اور بہت بڑے عذاب میں گرفتار ہو۔ پس جو اپنے مفادات اور دنیاوی ہواوہوس کے لئے ایسے ظالمانہ فعل کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی انتہائی ناراضگی کا موجب بن رہے ہوتے ہیں۔ اور مظلوم اس قتل کے نتیجے میں اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ(سورۃ آل عمران آیت 170) کا اعزاز پاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کے حضور زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ یہ سلوک اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک زندہ ہے اور اپنے رب سے جنتوں کا رزق پا رہا ہو، اس کے لئے اس سے بڑا اور کیا انعام ہو سکتا ہے۔ اور حضرت امام حسن اور امام حسین جو تھے ان کے بارہ میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’وہ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے‘‘۔ (المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللہﷺ حدیث: 4840)
اور ان دونوں کے لئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مَیں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب 104/000حدیث: 3782)
پس جو اس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے فیض پانے والا ہو اور پھر اُس پر یہ کہ شہادت کا رُتبہ بھی پا جائے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق جنت کے اعلیٰ رزقوں کا وارث بنتا ہے اور بنا۔ اور آپ کے قاتل یقینا اللہ تعالیٰ کا غضب پانے والے ہوئے۔
یہ مہینہ یعنی محرّم کا مہینہ جس کے پہلے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں آج سے چودہ سوسال پہلے دس تاریخ کو ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیارے کو شہید کیا تھا جس کی داستان سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان ظالموں کو یہ خیال نہ آیا کہ کس ہستی پر ہم تلوار اٹھانے جا رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا جب ایمان مفقود ہو جائے تو پھر سب جذبات اور احساسات مٹ جاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا خوف ختم ہو جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس بندے کا خدا تعالیٰ کی نظر میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کیا مقام ہے؟ حضرت امام حسین کی شہادت کس طرح ہوئی اور اس کے بعد آپ کی نعشِ مبارک سے کیا سلوک کیا گیا؟ یہ واقعہ سُن کر انسان اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ شاید ظاہر میں تو وہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوں لیکن حقیقت میں انہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسانی قدروں کو قائم فرمانے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کے بھی کچھ اصول و ضوابط بتائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں دشمنوں کے لئے انصاف اور حدّ اعتدال میں رہنے کی تلقین فرمائی۔ اور دشمن بھی ایسے دشمن جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ ان سے بھی جنگ کی صورت میں ان کے قتل ہوجانے پر عربوں کے رواج کے مطابق جو مُثلہ اور لاشوں کی بے حرمتی کا رواج تھا، اس سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد و السیر باب تأمیر الامام الامراء علی البعوث…حدیث نمبر4522)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان تمام بد عادات اور روایات کو ختم کرنے آئے تھے جن سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ آپؐ نے تو کفار سے بھی عفو اور نرمی کا سلوک فرمایا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول کے پیارے نواسے جس کے لئے آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تُو بھی اس سے محبت کرنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میرے ان نواسوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے جنت میں جائے گا اور اسی طرح ناپسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے گا۔ (ماخوذ ازالمستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللہﷺ حدیث: 4838)
جن کو کسی سے صحیح عشق اور محبت ہو، وہ اس کے پیاروں کو بھی پیارا رکھتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ایک طرف تو عشق کا دعویٰ ہو اور جو اُس معشوق کے محبوب، اُن کی اولادیں ہوں، اُن سے نفرت ہو۔ یا کسی سے عشق کا دعویٰ کر کے اُس کی زندگی میں تو اس کے پیاروں کو پیارا رکھا جائے لیکن آنکھیں بند ہوتے ہی پیاروں سے پیار کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں، سب کچھ ختم ہو جائے۔ یہ دنیا داروں کا طریق تو ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والوں کا نہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی خلافت کے زمانے میں کہیں جا رہے تھے تو راستے میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے نواسے کو بچوں میں کھیلتے دیکھ کر کندھے پر بٹھا لیا اور پیار فرماتے ہوئے فرمایا: میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بہت پیارا تھا۔ اس لئے مَیں اس کو پیار کر رہا ہوں۔ (ماخوذ از اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر لفظ’’الحسن بن علیؓ جلد8۔ صفحہ نمبر251 دانشگاہ پنجاب لاہور۔ 2003ء)
تو یہ ہیں وفاؤں اور پیار کے قرینے اور سلیقے۔ لیکن کربلا میں آپ سے کیا سلوک ہوا؟ جس تعلیم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس کی پامالی کس طرح ہوئی؟ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے لشکر پر دشمنوں نے غلبہ پا لیا تو آپؓ نے (حضرت امام حسین نے) اپنے گھوڑے کا رُخ فرات کی طرف (دریا کی طرف) کیا۔ ایک شخص نے کہا کہ ندی اور ان کے درمیان حائل ہو جاؤ۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور دریا تک نہ جانے دیا۔ اُس شخص نے آپ کو ایک تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے نیچے پیوست ہو گیا۔ راوی آپ کی جنگ کی حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھے، وسمہ لگائے ہوئے پیدل اس طرح قتال کر رہے تھے، جنگ کر رہے تھے جیسے کوئی غضب کا شہسوار تیروں سے بچتے ہوئے حملہ کرتا ہے۔ مَیں نے شہادت سے قبل آپؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! میرے بعد بندگانِ خدا میں سے تم کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کرو گے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تم سے ناراض ہو۔ واللہ مجھے تو یہ امید ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا۔ پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہو جاؤ گے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جنگ کے سامان پیدا کر دے گا اور تمہارا خون بہایا جائے گا اور اللہ اس پر بھی راضی نہیں ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لئے عذابِ الیم کو کئی گنا بڑھا دے۔
یہ مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو شہید کرنے کے بعد کس طرح سلوک کیا؟ کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کر دیاحتیٰ کہ عورتوں کے سروں سے چادریں تک اتارنا شروع کر دیں۔ عمرو بن سعدنے منادی کی کہ کون کون اپنے گھوڑوں سے حضرت امام حسین کو پامال کرے گا؟ یہ سن کر دس سوار نکلے جنہوں نے اپنے گھوڑوں سے آپؓ کی نعش کو پامال کیایہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چُور چُور کر دیا۔ اس لڑائی میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تیروں کے 45زخم تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔ اور پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت امام حسینؓ کا سر کاٹ کر، جسم سے علیحدہ کر کے اگلے روز عبید اللہ بن زیاد گورنر کوفہ کے پاس بھیجا گیا اور گورنر نے حضرت امام حسینؓ کا سر کوفہ میں نصب کر دیا۔ اس کے بعد زہر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا۔ (ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 6صفحہ 243تا 250۔ خلافۃ یزید بن معاویہ۔ دارالفکر بیروت 2002ء) (ماخوذ ازتاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ صفحہ 51تا 78۔ نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء)
تو یہ سلوک تھا جو آپؓ کے شہید کرنے کے بعد آپؓ کی نعش سے کیا گیا۔ اس سے ظالمانہ سلوک اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کی لاش کو کُچلا گیا۔ سر تن سے جدا کیا گیا۔ اس طرح لاش کی بے حرمتی شائد ہی کوئی خبیث ترین دشمن کسی دوسرے دشمن کی کر سکتا ہو، نہ کہ ایک کلمہ پڑھنے والا، اپنے آپ کو اس رسول سے منسوب کرنے والا جس نے انسانی قدروں کے قائم رکھنے کی اپنے ماننے والوں کو بڑی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔ پس یقینا اس عمل سے ایسا فعل کرنے والوں کی ہوس باطنی کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگ دنیا دار تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تمام حدیں پھلانگ سکتے تھے اور انہوں نے پھلانگیں۔ دین سے اُن کا ذرہ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی دنیا داری کو ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کر کے یزید کی بیعت سے انکار کیا تھا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت امام حسینؓ نے پسندنہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ580مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا ’’یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسین نے اور ان کی جماعت نے ایسے اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ178خط بنام مولوی عبد الجبار مطبوعہ ربوہ)
لیکن بیعت نہ کرنے کے باوجود حضرت امام حسین نے صلح کی کوشش کی تھی اور جب آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں کا خون بہنے کا خطرہ ہے تو اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا۔ انہوں نے کہا تم جو جا سکتے ہو مجھے چھوڑ کر جاؤ۔ اب یہ اور حالات ہیں۔ جو چند ایک آپ کے ساتھ رہنے پر مصر تھے وہ تقریباً تیس چالیس کے قریب تھے یا آپ کے خاندان کے افراد تھے جو ساتھ رہے۔ پھر آپ نے یزید کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ میں جنگ نہیں چاہتا۔ مجھے واپس جانے دو تا کہ میں جا کر اللہ کی عبادت کروں۔ یا کسی سرحد کی طرف جانے دو تا کہ میں اسلام کی خاطر لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔ یا پھر مجھے اسی طرح یزید کے پاس لے جاؤ تا کہ مَیں اسے سمجھا سکوں کہ کیا حقیقت ہے۔ لیکن نمائندوں نے کوئی بات نہ مانی۔ (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ جلد 2 صفحہ 68 نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء)
آخر جب جنگ ٹھونسی گئی تو پھر اس کے سوا آپ کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا کہ مردِ میدان کی طرح مقابلہ کرتے۔ بہر حال یہ لوگ معمولی تعداد میں تھے جیسا کہ مَیں نے کہا، کل ستّر بہتّر افراد تھے اور ان کے مقابلے پر ایک بہت بڑی فوج تھی۔ یہ کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے تھے؟ بہر حال انہوں نے ایک صحیح مقصد کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، اپنی جانیں قربان کر دیں اور ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے۔
اللہ تعالیٰ کے بدلے لینے کے بھی اپنے طریقے ہیں جیسا کہ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ میرا انتقام لے گا، اللہ تعالیٰ نے لیا۔ یزید کو عارضی کامیابی بظاہر حاصل ہوئی لیکن کیا آج کوئی یزید کو اس کی نیک نامی کی وجہ سے یاد رکھتا ہے؟ اگر نیک نامی کی وجہ سے جانا جاتا تو مسلمان اپنے نام بھی اس کے نام پر رکھتے لیکن آج کل کوئی اپنے بچے کا نام یزیدنہیں رکھتا۔ وہ اگر جانا جاتا ہے تو اس نام سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمایا کہ ’’یزید پلید‘‘۔
حضرت امام حسینؓ کا ایک مقصد تھا۔ آپ حکومت نہیں چاہتے تھے۔ آپ حق کو قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ آپ نے کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بڑی اعلیٰ تشریح فرمائی ہے کہ وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسین کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخابِ خلافت کا حق اہلِ ملک کو ہے، جماعت کو ہے۔ کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعدبطور وراثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ یہ اصول آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا بلکہ حضرت امام حسین کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ پس کامیاب حضرت امام حسین ہوئے نہ کہ یزید۔ (ماخوذ از’کامیابی‘۔ انوار العلوم جلد 10 صفحہ 589)
اور پھر قدرت کا ایک اور طریقے سے انتقام دیکھیں کہ کیسا بھیانک انتقام ہے۔ اس کے بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب ’خلافتِ راشدہ‘ میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا، جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ مَیں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ مَیں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لے کر اب تک مَیں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو مَیں یہ اَمارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر باوجود غور کرنے کے مجھے تم میں سے کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا۔ اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں اور مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اُس کا باپ حسنؓ حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا۔ علیؓ اپنے وقت میں خلافت کا زیادہ حق دار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے۔ اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔ (خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 557-558)
اب دیکھیں، کس طرح بیٹے نے یہ باتیں کہہ کر اپنے باپ دادا کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ اس لئے کہ خوفِ خدا تھا۔ اس لئے کہ اس میں تقویٰ کی کچھ رمق تھی۔ دنیا داروں کے ہاں بھی نیک اولاد اور حقیقت پسند اولاد، انصاف سے کام لینے والی اولاد پیدا ہوتی ہے۔ بہر حال پھر یہ کہا کہ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کر لو۔ اس کی ماں پردے کے پیچھے اس کی تقریر سن رہی تھی۔ جب اس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصے سے کہنے لگی کہ کمبخت تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے۔ وہ کہنے لگا جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے، اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر گیا۔ گھر میں ہی بیٹھا رہا۔ وہاں سے باہر نہیں نکلا اور چند دن گزرنے کے بعد ہی اس کی وفات ہو گئی۔ تو یہ اس بات کی کتنی زبردست شہادت ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی، خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا۔ یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو۔ بلکہ اُس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علیؓ کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسنؓ اور حسینؓ کا حق زیادہ تھا اور مَیں اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ پس معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی انتخاب نہیں کہلا سکتا۔ کسی کی ذلت کا اس سے بڑا اور کیاسامان ہوسکتاہے کہ اولاد خود اپنے باپ کی حقیقت ظاہر کر کے اسے کمتر ثابت کر رہی ہو۔ پس حضرت امام حسین کی قربانی ہمیں بہت سے سبق دیتی ہے۔ آپ نے حق کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں حق پھیلا دیا۔ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے حق کو قائم فرما دیا۔ ہمیں بھی دعاؤں کے ذریعے سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں ہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلائے رکھے۔
ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ حضرت مسیح کو امام حسین سے تشبیہ دی گئی ہے اور استعارہ در استعارہ کے الفاظ استعمال کئے۔ اس تشبیہ سے ظاہر ہے کہ آنے والا مسیح بھی یعنی یہ مسیح موعود بھی اس تشبیہ سے حصہ لے گا۔ اس پر بھی ایک لحاظ سے امام حسین کی تشبیہ صادق آتی ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ انشاء اللہ ان باتوں کو نہیں دہرائے گا۔ (ماخوذ از ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 136-137 مطبوعہ ربوہ)
یہ الٰہی تقدیر ہے کہ وہ باتیں اب نہیں دہرائی جائیں گی جن سے اسلام کو ضعف پہنچا تھا۔ لیکن ہمیں دعاؤں کی طرف بہر حال توجہ دیتے رہنا چاہئے تا کہ ہم ان باتوں سے بچے رہیں جو ایمان میں ٹھوکر کا باعث بنتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو جو پہلے ہو چکی ہیں مسیح موعود کے زمانے میں نہیں دہرائے گا، ان میں ایک خلافت کا تسلسل بھی ہے۔ ایک طریقہ کار کے مطابق انتخابِ خلافت بھی ہے اور اس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ مسیح و مہدی کے بعد یہ تسلسل بھی قائم رہے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ کس طرح یہ باتیں نہیں دہرائی جائیں گی؟ مثلاً یہ کہ اگر پہلا آدم جنت سے نکالا گیا تھا تو حضرت مسیح موعودنے فرمایا کہ میرا نام اللہ تعالیٰ نے آدم رکھا ہے تا کہ اولادِ آدم کے جنت میں جانے کا ایک نئے سرے سے انتظام ہو۔ پھر فرمایا کہ پہلے مسیح کو یہودیوں نے صلیب دی تھی تو میرا نام مسیح رکھ کر اللہ تعالیٰ نے صلیب کو توڑنے کا سامان مہیا فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ پہلی دفعہ کی ناکامی کو دوسری دفعہ کامیابی سے بدلے گا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 15 صفحہ 498-499 مطبوعہ ربوہ)
اگر پہلے حسین کو یزیدنے حق گوئی کی وجہ سے شہید کیا تھا تو دوسرے حسین کی وجہ سے خدا تعالیٰ یزید کے لشکر کو شکست دے گا، انشاء اللہ۔ پس ہم تو اس ایمان پر قائم ہیں۔ پس اگرمحرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں۔ زمانے کے امام کے مقاصد کے حصول میں درود، دعاؤں اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں۔ یقینا اس مرتبہ یزید کامیاب نہیں ہو گا، بلکہ حسینی ہی کامیاب ہوں گے۔ استقامت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ملتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا اور صبر کا ارشاد فرمایا ہے۔ صبر صرف ظلم کو برداشت کرنا ہی نہیں ہے۔ جو ہو جائے اس پر خاموش بیٹھے رہنا نہیں ہے۔ بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ نیک کام کو جاری رکھنا اور کسی بھی خوف اور خطرے سے بے پرواہ ہو کر حق کا اظہار کرتے چلے جانا، یہ بھی صبر ہے۔ پس حضرت امام حسین نے جو حق کے اظہار کے نمونے ہمارے سامنے قائم فرمائے ہیں اسے ہمیں ہر وقت پکڑے رہنا چاہئے۔ اور اگر ہم اس پر قائم رہے تو ہم اس فتح اور کامیابی کا حصہ بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مقدر ہے۔ انشاء اللہ۔ دعاؤں کی قبولیت کے لئے درود شریف بہت اہم چیز ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ احادیث میں بھی اس کا بہت ذکر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی درود کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس لئے ہمیں عموماً درود کی طرف متوجہ رہنا چاہئے اور اس مہینے میں خاص طور پر اس طرف توجہ رکھنی چاہئے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کاسب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لئے ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے۔ اور اس زمانے میں آپ کے عاشقِ صادق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہا برکتوں کے سامان لے کر آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی، زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور پھر یہ درود جو ہے ہماری ذات کے لئے بھی برکتوں کا موجب بننے والا ہوگا۔ آخر میں میں حضرت امام حسینؓ کے بارہ میں، ان کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھوں گاجس کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو کیا مقام دیا ہے؟
کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع دی تھی کہ حضرت امام حسین کے مقام اور رُتبے کے بارہ میں کسی احمدی نے غلط بات کی ہے۔ تو اس پر آپؑ نے فرمایا کہ: ’’مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں، حضرت امام حسینؓ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفہ وقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی، باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔ لَعْنَتُ اللّٰہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ مجھے امیدنہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے مُنہ پر ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں‘‘۔ فرمایا ’’بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع دُنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنے اس میں موجودنہ تھے۔ مومن بننا کوئی امرِ سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نسبت فرماتا ہے قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۔ قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا (الحجرات: 15) مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو غذا کے لئے اختیار کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تیئں دُور تر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دُنیاکی محبت نے اس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسینؓ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن بر گزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الہٰی اور صبر، استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الہٰی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوب صورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دُنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دُنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دُنیا سے بہت دُور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور بر گزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسینؓ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسینؓ یا کسی بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جلّشانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ546-544۔ اشتہار نمبر 270مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کی محبت کی ہمیشہ توفیق عطا فرماتا رہے۔ ہمیشہ درود بھیجنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ اور یہ بھی دعا کریں کہ پاکستان اور دنیا کے وہ ممالک جہاں اللہ اور رسول کے نام پر ظلم کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی ختم فرمائے۔ اور اس مہینے میں خاص طور پر پاکستان میں بھی اور بعض اَورجگہوں پہ شیعوں اور سنیوں اور دوسرے فرقوں کے جو فساد ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل و غارت کیا جاتا ہے، جلوسوں پر دہشت گردی کے حملے کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بھی محفوظ رکھے۔ اور یہ مہینہ تمام مسلمان ملکوں اور تمام مسلمانوں کے لئے امن کا، خیریت کا مہینہ ثابت ہو۔ اور حضرت امام حسین کی شہادت کاجو مقصد تھا اُس کو یہ لوگ سمجھنے والے ہوں اور اس زمانے کے امام کو ماننے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے بھی بنیں۔ آج مَیں دو افریقن بھائیوں اور ایک بنگالی خاتون کا نمازوں کے بعد جنازہ بھی پڑھاؤں گا۔ جن کا تعارف یہ ہے۔
زمبابوے کے ایک ہمارے افریقن دوست تھے مہدی ٹپانی صاحب۔ نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھے۔ 15 ؍نومبر کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک لمبے عرصے سے نیشنل سیکرٹری تبلیغ تھے۔ 1990ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت کی توفیق پائی اور اس کے بعد سے ہمیشہ جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے وہاں مسجد کی زمین خریدنے اور آفس بلاک کی تعمیر میں مدد کی۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے سب شادی شدہ ہیں۔ اور اللہ کے فضل سے سب احمدی ہیں۔ بچے بھی ساتھ ہی احمدی ہیں۔ ان کے ایک بیٹے حسین ٹپانی صاحب زمبابوے کے صدر خدام الاحمدیہ ہیں اور جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ ان کی بہو وہاں صدر لجنہ اماء اللہ ہیں۔ انہتر سال مرحوم کی عمر تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
دوسرا جنازہ ڈاکٹر الحاج ابوبکرگائی (BABUCARR GAYE) صاحب کاہے۔ یہ گیمبیا کے منسٹر آف ہیلتھ رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ڈاکٹر الحاج ابوبکر گائی صاحب ہیلتھ اینڈ سوشل ورک کے منسٹر رہے۔ دودسمبر کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1940ء میں گیمبیا میں، بانجل میں پیدا ہوئے۔ 73ء میں ماسکو سے جنرل میڈیسن کی ڈگری حاصل کی۔ ملک کے مختلف ہسپتالوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ 1999ء سے 2004ء تک نصرت جہاں سکیم کے تحت ہمارے احمدیہ مسلم ہسپتال تالنڈنگ میں بطور ڈاکٹر خدمات سرانجام دیں۔ اس وقت یہ احمدی نہیں تھے۔ 2004ء میں انہوں نے بیعت کی توفیق پائی۔ بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ بیعت کے فوراً بعد چندے کے نظام میں شامل ہوئے اور باقاعدگی سے بڑی بڑی رقمیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیں۔ پرائیویٹ کلینک سے بہت سی خواتین اور بچوں کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔ بہت ایکٹو (Active) داعی الی اللہ تھے۔ بطور زعیم انصار اللہ بھی خدمات کی توفیق پائی۔ تلاوت قرآنِ کریم اور تہجد کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ تھے اور اس بات کا ہمیشہ اور برملا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی ہونے کے بعد معجزانہ طور پر روحانی تبدیلی ان کے اندر پیدا ہوئی ہے۔ نظامِ خلافت سے بہت گہرا اور مثالی تعلق تھا۔ اور خلفاء کے ساتھ بڑی عقیدت اور احترام تھا۔ ان کی تصاویر بھی رکھی ہوئی تھیں۔ 2009ء میں آپ کا تقرر بطور منسٹر ہوا۔ آپ کی وفات پر پارلیمنٹ کا اجلاس بھی ہوا جس میں تمام سرکاری افسران اور سپیکر نے ان کی سچائی اور وفا داری اور اخلاص اور قوم کا خادم ہونے اور محنتی ہونے اور سچے مسلمان ہونے کا ذکر کیا۔ وائس پریذیڈنٹ نے امیر صاحب گیمبیا کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں خطاب کے لئے بلایا اور اُن کو دس منٹ کا وقت دیا کہ وہ بھی کچھ کہیں۔ جماعت کے کسی بھی امیر کو پارلیمنٹ میں خطاب کا یہ پہلا موقع تھا۔ آپ کی وفات پر آپ کی باڈی ہاؤس آف پارلیمنٹ رکھی گئی جہاں وائس پریزیڈنٹ، سپیکر آف دی ہاؤس نے اور وزراء نے اور ممبران پارلیمنٹ اور دوستوں نے آخری دیدار کیا۔ اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی۔ ملک کے ٹی وی پر ان کی وفات کا اعلان نشر ہوا۔ مرحوم کے خاندان کے ایک ممبر نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپنے ایڈریس میں برملا اس بات کا اظہار کیا کہ مرحوم نہایت سچے اور مخلص احمدی مسلمان تھے جو ایک خدا پر اور اسلام کے پانچ ارکان پر ایمان رکھتے تھے اور حقیقی مسلمان تھے۔ اور غرباء کا نہ صرف مفت علاج کرتے تھے بلکہ ر قوم کے ذریعہ بھی مدد کرتے تھے۔ گیمبیا میں وقتاً فوقتاً جماعت کے خلاف کچھ نہ کچھ وبال اُٹھتا رہتا ہے۔ یہ حکومت میں تھے تو اس لحاظ سے بہر حال کچھ نہ کچھ فائدہ بھی رہتا ہے۔ اللہ کرے وہاں ان کے اللہ تعالیٰ اور نعم البدل پیدا فرمائے جو سرکاری حلقوں میں بھی اثر رسوخ رکھنے والے ہوں اور نیک، صالح اور خادمِ سلسلہ بھی ہوں۔
تیسرا جنازہ مکرمہ عزت النساء صاحبہ اہلیہ مکرم ابو احمد بھوئیاں صاحب مرحوم بنگلہ دیش کاہو گاجو ہمارے مربی سلسلہ، مبلغ سلسلہ اور بنگلہ ڈیسک کے انچارج مکرم فیروز عالم صاحب کی والدہ تھیں۔ 17؍نومبر کو تقریباً 85سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے 1975ء میں احمدیت قبول کی اور پنجوقتہ نمازوں کی پابند، تہجد گزار اور دین العجائز رکھنے والی نیک مخلص خاتون تھیں۔ عبادات کے سلسلے میں انہیں پاکیزگی کا اتنا خیال تھا کہ ہر نماز سے پہلے کپڑے بدل کر نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ ان کے گاؤں میں اکثر لوگ ناخواندہ ہیں۔ گاؤں میں رہنے والی تھیں لیکن انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔ ایسی غریب پرور تھیں کہ اپنی غربت کے باوجود اپنے خاندان کے دوسرے غریبوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلافتِ احمدیہ سے والہانہ محبت رکھتی تھیں۔ مخالفین جب بھی ان کے سامنے جماعت کے خلاف بات کرتے تو وہ اُن کو یہی جواب دیتیں کہ تمہیں نہیں معلوم کہ تم کس نعمت کا انکار کر رہے ہو؟ مرحومہ موصیہ تھیں۔ تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ان کی یادگار ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، فیروز عالم صاحب ان کے ایک بیٹے ہیں جو یہیں لندن میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور سب کے پسماندگان کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
(نماز جمعہ وعصرکے بعد حضور ایدہ اللہ نے ان مرحومین کی نمازجنازہ غائب پڑھائی)