محترم چودھری عتیق احمد صاحب

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل، 10؍مارچ 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2014ء میں مکرم نصیر احمد کھرل صاحب کے قلم سے مکرم چودھری عتیق احمد صاحب (قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع بدین)کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو 17 دسمبر 2013ء کو صرف 38 سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
خاکسار کو مرحوم کے ساتھ تقریباً 4 سال کام کرنے اور آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ آپ کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آتا اور اس نوجوان کے جذبہ کو دیکھ کر رشک آتا۔ بالکل واقف زندگی کی طرح خدمت دین کے لیے ہمیشہ 24 گھنٹے کمربستہ رہتے۔ بے لوث خدمت کرنے والے تھے۔ ان کے کام میں کبھی کوئی مجبوری حائل نہ ہوتی۔ جس کام کے کرنے کا ارادہ کرلیا کرتے تھے۔ پھر طوفان ہو یا بارش کام کرکے ہی دم لیا کرتے تھے۔
محترم چودھری عتیق احمد صاحب نہایت سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ خوش اخلاق، ملنسار، غرباء کا خیال رکھنے والے اور ان کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے اور اُسے دور کیا کرتے تھے۔ بچوں سے شفقت اور بڑوں کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آیا کرتے تھے۔ عہدیداران کا احترام کرتے۔ نڈر اور بہادر انسان تھے اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ بہت مہمان نواز تھے اور اطاعت میں توصف اول کے مجاہد تھے۔ جو بھی ہدایت خلیفہ وقت اور نظام جماعت کی طرف سے ملتی۔ اس کے اوپر کماحقہٗ عمل پیرا ہوتے۔ واقفین زندگی کا بہت احترام کیا کرتے تھے، ضلع بھر کے مربیان اور معلمین کی ضروریات کا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔
کسی قسم کی بھی مشکل پیش آتی تو خود بھی دعا کرتے اور خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لیے درخواست کیا کرتے تھے۔
مرحوم کے والد صاحب نے بتایا کہ عتیق احمد صاحب پانی سے بہت گھبرایا کرتے تھے اور گہرے پانی میں نہیں جایا کرتے تھے۔ لیکن جب 2011ء میں ضلع بدین اور قریبی علاقوں میں بارشوں کے سبب سیلاب آیا اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ تو خدام الاحمدیہ کی طرف سے حکم ملا کہ عمر کوٹ جائیں اور وہاں جاکر سیلاب میں گھرے ہوئے احمدیوں کو باہر نکالیں۔ ان کے والد صاحب کہتے ہیں کہ بارش ہورہی تھی۔ تو میں نے کہا کہ بارش رک لینے دو پھر چلے جانا۔ لیکن اُن کا جواب تھا کہ صدر صاحب کا حکم ہے اس لیے ابھی اور اسی وقت جانا ہے۔ پھر وہ بارش میں روانہ ہوگئے اور ساتھ دو تین خدام لے لیے اور چند دن تک گہرے پانی کے اندر جا جا کر احمدی احباب کو باہر نکالتے رہے۔
مرحوم نے ایک مسجد بہت شوق سے تعمیر کروائی تھی، دن رات اس کی خود نگرانی کی اور اسی طرح واقفین زندگی کے لیے ایک ’’واقف زندگی ہاؤس‘‘ بھی تعمیر کیا جس میں گھر کا سارا ضروری سامان مہیا کیا۔ کہا کرتے تھے کہ یہ گھر حضورپُرنور کی خدمت میں پیش کروں گا، حضور جس ادارے کو چاہیں یہ عنایت فرمادیں۔ اسی طرح اب ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام بھی کروا رہے تھے اور کہتے تھے کہ اُن کی جو پہلی اوطاق (بیٹھک)ہے وہ اب ہمارے بزرگ مرکزی مہمانوں کے شایان شان نہیں ہے۔ جب بھی مرکزی مہمان ہمارے ہاں دورے پر آتے تو مرحوم محبت کے ساتھ اُن کی مہمان نوازی کرتے اور کوشش کرکے خود اپنی گاڑی میں اُن کو سارے ضلع کا دورہ کرواتے تھے۔
مرحوم کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت احباب بھی شریک ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں