سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ بطور پرنسپل

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍ نومبر 2000ء میں شامل اشاعت ایک مضمون (مرتبہ: مکرم انتصار احمد نذر صاحب) میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی طلباء سے محبت اور غریب طلباء کی خصوصی امدا د کے متفرق واقعات بیان کئے گئے ہیں۔
اردو کے مشہور شاعر احسان دانشؔ اپنی کتاب میں قیام پاکستان کے شروع زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مَیں جب بھی کسی غریب لڑکے کی مرزا ناصر احمد کے پاس سفارش کرتا، آپ اُسے داخل کرتے اور اُس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرواتے۔‘‘
مکرم ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اگر کسی طالبعلم کے متعلق ذرا بھی اطلاع ملتی کہ اُسے کسی قسم کی مشکل ہے تو فوراً بلاکر اُس کی مدد فرماتے۔ غریب طلباء کے موسم کے مطابق لباس کا بھی خیال رکھتے۔اگر کوئی بیمار ہوجاتا تو اچھے سے اچھا علاج کرواتے۔ آپؒ کے زمانہ پرنسپل کے کئی طالب علم اب بھی آپؒ کا ذکر کرتے ہیں تو اُن کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ 1944ء میں جب حضورؒ کالج کے پرنسپل تھے اور مَیں گریجوایشن کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں M.Sc کررہا تھا تو میرے ایک عزیز نے قادیان جاکر کالج میں داخلہ لینا چاہا لیکن مالی مشکلات اُن کی راہ میں حائل تھیں۔ اُن کے والد کی خواہش پر مَیں انہیں لے کر حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ انہوں نے میٹر ک میں فرسٹ ڈویژن لی ہے اور مزید پڑھائی اُسی صورت میں ممکن ہے کہ حضور اس کی فیس معاف فرمادیں۔ حضورؒ نے اُسی وقت میری درخواست منظور فرمالی۔
محترمہ صاحبزادی امۃالحلیم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ جب حضورؒ کالج بنوارہے تھے تو شدید گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں خود مزدوروں کے ساتھ کھڑے رہتے اور پودے اور درخت بھی خود اپنی نگرانی میں لگواتے۔ اُنہی دنوں ایک شخص آپؒ سے ملنے کے لئے وہاں آیا جو آپؒ کو جانتا نہیں تھا۔ اُس کا بیان ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص ملیشیا کی شلوار قمیص پہنے سر پر تولیہ رکھے ایک پودا لگا رہا تھا۔ مَیں نے سوچا یہ یہاں کا مالی ہے۔ مَیں نے اُس کے قریب جاکر پوچھا کہ کیا مَیں یہاں کے پرنسپل سے مل سکتا ہوں۔ وہ شخص کھڑا ہوا اور مسکراتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا کہ مَیں ہی یہاں کا پرنسپل ہوں، فرمائیے کیا کام ہے۔ مَیں حیران اور دنگ رہ گیا اور دل نے کہا کہ اگر یہاں کا پرنسپل اتنا عظیم ہے تو کالج بھی کتنا عظیم ہوگا اور بہت ترقی کرے گا۔
محترم بریگیڈیئر محمد وقیع الزمان خانصاحب کا بیان ہے کہ 1939ء میں جب مَیں جامعہ احمدیہ میں سالِ اوّل کا طالبعلم تھا اور حضورؒ جامعہ کے پرنسپل تھے تو ایک مقالہ لکھنے کے لئے مجھے ایک کتاب کی ضرورت پڑی جو کہیں سے دستیاب نہ ہوئی۔ مَیں نے حضورؒ سے عرض کیا تو آپؒ نے فرمایا کہ وہ کتاب میرے پاس ہے لیکن چونکہ مجھے اکثر اُس کی ضرورت رہتی ہے اس لئے تم ظہر کے بعد ایک دو گھنٹے کے لئے روزانہ میرے گھر آجایا کرو۔ مَیں نے اس خیال سے معذرت کرنا چاہی کہ وہ آرام کا وقت ہوتا ہے لیکن حضورؒ نے اصرار کے ساتھ حکم دیا کہ تمہیں ضرور آنا ہوگا۔ چنانچہ حاضر ہوتا رہا اور ہمیشہ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا پایا، ہمیشہ حضورؒ متبسم چہرے سے خوش آمدید فرماتے اور شربت کا گلاس بلاناغہ بھجواتے۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میرے آنے سے حضورؒ کے آرام یا مصروفیت میں خلل پڑتا ہے۔
محترم بریگیڈیئر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جب مَیں شہری ماحول سے قادیان پہنچا تو وہاں کی درسگاہوں کے آداب سے پوری طرح واقف نہ تھا۔ ایک پروفیسر صاحب جو مجھے پسند نہ فرماتے تھے ، ایک امتحان کے بعد انہوں نے میرا پرچہ تضحیک کے انداز میں کلاس میں پڑھنا شروع کیا تو مَیں احتجاجاً کلاس سے اُٹھ کر باہر آگیا۔ اُن کے روکنے کے باوجود مَیں نہ رکا۔ انہوں نے پرنسپل (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ) کو شکایت کی۔ حضورؒ نے مجھے بلاکر سزا سنائی کہ پانچ روپے جرمانہ فلاں تاریخ تک ادا کرو ورنہ پانچ چھڑیاں تمام کالج کے سامنے لگائی جائیں گی۔ جرمانہ داخل کرنے کی تاریخ سے ایک روز قبل مسجد مبارک میں عصر کی نماز کے بعد حضورؒ نے مجھے ایک طرف بلاکر پوچھا کہ تم نے جرمانہ ادا کردیا ہے؟ مَیں نے عرض کی کہ ابھی تک گھر سے منی آرڈر نہیں پہنچا۔ حضورؒ نے آنکھیں نیچی کرکے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا نوٹ مجھے دیا کہ کل جرمانہ ضرور ادا کردینا ورنہ سارے کالج کے سامنے چھڑیاں کھانا پڑیں گی اور ذرا رعایت نہیں ہوگی۔
محترم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب حضورؒ کی طلباء سے ہمدردی کا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ 1952ء میں کالج کے ہوسٹل کے ایک طالبعلم اپنڈے سائٹس میں مبتلا ہوگئے اور فوری آپریشن کی ضرورت ہوئی۔ حضورؒ کو علم ہوا تو آپؒ نے فوری طور پر ایک بکرا صدقہ دیا اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کیلئے تار ارسال کی۔
محترم حکیم مولوی خورشید احمد صاحب سابق صدر عمومی بیان کرتے ہیں کہ والد مرحوم کی وفات کے بعد مجھے تعلیم جاری رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن حضورؒ کی شفقت اور سرپرستی کی وجہ سے تعلیمی عرصہ بے فکری سے گزر گیا۔ 1943ء میں جب مَیں نے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور تیاری کی تو بہت کمزور ہوگیا۔ ایک روز حضورؒ نے مجھے بلاکرفرمایا کہ ہم ڈلہوزی جارہے ہیں، تم بھی ہمارے ساتھ جاؤگے۔ چنانچہ مَیں چار ماہ تک حضورؒ کے ساتھ ڈلہوزی میں ہی رہا۔ اس دوران بعض دوسرے طلباء اور اساتذہ کو بھی حضورؒ نے ڈلہوزی میں بلایا، اُن کی خاطر مدارات کی ا ور سیر کروائی۔ اپنے مہمانوں کی خاطر داری آپؒ صرف ملازموں پر نہ چھوڑتے بلکہ خود بھی کھانا یا پھل ہمیں لاکر دیتے۔ حضرت بیگم صاحبہؒ کا سلوک بھی مجھ سے بہت مشفقانہ تھا اور آپ کے حکم پر مجھے دو وقت دودھ کی پیالی اور کچھ پھل بھجوائے جاتے۔ ابھی ڈلہوزی میں ہی تھے کہ مولوی فاضل کا نتیجہ نکلا اور مَیں خدا کے فضل سے یونیورسٹی میں اوّل آیا۔ دوستوں نے مٹھائی کے لئے اصرار کیا تو حضورؒ نے فرمایا کہ ان کی مٹھائی مَیں کھلاؤں گا۔ چنانچہ ایک دو روز بعد حضورؒ نے میری کامیابی کی خوشی میں اپنی کوٹھی میں شاندار دعوت دی جس میں حضرت مصلح موعودؓ بھی شامل ہوئے جو اُن دنوں وہاں تشریف فرما تھے۔
مکرم سعید احمد سعید صاحب لکھتے ہیں کہ 1957ء میں مَیں تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوا۔ مجھے مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ ایک روز دورہ پڑا اور مَیں کئی گھنٹے بے ہوش رہا۔ جب حضورؒ کو اطلاع ملی تو آپؒ ہوسٹل تشریف لائے اور میری چارپائی پر تشریف فرماہوکر لمبی اجتماعی دعا کروائی۔ جب دعا ختم ہوئی تو مجھے بھی ہوش آگئی۔ دیکھا کہ حضورؒ نہایت شفقت سے میرے پاؤں اور ٹانگیں دبا رہے ہیں۔ مَیں نے درخواست کی کہ حضورؒ مجھے شرمندہ نہ کریں اور گھر تشریف لے جائیں۔ آپؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ تم نے سگریٹ پینی ہوگی، آج تم سگریٹ پی لو، تمہیں اجازت ہے۔ خاکسار بہت شرمندہ ہوا اور حضورؒ کی دعاؤں کے طفیل سگریٹ نوشی بھی ترک کردی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر وہ بیماری بھی ختم ہوگئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں