محترم میاں عبد العظیم صاحب درویش

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم مامون الرشید تبریز صاحب (مربی سلسلہ) نے اپنے دادا محترم میاں عبدالعظیم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم میاں عبدالعظیم صاحب درویش ولد رحمت اللہ صاحب آف پنڈی بھٹیاں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں ۔آپ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ آپ نے حضرت میاں محمد مراد صاحب حافظ آبادی کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔
محترم میاں عبدالعظیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت میاں محمد مراد صاحب کا اوڑھنا بچھونا تبلیغ تھا۔ اس راہ میں ذاتی نقصانا ت کی قطعاً پروا نہ کرتے۔ کاروبار تباہ ہوگیا۔ مکرم شیخ عبد القادر صاحب (سابق سودا گر مل) کے مسلمان ہونے پر ہندو اتنے برافروختہ ہوئے کہ بالآخر میاں صاحب کو بیرانوالہ سے بھاگ کر پنڈی بھٹیاں جانا پڑا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ حسین بی بی صاحبہ دختر یار محمد صاحب سکنہ پنڈی بھٹیاں کھاتے پیتے گھرانے کی تھیں ۔ وہاں موصوفہ کے حصے کا مکان بھی تھا۔ میں تیرہ چودہ سال کا نوجوان تھا ۔ مخالفین کے اعتراض لے کر آیا۔ آپ نے مجھے الفضل پڑھنے کو دیا۔ اور جب بھی آتا الفضل پڑھنے یا سنانے کو کہتے اور میری تعریف کرتے کہ تمہارا علم میرے بچّوں سے زیادہ ہے۔اس طرح مجھ پر اثر ہونے لگا۔ 1928ء کے اوائل میں مَیں نے بیعت کرلی۔ میری بیعت کا علم جب والد صاحب کو ہوا تو وہ مجھے بہت زد و کوب کرتے۔ ایک موقعہ پرغصّہ میں میرے سر پر شیشے کی بوتل دے ماری جس سے سر لہو لہان ہوگیا۔ پھر انہوں نے مجھے عاق کردیا۔ مَیں قادیان آگیا اور ایک سال بعد دو اڑہائی صدروپیہ کماکر واپس گیا تو بھی والد صاحب کے غصّہ میں کسی قسم کی کمی نہ تھی۔ انہوں نے میرے کپڑے اتروا کر ایک معمولی لنگوٹی بندھوائی ۔روپیہ اور سامان چھین لیا اور نہایت بے رحمی سے زد و کوب کرکے بری طرح زخمی کردیا اور کمرہ میں مقفل کرکے چلے گئے۔ مَیں وہاں سے کسی طرح نکل کر بھاگا۔ کئی احمدیوں نے میرے والد کی شدّتِ مخالفت کے باعث خائف ہوکر بمنّت پناہ دینے سے معذرت کرلی۔ بالآخر سیّد والا میں مَیں نے دکان کھول لی۔ کچھ عرصہ بعد وہاں شدید طور پر بیمار ہوا۔ ڈاکٹری مشورہ پر مجھے وطن بھجوادیا گیا۔ میں کئی روزسے بے ہوش تھا۔ والد صاحب نے اس حالت میں بھی میری چار پائی گھر سے نکلوادی ۔ پانچ سال بعد حضرت میاں محمد مراد صاحب کی تبلیغ سے میرے بھائی حافظ محمد عبد اللہ صاحب (والد محترم مولوی دوست محمد صاحب) اور دوسرے بھائی میاں اللہ بخش صاحب بھی احمدی ہوگئے۔ اس سے والد صاحب کے طیش میں کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے میاں محمد مراد صاحب کو تین دفعہ زد و کوب کیا۔ اس پر ایک دفعہ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھے تین دفعہ پیٹا اور آپ کے تین بیٹے احمدی ہوگئے ۔آپ تین دفعہ اَور مار پیٹ کر لیں تا بقیہ تین بھی احمدیت قبول کرلیں ۔
آخر والد صاحب کی طرف سے ہم تینوں احمدی بیٹوں کو مباہلہ کا چیلنج دے دیا گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے بعض شرائط پر یہ مباہلہ طے پاگیا۔ ایک سال میں یہ نتیجہ نکلا کہ والدہ وفات پاگئیں جو والد صاحب کے لئے سہارا تھیں ۔اس طرح وہ بکلّی دوسروں کے محتاج ہوگئے۔ غلام حیدر (غیراحمدی مباہل) نے داماد کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے نکاح چھڑوانے کے لئے اپنی لڑکی کو عیسائی بنایا جس کے نتیجہ میں وہ باوجود امیر ہونے کے نہایت ذلیل ہوکر روپوش ہوگیا اور بعد میں عدم پتہ ہونے کی حالت میں ہی مر کھپ گیا۔ ایک اور غیر احمدی مباہل کی ہمشیرہ جس سے اسے شدید محبت تھی چھت سے گری اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور عمر بھر کے لئے لنگڑی ہوگئی۔ اسی طرح بقیہ تین کو بھی نقصان پہنچا۔
آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ والد صاحب قادیان آئے اور کہا کہ میں آپ کے حضرت صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔دریافت کرنے پر بتایا کہ مَیں اُن سے کہنا چاہتا ہوں کہ کام کے تینو ں لڑکے جو سمجھدار تھے وہ آپ نے لے لئے ۔دوسرے تینوں میرے پاس رہے، میرے ساتھ تبادلہ کرلیں ۔ مَیں نے کہا کہ وہ کھوٹا مال نہیں لیتے۔ اس پر رونے لگے۔ بعد میں والد صاحب نے اپنا یہی پیغام اپنے پوتے یعنی مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے ذریعہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھجوایا تو حضورؓ مسکرائے اور فرمایا کہ اپنے دادا کو میرا پیغام پہنچا دیں کہ مجھے بیٹوں کا تبادلہ بخوشی منظور ہے۔ آپ اپنے غیراحمدی بیٹے میرے حوالے کر دیں اور آپ کے احمدی بیٹوں کو میری طرف سے اجازت ہے کہ وہ احمدیت ترک کرکے آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔ جب حضورؓ کا یہ پیغام والد صاحب کو ملا تو وہ بچوں کی طرح زارو قطار رونے لگے اور کہنے لگے کہ تمہارے خلیفہ صاحب کتنے چالاک ہیں ،انہیں یقین ہے کہ میرے مرزائی بیٹے تو کبھی ’مرزائیت‘کو نہیں چھوڑیں گے اس لئے اب وہ میرے دوسرے تین بیٹوں پر بھی اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں ۔
غرض والد صاحب کی مخالفت کے پیش نظر مَیں 1929ء میں پہلے سیدوالا پھر لاہور اور با لآخر مستقل طور پر قادیان آگیا اور یہاں جلد سازی کاکام شروع کیا جو شروع میں بالکل نہیں چلتا تھا۔ بچوں کی پیدائش کے بعد گزارہ کی ایک صورت مرغیاں پال کر انڈے بیچ کر پیدا کی۔ لیکن پھر اس قدر برکت ہوئی کہ قادیان میں اپنا گھر بھی بنالیا اور دکان بھی خریدلی۔ بعد میں صدرانجمن کا پرانا کتب خانہ نیلامی میں خرید لیا جسے ’’احمدیہ بک ڈپو‘‘ کے نام سے چلاتا رہا۔ پھر اپنے بھتیجے (محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد) کو تعلیم کی غرض سے قادیان بلا لیا۔
محترم میاں عبدالعظیم صاحب بیان کرتے تھے کہ کچھ عرصہ بعد والد صاحب اپنے دل میں ہزاروں حسرتیں لئے چل بسے۔ بعد میں ایک بیٹے نے جو پنڈی بھٹیاں کی ایک مسجد کا امام تھا خودکشی کرلی۔ دوسرا جو پاؤں سے معذور تھا لاولد اس جہان سے اٹھ گیا۔ اس کے مقابل تینوں احمدی بیٹوں نے لمبا عرصہ خدمت دین کی توفیق پائی۔ تقسیم ملک سے قبل مَیں نے دو شادیاں کیں جبکہ تیسری شادی دورِ درویشی میں کی۔ میرے ہاں آٹھ بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ (آپ کے ایک بیٹے مولانا خورشید احمد صاحب انوروکیل المال تحریک جدید قادیان ہیں )۔
محترم میاں عبدالعظیم صاحب کوکتب کے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ آپ نے ایک کتابچہ میں سلسلہ کی تمام کتب کا تعارف بھی شائع کیا۔ آپ کی دوسر ی تصنیف ’’عجائبات و کمالات ختم نبوت‘‘ ہے جو آپ نے بصارت ختم ہوجانے کے بعد زبانی لکھوائی اور تمام حوالے بھی درج کروائے۔
آپ کو تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ قادیان کی زیارت کے لئے آنے والے مہمانوں کو پُرزور تبلیغ کرتے اور شوقِ تبلیغ میں اکثر دارالضیافت بھی جایا کرتے۔ اپنے غیر مسلم دوستوں کو تبلیغ کرنے کے لئے اکثر قادیان سے باہر بھی جایا کرتے تھے۔ آپ نہایت خوش مزاج وجود تھے۔
آپ بہت شوق سے مالی تحریکات میں حصہ لیا کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی اس کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ بیعت کے بعد جلد نظام وصیت میں شامل ہوگئے۔
آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ کسی بچہ کو روتا دیکھتے تو اپنے مخصوص ہنر سے اُسے بہلا لیتے اور کاغذ کی اشیاء (مینار، مسجد اور پھول وغیرہ) بنا کر اُسے دے دیتے۔ بچوں کی تربیت کا بھی آپ کو خاص خیال تھا لیکن مار پیٹ کے مخالف تھے۔ نماز اور جلسوں میں اپنے ہمراہ لے جاتے۔
آپ بہت متوکّل تھے۔ ایک مرتبہ کچھ سکھ احباب آپ کے پاس آئے اور کہا کہ جلد بندی کا کچھ کام ہے لیکن اس کے لئے آپ کو وہاں آنا ہوگا۔ چنانچہ آپ اپنے ایک بیٹے کے ہمراہ چلے گئے۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ دراصل گورو گرنتھ صاحب کی جلد بندی کی جانی ہے۔ چنانچہ آپ نے وہ کام خوش اسلوبی سے کیا اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتے رہے۔جب کام مکمل ہو گیا تو آپ کو اُجرت پیش کی جانے لگی مگر آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ گورو گرنتھ صرف آپ کی ہی کتاب نہیں بلکہ ہم مسلمانوں کی بھی ہے۔ پھر آپ قادیان واپس آتے ہوئے بیٹے کو بتاتے رہے کہ ہم آئے تو کمائی کی غرض سے تھے مگرواپس خدمت کرکے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کی نیکیوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا اجر بڑھا چڑھا کر دیتا ہے۔ اگلے ہی روز آپ کی غیرموجودگی میں آپ کے گھر میں وہی سکھ احباب بوریوں میں آٹا، دال چاول اور دوسرا راشن لاکر چھوڑ گئے اور کہہ گئے کہ کل آپ نے سیوا کی تھی آ ج ہمیں سیوا کا موقع دیں ۔
آپ نے اپنی تمام زندگی نہایت سادگی کے ساتھ گزاری۔ کبھی دنیاوی خواہشات کی پیروی نہیں کی۔ یکم اپریل 1991ء کو بعمر 78سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور اسی سال جب حضورؒ قادیان تشریف لائے تو آپ کے مزار پر دعا بھی کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں