خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍دسمبر 2009ء

اگر دلوں کی سختی کو دور کرناہے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے تو ذکر اس کی ایک اہم شرط ہے۔
قرآن کریم کو بھی خداتعالیٰ نے ذکر کہاہے۔ اس کو پڑھنا بہت ضروری ہے تا اس کو پڑھنے سے انسان کی، ایک مومن کی نیک فطرت اس سے منور ہوکر مزید روشن ہو۔
اللہ تعالیٰ کے ذکرکوقائم کرنے کے لئے ایک بہت بڑا حکم نماز کا قیام ہے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 25؍دسمبر 2009ء بمطابق25؍فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ۔ فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُہُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ اُوْلٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (الزُّمَر:23)

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ پس کیا وہ کہ جس کا سینہ اللہ اسلام کے لئے کھول دے پھر وہ اپنے ربّ کی طرف سے ایک نور پر (بھی) قائم ہو (وہ ذکر سے عاری لوگوں کی طرح ہو سکتا ہے؟) پس ہلاکت ہو ان کے لئے جن کے دل اللہ کے ذکر سے (محروم رہتے ہوئے) سخت ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کھلی کھلی گمراہی میں ہیں۔
ہدایت کی طرف لانا یا ہدایت دینا یہ بے شک خداتعالیٰ کا کام ہے جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ۔ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ (القصص:57)

یعنی تو جس کو پسند کرے ہدایت نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔
آنحضرت ﷺ جس نُور کو لے کرآئے، جو ہدایت دنیا کے سامنے رکھی، جو شریعت قرآن کریم کی صورت میں آپ پر اتری، آپ کی خواہش تھی کہ دنیا اس ہدایت کو قبول کرے اور جو روشنی آپؐ پر اتری ہے اس روشنی سے حصہ لے کر اپنے دلوں کو منور کرے اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔ کیونکہ آپ کو علم تھا کہ یہ روشنی جو آپ پر اتری ہے اس کے انکار کی صورت میں منکرین عذاب الٰہی کے مَورد بنیں گے اور آپ ﷺ جن کی طبیعت میں انسانیت کے لئے بہت زیادہ رحم تھا، آپ کو یہ گوارانہ تھا کہ کوئی انسان بھی ہدایت کے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو کر عذاب پائے۔ پس آپ کے دل کی یہ کیفیت تھی کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر، بے چین ہو کر خداتعالیٰ کے آگے گریہ وزاری کرتے تھے کہ خداتعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ دنیا کی بقا اور اللہ تعالیٰ کا عبد بنانے کے لئے یہاں تک آپ ﷺ کے دل کا اندر کا درد تھا کہ آپ کی بے چینی کو دیکھ کر خداتعالیٰ نے فرمایا کہ

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ(الشعراء:4)

یعنی شاید تُو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ کیوں یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، مومن نہیں ہوتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے رسول! ہدایت دینا تیرا کام نہیں۔ پیغام پہنچانا تیرا کام ہے، یہ تیرے ذمہ ہے وہ کئے جا۔ ہدایت پہنچانا یا ہدایت دینا خداتعالیٰ کا کام ہے۔ خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت کے مستحق ہیں یعنی کون لوگ ہدایت کے لئے کوشاں بھی ہیں اور خواہش بھی رکھتے ہیں۔ جو لوگ ہدایت کے جویاں ہیں، تلاش میں ہیں، انہیں ہم ہدایت دیتے ہیں اور انہیں پھر اس نُورسے حصہ ملتا ہے جو اے محمد ﷺ تجھ پر اتارا گیا۔ ان کے سینے پھر ہم اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں۔ ان کے دل پھر اُس نُور سے منور ہوتے چلے جاتے ہیں جو ہم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اتارا۔ وہ لوگ پھر سچائی کے نُور سے اپنے سینوں کو بھر لیتے ہیں۔ وہ اپنے دلوں کو خداتعالیٰ کی یاد اور محبت سے بھر لیتے ہیں۔ ان کی زبان پر خداتعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے۔ پس یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم، قرآن کریم کا نُور، ایسے مومنین کے سینوں کو بھرتا چلا جاتا ہے کہ وہ علم و عرفان اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں بہتر سے بہتر معیار حاصل کرنے کی کوشش اور جستجو میں رہتے ہیں اور یہ کوشش اور جستجوان کے لئے نئے اور نہ ختم ہونے والے خوبصورت راستے دکھاتی ہے۔ جو اُن کے خیالات کی پاکیزگی کو بڑھاتی ہے۔ جو ان کے علم و عرفان کو بھی بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ جو اُن کے سچائی کے نور کو بھی پھیلاتی چلی جاتی ہے۔ اور پھر جہاں جہاں یہ روشنی پڑتی ہے وہاں سعید فطرتوں اور نیک طبعوں کو اس نُور سے حصہ دیتی چلی جاتی ہے۔
اس مضمون کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔ وَمَنْ ُّیرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًاحَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ۔ کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ (الانعام:126)۔

پس جسے اللہ چاہے کہ اسے ہدایت دے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہے کہ اُسے گمراہ ٹھہرائے اس کا سینہ تنگ، گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔ گویا وہ زور لگاتے ہوئے آسمان (کی بلندیوں) پہ چڑھ رہا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے پلیدی ڈال دیتا ہے۔
پس خداتعالیٰ کا یہی قانون ہے کہ ہدایت کا کام خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ بے شک نُور ہر جگہ پہنچتا ہے۔ بے شک جب سورج چمکتا ہے تو دن کی روشنی کر دیتا ہے یا دن کو روشن کر دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی کمرے میں بند ہو کر کھڑکیاں دروازے بند کرلے تو اسے اس نُور سے کوئی حصہ نہیں ملتا جو کہ سورج کی روشنی سے اس کے سامنے آنے والوں کو، اس کے سامنے کھڑے ہونے والوں کو مل رہا ہوتاہے۔ اگرایسا شخص کہے کہ مَیں تو کہیں سورج کی روشنی نہیں دیکھتا تو یہ اُس کے اُس عمل کا نتیجہ ہے جو اُس نے اپنے تک سورج کی روشنی پہنچنے کے لئے روکیں کھڑی کرکے کیا ہے۔ پس روحانی دنیا میں بھی روشنی انہی تک پہنچتی ہے جو یہ روشنی پہنچنے کے لئے اپنے دل و دماغ کے دروازے اورکھڑکیاں کھول کے رکھتے ہیں۔ پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ۔

پس جسے اللہ چاہے کہ اسے ہدایت دے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ یہاں پہ اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کا عمل ہے جو نیک اعمال کی صورت میں اور نُور سے حصہ لینے کی تڑپ دل میں رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں پھر وہ ہدایت پاتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجو ایک قدم بڑھانے والاہے خداتعالیٰ اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہے اور اس کی طرف چل کر جانے والے کی طرف خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہے۔ پس یہاں جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اس کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اس کا مطلب ہے کہ خداتعالیٰ یہ علم رکھتا ہے کہ فلاں شخص خوشی اور کوشش سے خداتعالیٰ کی رضا کی تمنا رکھتے ہوئے اس کے احکامات کو قبول کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل اطاعت بدل و جان کرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی اور کامل اطاعت کے لئے ہر وقت تیار ہو تو یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اُس کے قدم روحانی ترقی کی طرف اٹھ رہے ہیں۔ اور جس کے قدم روحانی ترقی کی طرف اٹھ رہے ہوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی ہے جس کا سینہ اللہ تعالیٰ پھر کھولتا چلا جاتا ہے۔ اُسے حقیقی اسلام کا فہم و ادراک حاصل ہوتا چلا جاتا ہے۔ نام کا مسلمان نہیں ہوتا۔ اس کی عبادات، اس کی نمازیں، اس کے روزے، اس کے حج، اس کے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دنیا کو دکھانے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے بدقسمت بھی ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ کے احکامات کو بوجھ سمجھتے ہیں، جو دین کو غیر ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ استہزاء کرتے ہیں۔ یا بعض ایسے ہیں جو اپنے دین کو یا اُن روایات کو جو انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے، اپنے باپ دادا سے سنیں، آخری حرف سمجھتے ہیں اور اسلام کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے خیال میں یا اپنے ماحول میں جتنا بھی خیال کریں یا سمجھے جائیں کہ وہ کسی دین پر قائم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ دین پر قائم نہیں اور روحانی لحاظ سے ترقی کی بجائے انحطاط پذیر ہیں، نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ہو گئی اور اس نُور پر خداتعالیٰ کی آخری شریعت قرآن کریم کا نور بھی نازل ہو گیا تو اب اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام (آل عمران: 20)

کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل دین اسلام ہی ہے جو کامل فرمانبرداری سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لئے راہیں متعین کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اب کوئی دین نہیں جو روحانی ترقیات کی راہیں دکھا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ

وَمَنْ ُّیرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْ رَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا

اور جسے چاہے اُسے گمراہ ٹھہرائے۔ اس کا سینہ تنگ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کا چاہے سینہ تنگ کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو آدم کو زمین پر بھیجا اور بھیج کر پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ تمہیں آزادی ہے۔ اگر نیکیوں کی طرف قدم بڑھاؤگے تو میرے نُور سے حصہ پاؤ گے اور اگر شیطان کے قدموں پر چلو گے تو میرے عذاب کے مَورد بنو گے۔ پس یہ انسان کے بُرے اعمال ہیں جو اس کا سینہ تنگ ہونے کا باعث بنتے ہیں۔ جب انسان گناہوں میں بڑھتا چلا جاتا ہے اور دین سے اور اللہ کے رسولوں سے استہزاء شروع کر دیتا ہے تو پھر وہ گمراہی کے راستوں کی طرف چلتا ہے اور صراط مستقیم سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بوجھ سمجھنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے پر بند کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو بند کرتے ہیں تو ان کے سینے میں اللہ تعالیٰ مزید گھٹاؤ پیدا کر دیتا ہے۔ ان کے لئے راستے کی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ وہ ایسے حالات میں ہوتا ہے کہ جیسے کوئی اونچی جگہ چڑھ رہا ہے۔ سانس پھول رہا ہے جس کی وجہ سے سینے میں تنگی محسوس ہو رہی ہے۔ تو یہ عمل خود انسان کے ہیں جو اُسے خدا سے دُور کرکے مشکلات میں مبتلا کرتے ہیں۔ ورنہ خداتعالیٰ تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ جب بھی انسان میں، قوموں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو اپنے نبی اور رسول اور خاص بندے بھیجتا ہے کہ دنیا کی راہنمائی کرکے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور انبیاء اپنی جان پر ظلم کرکے یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ قوم کی دشمنیاں مول لے کر یہ کام انجام دینے کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ قوم کے جو سردار ہیں، جن کی اپنے نفس کی خواہشات ہیں، جو صرف اپنی ذاتیات کے دائرے کے اندر ہی رہنا چاہتے ہیں، وہ پھر اللہ تعالیٰ کے ان پاک بندوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ اپنی دشمنیوں کو ان کے لئے انتہا تک بڑھا دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان لوگوں کی دشمنیاں لے کر بھی اصلاح کی کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ راستے کی کسی روک کی پرواہ نہیں کرتے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسی درد کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے اپنی جان کو ہلاک کرے گا کہ یہ اسلام قبول نہیں کرتے۔ پس جو خود گناہوں میں گرنا چاہتا ہے جو گمراہی کے راستوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا اسے پھر اللہ تعالیٰ بھلائی کے راستے نہیں دکھاتا۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں بیان کرنے کا مقصد صرف یہی نہیں ہے کہ پرانوں کے واقعات بیان کر دئیے یا آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد مسلمانوں میں سے اب کوئی بھٹک نہیں سکتا اور جس کے ساتھ اسلام کا لیبل لگ گیا اس کے لئے روحانی ترقی بھی لازمی ہوگئی۔
قرآن کریم میں ایسے بے شماراحکامات ہیں کہ اسلام لانے کے بعد بھی روحانی ترقی کے لئے عبادات، استغفار، اعمال صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورواضح کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حکموں کی حقیقی رنگ میں پیروی نہیں کرو گے تو سزا کے مستوجب بن جاؤ گے یا بن سکتے ہو۔ پھر یہ بھی واضح کر دیا کہ جس طرح پہلی قوموں میں انحطاط ہوا، تم میں بھی ہو گا۔ لیکن کیونکہ یہ آخری شریعت ہے اوردین اسلام میں مکمل کر دیا گیا ہے اس لئے یہ وہ نُور کا آخری مینار ہے جس سے آئندہ تاقیامت دنیا نے روشنی حاصل کرنی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ وہ آخری روشنی اور سراج منیر ہیں جن سے کامل عشق کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ پھر ایسے لوگ بھیجتا رہے گا جو صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتے رہیں گیاور آخرین میں وہ خاتم الخلفاء مبعوث ہو گا جو نبوت کا درجہ بھی پائے گا تاکہ اس نُور کو چار سُو پھیلاتا چلا جائے۔ اُس کام کو مکمل کرے جس کوکرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تھا۔ اور یہ ہے خداتعالیٰ کا ہر طرف نُور پھیلاناجو آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم کی صورت میں خداتعالیٰ نے دنیا میں ظاہر فرمایا۔
پس یہ پیشگو ئی اللہ تعالیٰ نے فرما دی اور اس کی وضاحت آنحضرت ﷺ کی احادیث سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کایہ سلسلہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی بعثت کی وجہ ہے۔ اور پھر آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کی اپنے آقا اور مطاع کی پیروی میں یہی تڑپ تھی کہ دنیا سے شرک ختم ہو۔ غیر مذاہب کے لوگ بھی اسلام کی تعلیم کی حقیقت کو سمجھیں۔ اور مسلمان بھی اپنی حالتوں کو درست کرکے ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوں۔ یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت اور ہدایت سے دُوری ہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی بعثت سے پہلے کئی لاکھ مسلمان ہندوستان میں ہی اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ آج بھی ہدایت کا حال دیکھ لیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں ہدایت نصیب ہے لیکن مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ کیا یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ کیا معصوموں کی جانیں لینا اسلام کی تعلیم ہے؟ کیا بددیانتی اور رشوت اور لیڈروں کے ذریعہ سے عوام کے حقوق کی تلفی کوئی اسلامی تعلیم ہے؟ یقیناً نہیں ہے۔ اور اس زمانہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی فرستادہ کی ضرورت تھی جو خداتعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق بھیجا اور جیسا کہ مَیں نے کہا آپ کی بھی تڑپ تھی کہ مسلمان اپنا کھویا ہوامقام حاصل کریں۔ جس تعلیم کو بھول گئے ہیں اسے حاصل کریں۔ جو نور خداتعالیٰ نے انہیں دیا تھا اس سے اپنے دلوں کو منور کریں۔ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوتے ہوئے تمام احکامات کو بجا لانے کی کوشش کریں۔ شرک کا خاتمہ ہو۔ انسان کو خدا بنانے والوں کی ہدایت کا سامان ہو اور آپ نے اس کے لئے بڑی تڑپ سے جہاں کوشش کی، لٹریچر لکھا وہاں دعائیں بھی کیں۔ اور اس تڑپ کو دیکھتے ہوئے آپ کو بھی خداتعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ

لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْن۔

کیا تُواس بات پر اپنے تئیں ہلاک کرے گا کہ یہ کیوں ایمان نہیں لاتے؟
پس اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے سامان مہیا فرماتا ہے۔ اپنے نُور سے منور کرکے اپنے خاص بندے ہمیشہ بھیجتا ہے لیکن جو ماننے سے انکاری ہوں، جن کے سینے خود انہوں نے خداتعالیٰ کے پیغام کو سننے کے لئے تنگ کر لئے ہوں ان پر پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہے کہ ان کا سینہ پھر مزید گھٹتا چلا جاتا ہے۔ وہ نیکیوں سے دُور ہٹ جاتے ہیں اور بُرائیوں کے قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پس اس آیت میں یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ صرف انہی کی مدد کرتا ہے جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کامل اطاعت کرتے ہیں اور پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے فضل سے روحانی ترقیات کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور جو ایمان نہیں لاتے وہ گناہوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پس یہ مسلمانوں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے اور احمدیوں کے لئے بھی فکر کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے تو یاد رکھیں کہ اسلام کامل فرمانبرداری کا نام ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’اکثر انسانوں کے اندر سے قوت روحانیت اور خداترسی کی کم ہو گئی ہے اور وہ آسمانی نور جس کے ذریعہ سے انسان حق اور باطل میں فرق کر سکتا ہے وہ قریباً بہت سے دلوں میں سے جاتا رہا ہے اور دنیا ایک دہریت کا رنگ پکڑتی جاتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’اس بات پر یہ امر گواہ ہے کہ عملی حالتیں جیسا کہ چاہئے درست نہیں ہیں۔ سب کچھ زبان سے کہا جاتاہے مگر عملی رنگ میں دکھلایا نہیں جاتا‘‘۔ فرمایا ’’دل کی حقیقی پاکیزگی اور خداتعالیٰ کی سچی محبت اور اس کی مخلوق کی سچی ہمدردی اور حلم اور رحم اور انصاف اور فروتنی اور دوسرے تمام پاک اخلاق اور تقویٰ اور طہارت اور راستی جو ایک مذہب کی روح ہے اس کی طرف اکثر انسانوں کو توجہ نہیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’مذہب کی اصلی غرض اُس سچے خدا کا پہچاننا ہے جس نے اس تمام عالم کو پیدا کیا ہے اور اس کی محبت میں اس مقام تک پہنچنا ہے جو غیرکی محبت کو جلا دیتاہے اور اُس کی مخلوق سے ہمدردی کرنا ہے۔ اور حقیقی پاکیزگی کا جامہ پہننا ہے‘‘۔
(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 147-148)
پس یہ اعلیٰ اخلاق، یہ تقویٰ، یہ دل کی پاکیزگی، یہ خداتعالیٰ کی محبت اور مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کس طرح ہو؟ یہ مَیں نے بتایا کہ خداتعالیٰ کی طرف قدم بڑھانے سے ہے۔ اس نور سے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا اس کو حاصل کرنے سے ہے اور یہ نُور آنحضرت ﷺ کا اُسوہ اور قرآن کریم ہے۔ اصل میں تو قرآن کریم کی تعلیم کی جو عملی شکل ہے یہی آنحضرت ﷺ کا اُسوہ حسنہ ہے۔ یہی جواب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک صحابی کے سوال کرنے پر انہیں دیا تھا۔ اخلاق کے بارہ میں پوچھتے ہو۔ تم نے قرآن کریم کھول کر نہیں پڑھا؟
(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 144-145 مسند عائشہؓ حدیث نمبر 25108 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء)
اب اس کی طرف واپس لوٹتا ہوں پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ جن کا سینہ اسلام کے لئے کھولتا ہے اور پھر وہ نُور پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ لوگ ان کی طرح نہیں ہو سکتے جن کے دل سخت ہو گئے ہوں۔ اور دل کیوں سخت ہو گئے؟ اس کی وضاحت ہو گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔ اس کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے محروم ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر دلوں کی سختی کو دور کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا قرب پانا ہے تو ذکر اس کی ایک اہم شرط ہے اور بہت بڑی شرط ہے۔ ذِکر کیا ہے؟ اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ قرآن کریم کو بھی خداتعالیٰ نے ذکر کہا ہے۔ جیسا کہ فرمایا

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10)

یعنی ہم نے ہی اس ذکر یعنی قرآن شریف کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے مطابق اس کی حفاظت فرمائی اور فرما رہا ہے اور یہ آج تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور رہے گا۔
اس آیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی بعثت کی طرف بھی اشارہ ہے جس کی خود حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں کہ (یہ آیت) ’’صاف بتلا رہی ہے کہ جب ایک قوم پیدا ہو گی کہ اس ذکر کو دنیا سے مٹانا چاہے گی تو اس وقت خدا آسمان سے اپنے کسی فرستادہ کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرے گا‘‘۔
(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد 17حاشیہ صفحہ267)
اب دنیا جانتی ہے کہ اس زمانہ میں یا جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کا زمانہ تھا جب عیسائیوں نے دنیا پر ایک یلغار کی ہوئی تھی یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی جیسا کہ مَیں نے کہا لاکھوں مسلمان عیسائی ہو گئے تھے اسلام کے خلاف ایک ایسی مہم تھی کہ افریقہ و ایشیا میں بڑی تیزی سے عیسائیت پھیلانے کی کوشش ہو رہی تھی۔ اس وقت اسلام کے دفاع کے لئے قرآن کریم کی حقیقی تعلیم کے نُور سے بھر کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو کھڑا کیا جنہوں نے اسلام کا دفاع کیا۔ اور وہی لوگ جو افریقہ میں بھی اور ایشیا میں بھی عیسائیت کے پھیلنے کے خواب دیکھتے تھے دفاع پر مجبور ہو گئے بلکہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی دیکھ لیں اسلام کے خلاف مختلف طبقوں سے ابال اٹھتا رہتا ہے۔ کبھی آنحضرت ﷺ کے متعلق بیہودہ گوئی کی جاتی ہے۔ کبھی اسلام کے بارہ میں کچھ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک سیاسی پارٹی نے مسجد کے میناروں کے بارہ میں سوئٹزر لینڈ میں شور اٹھایا تھا۔ تو گو کہ رپورٹس یہی ہیں کہ جو ریفرنڈم میں حصہ لینے والے تھے ان کی اکثریت نے میناروں کے خلاف ووٹ ڈالا لیکن جو ملکی آباد ی کی اکثریت تھی وہ اس کے خلاف تھی۔ انہوں نے حصہ نہیں لیا۔ بہرحال ریفرنڈم ہوا اور میناروں کے خلاف ایک قانون پاس ہو گیا۔ اور حکومت بھی اور بہت سارے دوسرے سیاسی لیڈر بھی اس بات پر شرمندہ ہیں بلکہ اس پر دوبارہ بحثیں چل پڑی ہیں کہ یہ ریفرنڈم کروانا ہی نہیں چاہئے تھا۔ کیوں ہوا؟ اب کیا کرنا چاہئے۔ بہرحال اس قسم کے جو لوگ ہیں، جو اسلام مخالف ہیں ان کی طرف سے کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب بھی جماعت کے مخالفین، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کے مخالفین، چاہے جتنا بھی یہ دعویٰ کریں کہ احمدیت کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے وہ یہ بات تسلیم کئے بغیر نہیں رہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات ہی تھی جس نے اس زمانہ میں اسلام کا دفاع کیا اور مسلمانوں کو عیسائیت کی گود میں گرنے سے بچایا۔ اس زمانہ کے بعض علماء نے تو یہ اعلان بڑا کھل کر کیا تھا۔ بے شک بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کی مخالفت کی وجہ سے، اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے، یہ مخالف آپ کے دشمن ہو گئے۔ لیکن اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمارے مخالفین کے منہ سے یہ نکلوا دیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے اس وقت عیسائیت کا مقابلہ کرکے انہیں دوڑایا تھا۔ کیونکہ اس وقت کے جو مسلمان علماء تھے ان کو قرآن اور بائبل کا علم نہ تھاجبکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام یہ علم رکھتے تھے۔ ٹی وی پہ پر وگرام بھی آچکا ہے ڈاکٹر اسراراحمد نے ایک دفعہ یہ کھل کے بات کی تھی۔ چاہے یہ مانیں یا نہ مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کے علم قرآن اور خداتعالیٰ کی آپ کے لئے تائیدات نے یہ کارنامہ آپ سے کروایا مگر حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کواسلام اور قرآن کی حفاظت کے لئے کھڑا کرکے دشمنوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کا ہی حصہ ہے جو آپ کو خداتعالیٰ کے نُور، آنحضرت ﷺ کے نُور اور قرآن کریم کے نُور سے ملا کہ آپ کے علم کلام کی کوئی مثال آج کے دور میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ بلکہ آپ کی تفاسیر ہی ہیں جو اَب ہر تفسیر پر حاوی ہیں۔
قرآن کریم کے ذکر ہونے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
‘’قرآن کریم کا نام ذکر رکھا گیا ہے۔ اس لئے کہ وہ انسان کی اندرونی شریعت یاد دلاتا ہے۔ …… قرآن کوئی نئی تعلیم نہیں لایا بلکہ اس اندرونی شریعت کو یاددلاتا ہے جو انسان کے اندر مختلف طاقتوں کی صورت میں رکھی ہے۔ حلم ہے، ایثار ہے، شجاعت ہے، جبر ہے، غضب ہے، قناعت ہے وغیرہ۔ غرض جو فطرت باطن میں رکھی تھی قرآن نے اسے یاد دلایا جیسی

فِی کِتَابٍ مَّکْنُوْنٍ (الواقعہ:79)۔

یعنی صحیفہ فطرت نے کہ جو چھپی ہوئی کتاب تھی اور جس کو ہر ایک شخص نہ دیکھ سکتا تھا۔ اس طرح اس کتاب کا نام ذکر بیان کیا تاکہ وہ پڑھی جاوے تو وہ اندرونی اور روحانی قوتوں اور اس نُور قلب کو جو آسمانی ودیعت انسان کے اندر ہے یاد دلاوے‘‘۔
(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 94 طبع اول۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2 صفحہ 770 مطبوعہ ربوہ)
(یعنی یہ’’ذکر’‘ قرآن کریم پڑھو تو جو پاک فطرت ہیں ان کے دل کا جو نور ہے اس کو یہ نکال کر باہر رکھتا ہے ان کو یاد دلاتا ہے کہ یہ یہ احکامات ہیں۔ یہ تعلیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں۔ یہ بندوں کے حقوق ہیں جو تم نے ادا کرنے ہیں۔ )
پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہلاکت ہے ان پر جن کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے سخت ہیں یہ لوگ ان لوگوں کی طرح نہیں ہو سکتے جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے ہیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام نے فرمایا کہ یہ ذکر جو قرآن شریف کی صورت میں ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ پس اس کو پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ اس کو پڑھنے سے انسان کی، ایک مومن کی نیک فطرت اس نُور سے منور ہو کر مزید روشن ہو اور صرف اپنے دل کو روشن کرنا ہی مقصد نہ ہو بلکہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل ہے جو اصل میں حقیقی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا بناتا ہے۔ ان احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جو ایک نیک فطرت انسان کے لئے ضروری ہیں۔ جو ایک مومن کے لئے ضروری ہیں۔ جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جس سے انسان کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جلا ملتی ہے۔ جس سے روحانیت میں ترقی کے راستے متعین ہوتے ہیں۔ اگر عمل نہیں تو صرف علمی حالت اس ذکر سے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ غیر از جماعت مسلمان جو ہیں ان میں بڑے حفاظ ہیں۔ بڑے مقررین بھی ہیں، مفسرین بھی ہیں لیکن جب وہ اس پر اس طریق پر غور نہیں کر رہے جو زمانہ کے امام نے بتایا ہے تو یہ ایک ظاہری خول ہے جس سے وہ کچھ فائدہ نہیں پا سکتے۔ اِس تعلیم کی عملی حالت اُن تمام باتوں کو اپنے اندر سمیٹتی ہے جس سے حقوق اللہ کی ادائیگی بھی ہو رہی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہو رہی ہو۔ تبھی یہ جوذکر ہے انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی، علمی اور عملی معیاروں کوبلند کرنے کا باعث بنے گا۔ قرآن کریم جو سینکڑوں احکامات پر مشتمل ہے اس کا پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنے ذہنوں اور زبانوں کو تازہ رکھنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان تمام باتوں پر عمل بھی کیا جائے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے۔
عبادت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:15)

کہ میرے ذکر کے لئے نماز قائم کر۔ پس جہاں قرآن کریم سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃ الناس تک مکمل ایک ذکر ہے اور اس میں سینکڑوں نصیحتیں مومنوں کو کی گئی ہیں، احکامات دئیے گئے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم رکھنے کے لئے ایک بہت بڑا حکم نماز کا قیام ہے جسے مومنین کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام فرماتے ہیں کہ’’نماز سے بڑھ کر اور کوئی وظیفہ نہیں ہے کیونکہ اس میں حمد الٰہی ہے، استغفار ہے اور درود شریف۔ تمام وظائف اوراوراد کا مجموعہ یہی نماز ہے اور اس سے ہر ایک قسم کے ہمّ و غم دور ہوتے ہیں اور مشکلات حل ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کو اگر ذرا بھی غم پہنچتا تو آپؐ نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ اوراسی لئے فرمایا ہے

اَلَابِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد:آیت 29)

اطمینان، سکینتِ قلب کے لئے نماز سے بڑھ کر اَور کوئی ذریعہ نہیں ‘‘۔ فرمایا کہ ’’سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے‘‘۔ (اکثر لوگ اب خطوں میں پوچھتے رہتے ہیں، کئی دفعہ مَیں جواب دے چکا ہوں اس لئے دوبارہ بتاتا ہوں) آپؑ نے فرمایا کہ ’’سب وظیفوں سے بہتر وظیفہ نماز ہی ہے۔ نماز ہی کو سنوار سنوار کر پڑھنا چاہئے، اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور مسنون دعاؤں کے بعد اپنے لئے اپنی زبان میں بھی دعائیں کرو۔ اس سے تمہیں اطمینان قلب حاصل ہو گا اور سب مشکلات خداتعالیٰ چاہے گا تو اسی سے حل ہو جائیں گی۔ نماز یاد الٰہی کا ذریعہ ہے اسی لئے فرمایا ہے

اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (طٰہٰ:15)۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 310-311 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے سینہ کھولنے والے اور اس وجہ سے نُور پر قائم ہونے والے کی نشانی بتائی ہے وہ اس کا ذکر ہے۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ اس کی عبادت ہے۔ اس کے احکامات کی پابندی ہے۔ اگر یہ نہیں تو پھر دل آہستہ آہستہ سخت ہوتے جاتے ہیں۔
اسلام قبول نہ کرنے والوں کے دلوں کی سختی کی بھی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ان کے دل خالی ہیں۔ پس ایک مومن کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھے کہلِذِکْرِیْ یعنی میرے ذکر کے لئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد دل میں رکھتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنا جائے۔ ہماری نمازیں خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں اور ہم اپنی نمازوں اور قیام نماز میں اس طرح باقاعدگی اختیار کرنے والے ہوں کہ دنیامیں خداتعالیٰ کے ذکر میں حقیقی ذکر کرنے والوں کے نظارے قائم ہوتے چلے جائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور ہماری نسلوں کو بھی گمراہ ہو نے سے بچائے اور ہم حقیقی نُور سے حصہ پانے والے ہوں۔
کل انشاء اللہ قادیان کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہاہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے۔ آپ سب لوگ بھی دعا کریں اور اللہ تعالیٰ ان شاملین کو بھی توفیق دے کہ وہ نمازوں کی باقاعدگی کے ساتھ ساتھ جلسہ کی کارروائی کے دوران بھی اور سڑکوں پر چلتے پھرتے بھی اپنی زبانوں کو خداتعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنے والے ہوں۔ ان دنوں میں مسیح موعود کی اس بستی کو دعاؤں سے ایسا بھر دیں کہ ہر طرف اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی نظر آئے۔ حمد اور درُود سے فضا کو اس طرح بھر دیں کہ جو ہر شامل ہونے والے کو حقیقی نور کاحامل بنا دے۔ اس سے حصہ لینے والا بنا دے۔ دنیا کے احمدی بھی دعا کریں کہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے بابرکت ہو اور ہر احمدی کو ہر شامل ہونے والے کو وہاں خداتعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اپنی امان اور پناہ میں رکھے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں