خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج یہاں خدام الاحمدیہ جرمنی اور لجنہ اماء اللہ جرمنی کا اجتماع شروع ہو رہا ہے۔ اور برطانیہ میں بھی خدام الاحمدیہ برطانیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے۔ اسی طرح بعض اور ملک بھی ہیں جہاں آج جلسے اور اجتماعات ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام اجتماعات کو اپنے خاص فضل سے کامیاب فرمائے۔ ہر شامل ہونے والا بے اتنہا فیض اُٹھانے والا ہو، اس اجتماع کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے تمام شامل ہونے والوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ حاسدین اور مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ہر دن جماعت میں ترقی دیکھتے ہیں اور جوں جوں یہ ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے دنیا کے ہر ملک میں حسد کرنے والے اور شر پھیلانے والے پیدا ہو رہے ہیں۔ اور یہ حاسدین اور شر پھیلانے والوں کا بڑھنا ہی اس بات کی علامت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں جماعت احمدیہ کے قدم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پس یہ مخالفین اور دشمن کی منصوبہ بندیاں جماعت کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا معیار ہیں اور اس سے ایک مومن کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں اگر کوئی پریشانی کی بات کسی مومن کے لئے ہے یا ہو سکتی ہے تو وہ یہ کہ اُس کے جماعت اور خلافت کے ساتھ اخلاص میں کہیں کمی نہ ہو جائے۔ اُس کے تقویٰ پر چلنے کے معیار گرنے نہ شروع ہو جائیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اگر نیکی اور تقویٰ میں ایک جگہ ٹھہر بھی گئے ہو تو یہ بھی تمہارے لئے بڑی خطرناک بات ہے، سوچنے کا مقام ہے کیونکہ اس کے بعد پھر نیچے گراوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 5صفحہ نمبر455۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس ہمارے مردوں کو، ہماری عورتوں کو، ہمارے بچوں کو، ہمارے بڑوں کو، ہمارے نوجوانوں کو، ہمارے بوڑھوں کو اپنے اُس دشمن کی فکر کرنی چاہئے جو انہیں تقویٰ میں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے، اُنہیں نیکیوں میں آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں پھر جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ تم لوگ ان کی مخالفتوں سے غرض نہ رکھو۔ تقویٰ طہارت میں ترقی کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور ان لوگوں سے وہ خود سمجھ لیوے گا۔ وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129)‘‘۔ یعنی یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیاہے اور جو نیکیاں کرنے والے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 112۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس اگر نیکیوں اور تقویٰ میں ہمارے قدم آگے بڑھ رہے ہیں تو دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ گزشتہ تقریباً سوا صدی سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔ ہر ایک یہی مشاہدہ کر رہا ہے، یہی ہم نے دیکھا ہے کہ دشمن نے ہمارے چند پیاروں کی زندگی تو گو ختم کر دی اور ہمارے مالوں کو تو بے شک لوٹا ہے، اس کے بدلے میں اس دنیا سے جوجانیں رخصت ہوئیں اُن کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر کے دائمی زندگی مل گئی۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئیں جو دائمی زندگی پانے والے لوگ تھے اور انفرادی طور پر بھی مال کی کمی بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دی۔ آپ میں سے بہت سارے یہاں بیٹھے ہیں جو اس چیز کے گواہ ہیں اور جماعتی طور پر بھی اس قربانی کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جن انعامات سے نواز اہے اس کا تو کوئی حساب اور شمار ہی نہیں ہے۔ پس اگر ہمیں فکر ہونی چاہئے تو دشمنوں کے مکروں کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تقویٰ کی کہ یہ نہ کہیں ہمارے ہاتھ سے نکل جائے، اس میں ہماری طرف سے کمی نہ پیدا ہو جائے۔ اگر ہمارا پختہ تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو گا تو ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچیں گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دشمن سے خدا خود سمجھ لے گا اور سمجھ رہا ہے۔ مخالفین کے اتنے شور شرابے کے باوجود، صرف مقامی طور پر ملکوں کے اندر یہ مخالفت نہیں ہے بلکہ اخباروں اور ٹی وی چینلز کے ذریعے سے تمام دنیا میں احمدیت کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن مخالفت جماعت کے تعارف کا باعث بنتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں بھی نہیں پتہ چلتا کہ کس طرح ہمارا پیغام پہنچ رہا ہے۔

ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ:

’’کثرت کے ساتھ لوگ اس سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ بظاہر اس کے وجوہ اور اسباب کا ہمیں علم نہیں۔ ہماری طرف سے کون سے واعظ مقرر ہیں جو لوگوں کو جا کر اس طرف بلاتے ہیں یہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک کشش لگی ہوئی ہوتی ہے جس کے ساتھ لوگ کھچے چلے آتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’جہاں تک اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو پہنچانا چاہتا ہے اُس حد تک اس نے کشش رکھ دی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 318مطبوعہ ربوہ)

پس ایک تو لوگوں کا رُخ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعویٰ اور آپ کی کتب پڑھ کر آپؑ کی طرف ہوا، کچھ آپؑ کے پیغام کو سن کر جو آپ کے واعظین و مبلغین نے پھیلایا اُس کو سُن کر لوگوں کی توجہ پیدا ہوئی، کچھ لوگوں کو اُن کی تڑپ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے راہِ ہدایت دکھائی اور دکھاتا ہے اور دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ پس ایسے ہی لوگ ہیں جو کسی کوشش کے ذریعے سے نہیں بلکہ کہیں سے پیغام سن لیا یا اللہ تعالیٰ نے جن کی رہنمائی فرمائی۔ یا جو بھی سعید فطرت ہدایت کی دعا کرتے ہیں ان ہی لوگوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیدا فرماتا ہے اور ایک مقناطیسی کشش کی طرح وہ آپ کی طرف کھچے چلے آتے ہیں۔ اُس زمانے میں بھی کھچے چلے آ رہے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وجود اس دنیا میں تھا اور آج بھی کھچے چلے آ رہے ہیں جبکہ آپ کا پیغام دنیا میں کسی بھی شکل میں پہنچتا ہے۔ اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ یہ کشش اللہ تعالیٰ نے آج بھی رکھی ہوئی ہے۔ آج بھی خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرماتا ہے کہ لوگوں کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہو رہی ہے۔ ہم پر باوجود مخالفتوں کے اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جا رہے ہیں جس کا اظہار اللہ تعالیٰ فرماتا رہتا ہے۔ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مخالفین کی مخالفتوں اور اللہ تعالیٰ کا کیا منشاء ہے؟ کے بارے میں ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہ الہام ہواہے:

’’…اِنَّ فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ وَجَنُوْدَھُمَا کَانُوْا خَاطِئِیْنَ…‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود ہی اس الہام کی وضاحت فرماتے ہیں کہ ’’آخر کو ظاہر کروں گا کہ فرعون یعنی وہ لوگ جو فرعون کی خصلت پر ہیں اور ہامان یعنی وہ لوگ جو ہامان کی خصلت پر ہیں اور اُن کے ساتھ کے لوگ جو اُن کا لشکر ہیں یہ سب خطا پر تھے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ452-451 یڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے اپنی مجلس میں فرمایا کہ یہ الہام مجھے رات کو ہوا۔ فرمایا کہ:

’’فرعون اور اُس کے ساتھی تو یہ یقین کرتے تھے کہ بنی اسرائیل ایک تباہ ہوجانے والی قوم ہے اور اس کو ہم جلد فنا کر دیں گے۔ پر خد انے فرمایا کہ وہ ایسا خیال کرنے میں خطا کار تھے۔ ایسے ہی اس جماعت کے متعلق مخالفین و معاندین کہتے ہیں کہ یہ جماعت تباہ ہو جائے گی، مگر خدا تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 261۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس دنیا والے چاہے وہ حکومتیں ہوں یا تنظیمیں، الٰہی جماعتوں کو تباہ نہیں کر سکتیں۔ بڑے بڑے فرعون آئے، ہامان آئے اور اس دنیا سے ناکام و نامراد گزر گئے۔ بڑے بڑے حاسد آئے اور اپنی حسد کی آگ میں آپ ہی جل کر بھسم ہو جاتے رہے اور ہو رہے ہیں۔ بڑے بڑے شریر اُٹھتے ہیں لیکن خود اپنے شروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے رُخ پھیرتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا کہ ہمیں پتہ نہیں لگتا بعض جگہ کس طرح پیغام پہنچتا ہے۔ تو جیسا کہ مَیں نے کہا اس کی آج بھی ہمیں مثالیں نظر آتی ہیں اور کثرت سے نظر آتی ہیں۔ ان واقعات میں سے جو آجکل ہو رہے ہیں چند واقعات مَیں نے مثال کے طور پر لئے ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہمارے ایک فلسطین کے عَوَض احمد صاحب ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ بچپن کی ایک خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی تھی کہ تم امام مہدی کے سپاہی بنو گے۔ تب سے امام مہدی کی تلاش میں تھا، ایک روز اچانک ایک عیسائی چینل دیکھا جس پر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کر رہے تھے، تب فوراً عربی چینلز گھمانا شروع کئے کہ شاید کوئی اس کا جواب دے لیکن وہاں تو جادو، طلاق اور منافعوں کی باتیں ہو رہی تھیں بجائے اس کے کہ انہیں جواب دیتے۔ کچھ عرصے کے بعد خوش قسمتی سے ایم۔ ٹی۔ اے مل گیا۔ مجھے احساس ہوا کہ یہ سچے لوگ ہیں۔ پھر مستقل طور پر اُسے دیکھنا شروع کر دیا۔ اس چینل نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اب شرح صدر حاصل ہونے کے بعد بیعت کرنا چاہتا ہوں براہ کرم قبول فرمائیں۔ پھر عرب ملک کے ایک ہمارے دوست احمد ابراہیم صاحب ہیں کہتے ہیں کہ اچانک ایم۔ ٹی۔ اے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلے کچھ تردد تھا پھر آہستہ آہستہ شرح صدر حاصل ہوتا گیا۔ استخارہ کرنے پر جواب ملا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَا یِعُوْنَ اللّٰہ۔ گھر والوں کی طرف سے مخالفت اور مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہ مولویوں کے زیرِ اثر ہیں۔ مجھے لکھتے ہیں کہ میرے ثباتِ قدم اور فیملی کی ہدایت یابی کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کی نیک تمنائیں اور دعائیں قبول فرمائے۔

پھر ایک محمد عبدالعاطی صاحب ہیں مصر کے، کہتے ہیں دو سال پہلے کی بات ہے کہ ٹی وی چینل گھماتے ہوئے اچانک ایم۔ ٹی۔ اے دیکھنے کا موقع مل گیا اور پروگرام سُن کر میں حیران رہ گیا اور جماعت کی طرف سے کی جانے والی قرآن و حدیث کی تفسیر پر غور و خوض کرنے پر مجبور ہو گیا۔ دوسری طرف دیگر مولویوں کے پروگرام بھی دیکھتا رہا۔ اس تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ اب تک حقیقت مجھ سے مخفی تھی اور اصل اور صاف ستھرا اسلام وہی ہے جو آپ لوگ پیش کرتے ہیں باقی سب خرافات ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت نصیب فرمائی۔ میں ایک سادہ سا مسلمان ہوں۔ گھر والے سارے میرے احمدی ہونے کے مخالف ہیں اور کوئی بات سننے کو تیار نہیں کیونکہ مولویوں نے ان کا برین واش کر رکھا ہے۔ ان سب کی ہدایت یابی کے لئے دعا کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی نیک خواہشات پوری فرمائے۔

پھر ایک مصر کے حُسنی صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ بیعت کرکے یوں لگا جیسے ہم نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ قبل ازیں کئی مسائل مثلاً وفاتِ مسیح وغیرہ کے بارے میں کچھ سمجھ نہ آتی تھی لیکن جماعت کے پاس گم گشتہ متاع مل گئی۔ تاہم مولویوں نے ہماری شدید مخالفت اور تکفیر شروع کر دی ہے۔ ہمارے پاس وسیع گھر ہے جسے ایک عرصے سے مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن خدا تعالیٰ کو ایسا منظور نہ تھا۔ اب انشاء اللہ اُسے مسجد بنا کر جماعت کو پیش کریں گے۔ مولوی شدید مخالفت اور احمدیت سے مرتد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی دوران استخارہ کیا تو جواب ملا کہ یہ لوگ امام مہدی کے مکذب ہیں۔ یہ اپنے بارہ میں لکھ رہے ہیں ہم ایم۔ ٹی۔ اے سنتے ہیں لوگوں سے ملتے ہیں، تبلیغ کرتے ہیں اور اُن کے جواب دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پچھلی حکومت کے دوران مجھے اسیرِ راہِ مولیٰ بن کر تکالیف سہنے کا موقع ملا۔ مولویوں نے میرے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں تو حکومتی کارندوں کی طرف سے مجھے کئی قسم کی سخت اذیت دی گئی اور دورانِ تحقیق میں نے اِن کو تبلیغ بھی کی۔ ایک طرف جیل میں اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ دوسری طرف یہ تبلیغ کر رہے تھے۔ ایک متعلقہ افسر نے کہا کہ میں آپ کے دلائل سُن کر وفاتِ مسیح کا قائل ہو گیا ہوں۔ اُنہوں نے جہاد کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو مَیں نے بتایا کہ ہم صرف دفاعی جہاد کے قائل ہیں۔ تو دیکھیں مقصد احمدیت سے ہٹانا تھا لیکن خود ان کو قائل ہونا پڑا۔ صرف آپ اپنے دام میں صیادنہیں آیا بلکہ شکار شکاری کے دام میں آگیا۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لائی ہوئی خوبصورت تعلیم کا لوگوں پر اثرہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے جماعت کے بارے میں اور مصر میں احمدیوں کے بارے میں مختلف سوالات پوچھے۔ نیز یہ کہ تم تبلیغ کیوں کرتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ مَیں از خود کسی کو تبلیغ نہیں کرتا لیکن اگر وہ مجھ سے پوچھے تو میں ضرور بتاؤں گا کیونکہ احمدی جھوٹ نہیں بولتے۔ اب یہ ایک خصوصیت ہے جو ایک احمدی کا نشان ہے، دنیا میں ہر جگہ جھوٹ چل رہا ہے۔ پچھلے خطبے میں مَیں نے جھوٹ کے اوپر بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا تھا۔ پس یہ ہمیں بھی یاد رکھنا چاہئے، ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس اپنی ایک عظیم خاصیت کو کبھی کسی احمدی کو چھوڑنا اور بھولنا نہیں چاہئے۔ نئے آنے والے آ کے یہ معیار قائم کرتے ہیں اور اس پر پابندی سے استقامت سے عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولنا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر اپنے دلوں میں جو ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے وہ اُسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب ہر چیز ہر قدم آپ کا صدق کا قدم ہو اور ہر بات آپ کی صدق کی بات ہو۔ پس یہ ایک شان ہے احمدی کی جسے قائم رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے کہ احمدی جھوٹ نہیں بولتا۔ کہتے ہیں، انہوں نے کہا یعنی پولیس والوں نے کہ اگر تم نے تبلیغ جاری رکھی تو ہم تم پر بم بلاسٹ کرنے کا الزام لگا کر تمہیں سزا دیں گے۔ یہاں تک ان کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی پرواہ نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ میری بیوی کو بھی مولویوں نے کہا کہ تمہارے خاوندنے تجھے دھوکہ دے کر اس جماعت میں داخل کیا ہے لیکن بیوی بھی ایمان میں پختہ تھی۔ اُس نے اپنی ایمان کی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مَیں اس سے پہلے احمدی ہوں۔ پس یہ ہے جرأت اور شان جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت نے ایمان میں پیدا کی ہے۔

پھر الجزائر کے ایک دوست اُسامہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں دو سال قبل تک جماعت کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ ایک روز اچانک بیٹے نے ایم۔ ٹی۔ اے کے بارے میں بتایا لیکن میں نے ہنسی مذاق میں ٹال دیا۔ پھر ایک وقت میں گھریلو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تب انبیاء کی زندگی اور مذہبی امورکے بارے میں غور و خوض کرنے لگا۔ آپ کا چینل دیکھا تو اس میں سارا حق پایا۔ آپ کی تعلیمات اور تفاسیر سے دل مطمئن ہوا۔ تفسیرِ کبیر کا مطالعہ شروع کیا اور تفاسیر سے دل مطمئن ہوا اور پھر تبلیغ شروع کر دی لیکن مخالفت کا سامنا ہوا۔ تب سابق انبیاء کی سیرت پر نظر ڈالی تو اس قسم کی مخالفت وہاں بھی نظر آئی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لکھتے ہیں کہ براہِ کرم میری بیعت قبول فرمائیں۔ مَیں ہر طرف سے حضور کے حکموں پر عمل کروں گا۔ عجیب اخلاص و وفا میں بڑھنے والے یہ لوگ ہیں۔ پھرمراکش میں اُلطَّیّب صاحب ہیں۔ اپنے واقعات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عیسائیوں کا ’حیاۃ چینل‘ نہ ہوتا تو مجھے بیعت کی توفیق نہ ملتی۔ تفصیل اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں کافی عرصے سے یہ چینل دیکھتا رہا ہوں اور اُن کی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گالیاں سُن کر اور مسلمانوں کو جواب سے عاجز آ کر خاموشی اختیار کرتے دیکھ کر دل ہی دل میں کُڑھتا لیکن کچھ پیش نہ جاتی۔ اچانک ایک دن ہاٹ برڈ ریسیور پر چینل گھما رہا تھا کہ مجھے ایم۔ ٹی۔ اے العربیہ مل گیا۔ (یہ آجکل سپین میں مقیم ہیں) حالانکہ میں بالعموم ہاٹ برڈ کے چینل نہیں دیکھتا۔ بہر حال اس پر عصمتِ انبیاء اور بائبل کی تحریف وغیرہ پر عیسائیوں کے ساتھ بحث ہو رہی تھی۔ مَیں سُن کر بہت خوش ہوا کہ مجھے اپنے مطلب کی چیز مل گئی اور گم شدہ متاع ہاتھ آ گئی۔ کچھ عرصہ دیکھنے کے بعد میری تسلی ہو گئی اور میں بیعت کا خط ارسال کر رہا ہوں۔ اب مَیں ان مولویوں کے ہد ہد اور نملہ اور جنّوں وغیرہ کے بارے میں مضحکہ خیز تفسیریں سنتا ہوں تو ہنسی آتی ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے انہی کو سُن کر تعریفیں کرتے تھے۔

پھر مراکش کے ایک عبداللہ صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں چند ماہ سے آپ کے پروگرام دیکھ رہا ہوں اور مجھے آپ کا قرآنِ کریم کے مضامین کا ادراک اور تعمیری اسلامی طرزِ فکر بہت پسند آیا۔ یہ معروف بات ہے کہ روایتی تفاسیر میں بہت سی خرافات موجود ہیں اور غلط تفاسیر جو لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ ہو گئی ہیں اور ان میں منطق اور عقل کے خلاف باتیں موجود ہیں مثلاً جنوں کے بارے میں یہ خیال کہ وہ لوگوں کو چمٹ جاتے ہیں اور غیر مرئی، غیر معمولی مخلوق ہے کو میں پہلے ہی رَد کرتا تھا۔ بعض جگہ بعض کمزور احمدیوں کو جن کی تعلیم صحیح نہیں ہے یا علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ خاص طور پر عورتوں میں اب بھی اس قسم کی وبا ہے۔ گو چند ایک ہی اَن پڑھ اور جاہل ہیں لیکن مَیں نے سنا ہے یہاں بھی ایسی ہیں۔ اُن کو بھی یاد رکھناچاہئے کہ ہر عقل مند انسان جو ہے اس کو رَد کرتا ہے۔ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے افسر سے حضرت آدم کے پہلے انسان نہ ہونے کے بارے میں بات کی اور میں نے کہا کہ فرشتوں نے جو یہ کہا کہ یہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا تو اگر پہلے سے انسان موجودنہ تھے تو فرشتوں کو کیسے معلوم ہوا کہ بشر کے اندر خون ہوتا ہے وغیرہ۔ تو اُس افسر نے کہا کہ یہ بہت خطرناک خیالات ہیں۔ انہیں کسی کے پاس بیان مت کرنا۔ پھر لکھتے ہیں کہ پھر اچانک آپ کے چنیل سے تعارف ہوا تو قرآنِ کریم کے زندہ اور روشن کتاب ہونے کے بارے میں آپ کے بیان سے بہت خوش ہوا۔ فضلوں اور احسانوں والے خدا نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ کو اپنے نورانی اسرار الہام کئے تا کہ اس کے ذریعے لوگوں کی عقلوں میں پڑے شکوک و شبہات کے اس ڈھیر کا صفایا کر دیا جائے جس نے عقل کو ماؤف کر چھوڑا تھا اور جس کے نتیجے میں عرب تمدنی اور تہذیبی ترقی کے قافلہ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور گراوٹ اور انحطاط اور پستی اور تفرقہ کا شکار ہو چکے ہیں۔ مجھے لکھتے ہیں کہ حضور! میری بیعت قبول فرمائیں۔ مجھے آج جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر بڑے فخر کا احساس ہو رہا ہے۔

پھر سلطنتِ عمان کے ایک یاسر صاحب ہیں۔ انہوں نے جون 2011ء میں لکھا کہ ایک عرصے سے حق کی تلاش میں تھا جسے اب پا لیا ہے۔ الحمدللہ۔ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر شدت سے خواہش ہوتی تھی کہ کاش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُمّت کی ترقی کی خاطر دوبارہ آ جائیں۔ ایک بار مختلف چینل گھما رہا تھا کہ اچانک ایم۔ ٹی۔ اے کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر یوں لگا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ہو۔ یہ تصویر دل میں گھر کر گئی۔ ایک روز کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کے بارے میں ذکر کیا اور دجال کے بارے میں بتایا کہ اس سے مراد عیسائی پادری ہیں۔ میں نے شروع میں اس کی سخت مخالفت کی لیکن بعد میں حقیقت کھل گئی۔ اس رات دو بجے تک ایم۔ ٹی۔ اے دیکھتا رہا اور جماعت اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ محبت بڑھتی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے صحیح اسلام کی طرف رہنمائی فرمائی اور قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ یہ لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی کتب اور حضرت خلیفہ ثانی کی تفسیرِ کبیر پڑھی اور بہت پسند آئیں اور پھر مجھے لکھتے ہیں کہ آپ سے ملاقات کا بہت شوق ہے۔ دعا کریں۔ تو یہ لوگ نہ صرف بیعت کر رہے ہیں بلکہ بیعت کر کے اپنے علم کو بڑھا بھی رہے ہیں۔ یہ اُن لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جو اپنے آپ کو پیدائشی احمدی سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس ہمارے خون میں احمدیت ہے تو اب مزید علم حاصل کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اپنے تقویٰ کو، نیکیوں کے معیاروں کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

پھر ایک خاتون ہیں، بیریفان صاحبہ، ان کے دو بچے بھی ہیں۔ ناروے میں رہتی ہیں اور کردستان کی ہیں۔ کہتی ہیں کہ 2006ء میں اچانک ایم۔ ٹی۔ اے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ آپ کی باتیں اور اسلام کی صحیح تصویر آپ سے سن کر بہت خوشی ہوئی۔ بعد میں اس چینل کا نمبر کہیں گم ہو گیا۔ اچانک 2010ء میں ایک روز پھر مل گیا۔ پروگرام ’’اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر‘‘ چل رہا تھا۔ آپ کے دلائل تفسیرِ قرآن سن کر بہت متاثر ہوئی۔ پروگرام کے آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دکھائی گئی۔ آپ کی صداقت پر ایک لمحے کے لئے بھی شک نہ ہوا۔ تاہم افسوس ہوا کہ ابھی تک آپ کے بارے میں پتہ کیوں نہ چلا۔ البتہ آپ کے نبی ہونے کے بارے میں خلش تھی جو جماعت کی طرف سے دی گئی تفسیر و تشریح سے دور ہو گئی۔ اب میں گواہی دیتی ہوں کہ حضرت مرزا غلام احمد

علیہ السلام سچے امام مہدی ہیں۔ پھر لکھتی ہیں کہ آپ جو خدمت کر رہے ہیں اس کو بہت رَشک کی نگاہ سے دیکھتی ہوں اور اس جہاد میں شریک ہونا چاہتی ہوں۔ براہِ کرم مجھے بھی اس کا موقع دیں۔ تو یہ وہ خوبصورت جہاد ہے جس کی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے اور قرآن اور حدیث سے علم پا کر دی ہے۔ یہ جہاد ہے جو آپ نے اس زمانے میں متعارف کروایا ہے جو صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ عورتیں بھی اس جہاد میں حصہ لے رہی ہیں اور لیتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات مردوں سے بڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ پھر حسین محمد صالح صاحب ہیں۔ یہ الجزائر کے ہیں۔ مجھے لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقریباً دس سال قبل مجھے اسلام کا کچھ علم نہ تھا سوائے اس رسمی اسلام کے جو سب لوگ جانتے ہیں اور کئی ایک مسائل کا سامنا تھا لیکن پھر بھی میں قرآن پڑھتا تھا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دن میں ٹی وی کے آگے بیٹھا کوئی مذہبی چینل تلاش کر رہا تھا کہ مجھے ایم۔ ٹی۔ اے مل گیا جہاں پروگرام ’’اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر‘‘ چل رہا تھا جس کا انداز اور علمیت اور مضمون مجھے پسند آیا۔ اور خاص طور پر پروگرام میں شریک علماء کا تمام ادیان کے بارے میں علم اور خصوصاً اسلامی علوم پر گرفت نے مجھے متاثر کیا۔ چنانچہ میں اسی لمحے سے احمدی ہوں اور میری روحانیت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کے خطبات، بہت سی عربی اور فرنچ کتابیں اور رسائل میرے پاس ہیں۔ مَیں نے تفسیرِ کبیر بھی ڈاؤن لوڈ کر کے پرنٹ کر لی ہے تا کہ لوگوں سے رابطہ کرنے میں آسانی رہے۔ لکھتے ہیں کہ بیعت میں تاخیر اس لئے کی کہ میں خود کو بظاہر احمدی سمجھتا تھا لیکن نورِ ایمان میرے دل میں راسخ نہیں ہوا اور مجھے ڈر لگا کہ عہدِ بیعت کی خلاف ورزی نہ کرنے والا ٹھہروں۔ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرمائے اور مغفرت فرمائے اور استقامت بخشے۔ پس یہ فکریں ہیں نئے آنے والوں کی۔ بہت سارے پرانے احمدی جو بزرگوں کی اولادیں ہیں اُن کوبھی یہ فکریں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں کہ ہم نے عہدِ بیعت کو کس طرح اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ نبھانا ہے اور اُسے پورا کرنا ہے تبھی ہم حقیقی احمدی کہلا سکتے ہیں۔ پھر ایک ناصر صاحب ہیں۔ یہ بھی عرب ہیں۔ کہتے ہیں کہ چار سال قبل میرے اندر حق کی تلاش شروع ہوئی اور میں نے سنیوں اور شیعوں اور اثنا عشریوں وغیرہ سب کے مناظرات دیکھے۔ (اثنا عشری بھی شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو بارہ اماموں کو مانتے ہیں)۔ کہتے ہیں کہ سب کے مناظرات دیکھے اور مجھے سنیوں کے دلائل مضبوط نظر آئے۔ پھر تقریباً تین ماہ قبل اتفاق سے میرا تعارف ایم۔ ٹی۔ اے سے ہوا اور مکرم ہانی طاہر صاحب نے میری توجہ کھینچی اور میری دلچسپی جماعت میں بڑھی اور معلوم ہوا کہ جماعت کے بارے میں جو باتیں لوگوں میں پھیلائی جاتی ہیں اُن کی بنیاد جماعت کے مخالف مولویوں احسان الٰہی ظہیر وغیرہ کی کتابوں پر ہے۔ اسی طرح اپنے معاشرے میں موجود علماء کا اپنے سے خیالات میں اختلاف رکھنے والے لوگوں کے عقائد کے بارے میں رویے نے مجھے بڑا پریشان کیا کیونکہ یہاں ہمارے پاس کچھ شیعہ ہیں اور لوگ ان سے تمسخر اور تحقیر سے پیش آتے ہیں۔ میں ہمیشہ اپنے دل میں یہ کہا کرتا تھا کہ مذہب کے معاملے میں کسی کو طعن کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ کیونکہ ہمارے والدین بھی تو شیعہ یا نصاریٰ وغیرہ تھے اور ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اگر میں حق پر ہوں تو مجھے دوسروں کے لئے دعا کرنی چاہئے نہ کہ اُن کی تحقیر اور تکبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ یہی انبیاء کی سنت ہے۔ اسی طرح سلفیوں کے عقائد کو بھی میں صحیح نہیں سمجھتا۔ میں اصولی طور پر مکرم ہانی صاحب کے بیان کردہ دلائل سے متفق ہوں۔ مجھے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے مزید دلائل مہیا فرمائیں اور یہ کہ بیعت کے بعد مجھے کیا کرنا ہو گا۔ میری مدد اور رہنمائی فرمائیں۔ تو اس طرح لوگ خط لکھتے ہیں۔ پھر عراق کے ایک غریب محمد صاحب ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ تین سال سے ایم۔ ٹی۔ اے دیکھ رہا ہوں اور تحقیق کر رہا تھا پھر استخارہ کیا لیکن کئی روز تک کوئی خواب نہ دیکھی۔ تاہم استخارہ جاری رکھا۔ پھر ایک روز خواب میں کوئی مجھے کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں یاد فرما رہے ہیں۔ پھر وہ شخص مجھے لے گیا اور کہنے لگا کہ اس خیمے میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرو۔ تب میں نے ایک ٹیلے کے اوپر لگے خیمے میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا۔ پھر وہی شخص کہنے لگا کہ اب دوسرے ٹیلے پر جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرو۔ میں خواب میں حیران ہوتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو کیسے ہو سکتے ہیں؟ تاہم میں نے دوسرے ٹیلے پر بھی خیمے کے اندر آنحضرتؐ کو اُسی شکل و صورت میں دیکھا گو قد ذرا سا کم تھا۔ اس خواب کے بعد مجھے انشراحِ صدر ہوا اور اب بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ سب سے اچھی بات مجھے یہ لگتی ہے کہ جماعت میں ہر ملک و قوم کے لوگ بغیر تمیز رنگ و نسل کے شامل ہو رہے ہیں۔ پس تمام دنیا کو ایک ہاتھ پراکٹھا کرنے کا جو کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپردہے وہ آج صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے۔

پھر ایک صاحب ہیں خالد صاحب، کہتے ہیں کہ ایک روز ایک غیر احمدی دوست نے جماعت کے بارے میں بتایا کہ یہ لوگ ہندوستان میں مسیح موعود کے ظہور کے قائل ہیں۔ بعض دیگر عقائد بھی بتائے۔ مجھے شروع سے ہی اطمینانِ قلب نصیب ہونے لگا۔ پھر ایم۔ ٹی۔ اے دیکھا تو مزید تسلی ہوئی اور مَیں نے اس دوست کو بتایا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ اُس نے تعجب سے کہا کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو۔ مَیں نے کہا کہ میرا دل مطمئن ہے اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ قبل ازیں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف تصویر دیکھ کر آپ کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا۔ ایم۔ ٹی۔ اے سے اسلام کی صحیح تصویر کا علم ہوا۔ الحمدللہ کہ اس کے ذریعے امام الزمان کا پتہ ملا۔ تقریباً ایک سال قبل خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چہرے پر بوسہ دیا تھا۔ خاکسار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حکومت اور حاکموں اور خراب حالات کا شکوہ کیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہماری آنکھیں کھولیں اور اندھیروں سے نکال کر حق دکھایا ہے۔ جزاکم اللہ۔ پھر مجھے لکھتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ مَیں آپ کی دستی بیعت کروں۔ ایسے بہت سارے واقعات اَور ہیں سب کی تفصیل تو بیان نہیں ہوسکتی۔ پھر ایک واقعہ افریقہ سے مَیں نے لیا ہے۔ امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ بارہ ایریا میں وہاں کے مقامی جماعت کے صدر صاحب کی نگرانی میں تبلیغی پروگرام تشکیل دیا گیا۔ اس پروگرام کے ذریعے ایک دوست علیو کمارا صاحب سے رابطہ ہوا۔ (افریقہ میں اکثر ایسا ہے کہ نام کے ساتھ آخر میں ’’واؤ‘‘یا ’’پیش‘‘ لگا دیتے ہیں۔ علیو کا مطلب ہے ’’علی‘‘۔ علی کمارا صاحب۔ یہ مسلمان تھے) ان کو جماعت کے عقائد کے بارے میں بتایا گیا۔ ان کے ساتھ دو ہفتے تک مسلسل تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ پھر صدر صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں اور مَیں بھی آپ کے لئے دعا کروں گا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُسی دن پچیس اور چھبیس مئی 2011ء کی درمیانی رات انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک پگڑی والے بزرگ ہیں جو اُن کو اپنی طرف بلا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ادھر آؤ ہدایت یہاں ہے۔ صبح اُٹھ کر انہوں نے خواب بتائی تو کہنے لگے کہ جس بزرگ کو مَیں نے خواب میں دیکھا ہے وہی امام مہدی ہیں کیونکہ ان کی تصویر وہ ایک میگزین جو اُنہیں دورانِ تبلیغ دیا گیا تھا اُس میں پہلے دیکھ چکے تھے۔ اس پر انہیں بیعت فارم دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کو پُر کرنے سے پہلے اس کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں۔ علیو کمارا صاحب نے جب بیعت فارم پڑھا۔ کہنے لگے کہ میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اُسی وقت بیعت فارم پُر کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔

پھر امیر صاحب آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں کہ وواقے ریجن کے گاؤں نیاکارہ میں ایک مارابو یعنی وہ شخص مولوی جو تعویذ گنڈے کیا کرتا تھا، اُن کا نام کونے ابراہیم تھا۔ اُنہوں نے خواب دیکھا کہ ایک بزرگ اُسے ملتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں عیسیٰ نبی ہوں۔ ایک دن وہ احمدیہ مشن ہاؤس آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جو اپنا تعارف نبی عیسیٰ کروا رہے تھے۔ اور اُس نے اُسی وقت بیعت کر لی اور یہ جو کام تھا تعویذ گنڈے کا اس سے بھی توبہ کر لی۔

غرض کہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ باوجود مخالفتوں اور راہِ راست سے گمراہ کرنے کی کوششوں کے جو مولوی اور دوسرے لوگ کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح نیک فطرت لوگوں کی مختلف طریقوں سے رہنمائی فرماتا رہتا ہے اور فرما رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سُن کر یا تصویر دیکھ کر ایک کشش کی کیفیت اُن میں پیدا ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی اُن کوششوں سے کئی گنا زیادہ ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ پس یہ الٰہی کام ہے جس نے تکمیل کو تو انشاء اللہ تعالیٰ اب پہنچنا ہی ہے لیکن یہ ترقی ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہم جن کو ایک عرصہ ہو گیا ہے احمدیت پر قائم ہوئے ہوئے یا ہم اُن لوگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی تھی، ہم نے اپنی حالتیں کیسی بنانی ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہمارے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر تم نیکیوں میں پیچھے جا رہے ہو تو فکر کرو کہ اس سے انسان پھر گرتا چلا جاتا ہے اور بہت دور چلا جاتا ہے۔ بیعت میں آ کر کیا باتیں ہیں جو ہم نے کرنی ہیں، اس پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے۔ بعض توجہ طلب امور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے مبارک الفاظ میں مَیں بیان کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’شریعت کے دو ہی بڑے حصے اور پہلو ہیں جن کی حفاظت انسان کو ضروری ہے۔ ایک حق اﷲ، دوسرے حق العباد۔ حق اﷲ تو یہ ہے‘‘(اللہ تعالیٰ کا حق تو یہ ہے) ’’کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت، اس کی اطاعت، عبادت، توحید، ذات اور صفات میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرنا۔ اور حق العباد یہ ہے کہ اپنے بھائیوں سے تکبر، خیانت اور ظلم کسی نوع کا نہ کیا جاوے‘‘۔ (کسی بھی قسم کا نہ کیا جائے)۔ ’’گویا اخلاقی حصہ میں کسی قسم کا فتور نہ ہو۔ سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں ’’سننے میں تو یہ دو ہی فقرے ہیں لیکن عمل کرنے میں بہت ہی مشکل ہیں‘‘۔

اور یہی کام ہے جو آج احمدیوں کے سپرد ہے۔ آسان کام تو نہیں۔ مولویوں کی طرح پکے پکائے حلوے تو ہم نے نہیں کھانے۔ یہ اپنی اصلاح کا کام ہی ہے جو ہم نے کرنا ہے، ہر احمدی کواس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل انسان پر ہو تو وہ ان دونوں پہلوؤں پر قائم ہو سکتاہے‘‘۔ پس ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اُس کا فضل مانگیں کہ ہمارے قدم کبھی پیچھے نہ ہٹیں، نیکیوں میں ہم پیچھے نہ جائیں، تقویٰ میں ہم ترقی کرنے والے ہوں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شاملِ حال ہو۔

فرمایا ’’کسی میں قوتِ غضبی بڑھی ہوئی ہوتی ہے‘‘(یعنی غصے میں بہت جلدی آ جاتا ہے)۔ ’’جب وہ جوش مارتی ہے تو نہ اس کا دل پاک رہ سکتا ہے اور نہ زبان‘‘۔ (جب انسان غصے میں آتا ہے، غضب میں آتا ہے تو پھر فرمایا کہ نہ دل اُس وقت پاک ہے، نہ اُس کی زبان پاک ہے اور یہی ہمیں دیکھنے میں آیا ہے۔ بہت سارے مسائل، بہت ساری لڑائیاں، بہت ساری رنجشیں اسی لئے پیدا ہوتی ہیں، یا دلوں میں کینے پلتے ہیں اور بدلے لئے جاتے ہیں یا پھر زبان اس طرح چلائی جاتی ہے کہ وہ لگتا ہی نہیں کسی ایک مومن کی زبان ہے جس سے شریفانہ الفاظ ادا ہو رہے ہوں )۔ پھر فرمایا ’’دل سے اپنے بھائی کے خلاف ناپاک منصوبے کرتا ہے اور زبان سے گالی دیتا ہے۔ اور پھر کینہ پیدا کرتا ہے۔ کسی میں قوت شہوت غالب ہوتی ہے اور وہ اس میں گرفتار ہو کر حدود اﷲ کو توڑتا ہے‘‘۔ (ان ملکوں میں گندی فلمیں دیکھنا، بے حیائی کی باتیں سننا، ان لغویات کو دیکھنا یہ سب اسی لئے پیدا ہوتی ہیں کہ دل میں تقویٰ نہیں ہوتا اور یہی قوتِ شہوت ہے جو غالب ہو جاتی ہے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کا خیال رکھنا چاہئے)۔ فرمایا ’’غرض جب تک انسان کی اخلاقی حالت بالکل درست نہ ہو وہ کامل ایمان جو منعم علیہ گروہ میں داخل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ سچی معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے اس میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘۔ پس بہت قابلِ فکر بات ہے کہ عہد تو ہم یہ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان میں بڑھیں گے۔ آپ فرما رہے ہیں کہ کامل ایمان پیدا ہی نہیں ہو سکتا اگر یہ باتیں تمہارے اندر ہیں۔ فرمایا: ’’پس دن رات یہی کوشش ہونی چاہیے کہ بعد اس کے جو انسان سچا موحّد ہو اپنے اخلاق کو درست کرے‘‘۔ (جب آپ نے اس بات پر یقین قائم کر لیا کہ مَیں ایک خدا کی عبادت کرنے والا ہوں تو پھر اپنے اخلاق کو بھی درست کرو)۔ فرمایا ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی ہے‘‘۔ (حالانکہ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے، اخلاقی حالت کے معیار بہت اعلیٰ تھے۔ آپ اُن سے بھی اونچا دیکھنا چاہتے تھے۔ آج ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہماری کیا حالت ہے)۔

فرماتے ہیں کہ’’اکثر لوگوں میں بدظنی کا مرض بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اپنے بھائی سے نیک ظنی نہیں رکھتے اور ادنیٰ ادنیٰ سی بات پر اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بُرے خیالات کرنے لگتے ہیں اور ایسے عیوب اس کی طرف منسوب کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہی عیب اس کی طرف‘‘(یعنی یہ باتیں کرنے والے کی طرف) ’’منسوب ہوں تو اس کو سخت ناگوار معلوم ہو۔ اس لیے اوّل ضروری ہے کہ حتی الوسع اپنے بھائیوں پر بدظنی نہ کی جاوے اور ہمیشہ نیک ظن رکھا جاوے، کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے اور اُنس پیدا ہوتا ہے اور آپس میں قوت پیدا ہوتی ہے اور اس کے باعث انسان بعض دوسرے عیوب مثلاً کینہ، بغض، حسد وغیرہ سے بچا رہتا ہے‘‘۔ (مخالفین کی حسد کی آگ تو ویسے ہی ہمارے خلاف بڑھ رہی ہے۔ اگر آپس میں بھی ہم اس قسم کی حرکتیں کریں تو پھراُس جماعت میں رہنے کا کیا فائدہ)۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے ہیں جن میں اپنے بھائیوں کے لیے کچھ بھی ہمدردی نہیں۔ اگر ایک بھائی بھوکا مرتا ہو تو دوسرا توجہ نہیں کرتا اور اس کی خبر گیری کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یا اگر وہ کسی اَور قسم کی مشکلات میں ہے تو اتنا نہیں کرتے کہ اس کے لیے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کریں۔ حدیث شریف میں ہمسایہ کی خبرگیری اور اس کے ساتھ ہمدردی کا حکم آیاہے بلکہ یہاں تک بھی ہے کہ اگر تم گوشت پکاؤ تو شوربازیادہ کر لو تا کہ اسے بھی دے سکو۔ اب کیا ہوتا ہے اپنا ہی پیٹ پالتے ہیں، لیکن اس کی کچھ پروا نہیں۔ یہ مت سمجھو کہ ہمسایہ سے اتنا ہی مطلب ہے جو گھر کے پاس رہتا ہو۔ بلکہ جو تمہارے بھائی ہیں وہ بھی ہمسایہ ہی ہیں خواہ وہ سو کوس کے فاصلے پر ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 214-215۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس جب ہم اپنی حالتوں کی اصلاح کر لیں گے تو یقینا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کا اور آپ کی جماعت میں شامل ہونے کا صحیح حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ نومبائعین بھی اپنی حالتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جائیں اور پرانے احمدی اور وہ سست احمدی جو اپنے معیاروں کی بلندی کے حصول کو بھول گئے ہیں وہ بھی آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اور ہم بھی آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والے بنیں۔ اپنی بعثت کا مقصد اور مخالفین کی مخالفت اور سلسلے کی ترقی کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’میرے ان مقاصد کو دیکھ کر یہ لوگ میری مخالفت کیوں کرتے ہیں‘‘۔ یعنی یہ مخالفین جوخاص طورپر مسلمانوں میں سے ہیں۔ یہ دو مقصد ہیں تقویٰ قائم کرنا اور توحید کو قائم کرنا، اس کو دیکھ کر بھی یہ لوگ میری مخالفت کرتے ہیں۔ ’’انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ جوکام نفاقِ طبعی اور دنیا کی گندی زندگی کے ساتھ ہوں گے وہ خود ہی اس زہر سے ہلاک ہو جائیں گے‘‘۔ یہ مخالفین کو یاد رکھنا چاہئے کہ جو مَیں کام کر رہا ہوں اگرنفاق ہے میری طبیعت میں اور اس دنیا کی خواہشات اور گندی زندگی کے لئے ہیں تو اس زہر سے انسان خود ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔ ’’کیا کاذب کبھی کامیاب ہو سکتا ہے؟‘‘۔ فرمایا: ’’اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ (المومن: 29)‘‘ (کہ یقینا اللہ اُسے ہدایت نہیں دیا کرتا جو حد سے بڑھا ہوا اور سخت جھوٹا ہو) ’’کذّاب کی ہلاکت کے واسطے اس کا کذب ہی کافی ہے۔ لیکن جوکام اﷲ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسول کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں اور خود اﷲ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کر سکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا کی طرف سے ہے اور یقینا اسی کی طرف سے ہے تو خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت کرے یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے‘‘۔ فرمایا ’’اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے۔ تب بھی مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہوگا‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ472-473۔ ایڈیشن2003ئمطبوعہ ربوہ)

اب یہ دیکھیں کہ جو واقعات ہم نے سنے ان میں کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں خود یہ بات پیدا کر رہا ہے۔ ایک شخص کو بچپن سے اللہ تعالیٰ دل میں ڈال رہا ہے کہ تم امام مہدی کے سپاہی ہو اور سالوں بعدبڑے ہو کرجبکہ نوجوانی بھی گزر رہی ہے تب جا کے اُس کو پتہ لگتا ہے کہ امام مہدی کا ظہور ہو چکا ہے۔ پس اس طرح اللہ تعالیٰ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگار پیدا فرما رہا ہے۔ یہی مطلب ہے اس کا کہ جب کوئی بھی مددنہیں کرے گا تو تب بھی اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور یہ سلسلہ قائم ہو گا۔ پس ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مخالفت کی مَیں پروا نہیں کرتا۔ مَیں اس کو بھی اپنے سلسلہ کی ترقی کے لیے لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ کا کوئی مامور اور خلیفہ دنیا میں آیا ہو اور لوگوں نے چُپ چاپ اسے قبول کر لیا ہو۔ دنیا کی تو عجیب حالت ہے۔ انسان کیسا ہی صدیق فطرت رکھتا ہو مگر دوسرے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے وہ تو اعتراض کرتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے سلسلہ کی ترقی فوق العادت ہو رہی ہے۔ بعض اوقات چار چار پانچ پانچ سو کی فہرستیں آتی ہیں اور دس دس پندرہ تو روزانہ درخواستیں بیعت کی آتی رہتی ہیں اور وہ لوگ علیحدہ ہیں جو خود یہاں آکر داخلِ سلسلہ ہوتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ473۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں ہیں اور جیسا کہ میں نے واقعات میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں اب یہ رَو چلائی ہے کہ آپ کی بیعت میں آنے والوں کی تعداد روزانہ بعض اوقات پانچ پانچ سو سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے، ہزاروں میں بھی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنا کام کئے چلے جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ اپنی بیعت کا اور اس سلسلے میں شامل ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نہایت عارفانہ دعا پیش کرتا ہوں جس سے آپ کے دلی درد کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ کی مجلس میں کثرتِ زلازل اور تباہیوں کا ذکر تھا، اور آج کل بھی آپ دیکھیں اسی طرح تباہیاں آ رہی ہیں تو آپ نے فرمایا:

’’ہم تو یہ دعا کرتے ہیں کہ خدا جماعت کو محفوظ رکھے اور دنیا پر یہ ظاہرہو جائے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم برحق رسول تھے اور خدا کی ہستی پر لوگوں کو ایمان پیدا ہو جائے۔ خواہ کیسے ہی زلزلے پڑیں پر خدا کا چہرہ لوگوں کو ایک دفعہ نظر آجائے اور اس ہستی پر ایمان قائم ہو جائے‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ261۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

آجکل کی بھی جیسا کہ مَیں نے کہاکثرت سے جو آفات اور تباہیاں ہیں، خدا کرے کہ ان کو دیکھ کر دنیا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کو پہچان لے اور مسلمان بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو شناخت کر کے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنے والے بن جائیں اور توحید کے قیام کا باعث بن جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں