دفاع پاکستان اور جماعت احمدیہ

ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ اگست2007ء میں مکرم محمد اسحق چودھری صاحب کے قلم سے پاکستان کے دفاع میں جماعت احمدیہ کے کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
٭ جماعت احمدیہ نے حکومت پاکستان کے مطالبہ اور خواہش پر جون 1948ء میں کشمیر کے محاذ پر ایک رضاکار بٹالین ’’فرقان بٹالین‘‘ بھجوائی جو تین ہزار رضاکار مجاہدین پر مشتمل تھی اور اس کے ذمہ سعدآباد کی حفاظت تھی جو اس نے احسن طریق سے ادا کی۔ جب اس بٹالین کا کام ختم ہوگیا تو پاکستانی فوج کے کمانڈرانچیف نے 17جون 1950ء کو ان الفاظ میں اس کو خراج تحسین پیش کیا: ’’دشمن نے ہوا پر سے اور زمین پر سے آپ پر شدید حملے کئے لیکن آپ نے ثابت قدمی اور اولولعزمی سے مقابلہ کیا۔ اور ایک انچ زمین بھی اپنے قبضہ سے نہ جانے دی۔‘‘
٭ جنگ 1965ء میں رن کچھ محاذ کی کمان ایک احمدی بریگیڈئیر افتخار جنجوعہ کے سپرد تھی۔ انہوں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر اگلے مورچوں میں جنگ لڑی۔ وہ جنگ کے دوران زخمی بھی ہوئے لیکن لڑائی کے دوران دشمن کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا اور ہیرو آف رن کچھ کہلائے۔ ان کی شجاعت کے اعتراف میں ان کو دوسرا بڑا اعزاز ہلال جرأت دیا گیا۔
٭ چونڈہ کا محاذ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کے باعث مشہور ہے۔ اس محاذ کی کمان احمدی بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کے سپرد تھی۔ آپ نے بھی ایسی جرأت کا مظاہرہ کیا کہ ہلال جرأت کا اعزاز آپ کو دیا گیا۔ کئی اخبارات و رسائل نے آپ کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا۔
٭ چھمب کے محاذ کی کمان بھی ایک احمدی لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک کے سپرد تھی جنہوں نے حکمت عملی، بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کا ایک بڑا علاقہ فتح کر لیا۔ حکومت پاکستان نے آپ کو بہادری کا دوسرا اعزاز ہلال جرأت عطا کیا۔ آپ سب سے پہلے جنرل ہیں جنہوں نے یہ اعزاز حاصل کیا۔

جنرل اختر حسین ملک صاحب

٭ جوڑیاں کے محاذ پر شہادت کا رتبہ پانے والے میجر قاضی بشیر احمد مردان کے رہنے والے مخلص احمدی تھے۔انہوں نے زندگی کے آخری تین دن اس طرح گزارے کہ کھانے پینے اور آرام کرنے کی مہلت بھی ان کو نہ ملی۔
٭ ایک احمدی میجر منیر احمد نے لاہورکے محاذ پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔
٭ فضائیہ میں سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیرالدین شہید بھی احمدی سپوتوں میں سے ایک تھے جنہوں نے جنگ 1965ء میں کئی غیرمعمولی معرکے سر انجام دئیے اور شہادت پائی۔
٭ اسی جنگ میں ونگ کمانڈر سید محمد احمد بھی شامل تھے اور سرگودھا میں بطور بیس کمانڈر سٹاف آفیسر اپریشن ڈیوٹی متعین تھے۔
٭ نیز بریگیڈئیر وقیع الزمان خان کے سپرد اس جنگ کے دوران مری میں انٹیلی جنس اور فوجی اپریشنز کا شعبہ تھا۔ اور اس شعبہ کے تحت کشمیر میں اہم کارروائیاں کی گئیں۔
٭ جنگ 1971ء میں مغربی پاکستان میں سب سے بڑا محاذ کشمیر میں چھمب جوڑیاں سیکٹر تھا جس کی کمان 1965ء کی جنگ کے رن کچھ کے ہیرو میجر جنرل افتخار جنجوعہ کر رہے تھے۔ اسی جنگ میں انہوں نے ہیلی کاپٹر میں اگلے مورچوں کا معائنہ کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ اس عظیم کارنامے پر جنرل افتخار جنجوعہ کو ایک دفعہ پھر ہلال جرأت دیا گیا اور چھمب کا نام اُن کے نام پر افتخار آباد رکھا گیا۔ اور کھاریاں چھاؤنی میں ایک کالج اور ایک رہائشی کالونی بھی اُن کے نام پر قائم کی گئی۔
٭ پاک فضائیہ کے احمدی فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق نے ڈھاکہ میں جس بے مثال مہارت جذبے اور جرأت کا مظاہرہ کیا، اُس کا ذکر پاک فضائیہ کی تاریخ میں اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: سکواڈرن کے سب سے نوخیز اور کم تجربہ کار ہوا باز ہونے کے باوجود فلائنگ آفیسر شمس الحق نے دوران جنگ مثالی جرأت اور مہارت پرواز کا مظاہرہ کیا۔ 4دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ ائرپورٹ پر بھارتی طیاروں کے خلاف کارروائی میں اس نے ایک 5u7 طیارہ کو مارگرایا اسی اثناء میں چار ہنٹر طیارے بھی میدان میں آگئے۔ وہ بلاتامل ان ہنٹر طیاروں پر پل پڑا اور ان میں سے دوکا کام تمام کر دیا اس کے بعد دشمن کے چار مگ طیاروں نے اس پر ہلہ بول دیا۔ لیکن شمس الحق نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور ان کے حملے کو ناکام بنا دیا۔ چنانچہ انتہائی نامساعد حالات میں مثالی جرأت اور شاندار مہارت کے مظاہرہ پر فلائنگ آفیسر شمس الحق کو ستارہ جرأت عطا کیا گیا۔
٭ پاکستان نیوی کے لیفٹیننٹ ممتاز انور ایک مخلص احمدی تھے جنہیں جنگ 1965ء میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ اگست 1971ء میں پاک نیوی کا جہاز بدرؔ سمندری طوفان میں پھنس گیا تو ممتاز انور نے متواتر تین دن اور راتیں جہاز کے انجن کا کنٹرول سنبھالے رکھا اور آخر جہاز کو خطرہ سے نکالنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسی جنگ کے دوران وہ پاک نیوی کے جہاز خیبر پر بطور چیف انجینئر خدمات سر انجام دے رہے تھے کہ جہاز دشمن کے میزائلوں کا نشانہ بن گیا اور انجن روم میں آگ لگنے کی وجہ سے جہاز خالی کر نے کا حکم دیا گیا۔ وہ آخری دم تک اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے اور فرض کی ادائیگی میں وطن پر اپنی جان قربان کر دی۔ اس کی اس بے مثال بہادری اور شجاعت پر حکومت پاکستان نے اس کو ستارہ جرأت کا اعزاز عطا کیا۔
٭ لیفٹیننٹ کرنل بشارت احمد1971ء کی جنگ میں کشمیر میں ایک بٹالین کی کمانڈ کر رہے تھے۔ ایک دن آپ کا دستہ دشمن کے نرغہ میں آگیا۔ کئی جوان شہید ہوگئے جبکہ کرنل بشارت اور بعض دیگر ماتحت افسر جنگی قیدی بنا لئے گئے۔ 1972ء میں جب زخمی قیدیوں کا تبادلہ ہوا تو آپ واپس آئے۔ حکومت پاکستان نے ان کو جرأت کے صلہ میں تمغۂ امتیاز عطا کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں