خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ جنوری 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج کل پریس اور دوسرا الیکٹرونک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ جو ہے، اس پر مسلم اور غیر مسلم دنیا میں ایک موضوع بڑی شدت سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور یہ ہے ناموسِ رسالت کی پاسداری یا توہینِ رسالت کا قانون۔ ایک سچے مسلمان کے لئے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی، کسی بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے۔ اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا سوال ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے افضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے، اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ کی توہین تو ایک طرف، کوئی ہلکا سا ایسالفظ بھی نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا مسلم دنیا میں، خاص طور پر پاکستان میں بعض حالات کی وجہ سے یہ موضوع بڑا نازک موڑ اختیار کر گیا ہے اور اس وجہ سے دنیا کی نظریں آج کل پاکستان پر گڑی ہوئی ہیں۔ علاوہ اور بہت ساری وجوہات کے یہ ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اور مغربی ممالک کے بعض سربراہان بھی اور پوپ بھی اس حوالے سے پاکستان کی حکومت سے مطالبات کر رہے ہیں۔ آج کل یہ مغربی یا ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک پریس میں مسلمانوں کو اور اسلام کو ایک بھیانک، شدت پسند، عدمِ برداشت سے پُر گروہ اور مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں اور دنیا میں پاکستان، افغانستان یا بعض اور مسلم ممالک کی مثالیں اس حوالے سے بہت زیادہ دی جانے لگی ہیں۔ بہر حال مَیں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ ناموسِ رسالت کے قانون کی مسلمانوں کے نزدیک کتنی اہمیت ہے؟ اور اس کی کیا قانونی شکل ہونی چاہئے؟ یا اس حوالے سے غیر مسلم دنیا کیا فوائد حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اور بعض حالات میں مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہی ہے۔
مَیں تو آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کہ اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر: 96) یقینا ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں، کی گرفت میں آ جائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا۔ میرے آقائے دو جہانؐ کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ آپ اکے مقام، آپ اکے مرتبے، آپؐ کی عزت کو ہر لمحہ بلند تر کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے۔ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب: 57) کہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو صرف اور صرف آپؐ کو ملا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اَورنبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے۔ اور اس مقام کو اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے عاشقِ صادق نے سمجھا ہے اور ہمیں بتایا ہے۔ آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپ نے ہر قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب و تکالیف اٹھائے لیکن پرواہ نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 57)۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبی پر‘‘۔
فرمایا کہ: ’’اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسولِ اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لئے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔ لفظ تو مل سکتے تھے لیکن خود استعمال نہ کئے۔ یعنی آپؐ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تحدید سے بیروں تھی۔ اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔ آپ اکی روح میں وہ صدق و صفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیا کہ آئندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 24-23 مطبوعہ ربوہ)
پس آج یہ صدق و وفا ہے جس کا اُسوہ ہمارے سامنے آنحضرتؐ نے قائم فرمایا ہے۔ یہ صدق و وفا کا تعلق آنحضرت انے کس سے دکھایا؟ یہ تعلق اپنے پیدا کرنے والے خدا سے دکھایا۔ پس اگر ہم نے آنحضرت اکی پیروی کرنی ہے اور آپؐ کی اُمّت کے ان افراد میں شامل ہونا ہے جو مومن ہونے کا حقیقی حق ادا کرنے والے ہیں تو پھر ہمیں صدق و وفا کے ساتھ اُن باتوں پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جن کا حکم ہمیں خدا تعالیٰ نے دیا ہے۔ اپنی زبانوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھنا ہے تا کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکیں، تا کہ ہم اُن برکتوں سے فیض پا سکیں جو اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جیسا کہ آنحضرتؐ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کے اعمالِ صالحہ کی تعریف تمام حدود و قیود سے باہر تھی۔ اس لئے آپؐ کو یہ مقام ملا کہ اللہ اور اس کے فرشتے آپؐ پر درود بھیجتے ہیں۔ اور اس لئے مومنوں کو بھی حکم ہے کہ درود بھیجیں اور درود بھیجتے ہوئے اُن احسانات کو سامنے رکھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے۔ ہمیں ایک ایسے دین سے آگاہ کیا جو خدا تعالیٰ سے ملانے والا ہے۔ ہمارے سامنے وہ اخلاق رکھے جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی غیرت اور توحید کے قیام کے لئے نمونے قائم کئے تو عبدِ کامل بن کر عبادتوں کے حق بھی ادا کئے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے قائم فرمایاتو اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر کا بے مثال اسوہ بھی ہمارے سامنے پیش فرمایا۔ قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو ہر حالت میں سچائی پر چلنے، امانت و دیانت کا حق ادا کرنے، اپنے عہدوں کو پورا کرنے، رحمی رشتوں کا پاس کرنے، مخلوقِ خدا کی ہمدردی اور اُن سے محبت اور شفقت کا سلوک کرنے، صبر اور حوصلہ دکھانے، عفو کا سلوک کرنے، عاجزی اور انکساری دکھانے اور ہر حالت میں خدا تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے علاوہ بہت سارے احکامات ہیں تو اس کی اعلیٰ ترین مثالیں بھی آپؐ نے ہمارے سامنے قائم فرمائیں۔ پس مومن کا یہ فرض ہے کہ جب اپنے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے تو ان نمونوں کو قائم کرنے کی کوشش کرے، تب اُس صدق و وفا کا اظہار ہو گا جو ایک مومن اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتا ہے۔ اور پھر آپ کے واسطے سے خدا تعالیٰ سے صدق و وفا کا یہ تعلق ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر ہی آنحضرتؐ پر بھیجا جانے والا درود، وہ درود کہلائے گا جو شکر گزاری کے طور پر ہو گا۔
یہ ہے ایک مومن کا آنحضرتؐ سے عشق و وفا کا تعلق۔ یہ ہے آنحضرتؐ کی ناموسِ رسالت کہ غیر کا منہ بند کرنے کے لئے ہم اسوہِ رسولؐ پر عمل کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑائیں اور غیر کو اپنے اوپر انگلی اٹھانے کا موقع دیں۔ اور صرف اپنے اوپر ہی نہیں بلکہ اپنے عملوں کی وجہ سے اپنے پیارے آقا سید المعصومینؐ کے متعلق دشمن کو بیہودہ گوئی یا کسی بھی قسم کے ادب سے گرے ہوئے الفاظ کہنے کا موقع دیں۔ اگر مخالفینِ اسلام کو ہماری کسی کمزوری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کچھ بھی کہنے کا موقع ملتا ہے تو ہم بھی گناہگار ہوں گے۔ ہماری بھی جواب طلبی ہو گی کہ تمہارے فلاں عمل نے دشمن کو یہ کہنے کی جرأت دی ہے۔ کیا تم نے یہی سمجھا تھا کہ صرف تمہارے کھوکھلے نعروں اور بے عملی کے نعروں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا اظہار ہو جائے گا یا تم پیار کا اظہار کرنے والے بن سکتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کو یہ پسندنہیں۔ اللہ تعالیٰ تو عمل چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑا خوف کا مقام ہے۔ باقی جہاں تک دشمن کے بغضوں، کینوں اور اس وجہ سے میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی بھی قسم کی دریدہ دہنی کا تعلق ہے، استہزاء کا تعلق ہے اُس کا اظہار، جیسا مَیں نے بتایا، اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر فرما دیا ہے کہ ان لوگوں کے لئے مَیں کافی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ روشنی دکھائی ہے کہ جس کے لئے ایک احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی شکر گزار ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر آپ ہمیں صحیح راستہ نہ دکھاتے تو ہمارا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا اظہار صرف ظاہری قانونوں اور جلسے جلوسوں تک ہی ہوتا۔ اس درود میں جب ہم آلِ محمدؐ کہتے ہیں تو آنحضرتؐ کے پیارے مہدی کا تصور بھی ابھرنا چاہئے جس نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات پیش کرتا ہوں جس سے ظاہر ہو گا کہ آنحضرتؐ کے اعلیٰ ترین مقام کو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا ہے اور دیکھا ہے، وہ کیا ہے؟ یقینا یہ آپ ہی کا حصہ ہے جو اس سے ہمیں آگاہی فرمائی۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائکہ میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور ا علیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں‘‘ (اس اسوہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ) ’’اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی، امی، صادق، مصدوق، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی‘‘۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد5۔ صفحہ160تا161)
پھر اس عاشقِ صادق کے عشقِ رسول میں فنا ہونے اور دلی جذبات کے اظہار کا ایک اور نمونہ بھی دیکھیں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی۔ زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اُس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُس وقت تک ہم مُنور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد22۔ صفحہ119-118)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمردنبیؐ اور زندہ نبیؐ اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مُرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جس کے زیرِ سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘۔ (سراج منیر۔ روحانی خزائن۔ جلد12۔ صفحہ82)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کُل نبی جو اس وقت تک گزر چکے تھے، سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی، ہرگز نہ کر سکتے۔ اُن میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو ملی تھی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذاللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا۔ مَیں نبیوں کی عزّت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں۔ لیکن نبی کریمؐ کی فضلیت کُل انبیاء پر میرے ایمان کا جزوِ اعظم ہے اور میرے رگ و ریشہ میں ملی ہوئی بات ہے۔ یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں۔ بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہو سکتاتھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے‘‘۔ (ملفوظات۔ جلد اول۔ صفحہ 420۔ مطبوعہ ربوہ)
آپ فرماتے ہیں:
’’نوع انسان کیلئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اُس کے غیر کو اُس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو۔ تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی۔ بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اُس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے‘‘۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن۔ جلد19۔ صفحہ14-13)
پھر آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی کی تعریف کرتے ہوئے کہ آپؐ کییہ زندگی کس طرح کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ عجیب بات ہے کہ دنیا ختم ہونے کو ہے مگر اس کامل نبی کے فیضان کی شعاعیں اب تک ختم نہیں ہوئیں۔ اگر خدا کا کلام قرآنِ شریف مانع نہ ہوتا‘‘، (یعنی اس کی وجہ سے کوئی روک نہ ہوتی) ’’تو فقط یہی نبی تھا جس کی نسبت ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب تک مع جسمِ عنصری زندہ آسمان پر موجودہے کیونکہ ہم اس کی زندگی کے صریح آثار پاتے ہیں۔ اس کا دین زندہ ہے۔ اس کی پیروی کرنے والا زندہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے ذریعہ سے زندہ خدا مل جاتا ہے۔ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ خدا اُس سے اور اُس کے دین سے اور اُس کے محب سے محبت کرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ درحقیقت وہ زندہ ہے اور آسمان پرسب سے اُس کا مقام برتر ہے۔ لیکن یہ جسمِ عنصری جو فانی ہے یہ نہیں ہے بلکہ ایک اور نورانی جسم کے ساتھ جو لازوال ہے اپنے خدائے مقتدر کے پاس آسمان پر ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد 22۔ صفحہ 118-119 حاشیہ)
پس اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرتؐ کے مقام کو پہچانا ہے، کوئی بھی نہیں پہچان سکتا۔ اور آپ ہی وہ مردِ مجاہد تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کی صورت میں سب سے پہلے مؤثر آواز بلند کی۔
1897ء میں جب پادریوں کی طرف سے مشن پریس گوجرانوالہ میں اسلام کے ردّ میں ایک کتاب شائع ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کی ذات کے بارہ میں انتہائی دریدہ دہنی کی گئی اور مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی اور پھر مسلمانوں کا دل دکھانے کے لئے ایک ہزار کاپی اس کتاب کی علماء اور مسلمان لیڈروں کو مفت تقسیم کی گئی اور ایک کاپی اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بھیجی گئی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار دیا اور حکومت کو توجہ دلائی کہ گو قانون بے شک یہ کہہ دے کہ تمہیں بھی اجازت ہے اور یہ کتاب لکھناتوہین اور ہتک کے زمرہ میں نہیں آتا، تم لوگ بھی لکھ سکتے ہو۔ لیکن فرمایا کہ مسلمان تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور نبی کے بارے میں اس طرح کی لغویات نہیں لکھ سکتے، بیہودہ گوئی نہیں کر سکتے۔ آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔ اور یہی طریقِ کار ہے جس سے امن امان اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بہترین طریق نہیں ہے۔ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی حفاظت اور مخالفین کے آپؐ کی ذات پر اور اسلام پر حملے کے خلاف ایک جوش تھا، اور ہر موقع پر آپ اس کے دفاع کے لئے کھڑے ہوتے تھے۔ درد سے مسلمانوں کو بھی سمجھایا کہ کس طرح ہم دشمنوں کے حملے کو پسپا کر سکتے ہیں؟ کیا طریقِ کار تم مسلمانوں کو بھی اختیار کرنا چاہئے۔ قطع نظر اس کے کہ تم کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی حفاظت ایک ایسا اہم کام ہے جس کے لئے تمام مسلمانوں کو اکٹھے ہو جانا چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے مخالفوں نے‘‘ (یعنی اسلام کے مخالفوں نے) ’’ہزاروں اعتراض کر کے یہ ارادہ کیا ہے کہ اسلام کے نورانی اور خوبصورت چہرہ کو بدشکل اور مکروہ ظاہر کریں۔ ایسا ہی ہماری تمام کوششیں اسی کام کے لئے ہونی چاہئیں کہ اس پاک دین کی کمال درجہ کی خوبصورتی اور بے عیب اور معصوم ہونا بپایۂ ثبوت پہنچادیں۔ یقینا سمجھو کہ گمراہوں کی حقیقی اور واقعی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ہم جھوٹے اور ذلیل اعتراضات کی غلطیوں پر ان کومطلع کریں اور اُن کو دکھلادیں کہ اسلام کا چہرہ کیسا نورانی، کیسا مبارک اور کیسا ہر ایک داغ سے پاک ہے؟ ہمارا کام جو ہمیں ضرور ہی کرنا چاہئے، وہ یہی ہے کہ یہ دجل اور افترا جس کے ذریعہ سے قوموں کو اسلام کی نسبت بد ظن کیا گیا ہے، اُس کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔ یہ کام سب کاموں پر مقدم ہے۔ جس میں اگر ہم غفلت کریں تو خدا اور رسول کے گنہگار ہوں گے۔ سچی ہمدردی اسلام کی اور سچی محبت رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اسی میں ہے کہ ہم ان افتراؤں سے اپنے مولیٰ و سیّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دامن پاک ثابت کر کے دکھلائیں۔ اور وسواسی دلوں کو یہ ایک نیا موقع وسوسہ کا نہ دیں کہ گویا ہم تحکّم سے حملہ کرنے والوں کو روکنا چاہتے ہیں اور جواب لکھنے سے کنارہ کش ہیں۔ ہر ایک شخص اپنی رائے اور خیال کی پیروی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمارے دل کو اسی امر کے لئے کھولا ہے کہ اس وقت اور اس زمانے میں اسلام کی حقیقی تائید اسی میں ہے کہ ہم اس تخمِ بدنامی کو جو بویا گیا ہے اور اُن اعتراضات کو جو یورپ اور ایشیا میں پھیلائے گئے ہیں۔ جڑ سے اکھاڑ کر اسلامی خوبیوں کے انوار اور برکات اس قدر غیر قوموں کو دکھلاویں کہ اُن کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔ اور اُن کے دل ان مفتریوں سے بیزار ہو جائیں جنہوں نے دھوکہ دے کر ایسے مُزخرفات شائع کئے ہیں‘‘ (یعنی جھوٹی باتیں شائع کی ہیں )۔ ’’اور ہمیں اُن لوگوں کے خیالات پر نہایت افسوس ہے جو باوجودیکہ وہ دیکھتے ہیں کہ کس قدر زہریلے اعتراضات پھیلائے جاتے اور عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے، پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ ان اعتراضات کے رد ّکرنے کی کچھ بھی ضرورت نہیں، صرف مقدمات اٹھانا اور گورنمنٹ میں میموریل بھیجنا کافی ہے‘‘۔ (البلاغ، فریادِ درد۔ روحانی خزائن۔ جلد 13۔ صفحہ 382-383)
صرف اتنی سی بات کافی نہیں کہ کسی کو پکڑ لیا یا مقدمہ بنا دیا یا میموریل بھیج دیابلکہ ایک عملی کوشش اور مسلسل کوشش اور مستقل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ پس یہ ہے اصل درد کہ اٹھو اور الزامات کو ردّ کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے چلے جاؤ اور اپنے عملوں کو حقیقی مسلمان کا عمل بناؤ نہ کہ صرف میموریل بھیج کر یا جلوس نکال کر یا چند دن شور مچا کر پھر بیٹھ جاؤ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے کیا جذبات رکھتے تھے، اس کا اندازہ ان اقتباسات سے ہو سکتا ہے جو مَیں پیش کرنے لگا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجنابؐ پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں، اُن سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘۔ (پیغام صلح۔ روحانی خزائن۔ جلد23۔ صفحہ459)
پھر مخالفین کے الزامات کا ایک جگہ ذکر کرتے ہوئے اور غیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسولِ پاکؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات و الا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔ خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور مَیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسولِ اکرمؐ پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا! تُو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش‘‘۔ (ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد5۔ صفحہ15 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے از سیرت طیبہ صفحہ 41-42)
آج بھی بعض اسلام مخالف جوعیسائی پادری ہیں وہ اسلام پر گندے الزامات لگانے سے بعض نہیں آتے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے جس پادری نے قرآنِ کریم جلانے کا اعلان کیا تھا آج بھی وہ وہی خیالات رکھتا ہے، خیالات اس کے ختم نہیں ہو گئے۔ اس کے یہاں انگلستان میں آنے کا پروگرام تھا۔ گزشتہ دنوں اس کا اعلان بھی ہوا تھا۔ کسی گروپ نے یا شایدپارلیمنٹ نے اس کو بلوایا تھا۔ بہر حال کل کی خبر تھی کہ برطانیہ کی حکومت نے اس بات پر پابندی لگا دی ہے کہ ہمارے ہاں مختلف مذاہب کے لوگ ہیں اور ہم کسی قسم کا فساد ملک میں نہیں چاہتے۔ اور یہ ہم برداشت بھی نہیں کر سکتے، اس لئے تمہیں یہاں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ حکومتِ برطانیہ کا بڑا مستحسن قدم ہے۔ خدا تعالیٰ آئندہ بھی ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باقی دنیا کی حکومتیں بھی اس سے سبق سیکھیں تا کہ دنیا میں فتنہ و فساد ختم ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی مختلف موقعوں پر عملی غیرت کا اظہارکس طرح فرمایا۔ اس کے ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں۔ لیکھرام کا واقعہ تو ہر ایک کے علم میں ہے کہ کس طرح آپ نے اس میں غیرت کا مظاہرہ فرمایا۔ سٹیشن پر آپ وضو فرما رہے تھے تو وہ آیا اور اس نے سلام کیا۔ آپ نے توجہ نہ دی اور وضو کرتے رہے۔ وہ سمجھا کہ شاید سلام سنا نہیں۔ دوسری طرف سے آیا اور سلام کیا۔ پھر بھی آپ نے جواب نہیں دیا اور چلا گیا۔ وضو کرنے کے بعد کسی نے کہا کہ لیکھرام آیا تھا اور سلام عرض کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے؟ (ماخوذ از سیرت المہدی جلد1حصہ اول صفحہ254 روایت نمبر 281 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
یہ تھی غیرت جوآپ نے دکھائی اور یہ غیرت کا مظاہرہ ہے جو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایک واقعہ لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں ڈاکٹر پادری وائٹ بریخٹ کو 1925ء میں لندن میں ملا (جو آج کل یعنی اُن دنوں میں ڈاکٹر سٹانسٹن کہلاتے تھے۔ یہ لفظ اُردو میں انہوں نے لکھا ہے اس لئے ہو سکتا ہے غلطی ہو۔ بہر حال) پادری صاحب بٹالہ میں مشنری رہے ہیں اور حضرت صاحب سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ کہتے ہیں پادری فتح مسیح صاحب سے بٹالہ میں ایک مباحثہ الہام کے متعلق تھا اُس میں بھی ان انگریز پادری صاحب کادخل تھا۔ غرض سلسلے کی تاریخ میں ان کا کچھ تعلق ہے اور اس وجہ سے مجھے شوق پیدا ہوا کہ مَیں اس پادری کو ملوں۔ اس انگریز کو پھر مَیں لندن میں جا کے ملا۔ تو کہتے ہیں کہ گفتگو کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کے بارہ میں سوالات کے جواب میں بعض واقعات بیان ہو رہے تھے وہ سن کر ایک موقع پر وہ پادری صاحب کہنے لگے کہ مَیں نے ایک بات مرزا صاحب میں یہ دیکھی جو مجھے پسندنہیں تھی کہ وہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تو ناراض ہو جاتے تھے اور ان کا چہرہ متغیر ہو جاتا تھا۔ یعنی ایسا اعتراض جو نازیبا الفاظ میں کیا جاتا ہو۔ باقی اعتراض تو کرتے ہی ہیں جب بحث ہو رہی ہوتی ہے۔ جہاں کوئی حدّ ادب سے باہر نکلتے تھے تو آپؑ فوراً غصہ میں آتے اور چہرہ متغیر ہو جاتا۔ تو عرفانی صاحب کہتے ہیں، مَیں نے پادری صاحب کو کہا کہ جو بات آپ کو ناپسند ہے اُسی پر مَیں قربان ہوں۔ کیونکہ اس سے حضرت مرزا صاحب کی زندگی کے ایک پہلو پر ایسی روشنی پڑتی ہے کہ وہ آپ کی ایمانی غیرت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور عشق اور فدائیت کو نمایاں کر دیتی ہے۔ آپ کے نزدیک شاید یہ عیب ہو مگر مَیں تو اسے اعلیٰ درجہ کا اخلاق یقین کرتا ہوں اور آپ کے منہ سے سن کر حضرت مرزا صاحب کی محبت اور آپ کے ساتھ عقیدت میں مجھے اور بھی ترقی ہوئی ہے۔
غرض آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق تھا اور برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کرے۔ (ماخوذ از حیاتِ احمد از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ۔ جلد اول صفحہ 265-266 جدید ایڈیشن)
تو یہ ہے غیرتِ رسول کا ایسا اظہار کہ جس سے دوسرے کو خود ہی احساس ہو جائے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں حدّ ادب کے اندر رہتے ہوئے بات کرنی ہے۔
غرض کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عمل سے بھی اور اپنی تحریر و تقریر سے بھی دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی عشقِ رسول اور غیرتِ رسول کیا ہے؟ اور پھر اپنی جماعت میں بھی یہی روح پھونکی۔ یہ غیرتِ رسول دکھاؤ، لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ ہر کارروائی کرو لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ چنانچہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک دل آزار کتاب ایک آریہ نے لکھی اور پھر و رتمان جو رسالہ تھا اس میں بعد میں ایک مضمون بھی شائع کیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے رد ّکے لئے ہر قسم کی کوشش کی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی نصیحت فرمائی کہ’’مسلمان کو چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو بچانے کے لئے غیرت دکھائیں مگر ساتھ ہی یہ بھی دکھا دیں کہ ہر ایک مسلمان اپنے نفس کو قابو میں رکھتاہے اور اس سے مغلوب نہیں ہوتا۔ جب مسلمان یہ دکھا دیں گے تو دنیا ان کے مقابلے سے خود بخود بھاگ جائے گی‘‘۔ (الفضل 5جولائی1927ء صفحہ7 بحوالہ سوانح فضل عمر جلد 5صفحہ41)
اسی دوران آپ نے ایک پوسٹر بھی شائع کروایا۔ اس کے الفاظ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس قدر غیرت کا مظاہرہ آپ نے فرمایا اور مسلمانوں کو بھی غیرت دکھانے پر آمادہ کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراضات ہو رہے تھے تو آپ نے اس میں فرمایا کہ’’کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آ سکتا ہے؟ کیا اس سے زیادہ ہماری بیکسی کوئی اور صورت اختیار کر سکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی و اَھلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرّہ ذرّہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے۔ اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہو سکتی ہے کہ ہمارے دلوں کو زخمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے۔ لیکن مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا؟۔ ہماری جانیں حاضر ہیں۔ ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں۔ جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدارا نبیوں کے سردار کی ہتک کر کے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے۔ ہماری طرف سے بار بار کہا گیا ہے اور مَیں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بَن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہرگز صلح نہیں ہو سکتی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے ہیں۔ بے شک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کی آڑ میں (اس وقت فیصلہ ہوا تھا جو مسلمانوں کے خلاف ہوا تھا) جس قدر چاہیں ہمارے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے لیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اَور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانونِ فطرت ہے۔ وہ اپنی طاقت کی بِنا پر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانونِ قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے۔ اور قانونِ قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس کو برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 597 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس وقت جب یہ ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان میں قانون میں تبدیلی بھی ہوئی اور یہ قانون پاس ہوا کہ جو انبیاء ہیں اور جو کسی بھی مذہب کے فرقے کے سربراہ ہیں ان کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ اب آگے چلیں۔ احمدیوں کی تاریخ میں آج سے بیس سال یا پچیس سال پہلے بدنامِ زمانہ سلمان رشدی نے جواپنی مکروہ کتاب لکھی تھی تو اس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے خود بھی خطبوں میں اس کا جواب دیا اور پھر کتابی شکل میں بھی جواب لکھوایا گیاجو انگریزی میں چھپا، جس کا اردو ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔ اس کے اردو ترجمہ کا نام ’’سلمان رشدی بھوتوں کے آسیب میں‘‘ ہے۔
2005ء میں جب ڈنمارک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیہودہ تصاویر بنائی گئیں تو ڈنمارک مشن نے بھی اور مَیں نے بھی خطبات کے ذریعہ اس کا جواب دیا۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائیاں بھی کیں۔ ہالینڈ کے ممبر آف پارلیمنٹ کی طرف سے قرآنِ کریم پر حملہ ہوا، اسلام پر حملہ ہوا توان کے جوابات دئیے گئے۔ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے غیرت کا مظاہرہ ہے جو ایک حقیقی مسلمان کا سرمایہ ہے۔ قانون سے باہر نکل کر ہم جو بھی عمل کریں گے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صدق و وفا کا تعلق نہیں ہے۔
لیکن اصل چیز جو اس صدق و وفا کے تعلق کو جاری رکھنے والی ہے وہ آپؐ کا پیغام ہے۔ اگر مسلمان اس پیغام کی حقیقت کو سمجھتے ہوں، اس خوبصورت پیغام کے پہنچانے کا حق ادا کرنے والے بن جائیں تو آج یہ حالات نہ ہوں۔ اگر وہ حقیقت میں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کر رہے ہوتے تو دشمن کا منہ خود بخود بند ہو جاتا۔ اور اگر مسلمانوں میں سے چند مفاد پرست قانون کی آڑ میں ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہوتے بھی یا فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کرتے تو قانون ان کو مجرم بنا کر اس مفاد پرستی کی جڑ اکھیڑ دیتا۔ لیکن یہ سب کام تقویٰ کے ہیں۔ پس مسلمان اگر ناموسِ رسالت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو اس تقویٰ کو تلاش کریں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں غیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ایک خطبہ میں تو ان کا ذکر نہیں ہو سکتا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ چند خطبوں میں بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو ہر قسم کے اعتراضوں اور استہزاء سے پاک کرنا ہے تو کسی قانون سے نہیں بلکہ دنیاکو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لا کر کرنا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے فساد اس وقت ختم ہوں گے جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور دنیا کو آنحضرتؐ کے جھنڈے تلے لائیں گے۔ لیکن اگر صرف قانون بنا کر پھر اس قانون سے اپنے مفاد حاصل کر رہے ہوں گے تو ہم بھی توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہوں گے۔ ورتمان رسالہ جو تھا جس کے بارے میں مَیں نے بیان کیا کہ خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کے بارے میں لکھا اور مسلمانوں کو کہا کہ احتجاج کرو اور پھر ساری مسلم امت جو تھی وہ سراپا احتجاج بن گئی، مقدمے بھی چلے لیکن بہر حال آخر تبدیلی لانی پڑی اور مجرم کو سزا بھی ملی۔ جب اس کا فیصلہ ہو گیا تو اس کے فیصلے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ہی فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ: ’’میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے۔ میرا آقا دنیا کو زندگی بخشنے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے‘‘۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ606 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
کاش کہ آج بھی ہر مسلمان یہ بات سمجھ جائے کہ اگر حقیقت میں کوئی فتنہ ہے تو قانون ظاہری فتنے کا علاج کرتا ہے، دل کا نہیں۔ اوّل تو یہی تحقیق نہیں ہوتی کہ فتنہ ہے بھی کہ نہیں؟ مسلمان کے لئے حقیقی خوشی اس وقت ہو گی اور ہونی چاہئے جب دنیا کے دلوں میں آنحضرتؐ کی محبت قائم ہو جائے گی۔ آج احمدیوں کا تو یہ فرض ہے ہی جس کے لئے ہمیں بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ اگر دوسرے مسلمان بھی سختی کے بجائے عفو اور پیار کا مظاہرہ کریں اور وہ نمونہ دکھائیں جو آنحضرتؐ نے دکھایا تو پھر یہی اسلام کی خدمت ہو گی۔ آپ نے دو کٹّردشمنانِ اسلام جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر مزاحمت کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر بعد میں جب لشکر کو دیکھا اور فتح مکہ کی شوکت دیکھی تو گھبرا گئے۔ اور پھر ایک عورت اُمّ ہانیؓ، جن کے خاوند کے وہ عزیزتھے جب اُن کے گھر وہ پناہ لینے کے لئے آئے تو امّ ہانی نے پناہ دے دی اور پھر آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ انہوں نے دو اشخاص کو پناہ دی ہے۔ لیکن میرا بھائی علی کہتا ہے کہ مَیں انہیں قتل کر دوں گا وہ مجرم ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے اُمّ ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی۔ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام باب من أمر الرسولﷺ بقتلھم صفحہ 742-743مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001)
اس پناہ کے بعد انہی دشمنوں کو یہ فکر تھی کہ آنحضرتؐ نے اس طرح شفقت اور رأفت اور پیار کا سلوک کیا ہے کہ ہم کس طرح ان کومنہ دکھائیں گے۔ لیکن جب ایک موقع پر حارث بن ہشام کی مسجد کے قریب آنحضرتؐ سے اتفاقاً ملاقات ہوئی تو اس رحمۃ للعالمین نے نہایت شفقت سے ملاقات فرمائی۔ اور پھر یہ حارث جنگِ یرموک میں اسلام کے دفاع میں جاں نثاری دکھاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ (سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد از محمد بن یوسف شامی۔ ذکر اسلام الحارث بن ہشامؓ … جلد 5صفحہ 249بیروت1993) (اسد الغابۃ جلد 1صفحہ 478 الحارث بن ہشام مطبوعہ دارالفکر بیروت 2003ء)
پس ایک عورت کے پناہ دئیے ہوئے کا بھی آنحضرتؐ نے یہ احترام فرمایا کہ جس کے نتیجہ میں وہ اسلام کی آغوش میں آ گیا۔ آج بھی ہمیں اسی اُسوہ کی ضرورت ہے اور اسلام کا حقیقی پیغام دنیا میں پہنچانے کی ضرورت ہے نہ کہ ظاہری قانون بنا کر پھر غلط طریقے سے ان پر عمل کرنے کی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور سب مسلمانوں کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔